• 23 جولائی, 2025

جلسہ سالانہ ربوہ کی چند خوبصورت یادیں

انسان کا اپنے بچپن سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ بچپن کے یہ رنگ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ یہ زندگی کے آخری لمحوں تک آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں سے سب سے خوبصورت اور روشن یادیں ’’جلسہ سالانہ ربوہ‘‘ کی ہیں۔ 1983ء تک سرزمین ِربوہ نے خوب خوب برکتیں سمیٹیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے یہ خوش بختی سرزمینِ انگلستان کے نصیب میں لکھ دی، جس پر اہلِ انگلستان خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔

1984ء سے ربو ہ کی زمین ہر سال دسمبر میں اس جلسہ کی آمد کا انتظار کرتی ہے۔ مگر یہ دسمبر بھی ہر سال خاموشی سے ایسے ہی گزر جاتا ہے۔ ہاں مگر سب کی دعاؤں میں ضرور زور آجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مناجات پیش کی جاتی ہیں۔ اور دل سے یہ صدا نکلتی ہے:

؎ہے قادرِ مطلق یار میرا
تم میرے یار کو آنے دو

حضرت مسیحِ موعود ؑنے 27دسمبر 1891ء کو جماعت کے اندر محبتِ الٰہی، محبتِ رسولﷺ پیدا کرنے کے لئے اور ان کی تعلیم وتربیت، آپس میں باہمی ہمدردی اور اخوت، تبلیغ، ترقئ ایمان کے لئے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعتِ احمدیہ کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ مسجدِ اقصیٰ قادیان میں منعقد ہونے والا ایک چھوٹا سا جلسہ (جس میں محض 75 مخلصین شامل ہوئے تھے)کا سلسلہ اب دنیا کے بہت سارے ممالک میں پھیل چکا ہے۔

تو دن رات کی اس گردش میں زندگی کی یادداشتوں میں،جلسہ سالانہ ربوہ کی چند اجلی یادیں دیکھتے ہیں۔

پورا سال ربوہ کے باسی ان تین دنوں کا انتظار کرتے تھے۔ گویا اس پیاری،مقدس بستی کے ذرے ذرے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ گویا رنگ ونور کی برسات ہو جیسے۔ ایک ایک فرد کے چہرے پر ایک خاص جذبہ اور خوشی نظر آتی تھی۔ ربوہ کو خوب سجایا جاتا۔ گھروں میں عجیب گہماں گہمی اور رونق نظر آتی تو بازار بھی خوب سنور جاتے۔ فرائی مچھلی، منان آئس کریم، سفید اور گلابی رنگ کی cotton candy، خاص الخاص مٹھائیاں، جلیبی سموسہ اور برفی، گلاب جامن اور گاجر کے حلوے کی مہک پورے بازار میں چھائی ہوتی۔

ربوہ کی فضاؤں میں گونجنے والی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، نعرۂ تکبیر، اَھْلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَباً، درود شریف (صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّنَا صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ) کی صدائیں آج بھی کانوں میں سنائی دیتی ہیں۔

آج 37،36سال گزر گئےان صداؤں کا طلسم ابھی تک اسی طرح قائم ہے۔

اصلاح نفس و نیکیوں کا موسم

حضرت مسیحِ موعودؑ نے جلسہ کے بیان فرمودہ اغراض و مقاصد میں سب سے پہلا مقصد یہ بیان فرمایا ہے:
’’تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو، اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ پاک ﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالتِ انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفرِ آخرت مکروہ معلوم نہ ہو‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)

حضرت مسیح و مہدی موعود علیہ السلام نے 1893ء میں جلسہ سالانہ کی عظیم الشان اغراض پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا:
ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہدوتقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جائیں اور انکساراور تواضع او راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لیے سرگرمی اختیار کریں۔

(شہادت القرآن صفحہ98 طبع اول)

ان مبارک کلمات میں جن کے الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہیں جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ کے مندرجہ ذیل چودہ (14) مقاصد بیان کیے گئے ہیں:

(1) ملاقات (2) فکر معاد (3) خوفِ خدا (4) زہد (5) تقویٰ (6) خدا ترسی (7) پرہیزگاری (8) نرم دلی (9) باہم محبت (10) مواخات (11) انکسار (12) تواضع (13) راست بازی (14) دینی مہمات میں سرگرمی۔

جلسہ کے ایام کے حضرت خلیفۃ المسیح کے ایمان افروز خطابات، نمازِ تہجد کا خصوصی اہتمام، باجماعت نماز کی سعادتیں، نعرہ ہائے تکبیر کی صدائیں، درود شریف کی صدائیں، علماء احمدیت کی تقاریر، ذکرِالٰہی میں گزرتے شب وروز ہر احمدی کے ایمان اور یقین کو بڑھاتے چلے جاتے۔ دلوں میں لگے گناہوں اور کمزوریوں کے زنگ دھلتے چلے جاتے۔

یہ تین دن بھی عجیب دن ہوتے تھے۔لگتا تھا ربوہ میں کوئی نئی ہی دنیا آباد ہو گئی ہے جہاں حضرت مسیحِ موعوؑ کے ارشاد کے مطابق اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ پاک ﷺ کی محبت کے حسین رنگ ہی نظر آتے تھے۔

خوشیوں،باہمی اخوت و اخلاص کا موسم

حضرت مسیحِ موعودؑ کے اس ارشاد کے مطابق کہ
’’تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے خشکی اور نفاق اور اجنبیت کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہِ رب العزت کوشش کی جائے‘‘۔

’’جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں گزشتہ سال داخل ہوئے ہیں پرانے بھائی ان کا منہ دیکھ لیں اور روشناس ہو کر آپس میں رشتہ تودد و تعارف ترقی پذیر ہو‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)

یہ جلسہ کے دن بھی مسرتوں خوشیوں کے دن بن جاتے۔ جہاں اخلاص و وفا،سادگی وقناعت،اخوت وبھائی چارہ،مہمان نوازی، احسان واپنائیت، شوق و جذبہ، وسعتِ قلبی کے سارے رنگ نظر آتے تھے۔

اہلِ ربوہ کے دلوں کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ خواتین سارا سال بچت کرتی تھیں اور کچھ رقم بچا کر رکھتی تھیں کہ دسمبر میں حضرت مسیحِ موعودؑ کے مہمانو ں کی بہترین رنگ میں خدمت کر سکیں (حالانکہ اس وقت اتنی مالی کشائش نہیں ہوتی تھی، محدود آمدنی ہوتی تھی مگر وقف کی برکت سے سارے کام احسن رنگ میں انجام پاتے اور گھر وں میں ڈھیروں سکون ہوتا تھا)۔ مہمان نوازی ان دنوں میں اپنی انتہاء کو پہنچی ہوتی تھی۔

میری والدہ کی وفات پر2011ء میں میرے ایک عزیز نے مجھے بتایا کہ جلسہ سالانہ پر ہم رات کا کھانا آپ کے گھر کھا یا کر تے تھے تو یہ 1980ء کی دہائی کے شروع سالوں کی بات ہے کہ ایک جلسہ سالانہ پر ہمیں آپ کے گھر روز مرغیاں دانا کھاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ جلسہ کے اختتام پر وہ نظر نہ آئیں۔میں نےآپ کی امی سے پوچھا کہ ’’خالہ وہ مرغیاں کہاں گئی ہیں؟‘‘۔ آپ کی امی نے جواب دیا ’’وہ تو ساری میں نے آپ سب کو کھلا دی ہیں۔‘‘

لنگر خانے سے آنے والی چھوٹی بالٹیوں میں دال اور آلو گوشت کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی دعاؤں کا اثر ہے کہ لنگر خانہ کے آلو گوشت اور دال کے سامنے آج ملکوں ملکوں کے بہترین کھانے ہیچ لگتے ہیں۔

ان دنوں نازک مزاج رشتہ داروں کے لئے جمال بیکری کی مزےدار milky bread، میٹھے bun، بسکٹ (جو آج کل کے sooper بسکٹ سے ملتے جلتے ہیں) کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر ان دنوں میں رات کو مونگ پھلی، ریوڑی, ابلے ہوئے گرم گرم دیسی انڈے, چائے، قہوہ کا دور بھی چلتا تھا۔

جلسہ سالانہ ربوہ کی یادوں میں ایک نہ بھولنے والی یاد یہ ہے کہ مہمان زیادہ ہونے کی وجہ سے گھر چھوٹے پڑ جاتے تھے۔ مگر اہلِ ربوہ کے دل اتنے ہی کشادہ اور وسیع ہوتے جاتے تھے۔ جلسہ کی جیسے آمد ہوتی میری والدہ ہم سب بہن بھائیوں کے بستر سٹور میں لگو ادیتی تھیں۔ اور ہمارا بستر دسمبر کی سخت سردی میں پرالی کے اوپر چادراور رضائی ہوتا تھا۔ ہمارا پورا گھر مہمانوں کے لئے حاضر ہوتا تھا۔ اور ہمارا یہ حال ہوتا تھا کہ ہمارا دل چاہتا تھا کہ یہ مہمان ادھر ہی رہیں،کبھی واپس نہ جائیں۔ (آج کل کی جنریشن کے برعکس! آج کل کے بچے اگر گھروں میں مہمان آجائیں تو ہمارا کمرہ ہمارا آرام کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اور ان کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ مہمان واپس کب جائیں گے؟)

سب عزیز رشتہ داروں کے ساتھ گذرے سال کا پوارا حال و احوال بھی سنا جاتا۔ خاندانوں کے مابین رشتہ ناطہ کے بھی بہت سارے معاملات انہی مبارک دنوں میں طے پاتے تھے۔

دعاؤں کا موسم

جلسہ کے تین دن رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کے دن ہوتے تھے جو اپنے دامن میں ڈھیروں خوشیاں لے کر آتے اور پھر ہمیں اداس کرکے چلے جاتے۔ ہم پھر اگلے سال کی راہ تکتے کہ یہ دن دوبارہ جلد آئیں۔

جب جلسہ سالانہ کا آخری دن ہوتا تو ربوہ کی فضائیں دعاؤں اور نعروں سے گونج اٹھتی تھیں۔

فتح وظفر کے گیت گاتی یہ فضائیں ہر احمدی کے ایمان و ایقان کو مزید مضبوطی دے جاتیں کہ سید ومولیٰ پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیشن گوئیوں کے عین مطابق جماعت احمدیہ خوب پھلے پھولے اور ترقی کرے گی۔ ان شاءاللہ

اللہ کرے کہ اس سچی اور سُچی بستی ربوہ میں جلسہ کی رونقیں دوبارہ شروع ہوں۔اور اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کے حق میں وہ ساری دعائیں قبول فرمائے جو حضرت مسیحِ موعودؑ نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے حق میں کی ہیں۔آمین

اختتام میں حضرت مسیحِ موعودؑ کی اس پیاری دعا سے کرتی ہوں جو آپؑ نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کو دی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’ہر یک صاحب جو اِس لِلّٰہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں، خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرِ عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دُور فرماوے اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور اُن کی مرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتامِ سفر اُن کے بعد اُن کا خلیفہ ہو۔ اے خدا اے ذُوالْمَجْدِ وَالْعَطَاء اور رحیم اور مشکل کشایہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔‘‘

(اشتہار 7 دسمبر 1892 مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ342)

(مریم رحمان)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ نظم بزبان اردو جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2021