• 19 مئی, 2024

عشق، عشقِ محمدؐ اور خلفاء مسیح موعودؑ  (قسط اول)

عشق، عشقِ محمدؐ اور خلفاء مسیح موعودؑ 
قسط اول

محبت تو انسان کی سرشت میں داخل ہے جو کبھی انسان کی چیزوں سے، کبھی مال و دولت سے،کبھی مختلف اجناس سے اور کبھی انسان کی انسان سے محبت کی صورت میں ہر سو نظر آتی ہے۔ انسانوں میں بھی والدین اور اولاد کی محبت، بہن بھائیوں کی محبت، دوستوں کی محبت نیز بے انتہاء صورتوں میں منقسم ہے۔ لیکن محبت کی ایک قسم ایسی ہے جو شاید ابتداء زمانہ سے اب تک مقبول و معروف رہی ہے یعنی مرد و عورت (شوہر و بیوی، عاشق و معشوق) کی قسم، یعنی ان اجناس کے درمیان محبت جن کے درمیان خود خدا نے انسیت اور لذت رکھ دی ہے اور اس محبت کے بارے میں کیا کیا نہیں کہا گیا، ہر دور میں ہر قوم کے ہر ادب میں محبت کی ایسی داستانیں ملتی ہیں اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ عشق کی معراج ہیں، ہمارے کلچر میں ہیر رانجھا، سسی پنوں، عرب میں لیلیٰ مجنوں، اسی طرح انگلستان میں رومیو جولیٹ نیز لاتعداد حکایتیں زبان ذدِعام ہیں،جو بلا شبہ عشق کے گہرے سمندر اور معنی اپنے اندر رکھتی ہیں اور کچھ لوک کہانیاں اور پریم و پریمی کی کتھائیں تو بنی ہی اس لئے تھیں کہ اس کے ذریعے ایک اور اعلیٰ اور ارفع محبت کے تعلق کو سمجھایا جائے لیکن بد قسمتی سے ان کی حقیقت بھی دنیابھول چکی ہے۔

آجکل کا معاشرہ اور محبت کی غلط تشریحات

دنیاوی محبت یا مرد و عورت کی پریت و چاہ کے واقعات کی بظاہرتو دنیا مالائیں جپھتی نظر آتی ہے۔ لیکن معاشرے میں دیکھیں تو بالکل اس کے بر عکس صورت حال نظر آتی ہے، پوری دنیا کی خاص کرنوجوان نسل ایک فرضی، خیالی اور جھوٹی محبت کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں، دنیا میں اکثر ڈیپریشن کا تعلق اورجرائم کی کثرت کا تعلق، خانگی معاملات یا نفسانی و جسمانی تعلقات سے جڑا ہوا ملتا ہے محبت کی جگہ حوس اور عریانیت نے لے لی ہے،لوک کہانیوں کو سٹیج پر پرفارم کرنا اعزاز سمجھا جاتا ہے لیکن ان کہانیوں سے جو اصل مطلب اخذ کرنے کا ہوتا ہے اس طرف دھیان نہیں۔ کون سا کونہ دنیا کا آج ہو گا جو محبت کے نغمات سےخالی ہو گا بلکہ اس جھوٹی دنیا نے ابلیس کے دھوکے اور ملاوٹ سے ایسا رنگ اور رُخ اختیار کر لیا ہے جس نے فتنہ انگیزی، بے ہنگمی اور بے راہ روی کی تمام حدیں توڑ دی ہیں، محبت میں خود غرضی، خود سوزی، جسمانی لذت اور بے مقصدیت نےخود عشق کو محبوس کر رکھا ہے اور اس کی خوشبو تعفن میں بدل چکی ہے۔

جہاں کبھی عشق کی تعریف میں یہ کہا جاتا تھا کہ ’’رانجھا رانجھا کردے میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ جہاں یہ تصوف میں محب کے محبوب میں کامل جذب کی طرف استعارہ متصور ہوتا تھا اور جہاں صبر عشق کا پیمانہ ہوتا تھا وہاں اب محبت ایک وقت گزارنے کا سامان اور بے صبری رہ گیا ہے۔ یعنی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ دنیاوی محبت یا دنیادار لوگوں کا عشق دنیا میں کوئی اعلیٰ پیمانہ کا معاشرہ یا کردار نہیں پیدا کر سکےکیونکہ ان میں یہ جاذبیت ہی نہیں تھی اور وہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ جن سے اعلیٰ اخلاق کا ظہور ہو اور معاشرہ امن و سکون حاصل کر سکے نیز رشتوں اور پیار کے سلیقے سیکھ سکے۔

عشقِ روحانی

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں محض مرد و عورت کے عشق کے ہی واقعات ہیں یا روحانی اور عشق حقیقی کے بھی ہیں۔ اگر ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں تو جا بجا ہر دور اور قوم میں ہمیں خدا اور اس کے بندوں کے محبت کے واقعات ملیں گے، ایسے کردار ملیں گے جنہوں نے خدا کی خاطر دنیا چھوڑ دی یا دنیا سے ٹکر لی یا دنیا کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی اور ہر ظلم و ستم برداشت کیا۔ دنیا کی ہر قوم میں نبیوں کے واقعات اس بات کے شاہد ہیں، چاہے انجیل کھول لیں تورات کھول لیں، گیتا دیکھیں یا گرنتھ صاحب، بدھ مذہب دیکھ لیں یا کوئی اور، ہر مذہب میں نبی اپنے رب کے عشق میں ڈوبے نظر آتے ہیں اور ان کے پیروکار ان نبیوں کی محبت اور خدا کی محبت سے مامور دنیا میں اپنے عمل سے اس محبت کی نشانیاں چھوڑتے گئے چنانچہ مذہب انہی لوگوں کی نشانیاں ہیں اور مذاہب نے ہی رشتوں اور تعلقات کے سلیقے معاشرے کو سکھائے ہیں اگر معاشرے سے ان عاشقِ خدا بندوں کے مذاہب اور ان کی تعلیمات کو ختم کر دیا جا ئے تو پیچھے محض وحشت و درندگی بچے گی جہاں پیار محبت اور سکوں کا نشان تک نہ ہو گا۔

ظہورِ عشقِ تام

ان تمام عاشقِ خدا میں سب سے بڑھ کے یہ عشق ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ذات بابرکات میں ظہور ہوا اور آپؐ سے عشقِ خدا کے ایسے ایسے جلوے ظہور ہوئے کہ جن کی روشنی آج 1500 سال گزرنے کے باوجود مزید بڑھتی جاتی ہے۔ یعنی ایسا وجود جس کے بارے میں خود ربِ کائنات فرماتا ہے

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۲﴾

(اٰلِ عمران:32)

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

یعنی وہ تو ایسا عاشق ہے کہ اب تا قیامت جس کسی نے بھی عشق ِ خدا کی کوئی بھی منزل طے کرنی ہے تو اسے حضرت اقدس محمدؐ کے قدموں کی خاک کو اپنے سر کا سندور بنانا پڑے گا اور اس سے ایسی عملی محبت کرنی پڑے گی جیسا کہ خدا چاہتا ہے تو تب ہی وہ سرخرو ہو گا۔ اور تب ہی وہ دنیاوی معاشرت سیکھ سکے گا۔ اسلام کی تاریخ دیکھ لیں وہ ایسے محبوں اور شیدائیوں سے بھری پڑی ہے چاہے وہ آنحضرتؐ کے دور کے صحابہؓ ہوں جنہوں نے دیوانگی میں اور وارفتگی میں وہ وہ نمونے قائم کیئے کہ مذہبی دنیا تو کیا کسی دنیاوی تاریخ میں بھی ایسے عشاق کہیں نہیں ملیں گے۔ اُس پیارے محبوب کی قوت جذب اتنی شدید تھی کہ ایک مختصر عرصے میں اپنے ایسے جانثار رفقا پیدا کر دئیے جو کبھی اُس کے لئے گھر بار چھوڑنے پرخوش ہوئے تو کبھی اپنی اولادوں اور اہل کو اُس کی خاطر قربان کرنے پر راضی ہوئے، کبھی ہاتھ اور جسم کے ذرے ذرے کو آپؐ سے محبت میں کٹوایا تو کبھی جائیدادوں کو اموال کو جذبات کو نیز اپنی ہستیوں کو آپؐ کی خاطر مٹا دیا تیاگ دیا۔وہ کبھی ابوبکر صدیق یارِغار، عمر فاروق،عثمان غنی وعلی حیدر رضوان اللہ علیہم کی صورت میں نظر آتے ہیں تو کبھی ان کو بدر و احد اور ان گنت معرکوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔حسنِ سلوک چاہے وہ اپنی بیویوں سے ہو اولادوں سے ہو، دشمنوں سے ہو یا جانورروں سے غرض ہر میدان میں حسنِ سلوک اور محبت کی وہ اعلیٰ مثالیں اُس رسولؐ کی پیروی میں قائم کیں کہ اُن سے بڑھنا بہت مشکل ہے۔

کیا ایسے عشق کی دنیا میں کہیں مثال ہے؟ جہاں ایک شخص نے اپنے عشاق کی اتنی بڑی جماعت تیار کر دی جو یہ عشق یہ پریت مزید آگے منتقل کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ بہرحال اُس پاک انسان کے پریمی ہر دور میں کبھی صلحاء کی صورت میں کبھی فقہا کی صورت میں کبھی اولیاء کی صورت میں اسلامی دنیا میں ظاہر ہوتے رہے۔ کبھی عبدالقادر جیلانیؒ کبھی امام ابو حنیفہؒ ، کبھی امام بخاریؒ تو کبھی نظام الدین اولیاءؒ نیز کن کن کا نام لیا جائے۔

وائے افسوس!

مگر وائے افسوس !کہ مسلمان ظاہر پرست بن گے پیرو مرید کے عشق میں امیر خسروؒ ۔نظام الدینؒ اوران جیسے لاتعداد وجودں کے قصے اور ان کے عشق کی قوالیاں ہندو پاک کے دونوں اطراف میں جھوم جھوم کر طبلے اور سارنگیوں پرگائی جاتی ہیں لیکن ان بزرگوں کے اصل محبوبؐ کو بھول گئے۔ افسوس! کہ سرورِکونین حضرت اقدس محمد مصطفیٰؐ اور انکے صحابہؓ کے عشق کی مثالیں اور داستانیں بھول گئے جن کو کسی راگ اور الاپ کی ضرورت نہیں اس عشق کی خوشبو اور ترنگ ایسی ہے جو صدیوں بعد آج بھی روحوں کو تڑپا اور گرما دیتی ہے اور وہ عملی طاقت رکھتی ہے جو محبوبِ رسولؐ کو محبوبِ خدا بنا دیتی ہے اور کافر کو مسلمان اور مسلمان کو صالح، شہید، صدیق و نبی۔ دنیا بھر میں مسلمان خود تو جھوٹی کہانیوں اور عشق و محبت کے قصوں میں کھو گئے اور محض حظ و سرور و وجد کو محبت کا اصل سمجھ لیا یا ’’لَبَّیْک لَبَّیْک یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘ اور ’’گستاخِ رسول کی ایک ہی سزا، سر تن سے جدا‘‘ جیسے نعروں میں الجھ کر رہ گئے نیز سنتِ رسول کو چھوڑ کر وحشت و بربریت کو اپنا لیاجبکہ دوسری طرف خدا نے خود جس شخص کو اس زمانے میں عاشقِ رسولؐ بنا کے بھیجا تھا اس کا انکار کر دیا بلکہ اس کی چہار سو پھیلی محبت کی گواہی کو بھی ٹھکرا دیا۔ وہ شخص جس نے محبت کی تعریف کو ایسا بدلہ اور وہاں تک پہنچایا کہ جہاں تک پیر و مرشد و صلحاء صدیوں تک باوجود کوشش کے نہ پہنچ سکے اور وہ آتش ِ عشق محض اس تک محدود نہ رہی بلکہ اس کے بعد اس کے خلفاء میں بدرجہ اولیٰ موجود رہی اور ہے اور اس کی جماعت میں ایسے سرایت کر گئی کہ جیسے یہ وہی جماعت ہو اور وہی لوگ ہوں جو خود آنحضورؐ کے سامنے آپؐ کی اپنی جماعت تھی۔

توہینِ عشق اور بہیمانہ الزامات

آج پاکستان میں بلکہ تمام دُنیا میں مولوی حضرات اپناسارا زور اس بات پرصرف کر رہےہیں کہ کسی طرح ثابت کیا جائے کہ جماعت احمدیہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریمؐ کی توہین کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ یہ وہ علمائے سُوء ہیں جو جان بوجھ کر اپنی دکانداری کو چمکانے کے لئے احمدیت دشمنی میں ایسے جھوٹے بیانات دے کر اپنی نفس کا گند ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ گند کبھی اخباروں کبھی تقریروں اور آج کل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر تو روز بلکہ ہر لحظہ نظر آتا رہتا ہے۔ یہ ایک انتہائی گھناؤنا، ظالمانہ اور بہیمانہ الزام ہے۔

دوسری طرف انہی علماء کا اور مسلمانوں کے لیڈروں کا جو کہ مسلمان امت کی رہبری کے دعویدار ہیں اور عاشقِ رسول کہلاتے ہیں مگر یہ حال ہے کہ ہر طرح کی دنیا پرستی میں مبتلا ہیں اور روحانی، اخلاقی اور اور ایمانی طور پر پست ہو چکے ہیں۔ ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلمان امت کا بھی انتہائی ابتر حال ہے۔ آ ئے دن ِنت نئی وڈیوز اور حرکات منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں نیز خود ایک دوسرے کے پول کھول کھول کے افادہ عام کے لے مشہور کرتے رہتے ہیں، یہ تو خود توہینِ عشق کے مرتکب ہو رہے ہیں یعنی توہینِ عشقِ رسولؐ۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو کہ آنحضرتؐ کے عشق میں بے مثال ہے۔ دن رات یہ اس فکر میں ہے کہ کس طرح رسول کریمؐ کا جھنڈا تمام دیگر جھنڈوں سے بلند ہو۔

سچے اور قابلِ تقلید عاشقِ رسولؐ

آنحضرتؐ کے زمانہ کے بعد سے لے کر موجودہ زمانے تک بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جیساعاشق رسولؐ کہیں بھی نظر نہیں آتاموجودہ زمانہ میں اگر کسی نے آنحضرتؐ کی محبت کے طریقےسکھائے ہیں تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں اور آپ کے بعد خلفا ءنے ہی دنیا کو وہ سلیقے و آداب بتائےہیں کہ آنحضرتؐ سے محبت کیسے کی جاتی ہے۔ اِن ہی وجودوں نے وہ طریق بتائے کہ کس طرح آنحضرتؐ کے نام پر جانیں نثار کی جاتی ہیں اور آنحضرتؐ کے اسوہ حسنہ پر چلا جاتا ہے۔ ان ہی وجودوں نے اپنے اپنے ادوار میں صحیح غیرت اسلامی دکھائی اور قوموں کی اصلاح کا کام کیا اور ایسی جماعت بنا کر دکھا دی جو کہ آنحضورؐ کے اسوہ پر چلنے والی اور اس کی سچی عاشق اور اس کے دین کی صحیح تصویر دنیا کو دکھانے والی ہے کیونکہ سچی محبت کا تو تقاضا ہی یہ ہے کہ سر تا پا اپنے محبوب کی چال ڈھال میں ڈھل جانا اور اس کی ہر حرکت و سکون،مرضی و ارشاد کو تن من دھن کی بازی لگا کر پوری کرنا۔ خلفاء کےعملی کاموں کی تو دنیا شاہد ہے اور ہر کوئی ان کی طرز زندگی اور تحریکات اور جماعت کو دیکھ کر اور کاموں سے اس محبت کا اندازہ کر سکتا ہے جس کا بیان ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے میں یہاں چند جذباتی اور واقعاتی مثالیں خلفاء کی بیان کروں گا تاکہ اُس آگ کی کچھ تپش ہم بھی اپنے دل و جگر میں محسوس کر سکیں اورمحبت کے صحیح معنی اور ادراک حاصل کر سکیں۔

خاتم الخلفاء حضرت مسیح موعودؑ 

خلفاء مسیح موعودؑ کے واقعات لکھنے سے قبل ہلکی سی جھلک امام آخر الزمان کی رسول اللہؐ سے محبت برکت کی خاطر بیان کر دوں۔

حضرت مسیح موعودؑ ایک عربی شعر میں فرماتے ہیں

اِنِّیْ اَمُوْتُ وَلَا تَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ
یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التراب نِدَائِیْ

(اے میرے پیارے!) میں تو (ایک دن) اس دنیا سے کوچ کرجاؤنگا، لیکن میری (وہ) محبت (جو میں تجھ سے کرتا ہوں اس) پر کبھی موت نہیں آئے گی (کیونکہ) میری (قبر کی) مٹی سے تیری یاد میں (جو) آوازیں بلند ہونگی (وہ یہی ہونگی اے میرے محبوب محمدؐ!۔ اے میرے معشوق محمدؐ!۔ اے میرے پیارے محمدؐ!)

(منن الرحمان صفحہ25)

پھر اپنے مشہور قصیدہ میں فرماتے ہیں

یَارَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائمًا
فِیْ ھٰذِہٖ الدُّنْیَا وَ بَعْثِ ثَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، صفحہ 593)

اے میرے رب! تو اپنے نبیؐ پر اس جہان میں بھی درود نازل فرما اور دوسرے جہان میں بھی درود نازل فرمانا۔

حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے فرماتے ہیں کہ ان کو حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے فرمایا کہ!
’’حضرت صاحب نے بہت مرتبہ زبان مبارک سے فرمایا کہ میں نے بار ہا بیداری میں ہی آنحضرتؐ سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہِ راست حاصل کی ہے۔ خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور یا کم درجہ کی ہوں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت نمبر572 صفحہ550 تذکرہ صفحہ678)

’’میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰؐ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ64)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ
اللہ جل شانہ اور رسول اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی

اب دیکھتے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے عشق کے واقعات بلکہ ان سے پہلے ایک گواہی حضرت مسیح موعودؑ کی دیکھتے ہیں، فرماتے ہیں،
’’مولوی حکیم نوردین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردئ اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔ کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں میں ان کی صحبت کا اثر ہے۔ مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب للہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں اگرچہ یہ طریق دنیا اور معاشرت کے اصولوں کے مخالف ہے مگر جو شخص خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر اور دین اسلام کو ایک سچا اور منجانب اللہ دین سمجھ کر اور بایں ہمہ اپنے زمانہ کے امام کو بھی شناخت کر کے اللہ جل شانہ اور رسول اللہ اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی ہو کر محض اعلاء کلمئہ اسلام کے لئے اپنے مال حلال اور طیب کو اس راہ میں فدا کرتا ہے اس کا جو عند اللہ قدر ہے وہ ظاہر ہے۔‘‘

(نشان آسمانی فیصلہ صفحہ 46)

یہ وہ گواہی اُس کی طرف سے ہے جو آخری زمانے میں حضرت محمدؐ کےعاشقِ اعظم ہیں اور ان کی طرف سے کسی کو ’’اللہ جل شانہ اور رسول اللہ اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی‘‘ قرار دینا یوں ہی نہیں ہو سکتا، لیکن یہاں کوئی یہ نہ سمجھے کہ حضرت نور الدینؓ کو یہ مقام محض اپنی کوشش سے مل گیا تھا بلکہ یہ بھی اس زمانے کے امام کے توسط سے نصیب ہوا تھا، اس کو سمجھنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے متعلق مندرجہ ذیل عشق میں مخمور عبارت پڑھیں۔

نورالدین کا معشوق

’’پھر جب خلیفہ ہو گئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نور الدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔‘‘

(حیاتِ نور باب چہارم صفحہ188)

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں۔
’’نواب خان صاحب تحصیلدار مرحوم نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نےحضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا! آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے۔آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے ذیادہ کیا فائدہ حاصل ہوا۔ اس پر حضرت مولانا صاحبؓ نے فرمایا۔نواب خاں!مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ اُن میں سےیہ ہوا ہے کہ پہلے مجھےحضرت نبی کریمؐ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔‘‘

(حیاتِ نور باب چہارم صفحہ 194)

پھر آپؓ خود فرماتے ہیں، ’’مجھ کو حضور نبی کریمؐ نے ایک مرتبہ خواب میں فرمایا کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ بہت پڑھا کرو۔‘‘

(مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 212)

تو ہم کو محبوب ہے

پھر فرماتے ہیں ‘‘میں نے ایک مرتبہ نبی کریمؐ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اُٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں۔ پھر میرے کان میں کہا کہ تو ہم کو محبوب ہے۔’’

(مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 29)

حضورؓ ایک خطبہ عید میں فرماتے ہیں۔

اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۲﴾ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانۡحَرۡ ؕ﴿۳﴾ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ﴿۴﴾

(الکوثر:2-4)

’’یہ ایک مختصر سی سورۃ ہے اور اس مختصر سی سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان پیشگوئی بیان فرمائی ہے جو جامع ہے۔‘‘ حضور آگے مزید فرماتے ہیں ’’یہ کوثر مکان کے لحاظ سے عطاء فرمائی۔ کوئی آدمی نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الہٰی میں اتباع رسالت پناہی کی ضرورت نہیں۔ کوئی صوفی، کوئی مست قلندر۔ بالغمرد، بالغہ عورت کوئی ہو اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔ اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا (الکہف:68) بول اٹھے۔ یہ وہ موسیٰؑ ہے جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا۔ کوئی آدمی مقرب ہو نہیں سکتا جب تک محمد رسول اللہؐ کی سچی اتباع نہ کرے۔‘‘

(خطبہ عید الاضحی 21 اپریل 1899ء)

(خطباتِ نور صفحہ24-25)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عشقِ رسول کو کہاں تک بیان کیا جائے آپ کے 51 سالہ دورِ خلافت میں ہمیں اتنے زیاد ہ واقعات اس محبت کے نظر آتے ہیں کہ بے اختیار اس عاشقِ رسولؐ کے لئے دُعائیں نکلتی ہیں۔ آپ کی ہمہ جہت ذات کا ہر گوشہ آنحضورؐ کے پیار میں مخمور نظر آتا ہے، ملی، قومی، سیاسی، سماجی، اسلامی ہر ہر میدان میں آپ عشق محمدؐ میں صفِ اول میں نظر آتے ہیں چاہے تو آپ کی تقریر اُٹھا کر دیکھ لیں تو چاہے تحریر اور منظوم کلام۔ اب میں آپ کے سامنے آپ کی سیرت کے چند پہلو اور واقعات رکھوں گا جو آپ کی رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَؐ سے بے پناہ محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔

1935ء کی مجلسِ شوریٰ کے افتتاحی اجلاس میں حضور نےنمائندگان شوریٰ کے علاوہ زائرین کو بڑے پُرجوش انداز میں خطاب فرماتے ہوئے ان سے ایک عہد لیا اور اس میں عشق کے ایک نئے ہی انداز کو بیان فرمایا۔ فرماتے ہیں:
’’اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں اگر سپاہی لڑتے لڑتے سو جائے تو جاتا ہے۔ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال ان صحابہ کی ہے جن کے مثیل ہونے کے ہم مدعی ہیں۔‘‘ پھر آپؓ نے صحابی رسولؐ کے اس انتہائی درد انگیز واقعہ کا ذکر کیا جس میں ایک جنگ میں ان کے سپرد اسلام کا جھنڈا تھا جب اُن کا ایک ہاتھ کاٹا گیا تو انہوں نے دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا اور جب وہ بھی کاٹا گیا تو ٹانگوں میں پکڑ لیا اور جب دونوں ٹانگیں بھی کٹ گئیں تو دانتوں میں پکڑ لیا مگر گرنے نہ دیا۔پھر آپ نے نوجوانوں، بچوں کو مخاطب ہو کر فرمایا ’’واقعات کی، زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے۔ ممکن ہے یہ چل جائے تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے؟‘‘ (اس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا) پھر آگے مزید فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے اور ہم خداتعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں۔ ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہیے۔ صحابہ ہمارے ادب کی جگہ ہیں مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے۔ پس ہمارا مقابلہ ان سے ہے جنہوں نے رسول کریمؐ کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم ان کی بہت عزت کرتے اور توقیر کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1935ء خطابات شوریٰ جلداوّل صفحہ640-641)

1957ء کی رپورٹ مجلسِ مشاورت میں حضرت مصلح موعودؑ کی ایک عظیم دلی خواہش درج ہے جو کہ آپ کی رسولِ کریمؐ سے بے انتہا محبت کی عکاس ہے۔فرماتے ہیں
’’حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی طور پر ملتا ہےاصل میں یہ سب کچھ محمدرسول اللہ ؐکا مال ہےانہی کے مال کی حفاظت کیلئے ہم لڑ رہے ہیں ورنہ ہمیں اپنی کسی عزت کی ضرورت نہیں اگر محمد رسول اللہؐ کی فتح ہو جائے تو ہمیں دنیا کے تمام دُکھ اُٹھانے منظور ہیں۔ خواہش ہے تو صرف اتنی کہ محمد رسول اللہؐ کی عزت دنیا میں قائم ہو۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1957ء خطابات شوریٰ جلدسوم صفحہ711)

(باقی کل ان شاءاللہ)

(طاہر احمد۔ فن لینڈ)

پچھلا پڑھیں

راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2022