• 20 جولائی, 2025

بعض مرحوم افسران کا ذکرِ خیر

بعض مرحوم افسران کا ذکرِ خیر
ان بزرگان سے کسب فیض اور راہنمائی حاصل کرنا ، میری زندگی کا ماحصل ہے

خاکسار نے جامعہ احمدیہ میں جن اساتذہ سے علمی فیض پایا۔ ان میں سے مرحوم اساتذہ کا ذکرِ خیر حدیث نبوی ؐ میں بیان ایک ہدایت اُذکُرُوْ مَحا سِنَ مَوْ تا کُم (بحارا لا نوار جلد72 صفحہ239) کے تحت ایک طویل مضمون میں بیان کر چکا ہوں۔ جوروزنامہ الفضل آن لائن مؤرخہ 2جولائی 2021ء میں طبع ہو چکا ہے۔ اس مضمون میں چار ایسے بزرگ اساتذہ کا بھی ذکر تھا جو الحمد للّٰہ بقید حیات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت دے اور مرحومین کی مغفرت فرمائے ۔آمین

آج میں ان چند ایسے مرحومین کا ذکرِ خیر کرنے جا رہا ہوں جن سے خاکسار نے علمی کسب فیض تو کمایا ہی لیکن انتظامی لحاظ سے بھی فائدہ حاصل کیا ۔ جس حدیث نبوی ﷺ کا خاکسار نے اوپر ذکر کیا ہے اس کے مکمل الفاظ یوں ہیں۔

’’اُذکُرُوْ مَحَاسِنَ مَوْتَا کُمْ وَ کُفُّوْا عَنْ مَسَاوِ یْھِمْ‘‘ یعنی تم اپنے وفات یافتہ افراد کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو ۔ ان کے عیوب بیان نہ کیا کرو۔ یہ حدیث سنن ابو داؤد کتاب الادب میں بھی بیان ہوئی ہے۔ اس حدیث کے دو حصے ہیں ۔ ایک مرحومین کا اچھے انداز میں ذکر اور دوم ان کے عیوب بیان کرنے سے رکنا۔ جس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ باتوں باتوں میں بُرائی بیان کرنے کی بعض جگہوں پر عادت موجود ہے اور کسی کی وفات کے کچھ دن بعد ہی ہم بعض لوگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ ’’اچھا! ہُن تے او فوت ہو گیا اے ورنہ ……‘‘ یہ کہتے کہتے پیٹھ پیچھے بات کرنے کے عادی ایک دو باتیں کر ہی جاتے ہیں۔

یہ تمہید باندھنے کی وجہ اپنے اس مضمون سے بھی متعلق ہے، وہ یہ کہ انتظامی لحاظ سے جن سے کچھ سیکھا جا رہا ہوتا ہے وہاں Administration wisely دورانِ سروس ایسی باتیں بھی ہو جاتی ہیں یا سننی پڑتی ہیں جو طبیعت کے منافی ہوتی اور گراں بھی گزرتی ہیں یا طبیعت پر ناگوار بوجھ بن جاتی ہیں ۔ لیکن در حقیقت یہ باتیں بھی اصلاح کے لئے ہی ہو رہی ہوتی ہیں ۔کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے خربوزہ کاٹ کر اس کی قاشیں اپنے وزراء کو دیں تمام وزراء نے وہ قاشیں کڑوی ہونے کی وجہ سے تھو تھو کر کے پھینک دیں مگر ایک جہاندیدہ وزیر نے بڑے مزے لے کر اپنے حصے کی قاش کو کھالیا۔ بادشاہ کو دیگر وزراء کی طرف سے منہ بنانے اور قاشیں پھینکنے پر محسوس ہو گیا تھا کہ خربوزہ ٹھیک نہیں ہے اور بادشاہ نے جب قاش مزے سے لے کر کھانے والے وزیر سے اس کی وجہ پوچھی تو اس وفا شعار وزیر نے بادشاہ کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے بادشاہ! روزانہ ہی آپ کے دربار سے اَنگنت میٹھی اور لذیذ اشیاء کھانے کو ملتی ہیں اگر ایک روز کڑوی مل گئی تو کون سی اچنبھے کی بات ہے؟

اس لئے اگر یہ اساتذہ اور افسران کبھی ایسی کوئی بات کر جائیں یا کوئی ایسا فیصلہ کر دیں جو عارضی طور پر تلخ محسوس ہو تو اُسے بھی بخوشی قبول کر لینا چاہئے۔ کیونکہ یہ ہماری تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لئے ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے ہمارا مثبت کردار تعمیر کرنے اور اخلاق حسنہ سکھانے پر بھی تو محنت کی ہوتی ہے اگر ایک بات مزاج کے برعکس ہوجائے تو تعجب کی بات نہیں۔

*اب میں آتا ہوں انتظامی لحاظ سے ان مرحوم بزرگ افسران کے ذکر خیر کی طرف۔ جن سے خاکسار نے انتظامی لحاظ سے کسب فیض پایا اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔

1۔ مکرم سید احمد علی شاہ ، سابق نائب ناظر اصلاح و ارشاد:
خاکسار نے جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کرکے جب میدانِ عمل میں قدم رکھا تو 1978ء میں میری خدمات کا آغاز نظارت اصلاح و ارشاد مقامی کے تحت ہوا، جہاں مکرم سید احمد علی شاہ مرحوم دفتر کے افسر تھے۔ آپ کا عہدہ نائب ناظر کا تھا۔ آپ نے ایک دو دنوں میں ہی نئے آنے والے تمام مربیان کی تقرریوں کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے منظوری لی اور ایک اجتماعی میٹنگ کرنے کے بعد ہر مربی صاحب کی نئے اسٹیشن کے بارہ میں رہنمائی کی۔ یہ آپ کا ہی خاصہ تھا کہ آپ کو ہر مربی سینٹر کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی تھیں ۔ آپ مربیان کی چھوٹی سے چھوٹی بات میں رہنمائی فرماتے ۔حتٰی کہ کپڑے کس طرح کے پہننے ہیں ،مربی کا کرداراور چال ڈھال کیسی ہونی چاہئے۔ جماعت کے اموال کی حفاظت کی طرف بہت توجہ دلاتے تھے۔ڈائری لکھنے کا کہتے تھے کیونکہ خود بھی اس کے عادی تھے۔ چونکہ آپ عالم باعمل، اعلیٰ پائے کے مقرر اور مناظر تھے۔ اس لئے مربیان کی ملاقاتوں میں بعض اہم نکات اور علمی باتیں بتایا کرتے تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ کی ایک یہ نصیحت ہوتی تھی کہ میدان عمل میں کسی دوست کو نیچے گرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ہر ایک کو خلیفۃ المسیح سے محبت ہے ۔ وہ اپنی استعدادوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خلیفۃ المسیح کے حکم اورارشاد پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ اس لئےکبھی بھی پہلے کام کر کے جتایا نہ جائے کیونکہ بعض گاڑیاں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن (یہ انڈیا کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن ہے، جہاں 16پلیٹ فارمزسے ملک کے دیگرحصوں کی طرف روزانہ 350ٹرینز چلتی ہیں) کے راستے لمبا سفر کر کے سنٹر میں آتی ہیں اور بعض بذریعہ لاہور جلدی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ آپ خلیفۃ المسیح کے ارشاد کی تعمیل اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کریں اور دوسرے ساتھی ابھی پیچھے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر صرف خدا کا شکر ادا کریں۔

چونکہ شاہ صاحب ہمارے محلہ دار بھی تھے اس لئے مسجد محمود میں آپ کے درس اور تقاریر سننے کا موقع ملتا رہا۔ آپ اکثر پگڑی اور حضرت مصلح موعود ؓوالا چھوٹا کوٹ زیب تن رکھتے اور سائیکل پر دفتر آتے اور بازاروں میں بھی سائیکل پرہی نظر آتے۔ لوگوں سے اکثر سائیکل سے اتر کر ملتے اور حال احوال دریافت فرماتے نظر آتے تھے۔

میں جب 1990ء میں سیر الیون سے واپس پاکستان آیا تو مجھے نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں حاضر ہونے کو کہا گیا۔ تو محترم مولاناموصوف کو اب اس نظارت میں نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے طور پر دیکھا۔ خاکسار کی بدو ملہی تقرری کے خط پر آپ کے نائب ناظر اصلاح و ارشاد مقامی اور دارالذکر لاہور میں تقرری کے خط پر آنمحترم کے بطور نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے دستخط ہیں اور یہ دونوں خطوط آج بھی خاکسار کےپاس ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔

2۔ مکرم مولانا سلطان محمود انور،سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ :
جن سے خاکسار نے انتظامی امورکے بارے میں فیض حاصل کیا یا یوں کہنا چاہئے کہ انتظامی امور میں بہت کچھ سیکھا وہ مولانا سلطان محمود انور مرحوم ہیں۔ سیرالیون سے واپس آنے کے بعد میں آپ کی شخصیت سے بالکل نا واقف تھا۔ صرف نام سن رکھا تھا جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے 1990ء میں میری سیرالیون سے واپسی پر نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں خاکسار کی خدمات سپرد ہونے پر پہلا تعارف اس وقت ہوا جب رخصت کے روز سہ پہر کے قریب مکرم رفیق احمد جاوید (سابق مربی سلسلہ) کا کسی کے ہاتھ پیغام آیا (اس وقت موبائل فون عام نہ تھے) پیغام یہ تھا کہ مکرم ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے آپ کو یعنی مجھے اپنے دفتر میں یاد فرمایا ہے۔ میں ان کے دفتر چل دیا تو انہوں نے گھنٹہ بھر کے انٹرویو کو کمال مہارت سے انٹرویو کی بجائے ملاقات کا تأثر دیا۔ بہت کھلے ماحول میں میرے متعلق تمام معلومات بھی لے لیں۔ اس بالغ نظری کا خاکسار نے بعد میں متعدد جگہوں پر معائنہ کیا۔ یہ انٹرویو دراصل لاہور دارالذکر میں تعیناتی کے لئے لیا جا رہا تھا۔

موصوف گو ناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ بغیر نوٹس لئے تقریر بہت عمدہ کرتے تھے اس دوران جہاں بات پر زور دینا ہوتاوہاں مترادف الفاظ کا استعمال کرتے جس سے آپ کے انداز بیان میں چار چاند لگ جاتے اور سامعین متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے، مسجد اقصیٰ ربوہ میں آپ کا خطبہ سننے والے احباب اس بات کی گواہی دیں گے۔ تقریر کا فن خاکسار نے آپ ہی سے سیکھا۔ آپ اپنے ماتحت مربیان سے نہایت شفقت اور پیار سے پیش آتے۔ حتی الوسع ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ ہر مربی اور ان کے آباء و اجداد اور خاندان سے بخوبی واقفیت رکھتے، پاکستان بھر کے اضلاع اور مجالس کے دورہ جات میں مربیان سے لگاؤ اور محبت بڑھانے کے لئے ان کے خاندان کا اس طرح ذکر کرتے جیسے آپ انہی کی فیملی کا حصہ ہوں۔ دوروں کے دوران اور ربوہ مرکز میں آنے والے مربیان کی رپورٹس سن کر حوصلہ افزائی کرتے اور رہنمائی فرماتے۔

ایک خوبی جو میں نے آپ میں مشاہدہ کی (جس کی آج کے دورمیں بہت ضرورت ہے) وہ یہ تھی کہ کسی کی کوئی برائی، کمی اور کمزوری کسی کے سامنے بیان نہ کرتے۔ ایک کان سے سنتے دوسرے کان سے نکال دیتے یا اپنے اندر دفن کر لیتے۔ چونکہ آپ اصلاحی کمیٹی کے بھی انچارج تھے اس لئے فریقین میں نہایت خوبی سے مصالحت کرواتے۔

آپ ایک منجھے ہوئے اچھے ایڈ منسٹیٹر تھے۔ ایک دفعہ میں نے آپ کے سپرد حضور کی طرف سے کاموں اور ڈیوٹیوں کی فہرست بنائی تو وہ 14 تھے۔ کسی کمیٹی کے صدر، کسی کے سیکرٹری اور کسی میں عام ممبر کے طور پر خدمات دینیہ پر مامور تھے۔

آپ ایک اچھے انشاء پرداز تھے جیسا کہ اوپر بتا چکا ہوں آپ بلا کے منجھے ہوئے مقرر تھے۔ دھیمے انداز میں سامعین کے دلوں میں اُتر جاتے۔ گہری سوچ کے حامل تھے۔ تقریر یا خطاب میں آپ کی اپروچ Intellectual ہوتی۔ قرآن و حدیث سے ہی نکات اخذ کر کے موجودہ حالات سے موازنہ کرتے ہوئے بات کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ آپ کی تقاریر و خطابات کی سینکڑوں آڈیوز، وڈیوز کی کیسٹس آپ کے پاس موجود تھیں جن کو آپ نے مختلف مربیان سے ٹرانسکرائب بھی کروایا تاکہ ان کو شائع کروا سکیں مگر عمر نے ساتھ نہ دیا۔ اب اولاد کو کم از کم اس حصہ کو جو ٹرانسکرائب ہو چکا ہے مضامین کی صورت میں شائع کروا دینا چاہئے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا علمی و تربیتی خزانہ ہے۔

موصوف اعلیٰ پائے کے منتظم تھے ۔ میں نے آپ سے انتظامی لحاظ سے بہت سیکھا اور علمی معارف و نکات بھی کیونکہ یہ تمام نکات اور معارف خلافت کے تابع تھے۔

آپ اس حوالہ سے بھی نڈر تھے کہ بڑے سے بڑے جرنلسٹ سے مل لیتے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نپی تلی بات کرتے۔ لاہور میں خاکسار نے کئی مرتبہ بعض اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان اور دیگر جرنلسٹوں سے ملاقات کا انتظام کروایا۔ آپ بلا خوف و خطر ان سے مل کر جماعت کا مؤقف بیان کرتے رہے۔ اس حوالہ سے آپ نے مجھے بھی جرأت دلائی۔ آغاز میں نیشنل اخبارات میں خطوط لکھوانے شروع کئے۔ پھر حوصلہ بڑھا کہ مضامین اور آرٹیکلز لکھواتے رہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ خاکسار کی تحریرو تحقیق کو درست سمت کی طرف پھیرنے کا سہرا مولانا موصوف کے حصے میں جاتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔

حوصلہ دینے اور بڑھانے کی بات چلی ہے تو ایک واقعہ درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے دور میں نو مبائعین کی آمد کا سلسلہ کثر ت سے شروع ہوا۔ آپ ؒ نے جماعتوں کو نو مبائعین کے لئے تربیتی نصاب تیار کرنے کی ہدایت فرمائی تو خاکسار نے بھی ایک نصاب تیار کیا۔ ابھی وہ تکمیل کے آخری مراحل میں، ابواب کی صورت میں میرے مربی ضلع لاہورکے دفتر کی میز پر بکھرا پڑا تھا کہ اچانک آپ کی ربوہ سے آمد ہو گئی۔ آتے ہی آپ نے ان بکھرے کاغذات کی وجہ تسمیہ دریافت فرمائی اور کرسی پر بیٹھ کر ان تمام کاغذات پر جستہ جستہ نظر دوڑائی اور بعض جگہوں پر رہنمائی بھی فرمائی۔ خوشی کے آثار چہرے پر نمایاں تھے۔ بالخصوص اس باب پر جو جماعت احمدیہ کے تعارف پر مشتمل تھا جس میں جماعتی چندوں کا تعارف کروایا گیا تھا۔ اس کو پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے اور فرمایا چندوں کا تعارف پہلی مرتبہ آپ اتنی تفصیل سے پبلک کے لئے منظرِ عام پر لائیں گے۔ یہ بہت اچھا کام کیا ہے۔ دو اڑھائی گھنٹہ کی اس سٹنگ میں اٹھتے وقت آپ نے دریافت فرمایا کہ اس کو کیسے شائع کروائیں گے۔ میں نے عرض کی کہ اس کے بارے میں، میں نے ابھی نہیں سوچا۔ اللہ خود اس نیک کام کی تکمیل کا انتظام فرما دے گا۔ تو کہنے لگے کہ اچھا اگر کوئی بندو بست نہ ہوا تو مجھے بھجوا دینا۔ چنانچہ آپ نے نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے ایک شعبہ کے تحت ’’تربیتی نصاب‘‘ برائے نو مبائعین کے نام سے اسےشائع کروا دیا جس سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔ اور مزید کتب لکھنے کی طرف رغبت ہوئی۔ لاہور کے قیام میں تین اہم تاریخی موضوعات پر کتب تصنیف کرنے اور انہیں شائع کروانے کی توفیق ملی جیسے اسلامی اصول کی فلاسفی کے سو سال مکمل ہونے پر بعنوان ’’جلسہ اعظم مذاہب پر اجمالی نظر‘‘، حضرت مسیح موعود ؑ کی لیکھرام کی ہلاکت کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے سو سال مکمل ہونے پر بعنوان ’تیغ دُعا‘‘ اور لاہور میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام کے مبارک مقامات پر بعنوان ’’لاہور کی روحانی قدریں‘‘ شائع کرنے کی توفیق ملی۔ اور یہ سلسلہ اسلام آباد اور بعد ازاں ربوہ میں بھی جاری رہا اور اب تک پاکستان اور ہندوستان سے شائع ہونے والی درجنوں کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں الحمد للّٰہ رب العالمین۔ یہ تمام آپ کی خصوصی توجہ، خوشنودی ، حوصلہ افزائی اور خاکسار کے ساتھ قریبی تعلق کی مرہونِ منت ہیں۔

ایک دفعہ آپ ربوہ میں رمضان میں ایک افطاری پر موجود تھے۔ میں آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھا۔ کھانا تناول کرکے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میزبان کے لئے اس کے اموال میں برکت کی یہ دُعا سکھائی ہے اور ساتھ اپنے خاص انداز میں ٹھہر ٹھہر کر ترجمہ بھی بتایا اور کچھ دیر کے بعد آپ نے یہ دُعا بلند آواز سے پڑھ کر میزبان کے لئے دُعا بھی کروائی۔ جو یہ تھی

اَللَّهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ

(مسلم کتاب الاشربہ)

ترجمہ: اللہ برکت دے ان کی روزی میں ،بخش دے ان کو اور رحم کر ان پر۔

خاکسار نے یہ دُعا پہلی مرتبہ سُنی تھی۔ اور اس کے بعد اس دعا کو زندگی کا حصہ بنا لیا۔

آپ کی طبیعت مرنجاں مرنج اور مثبت انداز میں بے تکلف تھی۔ ہلکا پھلکا مذاق بھی کر لیتے تھے اور دوسرے کے جواب میں کہی ہوئی مزاحیہ بات بخوشی برداشت بھی کرلیتے تھے۔ یہ بھی اعلیٰ اور نستعلیق شخصیت کا ایک انداز ہوتا ہے۔ بعض لوگ مذاق کر تو لیتے ہیں مگر دوسرے کے مذاق کو برداشت نہیں کرتے اور اس وقت ان لوگوں کو اپنا احترام یاد آجاتا ہے۔ ایک دفعہ مجھے محسوس ہوا کہ آپ کچھ ناراض ہیں اور کھچے کھچے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا کہ مولوی صاحب! مجھے حنیف محمود کہتے ہیں۔ میرے ان الفاظ سے آپ بہت محظوظ ہوئے اور بغیر توقف کے فرمایا۔ اچھا ہوا۔ آج مجھے بھی آپ کے نام کا پتہ چل گیا ہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ دو تین دن بعد آپ ٹہلتے ٹہلتے میرے دفتر میں تشریف لے آئے۔ میں نے بیٹھنے کو کہا تو فرمانے لگے۔ بس میں یہ بتانے آیا تھا کہ مجھے سلطان محمود کہتے ہیں۔ اس سے آپ کے تعلق اور محبت کا پتہ چلتا ہے۔

ایک دفعہ میں نے ربوہ میں آپ کے دفتر میں بیٹھے ایک درخواست کی کہ لاہور بہت بڑا شہر ہے اور مربّی ضلع ہو نے کے ناطے ہر حلقہ اور بعض احباب سے رابطہ کرنا ہوتا ہے ویگنوں پر وقت بہت ضائع ہوتا ہوتا ہے تو مجھے رکشہ استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔ تو برجستہ فرمانے لگے۔ ’’ہن تہانوں فیر رکشہ لے دئائے‘‘ کہ اب ہم آپ رکشہ لے دیں۔ آپ کے ان برجستہ الفاظ پر دفتر میں میرے ساتھ بیٹھے دیگر مربیان قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ جس پر خاکسار کے چہرے پر سبکی کے آثار دیکھ اور پڑھ کر اکاؤنٹنٹ کے نام ایک سلپ پر اجازت لکھ کر اکاؤنٹنٹ کو بلوا کر دے دی اور دیگر موجود مربیان سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے۔ اب آپ بھی مطالبہ نہ کر ڈالیں ان کا کیس جینوائن ہے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین

3۔مکرم راجہ نصیر احمد مرحوم ،سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکز یہ:
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے جن افسران یا مختلف اضلاع میں امرائے کرام کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا وہ سب کے سب نہایت نرم مزاج اور اپنے ماتحتوں سے محبت و شفقت کا تعلق رکھنے والے اورخدمت دین بجا لانے والوں کی قدر کرتے تھے۔ ان میں ایک مکرم راجہ نصیر احمد مرحوم بھی تھے ۔آپ بہت سادہ مزاج تھے اور گفتگو میں بھی سادگی تھی۔ دعاگو بزرگ تھے۔ خلافت سے عقیدت کی حد تک پیار تھا ۔ خطوط میں حضور کے لئے ’’آپ‘‘ کا لفظ استعمال نہ کرنے دیتے بلکہ کہتے ’’حضور‘‘ لکھا کر یں۔ میں نے ایک دن عرض کی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی تو آپؐ کا لفظ لکھا بلکہ بولا بھی جاتا ہے تو کہنے لگے کہ وہ کتابوں میں لکھا جاتا ہو گا۔ دفتری خطوط میں خلیفۃ المسیح کے لئے ’’حضور‘‘ کا لفظ استعمال کیا کریں۔ ایک دفعہ حضور ایدہ اللہ تعالی نے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کو اپنی شلوار قمیض اورشیروانی آپ کو تحفے میں دی۔ جس پر آپ بہت خوش تھے اور ہر ملنے والے سےکافی دنوں تک اس محبت بھرے تحفہ کا ذکر کرتے رہے۔

طبیعت میں مزاح تھا۔ باتوں باتوں میں لطیفے کی بات نکالنا ان کا خاصہ تھا۔ جیسے ایک بار اسلام آباد آئے۔ اطفال کے ورزشی مقابلہ جات تھے، جہاں بعض خواتین بھی آئی ہوئی تھیں۔ تو دیکھ کر کہنے لگے یہ تو تین سے زیادہ خواتین ہیں۔ اسی طرح ایک دن دفتر میں بیٹھے تھے ایک مربی صاحب ربوہ سے باہر جانے کی اجازت لینے دفترآئے اور کہنے لگے کہ ڈسکے (ڈسکہ شہر ضلع سیالکوٹ) جانا ہے کل آ جاؤں گا۔ تو اس پرمربی صاحب کو مخاطب ہو کر کہنے لگے۔ ضرور جائیں لیکن ڈس کےنہ جائیں۔

قرآن کریم سے بہت پیار تھا۔ گاڑی میں قرآن کریم رکھا ہوتا۔ سفر میں بھی تلاوت فرماتے۔ آپ کہا کرتے کہ میں نے زمین پر بھی قرآن مکمل ختم کیا ہے، گاڑی یا بس کے سفر میں بھی، ہوائی جہاز یعنی ہواؤں میں بھی اور بحری جہاز یعنی سمندر میں بھی، اب space کا اللہ تعالیٰ موقع دے دے تو وہاں قرآن کریم ختم کرنے کو دل کرتا ہے۔ خطبہ، تقریر اور نمازوں کے لئے امامت کے لئے نوجوان مربیان اور علمائے دین کو تیار کرتے ۔مسجد مبارک میں حق رکھنے کے باوجود خود نماز نہ پڑھاتے بلکہ کسی ایک کو آگے کرتے۔ بیرون ملک سے اگر کوئی مبلغ آئے ہوئے ہوتے تو ان کو نماز پڑھانے کا موقع دیتے۔ بلکہ کہتے تھے کہ ایک تو ان مبلغین کی خواہش اس مبارک محراب میں نماز پڑھانے کی پوری ہو جائے گی جہاں تین خلفاء سلسلہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعداور ایک خلیفہ نے خلافت سے قبل نمازیں پڑھائیں اور دوم یہ کہ ہم نمازیوں کو ایک نئے امام کی تلاوت سے حظ اٹھانے کا موقع ملے گا۔

نظارت اصلاح و ارشاد کے تحت ایک اصلاحی کمیٹی بھی ہوتی ہے، خانگی اور لین دین کے جھگڑے بھی اس کمیٹی میں طے پاتے ہیں۔ ان کے لیے آپ پہلے دعا کرتے بلکہ ان اوقات میں صدقہ بھی دیتے۔ اور اپنی بہوؤں کی مثال بہت دیتے کہ ہمارا ان کے ساتھ تعلق مثالی ہے اور بہوئیں بھی ہمیں یعنی ساس سسر کو عزت کا مقام دیتی ہیں۔ اس بات کے تو ہم بھی محلہ دار ہونے کی وجہ سے گواہ ہیں۔

اپنے دفتر کے کارکنان کے ساتھ بیٹھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے بلکہ 11:00 والی چائے کے لیے بڑے ہال میں تشریف لے آتے۔ جہاں چائے بھی پیتے، اخبار بھی پڑھتے اور تعمیری گپ شپ بھی ہو جاتی۔

میرے ساتھ ایک خاص قسم کا اُنس رکھتے تھے۔ اس کا اظہار بھی ان کے عمل و فعل سے ہوتا۔ انتظامیہ نے میرا تبادلہ لاہور سے پشاور بطور مربی ضلع کر دیا۔ جہاں فیملی مربی ہاؤس نہ تھا اور بچیاں college going تھیں۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں شفٹ ہوکر ان کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کئی قسم کے سرکاری روکیں بھی تھیں۔ میں نے اپنی فیملی لاہور میں کسی کے گھر (اللہ تعالی جزا دے مکرم محمد شریف احمد اور ان کی اہلیہ محترمہ مسز امۃ الرشید کو جنہوں نے ہمیں مشکل میں دیکھ کر اپنے گھر کا اپر پورشن رہائش کے لئے مفت دے دیا) چھوڑ کر اور بچیوں کے لئے کالج آنے جانے کی ٹرانسپورٹ کا انتظام کر کے پشاور خدمت دین کے لئے حاضری دے دی۔ اس اثناء میں مکرم راجہ صاحب ناظراصلاح و ارشاد مرکزیہ کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ آپ میری مشکل سے آگاہ تھے۔ اپنے دفتر کا قلم سنبھالتے ہی چند مہینوں کے اندر اندر میرے سامنے پاکستان کے بڑے بڑے سینٹرز کے نام لے ڈالے اور کہا بتائیں؟ ان میں سے کسی کا نام لیں۔ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ میں بہت شرمندہ ہواکہ ایک واقف زندگی تو اس حوالے سے بے زبان ہوتا ہے، اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ میں بار بارعرض کروں کہ راجہ صاحب! آپ خود فیصلہ کر دیں میں کوئی جواب دینے سے قاصر ہوں۔ آپ پشاور میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ رات بسر کی۔ اگلے روز صبح سویرے پھر اسی ٹاپک کو چھیڑ کر کہنے لگے کہ اچھا! اسلام آباد کا سنٹر بھی ہے وہاں بھجوا دیں آپ کو۔ خاکسار پھر خاموش ہوگیا مگر آپ نے مرکز جاکر مکرم ناظر اعلٰی حضرت مرزا مسرور احمد صاحب سے مشورہ اور رہنمائی لے کر میرا اسلام آباد تقرر کروا دیا۔ خاکسار کچھ دنوں بعد مجلس شوریٰ پر مرکز آیا ہوا تھا تو مجھے اسلام آباد تقرر کی نوید سنا کر کہنے لگے کہ وہاں دو مربی ہاؤسز ہیں جن میں سے ایک مربی ہاؤس میں مقیم مربّی صاحب مسجد کو deal کرتے ہیں۔ کون سا مربی ہاؤس پسند ہے۔ میں نے سر جھکائے عرض کی کہ راجہ صاحب! پہلے آپ نے پاکستان کے بڑے بڑے سینٹرز کے نام میرے سامنے رکھے اور اب مربی ہاؤسز کے بارے میں چناؤ پر شرمندہ نہ کریں پلیز۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کی حق تلفی ہو۔ کہنے لگے۔ نہیں! ہم نے تبادلے کرنے ہیں۔ آپ مجھے اپنی رائے دے دیں ۔ میرے خاموش رہنے پر آپ نے میری مرکزی مربی ہاؤس میں تقرری فرما دی ۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ خیراً۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین

میں جیسے اوپر لکھ آیا ہوں کہ مزاح آپ کی طبیعت کا حصہ تھا۔ ایک دفعہ میں پشاور سے آپ کو ملنے آیا۔ دفتر میں دیکھا کہ آپ بعض امرائے جماعت سے محو گفتگو تھے۔ میں دفتر کے بڑے ہال میں جا کر بیٹھ گیا۔امراء سے گفتگو کے بعد جب آپ فارغ ہوئے تو وہاں تشریف لے آئے اور مجھے دیکھ کر پوچھنے لگے کہ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ اندر امراء بیٹھے ہوئے تھے۔ تو فرمانے لگے اب دوسرے امراء اندر تشریف لے آئیں۔

پشاور میں فیملی مربی ہاؤس نہ ہونے کا ذکر اوپر کر آیا ہوں۔ اس حوالہ سے مکرم مولانا سلطان محمود انور مرحوم کی بھی شفقتیں شامل حال ہیں۔ آپ نے مربی ہاؤسز کی تعمیر کے بجٹ ختم ہونے کے باوجود انجمن سے مربی ہاؤس کی از سرِ نو تعمیر کے لئے بجٹ منظور کروایا تا خاکسار کی فیملی وہاں رہ سکے۔ ابھی مربی ہاؤس کے ازسرنو تعمیر کا کام شروع ہوا ہی تھا کہ خاکسار کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا۔

4۔ مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری ,سابق امیر و مشنری انچارج سیرالیون:
آپ امریکہ اور سیرالیون جنوبی افریقہ میں کامیاب ترین امیرو مشنری انچارج رہے۔ میں جب 1983ء میں سیرالیون گیا تو آپ وہاں نیشنل امیر تھے۔ کچھ عرصہ کے لئے رخصت پر ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کا گھر بھی ہمارے محلہ میں ہی تھا اس لئے آپ سے پہلی ملاقات مسجد محمود میں ہوئی۔ جہاں یہ معلوم ہونے پر کہ خاکسار کا تقرر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے سیرالیون کے لئے کیا ہے تو فرمانے لگے کہ کامیاب مربی کے لئے ٹائپنگ اور ڈرائیونگ بہت ضروری ہے۔ یہ نصیحت آج کے دور میں شاید کوئی معنی نہ رکھتی ہو مگر 1983ء کی دہائی یا اس سے پہلے بہت اہمیت کی حامل تھی جب موبائل نہ تھے۔ گاڑی کا تصور بھی نہ تھا۔

آپ اکثرپگڑی اور اچکن میں نظر آتے۔ آپ کا لباس آپ کی پہچان تھی۔

میں آپ کی شخصیت سے سیرالیون کے شہر فری ٹاؤن آمد پر پہلے دن ہی قائل ہو گیا کہ جب آپ نے ہم تینوں (ہم تین مبلغ اکٹھے سیرا لیون گئے تھے) کو پہلے کھانے پر ہی ڈائننگ ٹیبل پر ان کے اسٹیشنز کا اعلان کر دیا تھا۔ اور مجھے ایسٹرن پراونس کے ہیڈ کوارٹر کینیما (Kenema) جانے کو کہا جو سیرالیون کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ کھانا وغیرہ تناول کرنے کے بعد آپ اپنے دفتر میں تشریف لے گئے جہاں ہم تینوں نے اپنی تعیناتی کے کاغذات پیش کئے۔ میری تعیناتی پر لکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع (ایدہ اللہ) نے خاکسار کا تقرربو (Bo) سیرالیون میں فرمایا ہے جو سیرالیون کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ جبکہ باقی دونوں کے تعیناتی کے خطوط پر صرف سیرالیون لکھا تھا۔ عموماً! ہوتا بھی یہی تھا کہ ملک کے نام کے ساتھ تقرری ہو جاتی تھی۔ آگے وہاں کے امیر صاحب اسٹیشن کی تعیناتی کرتے تھے۔ میں نے جب اپنی تقرری کا خط آنمحترم کو پیش کیا تو اس پر Bo کا نام پڑھ کر فوراً اس slip کو پھاڑ کر Dustbin میں پھینک دیا جس پر آپ نے ہماری تقرریاں لکھ رکھی تھیں اور فرمایا خلیفۃ المسیح نے آپ کا تقرر ساؤتھرن پراونس کے ہیڈ کوارٹر Bo کیا ہے ۔آپ Bo تشریف لے جائیں۔ میں کون ہوتا ہوں آپ کو کینیما بھجوانے والا۔ یہ تھی خلافت کی اطاعت جو میں نے آپ کے اندر دیکھی۔ اور جس سے خاکسار بہت متاثر ہوا۔ پھر جتنا عرصہ آپ سیرالیون میں مقیم رہے میں نے آپ کو کام میں دیانت دار اور امین پایا ۔ بالخصوص انسان کی شخصیت جماعت/قوم کے پیسوں کی حفاظت سے ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اپنی قوم سے دیانت دار ہے۔ اس معاملہ میں بھی میں نے آپ کو دیانت دار اور دوسروں کے لئے نمونہ پایا۔ مثلاً وہ دَور بہت غربت کا دور تھا۔ مشن کے پاس مبلغین کو Facilitate کرنے کے لئے رقم میسر نہ ہوتی تھی۔ اُدھر افریقہ کا زہریلا مچھر جو دوائیوں سے بھی مشکل مرتا تھا اس کے لئے اور باتھ رومز کی صفائی کے لئے مشن مبلغین کو محدود سپورٹ کرتا تھا کیونکہ مربی کی اپنے الاؤنس سے ان اشیاء کی قوت خرید پہنچ سے باہر تھی ۔ جب مشن کے حالات بہت ٹائٹ ہو جاتے تو یہ محدود امدادبھی بند کرنی پڑتی تو سب سے پہلے اپنے معاون مبلغ کو بلا کر کہتے کہ میں ملک بھر کے مبلغین پر کچھ ماہ کے لئے ان چیزوں پر پابندی لگانے لگا ہوں ۔ آئندہ سے یہ چیزیں ہمارے مشن میں بھی نہیں آئیں گی۔

دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ پاکستان واپسی پر احبابِ جماعت نے تحفے تحائف آنجناب کو دئیے ۔ ان میں جو پسند آئے ان کی قیمت لگوا کر رقم مشن کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی اور باقی چیزیں ویسے ہی مشن کے حوالہ یہ کہتے ہوئے کر دیں کہ ’’اگر میں محمد صدیق کی حیثیت سے یہاں آیا ہوتا تو کس نے مجھے پوچھنا تھا ؟ یہ سب تحائف جماعت اور خلیفۃ المسیح کے نمائندہ کی حیثیت سے مجھے ملے ہیں جو جماعت کا حصہ ہیں۔‘‘

آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کھانے اور ضرورت کی اشیاء کے لئے جو ملتا اس میں ہنسی خوشی گزارہ کرتے۔ ایک دفعہ ہم مربیان نے آپ سے درخواست کی کہ الاؤنس کے اضافہ کے لئے حضور کی خدمت میں درخواست کی جائے۔ مہنگائی بہت ہو گئی ہے توآپ نے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے وقف کافارم پُر کرتے وقت لکھا تھا کہ جماعت جو الاؤنس دے گی اسے انعام سمجھ کر قبول کروں گا اور کسی قسم کے حق الخدمت کا مطالبہ نہیں کروں گا۔

آپ منجھے ہوئے ایڈ منسٹریٹر تھے۔ مبلغین سے نہایت شفقت اور محبت سے پیش آتے۔ بزرگ تھے ۔ تمام نوجوان مبلغین سے باپ کی طرح شفقت کرتے۔ ایک دفعہ ہم میں سے ایک مبلغ نے وہاں کے ماحول کی شکایت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے کر دی۔ اس کی انکوائری جب ہوئی تو ہماری میٹنگ میں پوچھنے لگے کہ اس کا اب کیا جواب دوں؟۔ اور آپ نے نہایت حکمت سے رپورٹ کرتے ہوئے اُس مبلغ سلسلہ پر آن نہ آنے دی۔
آپ منجھے ہوئے مقرربھی تھے ۔ انگلش اور اردو کی تحریر و تقریر میں خوب مہارت تھی ۔ بغیر نوٹس کے بولتے بلکہ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ آپ کسی جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے قرآن کریم کھول کر کوئی آیت ڈھونڈتے اور اس پر سیر حاصل بحث کرتے۔ مشن کے کام کرنے میں عار نہ سمجھتے۔ خود کمپیوٹر چلاتے ۔اس زمانہ میں فوٹو اسٹیٹ مشین کا تو زیادہ رواج نہ تھا، اور نہ ہی پریس مشینیں عام تھیں۔ اس لئے سائیکلو اسٹائل کر کے مختلف کاغذات اور جماعتی فولڈرز کی کاپیاں بنا لی جاتی تھیں۔ اس سارے عمل کے آپ ماہر تھے ۔ خاص قسم کے کاغذ پر پہلے خوشخط لکھتے اور پھر اس کاغذ کو مشین میں سیٹ کرتے اور مشین کو ہاتھ سے چلا چلا کر اس کی کئی کاپیاں بنالیتے۔ مشن ہاؤس کی گاڑی خود ڈرائیو کرتے۔

سیرالیون سے واپسی پر پہلے آپ جامعہ احمدیہ ربوہ میں بطور استادخدمت کرتے رہے۔ بعدہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا تقرر بطور نائب وکیل التبشیرتحریک جدید فرما دیا۔ جامعہ احمدیہ میں ہر دلعزیز استاد تھے۔ طلبہ آپ سےدینی امور میں کسب فیض کے ساتھ ساتھ بہت کچھ مثبت باتیں سیکھتے۔اپنی باریک اور مسحور کن آواز میں کلاس کے سارے وقت میں لیکچر دیتے اور اپنے شاگردوں کی کسی بھی بات کا غصہ نہ کرتے۔ جب نائب وکیل التبشیر کا قلمدان آپ کے سپرد ہوا تو وقت کی پابندی کے ساتھ دفتر تشریف لے جاتے اور پورا وقت خدمت کرنے کے بعد گھر واپس آتے۔ آپ اپنے محلہ دارالرحمت وسطی کے سالہا سال تک صدر بھی رہے۔ پنج وقتہ نمازیں مسجد میں ادا کرنے کا عالم یہ تھا کہ جب گھٹنوں میں تکلیف زیادہ ہوگئی تو کسی کے سہارے کے ساتھ چل کر نماز کے لئے تشریف لاتے، کمزوری بڑھی تو پہلے سٹک یعنی چھڑی پھر چار ٹانگوں والی واکر کے سہارے چل کر مسجد میں آکر نماز پڑھتے۔ اور جب بیماری نے زور مارا تو وہیل چیئر پرمسجد آتے۔ اکثر آپ کے بیٹے یا کوئی خادم آپ کو لانے کی خدمت پر معمور ہوتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک ہمت رہی مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کرتے رہے۔

اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں و خوبیاں ہمارے اندر سرایت کرے۔ آمین

(حنیف احمد محمود۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ جرمنی 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ