• 3 مئی, 2024

’’فساد سے بچو‘‘

’’فساد سے بچو‘‘
صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

مضمون کی ضرورت

آج دنیا میں ہر جگہ فتنہ و فساد موجود ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے اکثر وبیشتر اس کے لیے مذہب کواستعمال کیا جاتا ہے۔ ہر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد بیانات آتے ہیں کہ فساد سے بچنا چاہیے۔ مگر صد افسوس کہ دہشت گردی کے بعد ہمیں سمجھ آجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور المناک واقعات سے پہلے ہمیں سمجھ آجائے۔ یہ انتہائی اہم مضمون ہے اور غالب امکان ہے کہ اس مضمون کو نہ سمجھنے کی وجہ سے خد انخواستہ دنیا تیسری عالمی جنگ نہ دیکھے۔

حرف آغاز

قرآن کریم بھی اس کو ہدایت دیتا ہے جس کا دل پاک و صاف ہو۔ سورۃ البقرہکی آیت نمبر3 میں آتا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔جو متقیوں کو ہدایت دینے والی ہے ۔ ہمارے پیارے حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت قرآن، حدیث، اولیاء اللہ، فلکیات کے علوم، آ پ ؑ کی تحر یر ات سے ثابت ہیں۔ آپؑ کی شرائط بیعت بھی آپؑ کی صداقت کا ثبوت ہیں۔ ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری شرطِ بیعت ’’فساد سے بچو‘‘ ہے۔ آپؑ نے شرک سے بچنے کے بعد اس شرطِ بیعت کو رکھا ہے۔ آپؑ نے ہر خاص عام کو مطلع فرما دیا کہ کوئی بھی صورتحال ہو مگر فتنہ و فساد سے پرہیز کرنا۔

فساد کے معنی

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ فرماتے ہیں کہ:

’’فساد کے لغوی معنی ہیں حد اعتدال سے نکل جانا۔‘‘

(انوار القران، جلد اول صفحہ نمبر 309)

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر مسلمان نے کم ازکم ایک دفعہ زندگی میں ادا کیے ہوں گے یا پھر کم ازکم سنے ضرور ہوں گے۔ اس کلمہ میں سب سے پہلے لا کا لفظ ہے اس کے معنی ہے کہ نہیں۔ سب سے پہلے اس بات کا عہد یا اقرار کیا جاتا ہے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تمام جھوٹے خداؤں کا انکار کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جو اس حال میں مرا کہ وہ جانتا ہو کہ اللہ کہ سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔

(صحیح مسلم، جلد1 نمبر30)

اس کے بعد اللہ اور رسول پر ایمان ہے۔ کلمہ کے معنی ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس لا کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو صحیح سمجھنے سے ایک انسانیت کا اور دوسرا مذہب کا مضمون نکلتا ہے۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسی ’لا‘ کے مضمون کو غلط سمجھنے کی وجہ سے تشدد، فساد، بغاوت کا مضمون نکلتا ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ
اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے تجھے ان پر محافظ نہیں بنایا اور نہ ہی تو ان پر نگران ہے۔ اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔

(الانعام: 108۔109)

اب دیکھیں کلمہ میں اس با ت کا عہد ہے کہ کوئی اور خدا ہے ہی نہیں۔ اب یہ ہمارے تو ایمان کا حصہ ہے کہ ہم کسی اور کو خدا نہ مانیں۔ مگر اب غور کریں کہ ہم یہ ہی بات کسی ہندو کو کہیں کہ تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ انتہائی خطرناک نتائج نکلیں گے۔ کیونکہ ہندو کے نزدیک یہ گالی ہے۔ اب ایک جگہ کلمہ میں تو ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ کوئی اور خدا واحد اور لاشریک کے علاوہ ہے ہی نہیں۔ مگر دوسری طرف اللہ تعالی نے ہمیں قرآن میں سختی کے ساتھ یہ حکم دے دیا کہ کسی کی دل آذاری نہیں کرنی۔ اور نعوذ باللہ اگر ہم نے اس حکم نہ مانا تو فساد ہوگا۔

اگر کوئی خدا واحدلاشریک کے علاوہ کسی اور کو مانتا ہے تو ماننے دواور اس کو برا نہ کہو۔ دیکھئے اصول دے دیا گیا ہے کہ اختلاف رائے کی بنیاد پر، اعقاد کے اختلاف پر فساد نہیں برپا کرنا۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’خداتعالی نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے۔ کہ فرماتا ہے کہ یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو …….. پھر فرماتے ہیں کہ بتوں کی بد گوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھواور صرف نرمی سے سمجھاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیا ں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23 صفحہ نمبر 461-460)

غور فرمائیں فرماتے ہیں کہ زبان بند رکھو۔ مطلب کلمہ جو بنیاد ہے اسلام کی اس سے دوسروں کی دل آذاری ہوسکتی ہے۔اس لیے ہر وقت اللہ کا ذکر اپنی زبان پر رکھو ۔ لیکن اگر ہندو بھائی سے ملاقات ہو یا دوست ہو تو احتیاط کرنا کہ کسی طرح اس کی دل آذاری نہ ہو۔

ہمارے پیارے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ
’’کسی کی قابل قدر عزت چیز کو برا نہ کہو۔ پھر فرماتے ہیں کہ وہ چیزیں جنہیں دوسرے مذاہب والے عزت وتوقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جیسے بت وغیرہ ۔ ان کو بھی گالیاں مت دو۔ گو تمہارے نزدیک وہ چیزیں درست نہ ہوں۔ مگر پھر بھی تمہارا حق نہیں ہے کہ انہیں سخت الفاظ سے یاد کرو۔ کیونکہ اس طرح ان کے دل دُکھیں گے اور پھر لڑائی اور فساد پیدا ہوگا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 10، دنیا کا محسن صفحہ نمبر 289)

میں جو نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کسی صحیح چیز کا غلط استعمال خطرناک نتائج پیدا کردیتا ہے۔ دوبارہ میں ایک ہی با ت کو دہراؤں گا کہ کلمہ جو بنیا دہے ہمارے ایمان کا حصہ ہے مگر اس ہی کلمہ کے معنی ہم کسی ہندو سے کہیں کہ کوئی خدا ہے ہی نہیں اللہ واحد لاشریک کے سواء تم کس کی پوچا کررہے ہو۔ تو یہ ہندو کے نزدیک ایسی گستاخی ہے جس کا انجام فساد ہے۔ اس ہی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں روک دیا ہے کہ ہم نے کسی کی دل آزاری نہیں کرنی۔ اس آیت میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المذاہب کا اصول دے دیا گیا ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ سب کا ادب اور احترام کرنا ہے۔ کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرنی۔

بابا بلھے شاہ نے اس ہی نقطہ کو یوں بیان کیا ہے

؎ مسجد ڈھادے مندر ڈھادے
ڈھیندا جو کجھ ڈھادے
؎ اک بندے دا دل ناں ڈھاویں
رب!دلاں وچ رھیندا

اگر میں کلمہ اور سورۃ الانعام کے مضامین کو جمع کروں تو معنی یہ نکلتے ہیں جو ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے فرمائے ہیں۔ ایک طرف انسان بناؤ دوسری طرف مسلمان۔

(خطبات نور، جلد اول صفحہ75)

پھر قرآن میں آتا ہے کہ
لوگوں نے جو اپنے ہاتھوں بدیاں کمائیں ان کے نتیجہ میں فساد خشکی پر بھی غالب آگیا اور تَری پر بھی تاکہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے تاکہ شایدوہ رجوع کریں۔

(الروم: 42)

اب دیکھیں ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ نے شرائط بیعت میں سب سے اوپر فساد کے مضمون کو رکھا ہے۔ شرک کے بعد فساد کا مضمون ہے۔ اور اس کے بعد نماز، روزہ، حج، زکواۃ دین کے دیگر مسائل رکھے ہیں۔آج دنیا کو سب سے زیادہ فساد کے مضمون کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ آدھا عالم اسلام اس مضمون کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جل رہا ہے۔ اور باقی آدھے میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ دنیا میں ہر طرف افراتفری ہے۔ آج اگر ہم نے یہ مضمون پھیلا دیا کہ اسلام کی تعلیم ہے کہ فتنہ وفساد سے ہر صورت بچنا چاہئے تو دنیا خود کہے گی کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دنیا کی ضرروت ہے۔

پھر قرآن میں آتا ہے کہ
اور زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور اُن کے لئے بدتر گھر ہوگا۔

(الرعد: 26)

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ
’’لعنت اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔ جب اس سے دوری ہوتی ہے تو سُکھوں سے بھی دوری ہوجاتی ہے۔‘‘

(تفسیر حقائق الفرقان، جلد دوم صفحہ نمبر 419)

اللہ تعالیٰ کو فساد انتہائی ناپسند ہے۔ میں نے اس مقالہ کے لیے بیشمار حوالہ جات جمع کیے مگر ایک بھی ایسا حوالہ نہیں کہ جس کو میں بیان کرسکوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حوالہ جات اتنے خطرناک اور خون آلود ہیں کہ ان کو لکھا نہیں جاسکتا۔ اشارۃ ًایک حوالہ دیتا ہوں۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو دیکھئے۔ ان کے اوپر کتنی ظلم وزیادتی ہورہی ہے۔ آئے دن بیچاروں کو شہید کیا جاتا ہے۔ اور ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی میتیں لے کر پھر روڈوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں کوئی شیعہ نہیں مگر فساد تو فساد ہے جس کسی کے ساتھ بھی ہو۔

قرآن میں آتا ہے کہ
اور زمین میں فساد (پھیلانا) پسند نہ کر۔ یقیناً اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔

(القصص: 78)

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒفرماتے ہیں کہ ’’قرآن کریم کا ایک حکم ہے کہ فساد نہ کرو۔ اورقرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں سے پیار نہیں کرتابلکہ ایسے لوگ اس کے غضب کے نیچے آجاتے ہیں۔‘‘

(انوار القرآن، جلد اول صفحہ309)

اللہ تعالیٰ نے بار بار تاکید فرمائی ہے کہ فساد کسی بھی صورت اور حالت میں برپا نہیں کرنا۔

اور جب وہ صاحب اختیار ہوجائے تو زمین میں دوڑا پھرتا ہے تا کہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

(البقرہ: 206)

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ ’’اسلامی تعلیم نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ وہ اس سے نفرت کرتا ہے‘‘

(انوار القرآن، صفحہ 294)

پھر آتا ہے کہ اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کروتو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض اصلاح کرنے والے ہیں۔خبردار! یقیناًوہی ہیں جو فساد کرنے والے ہیں لیکن وہ شعور نہیں رکھتے۔

(البقرہ :12-13)

ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کو مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو! یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پر فساد کررہے ہیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ، سورۃ البقرہ صفحہ82)

کتنی واضح آیات ہیں کہ ہر مذہبی انتہا پسند جماعت اور تنظیم جو معاشرے میں شورش اور بے چینی پیدا کرتی ہے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اصل میں تو وہ فساد نہیں برپا کر رہی۔

ہمارے پیارے حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث ؒفرماتے ہیں کہ

’’فساد کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔‘‘

(انوار القرآن، جلد اول صفحہ309)

احادیث کی روشنی میں

قرآن میں آتا ہے کہ
ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کریں گے۔اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔

(البقرہ: 286)

اس آیت میں اور مندرجہ ذیل احادیث میں مضمون ایک ہی ہے۔ اب اس آیت میں مضمون یہ ہے ہم کسی کے درمیان تفریق نہیں کریں اس بنیاد پر کہ کسی کی دل آزاری ہو۔ قرآن کریم کی آیت پیش کرنے کے بعد میں وہ احادیث پیش خدمت کرتا ہوں جن میں یہ ہی مضمون ہے کہ کسی سے ایسی بات نہیں کرنی جس سے معاشرے میں نقص امن ہو۔ مندرجہ ذیل تمام احادیث مندرجہ بالا قرآن کے مضمون کی تائیدکرتی ہیں۔ ان تمام احادیث میں وہ ہی مضمون ہے کہ کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرنی۔ مذہبی بنیاد پر، مختلف عقائد کی بناء پر یا مختلف نظریات کی بناء پر ایک دوسرے کی دل شکنی نہیں کرنی۔

1: ہمارے پیارے حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ؛ انبیاء کے درمیان فضیلت (کا مقابلہ) نہ کیا کرو۔

(صحیح مسلم، جلد 12حدیث نمبر4364)

ہمارے پیارے آقاومولا حضر ت محمد مصطفی ﷺ نے کتنا پیارا اصول دیا ہے کہ معاشروں میں اس طرح سے انبیاء کا موازنہ نہ کیا کرو۔ جس سے نقص امن کا خطرہ ہو۔

2:آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی یوں نہ کہے کہ میں یونسؑ سے بہتر ہوں۔

(صحیح بخاری، جلد6 حدیث نمبر4312)

اس حدیث کا بھی مطلب یہ ہی ہے کہ آپس میں پیار ومحبت کے ساتھ تما م لوگ رہیں۔

3: آپ ﷺ نے فرمایا: کسی بندے کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس متی سے بہتر ہوں۔

(صحیح بخاری جلد6 حدیث نمبر3416 اور صحیح مسلم جلد12 حدیث نمبر 4367)

اب غور فرمائیں کہ ہمارے پیار ے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ تاکیدی حکم فرمارہے ہیں کہ کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرنی۔ روزمرہ کے معاملات میں، زندگی کے کاموں میں، ہر روز ایسے لوگ ملیں گے جن کے عقائد مختلف ہوں گے مگر سب کے عقائد کا احترام کرنا ہے۔ ان احادیث کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرے کے عقائد کا احترام اور عزت نہیں کرو گے تو زمین میں فساد برپاہوگا۔

یہاں پر ایک با ت واضح کردوں کہ ہمارے آقا ومولا آنحضرت خاتم النبین محمد مصطفیﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور تمام نبیوں کے بادشاہ ہیں۔ مندرجہ بالا احادیث میں مضمون دوسر ا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ معاشرہ میں کوئی ایسا عمل اور فعل نہیں کرنا کہ جس سے فساد ہو۔

قرآن میں آتا ہے کہ
یہ وہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض (دوسروں) پر فضیلت دی۔ بعض ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ نے (روبرو) کلام کیا۔ اور ان میں سے بعض کو(بعض دوسروں سے)درجات میں بلند کیا۔

(البقرہ: 254)

پھر قرآن میں آتا ہے کہ

اور ہم نے تیر ے لئے تیرا ذکر بلند کردیا۔

(الم نشرح: 5)

ہمارے پیارے آقاومولا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے باپ اور اس کے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اسے پیارا نہ ہوں۔

(صحیح بخاری، جلد اول حدیث نمبر 15)

اسی طرح کا مضمون حدیث نمبر 14 میں بھی ہے۔

گستاخ اور اسلام کی تعلیمات

اس مضمون کو بھی سمجھنے کی ضرروت ہے۔

قرآن میں آتا ہے کہ
تُو اور تیرا بھائی میرے نشانات کے ساتھ جاؤ اور میرے ذکر میں سستی نہ دکھانا۔ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ۔ یقینا ًاس نے سرکشی کی ہے۔ پس اس سے نرم بات کہو۔ ہوسکتا ہے وہ نصیحت پکٹر ے یا ڈرجائے۔

(طٰہٰ :43 تا 45)

پھر دوبارہ اس آیت میں اس چیز کا ذکر ہے کہ اختلاف رائے کی بنیاد پر یا مختلف عقائد کی بنیاد پر فساد نہیں برپا کرنا۔ اب دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمادیا ہے کہ فرعون نے گستاخی کی مگر اس کے باوجود بھی اس سے نرمی سے با ت کرو۔

جب آنحضرت محمدﷺ کے دربار میں گستاخ کا معاملہ پیش ہوا تو آپﷺ کا فیصلہ دیکھئے۔

4: حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
ایک با ر ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا۔ اس کو اس سامان کی کچھ ایسی قیمت پیش کی گئی کہ جس کو اس نے برا منایا اور اس نے کہا: نہیں ۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام بشر سے بہتر چنا۔ انصار میں سے ایک شخص نے یہ بات سنی وہ اٹھا اور اس نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا : تو یہ کہتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے موسی ؑکو تمام بشر سے بہتر سمجھ کر چن لیا ہے۔ حالانکہ نبی ﷺ ہم میں موجود ہیں۔ وہ یہودی آپﷺ کے پاس گیا اور کہا : ابو القاسم ! میری حفاظت کا آپﷺ نے ذمہ لیا ہوا ہے اور میر ے ساتھ معاہدہ ہے۔ پھر فلاں کو کیا شہ تھی کہ اس نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ۔ آپ ﷺ نے (انصاری کو بلا کر) پوچھا تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟ اس نے واقعہ بیان کیا۔ نبی ﷺ یہ سن کر اس قدر غصہ میں آئے کہ آپﷺ کے چہرہ سے وہ غصہ دکھائی دیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ کے نبیوں کو ایک دوسرے پر فضیلت مت دو۔

(صحیح بخاری، جلد6 حدیث نمبر3414 اور مسلم جلد12 حدیث نمبر 4363-4362)

5: ایک اور حدیث میں اسی طرح کا مضمون آتا ہے اور ہمار ے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء کو ایک دوسرے پر (اس طرح) فضیلت نہ دیا کرو۔

(صحیح بخاری، جلد4 حدیث نمبر2412)

اسی مضمون کے معاشرے میں مختلف عقائد اور نظریات کے لوگ ملیں گے مگر کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرنی۔

پھر ایک اور جگہ آتا ہے کہ ہمارے پیار ے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسی ؑ پر مجھے فضیلت مت دو۔

(صحیح بخاری جلد6 حدیث نمبر3408)

اب دیکھیں احادیث میں ہمارے آقا ومولا آنحضرت محمدﷺ نے گستاخ کا فیصلہ فرمادیا اور تاکیدی ہدایت فرمائی کہ انداز بیان ایسا رکھنا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ کوئی ایسا کام یا عمل بجا نہیں لانا جس سے نقص امن کا خطرہ ہو۔ اور کتنے پیار سے مگر انتہائی تاکیدی ہدایت فرمائی کہ بازاروں میں، روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں، مختلف معاشروں میں ہر طرح کے لوگ ملیں گے جو مختلف مذہبی عقائد رکھتے ہوں گے۔ ان سب کے ساتھ پیار کے ساتھ ادب کے ساتھ حسن سلوک فرمانا۔

آج ہمارا سلوک کیا ہے؟ ہمارا سلوک تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ بازاروں میں بینر لگے ہوتے ہیں قادیانی کا داخلہ منع ہے۔ کوئی روزمرہ زندگی کا معاملہ ہو ۔ جواب ہوتا ہے ہمارے عقائد کیا ہیں ۔ کوئی احمدی گھر خریدنا چاہے یا کرائے پر لینا چاہے تو سوال ہوتا ہے کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے۔عقل کے خلاف بات ہے۔ انسانیت کے خلاف عمل ہے۔ اور سب سے بڑھ کرآنحضر ت محمدﷺ کے فیصلہ کے خلاف ہے۔

ہمیں اپنا سر آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کے آگے جھکا دینا چاہیے۔

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں جس چیز سے منع کروں ۔ اس سے رک جاؤ اور جس کا میں تمہیں حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے کرو۔

(صحیح مسلم، جلد12 حدیث نمبر 4334)

ہمیں کسی بھی طرح اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے آگے قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ قرآن شریف میں آتا ہے کہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کیا کرو۔

(الحجرات: 2)

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ
’’اسی طرح ایک فساد کا طریق یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘

(تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، سورۃ البقرہ صفحہ نمبر 176)

آئے دن ملّا حضرات لوگوں پر توہین کا الزام لگاتے ہیں۔ خود انہوں نے جو پاکستان کی اسمبلی میں کیا اس پر تما م علماء خاموش ہوگئے تھے۔ وہ اردو زبان میں کہتے ہیں کہ جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ میرا اشارہ سابق صدر پرویز مشروف کے دور میں جب ویمن بل پیش کیا گیا تو علماء کرام نے پاکستان کی اسمبلی میں جوحرکات کیں وہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ علماء کرام نے جو اس وقت پاکستان کی اسمبلی میں کیا وہ توہین نہیں تھی؟

میرا دل سے سلام ہے محترم شیخ وقاص اکرم ۔سابق رکن قومی اسمبلی کو۔ جنہوں نے اس پر نام نہاد علماء کرام کو اسمبلی کے اندر نومبر 2006ء کو کرارا جواب دیا۔

ان کی تقریر کے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ شیخ وقاص صاحب نے اسمبلی کے فلور پر کہا۔ ہمارے واویلے کے باوجود لوگ سمجھ نہیں سکے ابھی تک کون سا گناہ سرزد ہوگیا ہے اس پارلیمنٹ کے اندراور کس نے وہ گناہ سرزد کیا ہے۔ یہ لوگ (علماء) جنہوں نے الیکشن کے دوران اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کے نظام کو نافذکرنے کے لیے نعرے لگائے۔ تحریکیں چلائیں۔ جلسے کیے، جلوس کیے آج انہوں نے اس ملک کے قانون ساز ادارہ میں، ہم تمام قانون بنانے والوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے نام کو پھاڑ کے چاک کرکے (نعوذباللہ) یہاں پھینک کر اپنی جماعت کا رقص کیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ مجھ (شیخ وقاص) سے سرزد ہوگیا ہوتا یا کسی غیرمسلم سے سرزد ہوگیا ہوتا تو پھر یہ جو (علماء) یہاں بیٹھے ہیں ان کا کیا ردّ عمل ہوتا؟ میں (شیخ وقاص) بتاتا ہوں آپ کو۔ یہ کہتے کہ اس کے گھر کو آگ لگا دو۔ اس کو سنگسار کر دو۔ اس کو قتل کردو۔ اس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں یہ تمام کی تما م باتیں ان کے اوپر لگتی ہیں۔ یہ وہ لوگ (علماء) ہیں جنہوں نے آج ہمارے سامنے ہمارے بنیادی اسلامی عقائد کو ہی پھاڑ کر پھینک دیا ہے یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر جا کر لوگوں کے سامنے ڈرامہ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے چوکیدار ہیں۔ یہ اسلام کے چوکیدار نہیں ہیں۔ یہ اسلام کو بیچنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کتاب کے نشان کو لوگوں کے سامنے رکھ کر کہا یہ کتاب کا نشان، کتاب کا نشان نہیں ہے یہ قرآن ہے۔ انہوں نے ایسے دھوکہ، ایسے ڈرامے سے لوگوں سے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ خدا کے لیے خدا کے لیے اس ملک کو بچائیے۔ ان (علماء) ظالموں سے اس ملک کو بچائیے۔ یہ وہ لوگ (علماء) ہیں جنہوں نے ہر دور میں اسلام کو بیچا ہے ۔ اللہ کے نام کی بے حرمتی کرنے والو (علماء) تم تو دائرہ اسلام سے فارغ ہو چکے ہو۔ خدا کے لیے خدا کے لیے مجھے اور میرے اس ملک کو خدا کے لیے میرے اس پیارے ملک کو کسی مولوی نے نہیں بنایا۔ خدا کے لیے اس ملک کو ڈرامہ بازوں سے ،ان لوگوں (علماء) سے جو اسلام بیچتے ہیں بات بات پر بیچتے ہیں ان سے چھٹکارا دلایا جائے۔ ملک میں اگر اسلام نافذ کرنا ہے تو ان لوگوں سے جان چھڑا لو۔ ورنہ یہ ملک تبا ہ ہوجائے گا۔ اور لوگ اسی طرح ہمیں دہشت گرد کہتے رہیں گے۔ اسلام کو بیچنے والے ہیں۔ یہ ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے اس ملک کو ان سے بچاکر رکھے۔

(Youtube: Sheikh Waqas on Maulvis in National Assembly of Pakistan)

اسپیکرپنجاب اسمبلی سے ایک گذارش

محترم اسپیکر پنجاب اسمبلی محترم پرویزالہٰی صاحب نے بیان دیا کہ جب تک احمدی اپنے آپ کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے تب تک اقلیتی کمیشن میں احمدی نہیں آسکتے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے فیصلہ احمدیوں پر چھوڑ دیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ فیصلہ کرنا کس نے ہے؟ 1974ء میں جب ہمیں اقلیت قرار دیا گیا اس وقت آپ لوگ کہتے تھے کہ فیصلہ آپ کا چلے گا۔ ہمارے پیارے حضر ت خلیفتہ المسیح الثالثؓ نے بار ہا سمجھا یا قرآن وحدیث کے حوالہ جات دیئے مگر آپ لوگوں نے ایک نہ سنی اور فیصلہ ہمارے خلاف دیا۔ پھر 1984ء میں ہمارے پیارے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ؒنے سمجھایا کہ یہ امتناع قادیانیت آرڈنینس بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ قرآن وحدیث کے خلاف ہے مگر آپ لوگوں نے ہماری ایک بات نہ سنی اور وہ کیا جو آپ کی مرضی تھی۔ مگر آج آپ نے یہ کہہ دیا کہ اقلیتی کمیشن کا فیصلہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ فیصلہ کرنا کس نے ہے؟ ہم احمدیوں نے یا پھر آپ نے۔ اگر ہم نے فیصلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے 1974ء کی قرارداد ختم کی جائے اور اس کے بعد 1984ء کا امتناع قادیانیت آرڈیننس ختم کیا جائے ۔ اس طرح اقلیتی کمیشن کا معاملہ خودبخود حل ہوجائے گا۔

قرآن شریف میں آتا ہے کہ
اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گا ہ مہیا کرنے کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی سے لڑائی کررہا ہے ایک مسجد بنائی ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سواء اور کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گوائی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔

(التوبہ :107-108)

ہمارے پیارے حضر ت خلیفتہ المسیح الثالث ؓ فرماتے ہیں کہ
’’قرآن کو کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی مگر قرآن کریم نے فتنہ کا دروازہ بند کردیا ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ جلد دوم، سورۃ التوبہ صفحہ نمبر 251)

مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ اس لیے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ اور اللہ نے ہی فیصلہ فرمادیا۔ اس لیے اس کی یہ تفسیر یا معنی کہ کسی مسجد کو مسمار یا گرا دینا چاہیے۔ بالکل غلط ہے۔ کوئی انسان یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کسی کی بھی مسجد کو مسمار یا گرادیا جائے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ کسی کی بھی عبادت گاہ کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہیے۔ اور ہر ایک کا فرض ہے کہ احترام کیا جائے۔ لیکن اس آیت میں ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فساد پسند نہیں۔
میں تو جب احمدی مساجد پر پولیس کی کاروائی دیکھتا ہوں کہ کس طرح کلمے کو مٹا رہے ہوتے ہیں یا دوسری ایسی کاروایاں نظر کے سامنے سے گذرتی ہیں کہ جب احمدی مساجد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہو ں اور فکر میں پڑجاتاہوں کہ کس طرح یہ عمل کیا جاسکتا ہے۔ جواب ان کے یونیفارم پر یہ تحریر پڑھ کر مل جاتا ہے۔ NO FEAR

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ فرماتے ہیں کہ
’’یہ صلاح کا دعوی کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں۔ یہ درحقیقت دنیا میں فساد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

(انوار القران، جلد اول صفحہ نمبر 299)

اس تنظیم کے متعلق چند اخبارات کی خبریں بلاتبصرہ سامنے رکھتا ہوں۔

تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا فیصلہ ۔ ٹی ایل پی کی پرتشدد کاروائیوں سے 2 اہلکار شہید 580 زخمی ہوئے۔ 30گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔

(15 اپریل 2021ء روزنامہ ایکسپریس لاہور)

تحریک لبیک کالعدم۔ انکے اقدام امن وسلامتی کی لئے خطرح تھے۔ نوٹیفیکیشن جاری۔

(16 اپریل 2021ء روزنامہ ایکسپریس لاہور)

مسلح جتھوں کو ملک کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ مذہب کے نام پر شدت پسند ی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

(وزیراعظم، 16 اپریل2021ء روزنامہ ایکسپریس لاہور)

ٹی ایل پی کالعدم تنظیموں میں شامل ، خیرات امداددہشتگردوں کی مالی معاونت کے مترادف ہوگی۔

(17اپریل 2021ء روزنامہ ایکسپریس لاہور)

کالعدم ٹی ایل پی فتنہ تھا۔

(فواد چوہدری وفاقی وزیر۔ 18اپریل 2021ء روزنامہ ایکسپریس لاہور)

ملفوظات ۔ایڈیشن1988ء جلد پنچم میں آتا ہے کہ
’’کسی دشمن کا ذکر تھا کہ وہ شرکرے گا۔ اور حضور کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ اس پر ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ہم اس بات سے کب ڈرتے ہیں وہ بے شک کرے بلکہ ہم خوش ہیں کہ وہ ایسا کرے کیونکہ ایسے ہی موقعہ پر اللہ تعالی ہمارے واسطے نشانات دکھلاتا ہے۔ ہم خوب دیکھ چکے ہیں کہ جب کبھی کسی دشمن نے بدی کے واسطے منصوبہ کیا خدا تعالی نے ہمیشہ اس میں سے ایک نشان ہماری تائید میں ظاہر فرمایا۔ ہمارا بھروسہ خدا پر ہے انسان کچھ چیز نہیں۔‘‘

دیکھیں اگر مخالفین احمدیت کو ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ کی ختم بنوت کی تعریف اور تشریح سے اختلاف ہے تو یہ کوئی ایسی با ت نہیں کہ جس سے آپس میں نفرت اور فساد برپا کیا جائے۔احمدیوں کو شہید کیا جائے اور ان کے لئے روزمرہ کی زندگی گز ارنا مشکل بنا دیا جائے۔ان کے لئے زمین تنگکردی جائے۔ ہرروز دنیا میں احمدیوں کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو احمدی نہیں ہیں۔ لیکن ہم ان سے پیار اور محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اکثر وبیشترغیر احمدی بھی عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مختلف عقائد اور نظریات کو ماننے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے سے نفرت کریں۔ انتہائی مختصر یہ ہے کہ ہم احمدیوں کو دنیا بھر میں جتنے بھی غیر احمدی (مسلم یا غیرمسلم) ملتے ہیں وہ آپؑ کی ختم نبوت کی تعریف وتشریح سے متفق نہیں ہوتے ، وہ وفات مسیح علیہ السلام کے مضامین سے مطمئن نہیں ہوتے ۔اگر وہ متفق ہوتے تو احمدی ہوتے ۔ مگر ان سب اختلافات کے باوجود وہ عزت و احترام کے ساتھ ملتے ہیں۔

آخری زمانہ کے علماء

اب میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سواء اسلام کا کچھ باقی نہ رہے گا۔ الفاظ کے سواقرآن کا کچھ باقی نہ رہے گا۔ یعنی عمل ختم ہوجائے گا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوںگی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہوں گے۔ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔ مشکوۃاور کنزالعمال میں تو الفاظ آتے ہیں کہ آنحضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ لوگ ان سے ہدایت لینے جائیں گے اور ان علماء کو سور اور بندر کی مانند پائیں گے۔

آج یہ پیشگوئی پوری شان وشوکت کے ساتھ پوری ہوگئی ہے۔

مجلس عرفان 2مئی 1997ء بمقام ہالینڈمیں ایک غیر احمدی دوست نے ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؓ سے سوال کیا کہ آپ کی جماعت میں بھی تو مولوی حضرات ہوتے ہیں ۔ آپ نے بڑا پیارا جواب دیا اور یہ فتوی ہے۔

آپ نے تاریخی جواب دیا کہ ہمارے مولوی فتنہ و فساد نہیں کرتے۔ مگر اگر کریں گے تو میں خود ان کو جماعت سے باہر نکا ل دوں گا۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال

ہمارے پیار ے آقا ومولا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔

(صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 121)

آج ہمارے آقا ﷺ کی ہدایت کے برعکس عمل ہورہا ہے۔ افغانستان میں مذہبی انتہا پسنداپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون کررہے ہیں۔ اور جب ان کو حکومت ملی تو کہا گیا کہ فتح مکہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

اصل میں ایسی باتیں اس وقت ہوتی ہیں جب علم سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہ ہو۔ ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ، اس گھڑی کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت مستحکم ہوجائے گی۔

(صحیح بخاری جلد اول صفحہ نمبر155-154 کتاب علم، حدیث نمبر 80)

افغانستان میں لوگ مذہبی انتہا پسندوں کے خوف سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہاں تک خبریں آئیں کہ جہازوں کے پروں سے لٹک لٹک کر مسلمان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ اور اس میں کچھ نے اپنی جانیں بھی ضائع کیں۔ آپ وہ خوف کی کیفیت کا اندازہ کریں کہ اپنے ہی ملک کے شہری اور ہم مذہب مسلمان کلمہ گو ان شدت پسندوں سے پناہ کی تلاش میں ہیں۔ اور اس پر ہم سے یہ سوال ہوتا ہے کہ امام کی ضرورت کیا ہے؟

مسلمانوں کی حالتِ زار علامہ اقبال کی نظر میں

آج کل کے علماء کرام علامہ اقبال کے اشعارہر موضوع پر پیش کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے ان کے اشعار ہر معاملے میں سندکا درجہ رکھتے ہیں۔ اب اس ہی فتنہ وفساد کے بارے میں علامہ اقبا ل فرماتے ہیں کہ

؎ اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
؎ ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

وہ جو اقبال نے کہا کہ نعرہ تکبیر بھی فتنہ، یہ مندرجہ ذیل خبر اس کی عملی تصویر ہے۔

Eight year Old becomes youngest person charged with blasphemy in Pakistan. Hindu boy faces possible death penalty after being accused of intentionally urinating in a madrassa Library.

(Monday 9 2021. The Guardian)

اب یہ خبر دنیا کے اخباروں میں لگی اور سوشل میڈیا پر تو جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ہندو بچے کے اس عمل پر فساد برپا ہوگیا۔ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے مندر کو نقصان پہنچایا گیا۔ (دیکھیں وہی بات جو میں سارے مقالہ میں کہنا چاہ رہاہوں کہ صحیح عمل بھی غلط ہو جاتا ہے ۔ اب دیکھیں نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے مندر کو نقصان کردیا۔) خوف وہراس کے سبب ہندو گھرانے شفٹ ہو گئے۔ اس خبر سے دنیا میں کیا اسلام کا تا ثر گیا ہو گا؟

اس خبر سے انتہائی منفی تاثر دنیا میں گیا۔اس طرح کے واقعات پر جب غیر احمدی مسلمان منفی تبصرہ کرتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ مگر وجہ کون بنا۔؟ نادان مسلمان۔

اقبال فرماتے ہیں کہ

؎ وضع میں تم ہونصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

اس افسوناک واقعہ پر پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے نوٹس لیا۔

سپریم کورٹ

رحیم یارخان میں مندر جلانے والوں کی گرفتاری کا حکم:
سوچیں ان کے دل پر کیا گذری ہوگی۔سوچیں مسجد گرادی جاتی تو مسلمانوں کا کیا ردعمل ہوتا۔ پاکستان کی بدنامی ہوئی۔

(چیف جسٹس آف پاکستان روزنامہ ایکسپریس لاہور 7 اگست 2021ء)

چیف جسٹس صاحب! آپ نے اختلاف عقائد کو مدنظر نہیں رکھا اور انصاف کو معیار بناتے ہوئے ایکشن لیا۔ چیف جسٹس صاحب! میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ جب احمدیوں کے خلاف ظلم وستم ہوتا ہے تو پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے ۔براہ کرم اس پر بھی توجہ دی جائے۔

5اگست 2021ء کو محترم عمران خان صاحب وزیراعظم پاکستان نے اپنے Twitter account پر بیان دیا۔ میں رحیم یارخان میں بھونگ کے مقام پر واقع گھنیش مندر پر کل کے حملہ کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

وزیراعظم صاحب ! شکریہ کہ آپ نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور اختلاف عقائد کو سامنے نہیں رکھا۔ اور انسانیت کو سامنے رکھ کر اس عمل کی مذمت کی۔

یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ احمدیوں سے وابستہ جب کوئی مسئلہ آتا ہے تو احمدیوں کے عقائد کو کیوں مدنظر رکھا جاتا ہے؟ اس وقت ہر کوئی یہ معیا رکیوں نہیں اپنا تا کہ جو کوئی بھی احمدیوں کے عقائد اور نظریات ہوں ، ان کو رکھنے دیے جائیں۔ آپ ان سے اختلاف کریں مگر شائستگی کے ساتھ، احترام کے ساتھ احمدیوں سے اختلاف کریں۔ پیار کے ساتھ احمدیوں کے ساتھ اختلاف رکھیں۔ دنیا میں شائد ہی کوئی احمدی ہو جس کو ہر روز یا کوئی نہ کوئی غیر احمدی مسلم یا غیر مسلم نہ ملتا ہو۔ اس کی اگر تفصیل میں جائیں تو مطلب یہ کہ وہ ہمارے نظریات اور عقائد سے متفق نہیں ہوتے۔ اگر متفق ہوتے تو احمدی ہوتے۔ اس کے باوجود بھی وہ اور ہم پیار اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔

4فروری 1955ء کے خطبہ جمعہ میں ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ:
’’جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض اللہ تعالی نے یہ بتا ئی ہے کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے۔ جو لوگ مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلامی تعلیم کو بھول گئے ہیں اُن کو دوبارہ اسلامی تعلیم سے واقف کیا جائے۔‘‘

(خطبات محمود، جلد36 صفحہ31)

اب آپ کے سامنے ہمارے پیارے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے حکم کے مطابق حقیقی مذہب اسلام کی تعلیم رکھتا ہوں۔

صحیح مسلم جلد نمبر دوم میں آتا ہے کہ ہم مسجد میں رسولﷺ کے پاس تھے کہ ایک اعرابی آیا اور مسجد میں کھٹرے ہوکر پیشاب کرنے لگا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کہنے لگے رک جاؤ رک جاؤ ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کا پیشاب مت روکو، اسے چھوڑ دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پیشاب سے فارغ ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اس سے فرمایا یہ مساجد پیشاب اور گندگی وغیرہ کے لئے نہیں ہوتیں۔ یہ تو صرف اللہ عزوجل کے ذکر، نماز اور قرآن پڑھنے کے لئے ہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں میں سے کسی کو حکم فرمایا وہ پانی کا ڈول لایا تو وہ اس نے اس پر بہا دیا۔

(صحیح مسلم، جلد2، حدیث نمبر 421)

آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ حدیث کتنے غیر مسلموں تک پہنچی کتنے مسلمان بھی اس حدیث سے واقف ہونگے۔ اور ہندو بچے کی خبر کتنے لوگوں تک پہنچی ؟ دنیا کی اکثریت نے ہندو بچے کی خبر سے مذہب اسلام کا منفی تا ثر لیا ۔ اس خبر سے میرے اوپر حضرت مسیح موعودؑ کی ایک اور صداقت بھی ظاہر ہوگئی اور وہ یہ کہ کیوں آپؑ نے تاکید فرمائی کہ قلم سے جہاد کیا جائے۔ (آپؑ فرماتے ہیں کہ اس وقت قلم کی ضرورت ہے۔ ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر50) دیکھیں جنگل کی آگ کی طرح ہندو بچے کی خبر دنیا میں پھیلی اور مندرجہ بالا حدیث چند لوگوں تک اور وہ بھی شائد وہ ہوں جو پہلے سے ہی واقف ہوں۔

24اپریل 2021ء کو وزیراعظم پاکستان کا ایک ٹوئٹ بھارت میں کوویڈ کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بارے میں آیا۔

آپ نے بھارت کے شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

(روزنامہ ایکسپریس لاہور، 25 اپریل 2021ء)

ماشاء اللہ بہت اچھی با ت ہے۔ مگر خاکسار کا ایک سوال یہ ہے کہ اس نیک خواہشات میں ہندوستان کے احمدی بھی شامل ہیں؟ اس لیے کہ سانحہ لاہور کے بعد جب ایک سابق وزیراعظم پاکستا ن نے احمدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے احمدیوں کو بھائی قرار دیا تھا تو ایک فساد ملک میں برپا ہوگیا تھا۔

وزیراعظم پاکستان نے بیان دیا کہ،
مغربی ملک سوشل میڈیا پر نفرت انگیز انتہا پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ آزادی اظہار کی حد وہاں تک ہے جہاں دوسرے اس سے مجروح نہ ہوں۔ مغربی ممالک کی قیادت اس معاملے کو ابھی تک سمجھ نہیں رہی۔ عمران خان۔

(روزنامہ ایکسپریس لاہور 13جون 2021ء)

محترم عمران خان! وزیراعظم پاکستان آپ اپنے ملک میں تو ایکشن لیں۔ آپ اگر اس کو سمجھ گئے ہیں تو فورا ایکشن لیں اور ہدایت جاری کریں کہ احمدیوں کے خلاف نفرت کی فضا ختم کی جائے۔ آپ مغرب کو تو یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ انسانیت کو مدنظر رکھنا چاہیے اور کسی بھی صورت میں مختلف عقائد اور نظریات کی بنیا د پر فساد نہیں کرنا چاہیے۔ اسی اصول کو آپ ملک پاکستا ن میں کیوں نہیں نافذ کرتے؟ آپ سے گذارش ہے کہ ملک ارض پاکستان میں بھی اسی اصول کو سختی کے ساتھ نافذ کریں۔ آپ سوشل میڈیا، اخباروں، بازاروں اور ہر وہ جگہ جہاں احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اس کو ختم کریں۔ میں بلکہ یہ کہوں گا ہر کسی مذہب وملت اور فرقہ کے خلاف نفرت کا بازار ختم کیا جائے۔ محترم وزیراعظم صاحب یہ نفرت کی آگ بے انتہا بڑھتی جارہی ہے۔ خدا کے لیے کچھ کریں۔ دیکھیں حا ل ہی میں ستمبر 2021ءکے پہلے ہفتہ میں ایک احمدی کو ننکانہ صاحب میں شہید کیا گیا۔ آپ اس کے خلاف سخت ایکشن لیں۔ اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر ملزمان کو عبرت کا نشان بنائیں۔ اور آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہو اس لیے نفرت کے ماحول کو ختم کیا جائے۔

8ستمبر 2021ء کو خبر لگی کہ پاکستان کو قادیانیوں اور قادیانی نوازوں کے لیے تنگ کردیں گے۔ قادیانی اس ملک کے ازلی دشمن ہیں۔

(روزنامہ ایکسپریس لاہور)

رہا یہ کہ زمین تنگ کردیں گے، وزیراعظم صاحب اس نفرت انگیز بیان کا نوٹس لیں! پھر یہ کہ ملک کے ازلی دشمن ہیں پر تو میں صرف یہ ہی کہہ سکتا ہوں۔

احمد فراز کے اشعار میں جواب۔

؎ چمن کو جب بھی لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی ہماری گردن کٹی
؎ پھر بھی کہتے ہے نادان اہل چمن
یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں

عمران خان صاحب وزیراعظم پاکستان !آپ سے انتہائی ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ ہر قسم کے فساد کو ختم کریں۔ اس نفرت کی آگ پر پانی ڈالیں۔ محبت کا، انسانیت کا،ہر طرح کے فساد سے بچنے کا ۔تا کہ قوم کی تقدیر بدلے۔اس کے لیے آپ کو کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ آپ تو لیڈر ہیں، آپ وزیراعظم ہیں، آپ تو تبدیلی کے نعرہ کے ساتھ آئے ہیں۔ آپ نے تو نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ بس تبدیل کردیں اس نفرت کی آگ کو محبت سے،پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ آپ کی کیسے غیب سے مد د فرماتاہے۔

قرآن میں آتا ہے کہ یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے تبدیل نہ کریں جو اُن کے نفوس میں ہے۔ اور جب اللہ کسی قوم کے بد انجام کا فیصلہ کرلے تو کسی صورت اس کا ٹالنا ممکن نہیں۔

(الرعد :12)

ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ کے چند اقتباسات

ہما رے پیارے حضر ت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ،ایڈیشن 1988ء صفحہ157)

ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ فتنہ کی کوئی بات نہ کرو۔ شر نہ پھیلاؤ۔

(ذکر حبیب ،صفحہ 439-436)

ہمارے پیارے حضر ت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔‘‘

(اشتہار مؤرخہ 29 مئی 1898ء تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ43-42)

ہمارے پیارے حضر ت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’دیکھو میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں با ر بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگاموں کی جگہوں سے بچتے رہو۔‘‘

(ملفوظات، جلد چہارم ایڈیشن1988ء صفحہ157)

فرماتے ہیں کہ بار بار میں کہتا ہو ں کہ فساد نہ کرو ۔ پھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مامور ہی اس لیے کیا ہے کہ یادہانی کراتا رہوں کہ فساد نہ کرنا۔

بس اب مقالہ ختم کرنے سے پہلے ایک مزاحیہ خاکہ مجھے یہاں پر یادآ گیا۔ پاکستانی ٹی وی پر 80 کی دہائی میں ایک مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی آتا تھا۔ اس میں ایک دفعہ ایک مزاحیہ خاکہ پیش ہوا۔ ایک چوکی پر پولیس والے گاڑی کی تلاشی لے رہے تھے ۔ انہوں نے پوری چھان بین کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس گاڑی میں کوئی اسلحہ نہیں اور اس کو جانے دیا۔ جیسے ہی اس گاڑی کو پولیس والوں نے جانے کا اشارہ کیا۔زوم کرکے دکھایا گیا کہ گاڑی کے اوپر توپ رکھی ہوئی تھی جو پولیس والوں کو نظر ہی نہیں آئی۔ بس میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو پوری طرح اندازہ نہیں ہے کہ خطرات کتنے بڑھ چکے ہیں۔ کہنے کو تو یہ تین لفظ ہیں کہ فساد سے بچو۔ اور دو عالمی جنگیں ہوچکی ہیں۔ دو کے بعد تین آتا ہے! اللہ تعالی ہم سب پر رحم فرمائے آمین ۔

فساد سے بچو۔صداقت مسیح موعودؑ

ہمارے پیارے حضر ت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’ میرے اور بھی بہت نشان ہیں ۔ اگر لکھے جائیں تو ایک کتاب بن جائے گی۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات، جلد دوم صفحہ246)

اب غور فرمائیں کہ کیا ہمارے پیارے حضر ت مسیح موعودؑکی شرائط بیعت فسادسے بچو سے صداقت مسیح موعودؑ ثابت نہیں ہوتی؟ہوسکتا ہے کہ کسی پر اب بھی فساد سے بچو سے صداقت مسیح موعودؑ ثابت نہ ہو ئی ہو ۔ ایسے تما م دوستوں کے لیے میں تا حیات اور تا قیامت ایک ایسا حل یا نسخہ پیش کرتا ہوں جو وہ ہمیشہ آزما سکتے ہیں۔ خدانخواستہ جب کبھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو تو اخبارت میں ان تمام بیانات کو پڑھ لیا کریں جو یک زبان ہوکر کہتے ہیں ہم اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ مطلب کہ فساد نہیں برپا کرنا چاہیے۔ اگر پہلے سمجھاؤ کہ فساد سے بچو تو غور سے سنتے اور سمجھتے نہیں۔

حرف آخر

مسلم ممالک اور عالمی طاقتیں اربوں ڈالر خرچ کر دیتی ہیں اپنی افواج پر تاکہ دہشت گردوں سے نبردآزما ہوسکیں ۔ مگر صد افسوس کہ اس مضمون کو نہیں سمجھتیں اور نہ ہی اس پر زور دیتی ہیں۔ اس وجہ سے ہر جگہ فساد کم ہونے کی بجائے بڑھ ہی رہا ہے۔ہمارے پیارے حضر ت خلیفۃ المسیح الثالثؓ فرماتے ہیں کہ
’’ ہمیں ہر جگہ فتنہ وفساد دکھائی دیتا ہے۔‘‘

(انوار القرآن، جلد اول صفحہ نمبر 301)

ہمار ے پیارے حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنضرہ العزیز با ر بار دنیا کو یہ مضمون سمجھارہے ہیں کہ فساد سے بچو۔

ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’دنیا میں تیزی سے تباہی آرہی ہے اور بڑی تیزی سے تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے۔ اس کی نزاکت کے پیش نظر ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 4 جون 2004ء خطبات مسرور جلد دوم صفحہ374)

پس پہلے عقل سے کام لینا چاہیے۔ اور ہر انسان کو جو بھی وہ عقیدہ رکھتا ہواس کا احترام کرناچاہیے۔ اس کے ساتھ پیار کے ساتھ رہنا چاہیے۔ادب کے ساتھ ملنا چاہیے ۔اور کسی بھی طرح کے فساد کو کچل دینا چاہیے اگر عقل سے کام نہ لیا تو خطرات کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جائیں گے۔ اور انجام فساد کا برا ہی ہوتا ہے۔
ہمارے پیارے حضر ت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ
’’ہم کوعقل سے بھی کام لینا چاہیے کیونکہ انسان عقل کی وجہ سے مکلف ہے۔ کوئی آدمی بھی خلاف عقل باتوں کے ماننے پر مجبور نہیں ہوسکتا۔‘‘

(ملفوظات، جلد اول صفحہ نمبر 61)

ہمارے آقا و مولا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ، دین آسان ہے۔

(صحیح بخاری، جلد اول حدیث 39)

دینِ اسلام بہت آسان ہے اگر ہم عقل سے کام لیں۔ اگر عقل سے کام نہیں لیا تو قرآن میں آتا ہے کہ
وہ کہیں گے کیوں نہیں، ہمارے پاس ڈرانے والا ضرور آیا تھا پس ہم نے (اسے) جھٹلادیا اور ہم نے کہا اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم محض ایک بڑی گمراہی میں (مبتلا) ہو۔ اور وہ کہیں گے اگر ہم (غور سے) سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم آگ میں پڑنے والوں میں شامل نہ ہوتے۔

(الملک: 11-10)

(منصور احمد خان۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ جرمنی 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ