بابری مسجد کی المناک شہادت پر
مشہور شاعر جناب جگن ناتھ آزاد کے پُر درد جذبات
6؍ دسمبر کو میں جموں سے دہلی روانہ ہوا۔ دوسرے دن 7؍دسمبر کواردو یونیورسٹی کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت کے لئے شام کا سفر تھا۔ طیارے میں ایک ہمسفر نے بتایا کہ بابری مسجد کے ایک گُنبد کو گرادیا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ آج دوپہر تک یعنی روانگی کے وقت تک تو ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔ اُس نے کہا بی. بی. سی. نے اطلاع دی ہے۔ میں درد وغم کے طوفان میں ڈوب گیا۔ اور اُسی وقت اس نظم کی ابتداء ہوئی۔ صرف ابتداء کے تین بند ہوئے تھے کہ طیارہ دہلی پہنچ گیا۔ جب میں اپنی قیام گاہ یعنی بیٹے کے گھر میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ساری مسجد منہدم کی جاچکی ہے۔ نظم کا باقی حصہ اس اطلاع کے بعد مکمل ہوا۔ اس لئے یہ نظم دو الگ الگ حصوں میں منقسم ہوگئی ہے۔ (آزاد)
یہ تُونے ہند کی حُرمت کے آئینے کو توڑا ہے
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گُنبد توڑنے والے؟
ہمارے دل کو توڑا ہے، عمارت کو نہیں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے!
تِرے اس فعل سے اسلام کا تو کچھ نہیں بگڑا
مگر گھونپا ہے خنجر تُو نے ہندو دھرم کے دل میں
ادھر ہندوستان کاتُو نے چہرہ مسخ کر ڈالا
اُدھربوئے ہیں کانٹے تُونے اُس کی راہِ منزل میں
تجھے کچھ بھی خبر اس کی نہیں اے بد نصیب انساں
کہ ہندو دھرم کیا ہے اوراُس کی آتما کیا ہے
نہیں ہے دھرم وہ ہرگز جسےتُو دھرم کہتا ہے
تجھے کیا علم، کیا ہے آتما، پرماتما کیا ہے
(کلام: جگن ناتھ آزاد)
(مرسلہ: محمد عمر تماپوری۔انڈیا)