• 25 اپریل, 2024

لبیک کہنے کی وہ روح ہے جسے آج ہمیں بھی کام میں لانا چاہئے، اسے سمجھنا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جنگِ حُنین میں کیا ہوا تھا؟ جنگِ حُنین میں اُس وقت تک کی جو اسلام کی تاریخ تھی اُس وقت مسلمانوں کا پہلا لشکر تھاجو دشمن کے مقابلے میں تیار ہو اتھا اور جس کی تعداد دشمن کے لشکر کی تعداد سے زیادہ تھی لیکن وہ لوگ جو لشکر میں شامل ہوئے تھے، اُن کی اکثریت مومن کی قربانی کی روح کو سمجھنے والی نہیں تھی۔ اُس روح سے نا آشنا تھی۔ جب دشمن کے چار ہزار تیر اندازوں نے حکمت سے اچانک تیروں کی بوچھاڑ کی تو کچھ کمزور ایمان کی وجہ سے اور کچھ لوگ سواریوں کے بِدکنے کی وجہ سے ادھر اُدھر ہونے لگے اور اسلامی لشکر تتّر بتّر ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صرف بارہ صحابہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے لیکن آپ نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ باوجود اس مشورے کے کہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ واپس مڑ کر لشکر کو جمع کیا جائے، آپ نے فرمایا۔ خدا کا نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑتا۔ بہر حال آپ نے اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جن کی آواز اونچی تھی، اُنہیں فرمایا کہ انصار کو آواز دے کر کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس بات کی بھی بڑی اعلیٰ وضاحت فرمائی ہے کہ صرف انصار کو کیوں مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن ایک وجہ یہ تھی کہ شکست کے ذمہ دار مکّہ کے بعض لوگ تھے جو مہاجرین کے قریبی تھے، اس لئے مہاجرین کو اس حوالے سے ایک ہلکی سی سرزنش بھی کی گئی کہ تم جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہو گئے ہیں، آج ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا تو تم اپنے جن رشتے داروں اور عزیزوں پر، یا اپنے ہم قوموں پہ انحصار کر رہے تھے، اُن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ بہر حال صرف انصار کو بلایا گیا۔ انصار کہتے ہیں کہ جب ہمارے کانوں میں حضرت عباس کی آواز پڑی کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اس سے پہلے بھی ہم اپنی سواریوں کو میدانِ جنگ کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس آواز نے ایسا جادو کیا کہ ایک نیا جذبہ اور بجلی کی طاقت ہمارے جسموں میں پیدا ہو گئی اور جو سواریاں مڑ سکیں اُن کے سوار سواریوں سمیت میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اور جو سواریاں باوجود کوشش کے مڑنے کے لئے تیار نہیں تھیں تو اُن سواروں نے اُن سواریوں کی گردنیں اپنی تلواروں سے کاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اَور لبّیک یا رسول اللہ! لبّیک کہتے ہوئے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔

(تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ102-103 باب ذکر غزوہ حوازن بحنین مطبوعہ بیروت)

پس یہ لبّیک کہنے کی وہ روح ہے جسے آج ہمیں بھی کام میں لانا چاہئے، اسے سمجھنا چاہئے۔ آج بھی خدا تعالیٰ کا فرستادہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق ہے، ہمیں بلا رہا ہے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرو، جلسے میں آکر جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اپنے دن تقویٰ اور عشقِ الٰہی میں گزارو اور ذکرِ الٰہی میں گزارو۔ اپنے تین دنوں کو قربِ الٰہی حاصل کرنے کا مستقل ذریعہ بنا لو۔ اپنے نفس کے سرکش گھوڑوں کی گردنیں کاٹو۔ آج زمانے کا امام، مصلح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آنے والا نبی جو ہمیں ہماری عملی حالتوں کی درستگی کی طرف بلا رہا ہے تو ہمیں بھی لبّیک کہتے ہوئے اس کے گرد جمع ہونے کی ضرورت ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کے گرد جمع ہو جائیں۔ آج تلواروں کے جہاد کے لئے نہیں بلا یا جا رہا بلکہ نفس کے جہاد کے لئے بلایا جا رہا ہے جس میں کامیابی تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کا باعث بنے گی۔

(خطبہ جمعہ27؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ آسٹریا 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 دسمبر 2022