• 25 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (23؍ستمبر 2022ء)

This Week with Huzoor
23؍ستمبر 2022ء

گزشتہ اتوار لجنہ اماءاللہ اور مجلس انصاراللہ یو کے کے نیشنل اجتماعات آلٹن میں منعقد ہوئے جن کا اختتام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایمان افروز خطابات کے ساتھ ہوا۔

وباء کے بعد پہلی مرتبہ ان دونوں ذیلی تنظیموں کے تین روزہ اجتماعات یو کے میں منعقد ہوئے۔ حضور انور پہلے لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں رونق افروز ہوئے جہاں تلاوت کے بعد حضور انور نے لجنہ اماء اللہ سے عہد لیا۔ اس کے بعد نظم پیش کی گئی۔

عہد اور نظم کے بعد صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ نے رپورٹ پیش کی، بعد ازاں اجتماع کی جھلکیاں دکھائی گئیں۔ جھلکیوں کے بعد حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

لجنہ سے خطاب سے چند نکات

خطاب میں حضور انور نے لجنہ اماء اللہ کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کو ہمیشہ اپنی ذیلی تنظیم کے مقاصد پر غور و فکر کرنا چاہیےاور یہ کہ لجنہ اماءاللہ کا رکن ہونے کا کیا مطلب ہے۔جب حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کو قائم فرمایا تو آپ نے بڑے غور و فکر کے بعد اس کا نام رکھا۔ لجنہ اماءاللہ کے لفظی معنی خدا تعالیٰ کی جماعت کی خادمات ہیں چنانچہ جب آپ اللہ تعالیٰ کی خادمات کی جماعت میں داخل ہیں اور دین کی خادمات ہونے کا عہد کیا ہے تو آپ کیلئے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ سب ممبرات کو اپنے دین کی حفاظت کی طرف پوری توجہ دینی چاہیے۔انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ اُس روحانی سطح اور بلندی تک پہنچیں جس کی ایک حقیقی مومنہ سے توقع کی جاتی ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے عرب،ان پڑھ، بادیہ نشینوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا۔ یعنی تُو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ان دیہاتی لوگوں کو یہ کہنا چاہیئے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور مسلمان بن گئے ہیں تاہم ان کو یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں یا ان کو حقیقی ایمان حاصل ہو گیا ہے۔ اس لئے کہ ایمان کا وہ معیار جس کا مخلص مؤمن سے تقاضا کیا جاتا ہے محض قبول اسلام سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر کلمہ گو یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہےتا ہم ہر ایک یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ مومن بھی ہے یا اس نے حقیقی ایمان پا لیا۔اس بات کا دعویٰ کہ اللہ تعالیٰ واحد اور قادر خدا ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پیغمبر اور اسلام دینِ کامل ہے،یہ تو صرف ایمان کا سب سے بنیادی درجہ ہے۔کامل ایمان اختیار کرنا انتہائی اعلیٰ ایمان اور فہم و ادراک کا تقاضا کرتی ہے۔انسان اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے والا نہ بنے۔اس لیے سب سے پہلی بات جو ہر احمدی کو یاد رکھنی چاہیے یہ ہے کہ انہیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ایمان وایقان میں کامل بنیں۔موجودہ معاشرہ اخلاقیات سے بے بہرا اور روحانی طور پر پست ہے کیونکہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات لوگوں کو مذہب اور خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے سے دور لے جا رہے ہیں یہاں تک کہ بہت ہی چھوٹے بچوں کو سکولز میں غیر مناسب اور غیر اخلاقی باتیں سکھائی جا رہی ہیں جسے وہ ابھی سمجھنے کے قابل نہیں۔اس کے نتیجہ میں بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں سکولز اور معاشرے کی طرف سے دنیاوی سوچ کے ساتھ ڈھالا جا رہا ہے جو روحانی اقدار اور تعلیمات سے دور لے جانے والی ہیں۔ایسی صورت حال میں والدین پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کریں اور اسے یقینی بنائیں۔آج کل تو بچوں کے کارٹونز یا کمپیوٹر گیمز میں بھی بعض ایسی کہانیاں یا کریکٹرز ہوتے ہیں جو بالکل غیر مناسب ہوتے ہیں اور جو بچوں کی معصومیت چھین لیتے ہیں۔بچوں کو خود بھی محتاط ہوناچاہیے کہ وہ کون سے کارٹونز دیکھ رہے ہیں اور والدین کو تو بہر حال بچوں کی نگرانی کرنی چاہیے جب وہ کارٹونز دیکھ رہے ہوں۔ایسی چیزوں کو دیکھنے کے دیر پا نتائج بہت ہی خطرناک ہیں اور یہ ہماری اگلی نسلوں کو مذہب اور اخلاقی اقدار سے با آسانی بہت دور لے کر جا سکتے ہیں۔پس والدین کو چاہیے کہ اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کے بچے کون کون سی نئی چیزوں سے متعارف ہو رہے ہیں اور بیرونی اثرات سے متاثر نہ ہونے کے لئے احمدی والدین کو اپنے گھروں میں ایک خالص اسلامی ماحول قائم کرنا چاہئےجس میں اللہ کے احکامات پر عمل ہو رہا ہو اور جس میں اعلیٰ اخلاقی نمونوں کا مظاہرہ ہو رہا ہو۔ یاد رکھیں کہ بچے بہت عقلمند ہوتے ہیں اور نہایت ہی عمیق نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے آپ کے اقوال و افعال اور کردار میں کوئی تضاد نہیں ہو نا چاہیے یقیناً اگر احمدی والدین اپنے اندر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی عادت پیدا کرنے سے قاصر رہے تو پھر ان کے بچے بھی بڑے ہوکر دنیا داری اور آج کل کے معاشرے میں بے دینی سے بہت متاثر ہوں گے۔لہٰذا احمدی والدین کیلئے نہایت ضروری ہے کہ وہ بڑے احتیاط کے ساتھ اپنے آپ میں بہتری لانے کی کوشش کریں تا کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت اور رہنمائی کر سکیں۔روزانہ اپنے بچوں سے بات چیت کریں اور ان کو وہ چیزیں بتائیں جن کے ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے قریب ہو جائیں۔ جیسا کہ کئی دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ احمدی والدین کو شروع سے ہی اپنے بچوں کے ساتھ ایک حقیقی دوستی اور باہمی اعتماد کا تعلق پید اکرنے کی ضرورت ہے۔ گو ہے تو یہ والدین کی، دونوں کی ذمہ داری ہے لیکن احمدی ماؤں پر خصوصی طور یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے ایک محبت اور قریبی تعلق پیدا کریں اور ان کے اندر دینی اقدار قائم کریں۔آپ کو اپنے بچوں کا حوصلہ بڑھانا چاہیے تا کہ وہ آپ سے کھل کر اور بغیر کسی جھجھک کے بات کر سکیں۔بچے فطرتاً متجسس ہوتے ہیں اور ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ ان کے سوالوں کے جوابات دیں۔اگر ماں کو اس کا جواب نہ آئے تو اسے چاہئے کہ اس کا جواب تلاش کرے بجائے اس کے کہ اسے بلا جواب چھوڑ دیا جائے۔اس سلسلہ میں احمدی لڑکیوں اور خواتین کو اپنے دینی علم کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور عصر حاضرہ کے مسائل سے واقفیت ہونی چاہیے۔ اگر آپ اپنا علم بڑھائیں گی تو اس کے ذریعہ سے آپ کے دین میں بھی ترقی ہو گی۔اپنے بچوں میں دین کیلئے دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ان کو بتائیں کہ دین کی کیا ضرورت ہے اور کیوں اس کو تمام امور پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اپنے بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کو یقینی بنانا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہےاور ان احمدیوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے جن کے بچے اس معاشرہ میں پروان چڑھ رہے ہیں اور اس کوشش کی انجام دہی میں ماؤں کا بنیادی کردار ہے۔آخر میں دوبارہ اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’صرف وہ جو اسے یاد کرتے ہیں اور اپنے دین کو ترجیح دیتے ہیں کامیاب ہوتے ہیں‘‘۔ پس اپنی نمازوں کو اہتمام کے ساتھ ادا کریں اور ہر لفظ پر غور کریں بجائے اس کے کہ (بغیر سمجھے) محض نماز کی حرکات و سکنات کو ادا کریں یا ہونٹ ہلا کر اس کے الفاظ پڑھ دیں۔ایک مخلص خاتوں کی دعائیں ایک بے حساب سرمایہ ہے اور اس لحاظ سے ہمیشہ اپنے لئے،اپنے بچوں کیلئے،اپنے خاوند کیلئے،اپنے معاشرہ کیلئے اور اپنی جماعت کیلئے دعائیں کریں۔ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھیں اور دعا کریں کہ آپ خداتعالیٰ کے سامنے جھکے رہیں جو آپ کاخالق ہےاور صرف وہی ہے جو آپ کی پریشانیاں اور مشکلات دور کر سکتا ہےصرف وہی ہے جو آپ کواسلام قبول کرنے کے بنیادی معیار سے بلند کر کے ایک حقیقی مومن جو ایمان میں مضبوط ہو کے معیارتک لے جاسکتا ہے، صرف وہی ہے جس کے رحم و کرم سے آپ کے بچے اپنے ایمان سے اور دین سے جڑے رہ سکتے ہیں۔وہی ہے جو آپ کے خاوندوں کو غلط کاموں سے روک سکتا ہے اور ان کی صحیح راستے کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔اگر احمدی خواتین اپنی ذمہ داریاں اور مقاصد کو پورا کریں گی تو وہ اپنے گھروں،اپنے شہروں اپنے ملکوں اور پوری دنیا میں ایک بڑا اخلاقی اور روحانی انقلاب لا سکتی ہیں اور لائیں گی۔ ان شاء اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ آپ ان میں سے ہوں جو ایسے روحانی انقلاب کو ظہور میں لائیں اور اللہ کرے کہ آنے والی نسلیں یہ کہیں کہ اس دور کی احمدی ماؤں اور بچیوں نے ہمیں بچانے اور حقیقی روحانی نجات کی راہ پر ثابت قدم رہنے میں ایک غیر معمولی کردار اد اکیا ہے۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ پر ہر لحاظ سے اپنا فضل فرماتا رہے۔آمین۔

انصار اللہ کے اجتماع میں شمولیت اور خطاب

لجنہ اماء اللہ کے اختتامی اجلاس اور کچھ وقفے کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار اللہ کے اجتماع کے اختتامی اجلاس میں رونق افروز ہوئے جو اسی مقام پر منعقد ہوا۔ تلاوت اور ترجمے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شاملینِ مجلس انصار اللہ سے عہد لیا۔ نظم اور اجتماع کی رپورٹ کے بعد حضور انور نے اس سال کی مجلس انصار اللہ کی بہترین مجلس کو علم انعامی عطا فرمایا۔

بعد ازاں دورانِ سال بہترین مجالس کا اعلان یو ں کیا گیا۔ ’’اس سال علم انعامی حاصل کرنے والی مجالس جن کو پہلے سے انعام دئیے جا چکے ہیں ان میں Birmingham West نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ مجلس ’’بیت ا لفتوح‘‘ نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔اب خاکسار حضور انور کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کرتا ہے کہ اس سال کی بہترین مجلس کو علم انعامی عطا فرمائیں جو کہ ’’ہارٹلے پول‘‘ کی مجلس ہے۔اس مجلس کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ پچھلے تین سال سے بہترین مجلس قرار پائی ہے۔اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔

ابھی کچھ دیر پہلے میں نے لجنہ سے خطاب کیا تھااور انہیں بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ باتیں صرف عورتوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس جس جگہ ان باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کر کے یہ نیکیاں اپنانے اور ان کی طرف توجہ کرنے کا فرمایا ہے۔ہاں میں نے بعض مثالیں عورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دی ہیں ان کے ماحول کے مطابق لیکن اکثر مثالیں دونوں مردوں اور عورتوں پر لاگو ہوتی ہیں۔مثلاً سچائی کے اعلیٰ معیار یا عبادتوں کی طرف توجہ ہے تو مردوں کو بھی یہی معیار قائم کرنے کی ضرورت ہےتا کہ جہاں اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بنیں وہاں اپنی اولاد کی تربیت کے لیے بھی نمونہ بن کر ان کی بھی دنیا و عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بنیں۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہےکہ نصائح کا مخاطب اپنے آپ کو نہیں سمجھتےاور دوسرے کے بارے میں سمجھ کر پھر کہہ دیتے ہیں کہ دیکھا! خلیفہٴ وقت نے فلاں جماعت کو یا جماعت کے فلاں طبقہ کو کس طرح سختی سے کہا ہےاور ایسے لوگ تو آ گے سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو ہیں ہی ایسے۔ان کی اصلاح ہونی چاہیےتھی۔یہ لوگ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔حالانکہ چاہیے تو یہ کہ ہر ایک اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہوں اور یہ دیکھنا چاہیے کہ جو باتیں دوسروں کو کہی جا رہی ہیں خواہ کسی بھی طبقہ کو خلیفہٴ وقت مخاطب ہے، تو وہ اسلامی تعلیم کے مطابق بعض امور کی طرف توجہ دلا رہا ہے اور ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورا اتر رہے ہیں جو مختلف نیکیوں کے قائم کرنے اورانہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کے معیار ہیں؟ جب یہ بات سمجھ آ جائےکہ خلیفہٴ وقت کسی بھی ملک کے احمدیوں کو بعض امور کی طرف توجہ دلا رہا ہےیا جماعت کے کسی بھی طبقہ کو مختلف نیکی کی باتوں کی طرف توجہ دلا رہا ہے تو ہم بھی بحیثیت احمدی اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم میں یہ نیکیاں موجود ہیں جن کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے یا ہم میں یہ کمزوریاں تونہیں ہیں جن کے چھوڑنے کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔؟ پس اب جبکہ ٹی وی کے ذریعےتمام دنیا رابطوں کے لحاظ سے ایک ہو گئی ہے۔ہر احمدی ہر بات کا جو خلیفہٴ وقت کی طرف سے جماعت کی بہتری کے لیے کہی جا رہی ہے مخاطب سمجھےاور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرےتو ایک انقلاب ہے جو ہم اپنی حالتوں میں لاسکتے ہیں۔پس پہلی بات تو یہ ہے کہ جو باتیں میں نے لجنہ میں کی ہیں ان کا انصار اپنے آپ کو بھی مخاطب سمجھیں اور جب مرد اور عورت ایک ہو کر نیکیوں کے اختیار کرنے اور بدیوں کے ترک کرنے کیلئے کوشش کریں گےتو پھر ایک انقلاب ہو گا جو ہم اپنے گھروں میں بھی لا سکیں گے،اپنی حالتوں میں بھی لا سکیں گے،اپنے بچوں میں بھی لاسکیں گے اور اپنے معاشرہ میں بھی لا سکیں گے۔حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقع پر یہ نصیحت فرمائی کہ ’’ہماری جماعت کے لیے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں شامل ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھےیا کیسے ہی رُو بادنیا تھےان تمام آفات سے نجات پاویں‘‘۔ پس اگر ہمارا نعرہ ’’نحن انصار اللّٰہ‘‘ کا ہے تو اپنے نفس کو پہلے پاک صاف کرنا ہو گاتاکہ پھر اس مسیح موعود کے مدد گار بن کر دنیا کو برائیوں اور شرک سے پاک کریں اور خدائے واحد کے نور سے دلوں کو منور کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ لیکن اگر ہمارے اپنے ہی دل دنیا کی گندگیوں اور غلاظتوں اور لالچوں میں پڑے ہوئے ہیں تو پھر ہم دنیا کی کس طرح اصلاح کر سکتے ہیں؟ پس اصل کام اب مامورِ زمانہ کے ساتھ جڑ کر انصار اللہ کا یہ ہے کہ دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکانا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا۔ پس اس کیلئے خود ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہو گا کہ ہم کس قسم کے انصاراللہ ہیں؟ اپنے اندرونی جائزے لینے کی طرف توجہ دلاتےہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میری جماعت سمجھ لےکہ وہ میرے پاس آئے ہیں۔ اس لیے کہ تخم ریزی کی جائےجس سے وہ پھلدار درخت ہو جائیں‘‘۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرےکہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ فرمایا ’’اگر ہماری جماعت خدانخواستہ ایسی ہےکہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔‘‘ اس عمر کو پہنچ کر خاتمہ بالخیر کی بھی فکر ہوتی ہے۔ فرمایا ’’اگر زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو خاتمہ بالخیر نہ ہو گا فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے، وہ غنی ہے وہ پرواہ نہیں کرتا‘‘۔ پس ہم حقیقی انصار اس وقت بن سکتے ہیں جب عمدہ بنیں اور عمدہ بیج بننے کے لیے اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے حکموں پر چلنا اور زمانے کا امام اور مامور کی کامل پیروی اور اطاعت کرنا ضروری ہے اور جب یہ ہو گاتو پھر ہم اس بیج کے وہ پھل دار درخت ہوں گے جو دنیا کو نیکیوں کے پھل کھلانے والے ہوں گے۔ہمارے قول و فعل کا ایک ہوناجہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو گا،وہاں ہماری نسل کی اصلاح کا بھی ذریعہ ہو گااور ہمیں یہ تسلی ہو گی کہ ہم اپنی نسلوں میں بھی تقویٰ اور نیکی کی جڑ لگا کر جا رہے ہیں۔ وہ پیوند لگا کر جا رہے ہیں جس سے اگلی نسل بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ جڑ کر وہ پھلدار درخت بنیں گے جن پر نیکیوں کے پھل لگتے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’یہ نہ سمجھوکہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ بڑا طاقتور ہےجب اس پر کسی امر پر بھروسہ کرو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ وَمَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔پس اللہ تعالیٰ پر توکّل ضروری ہےاور یہ توکل بغیرتقویٰ کے پیدانہیں ہو سکتا‘‘۔ یہ زبانی جمع خرچ نہیں ہیں کہ منہ سے کہہ دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے،اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے، اپنے اخلاق اعلیٰ سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے،دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ضرورت ہے۔پس اگر حقیقت میں ہم اپنی حالتوں میں ایسی تبدیلی پیدا کر لیں کہ دین دنیا پر مقدم ہو جائےتو یہی حقیقی تقویٰ ہے اور یہی وہ مقام ہےجب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھےوہ اہل دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لیے تھیں اور دنیاوی امور حوالہ بخدا تھےاس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اللہ تعالیٰ متقی کے راستوں کی ساری روکیں دور فرما دیتا ہے، جو اس کے دین کے کام میں حارج ہوں‘‘۔ پس (اگر) دنیاوی کاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہم نمازوں کی وقت پر ادئیگی کر رہے ہیں اور اسی طرح دوسرے دنیاوی کاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جماعتی کاموں اور دین کے کاموں کو ترجیح دے رہے ہیں تو وہ سب طاقتوں کا مالک خدا فرماتا ہے ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری فکروں کو دور کروں گا۔‘‘

پس انسان نے خدا تعالیٰ کی کیا مدد کرنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں دین کی خدمت کا موقع دیتا ہے، ہماری نیکیوں کے ہمیں اجر دیتا ہے،ہماری ضروریات پوری فرماتا ہے اور پھر ان تمام نوازشوں کے بعد ہمیں اپنے دین کے مدد گاروں میں شامل فرماتا ہے۔ کتنا مہربان ہے ہمارا خدا، کس قدر دیالو ہے ہمارا خدا، اس کا ہم کبھی احاطہ ہی نہیں کر سکتے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس کے حکموں پر چلتے ہوئے، تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے بنیں اور یہی ہمارے حقیقی انصار ہونے کی روح ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(ٹرانسکرپشن و کمپوزنگ۔ ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ آسٹریا 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 دسمبر 2022