• 27 اپریل, 2024

قرآنی تعلیم حق اور حکمت سے پُر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآنی تعلیم وہ تعلیم ہے جس کی ایک بات بھی حق اور حکمت سے باہر نہیں اور جو سراسر پاکیزگی سکھاتا ہے مگر افسوس کہ وہ لوگ اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں جو ایک ذرہ ذرہ کو غیر مخلوق ہونے میں خدا کے برابر کرتے ہیں اور خدا کی نسبت یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ کسی روح اور کسی ایک ذرہ کا بھی پیدا کرنے والا نہیں اور ایسا بخیل طبع ہے جو اپنے عاشقوں اور سچے پرستاروں کے گزشتہ گناہ نہیں بخشتا اور باوجود یکہ اس کی راہ میں کوئی جان بھی دے دے تب بھی پُرانا کینہ نکالتا ہے اور ضرور اس کو سزا دیتا ہے … اگر وہ اپنے سخت الفاظ سے ہمارا دل دکھاویں تو ہمیں صبر کرنا چاہئے۔ جب تک کہ ہمارا اور اُن کا خداتعالیٰ فیصلہ کرے اور اسی صبر کے لئے خداتعالیٰ کے قرآن شریف میں یہ تعلیم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۔ لَتُبۡلَوُنَّ فِیۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ لَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ

(آل عمران: 187)

(ترجمہ) البتہ تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤ گے اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت دل آزار باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور جوش اور اشتعال سے اپنے تئیں بچاؤگے تو یہ بات ہمت کے کاموں سے ہے۔

اور یاد رہے کہ آریہ صاحبوں نے جوہمارے مضمون سے اپنے مضمون کا پڑھنا آخری دن پر رکھا تو ان کی یہ غرض تھی کہ تا اپنے مضمون میں جہاں تک بس چل سکے ہماری کسی بات کا ردّ لکھ دیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مضمون میں ایسا کرنا چاہا مگر پھر بھی اپنی پردہ دری کرائی۔ اگر وہ بے جا حملہ نہ کرتے تو ہمیں کچھ ضرور نہ تھا کہ ہم ان کے اس غلط بیان کا پردہ کھولتے جو انہوں نے وید کی اعلیٰ تعلیم ہونے کے بارے میں پیش کیا ہے۔ مگر اب ہمیں ان کے جھوٹ کا پردہ کھولنے کے لئے پبلک کے آگے اس بات کو ظاہر کرنا پڑا کہ ان کا بیان وید کی تعلیم کی نسبت کہاں تک صحیح اورراست ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد 23 ص 14)

پچھلا پڑھیں

کتاب ’’حرفِ مبشر‘‘ کی تقریب رونمائی

اگلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک