• 18 مئی, 2024

عفو و درگذر کی اسلامی تعلیم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’اسلام میں کسی غلط حرکت کرنے والے، نقصان پہنچانے والے سے چاہے وہ چھوٹی سطح پر نقصان پہنچانے والا ہو یا بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے والا ہو یا دشمن ہو ہر ایک سے ایسا سلوک کرنے کی تعلیم ہے جو اس کی اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہو…بہرحال یہ بنیادی قانون اور اصول سزا اور اصلاح کا قرآن شریف میں پیش ہوا ہے جو ہماری انفرادی زندگی کے معاملات پر بھی حاوی ہے اور حکومتی معاملات میں بھی بلکہ بین الاقوامی معاملات میں، معاشرے کی اصلاح کے لئے بھی یہ بنیاد ہے…اگر حالات و واقعات یہ کہتے ہیں کہ سزا دینے سے اصلاح ہو گی تو سزا دو۔ لیکن سزا میں اس بات کا بہرحال خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ سزا جرم کی مناسبت سے ہو وگرنہ اگر جرم سے زیادہ سزا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہے اور ظلم اور زیادتی کو خدا تعالیٰ پسندنہیں کرتا…پس فرمایا خدا اس شخص سے راضی ہوتا ہے جس کی نیت نیک ہے اور اس کے فعل اور کام کا مقصد اصلاح ہے۔ دیوث شخص کے معاف کرنے سے خدا راضی نہیں ہو گا۔ نہ اس سے راضی ہوتا ہے جو انتقام کی نیت رکھتا ہو۔ یہ دونوں چیزیں سامنے ہونی چاہئیں۔ نہ اتنی نرمی ہو کہ بالکل بے غیرت ہو جائے، اس سے بھی اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اور نہ انتقام کی نیت ہو۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے۔ پس ہر دو حدود کو سامنے رکھتے ہوئے معافی اور سزا کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس بارے میں جماعتی عہدیداروں اور نظام کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ عموماً تو خیال رکھا جاتا ہے لیکن بعض کے خلاف جو فیصلے ہوتے ہیں یا سفارش مجھے آتی ہے تومیں یہ تو نہیں کہتا کہ انتقام کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ ضرور بعض دفعہ ہوتا ہے کہ سفارش کرنے والے کا طبعاً رجحان سختی کی طرف ہوتا ہے اور بعض ضرورت سے زیادہ نرمی اور معافی کا رجحان رکھتے ہیں جس سے پھر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس نہ سزا دینا پسندیدہ ہے، نہ معاف کرنا قابل تعریف ہے۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور یہ اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب اصلاح مقصد ہو اور اس کے لئے متعلقہ محکموں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں … تا کہ وہ حقیقی نظام اور حالات ہم اپنے میں اور جماعت میں پیدا کرسکیں جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب بھی کوئی فیصلہ ہو دعا کے ساتھ ہو اور پھر خلیفۂ وقت کے پاس سفارش ہونی چاہئے تا کہ ہر قسم کے بداثرات سے وہ شخص بھی محفوظ رہے جس کے خلاف شکایت کی جا رہی ہے اور نظام جماعت بھی محفوظ رہے اور وہ فیصلہ جماعت میں کسی بھی قسم کی بے چینی کا باعث نہ بنے… عفو اور درگذر اگر بلاوجہ ہو تو نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور انسان کے اندر بے قیدی پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنی حدود سے باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ نظام قائم نہیں رہتا۔ پس جن کو اصلاح کے لئے سزا ملتی ہے وہ بجائے ڈھٹائی دکھانے کے اس بات کی طرف زیادہ توجہ دیں کہ ہم نے اپنی اصلاح کس طرح کرنی ہے۔ اس کے لئے استغفار کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ جماعت میں کوئی سزا کسی انتقام کی وجہ سے نہیں دی جاتی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا۔ اصلاح کے لئے دی جاتی ہے اور یہی کوشش ہونی چاہئے اور ہوتی ہے۔ صرف عہدیداروں کے لئے ہی یہ نہیں ہے۔ صرف عہدیداروں کا ہی قصور نہیں بلکہ افراد کے بھی قصور ہوتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے روز مرہ کے معاملات میں اور آپس کے تعلقات میں اپنا جائزہ لے کہ وہ دوسروں کے متعلق کس طرح سوچتا ہے اور اپنے متعلق کیا سوچتا ہے تو اس سے معاشرے میں ایک خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ پس اصل چیز یہی ہے کہ ہر وقت یہ خیال رہے کہ ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ جب یہ ہو گا تبھی اصلاح ہو گی… پس ان دو باتوں کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور اس لئے سامنے رکھنا چاہئے کہ ہم نے اصلاح کرنی ہے اور بُرائیوں کو روکنا ہے۔ معاشرے میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے کیونکہ وہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنی احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)‘‘

(خطبہ جمعہ 22 جنوری 2016ء)

پچھلا پڑھیں

کتاب ’’حرفِ مبشر‘‘ کی تقریب رونمائی

اگلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک