• 27 اپریل, 2024

رسول مقبولﷺ کی زندگی کا مختصر تاریخی خاکہ

آقائے مدنی آنحضرتﷺ کی حیاتِ مبارکہ کو مؤرخین نے3 ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلادَورپیدائش سے نبوت تک، دوسرا دَور دعویٔ نبوت سے ہجرت تک اور تیسرا دَور ہجرت سے وصال تک۔

پہلا دور

12ربیع الاوّل عام الفیل (یعنی اس سال جب ابرہہ نے خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے ہاتھی بھجوائے) فجر کے وقت بمطابق 30۔ اپریل 571ء آپؐ کی ولادت ہوئی۔ ونعم ماقیل

بصد انداز یکتائی بغایت درجہ زیبائی
امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی

والدہ کا نام آمنہ تھاوالد کا نام عبداللہ۔آپؐ کی ولادت عادل با دشاہ کسریٰ نوشیرواں کے عہد میں بیان کی جاتی ہے۔ حلیمہ دائی نے آپؐ کی پرورش کی۔ حلیمہ کے خاوند کی کنیت ابوکبشہ تھی۔ 4 سال کی عمر تک آپؐ حلیمہ کے پاس رہے۔

چھٹےسالآپؐ کی والدہ آپؐ کو آپؐ کےننھیال مدینہ میں لےکرگئیں لیکن مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء جگہ پر وفات پاگئیں۔یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔ تب اُمّ ایمن نے اپنی گودمیں حضورؐ کو لیا اور دادا نے کفالت فرمائی۔

آٹھ سال کے تھے کہ داداعبدالمطلب خدا کو پیارے ہوگئے اور چچا ابوطالب نے آپؐ کی پروش کی ذمہ داری سنبھالی۔

نویں سال میں تھے کہ آپؐ کے چچاآپؐ کوشام کی طرف لےکرگئے۔ اس سفر میں بحیرا نامی راہب نے اپنی مقدس کتاب کی رُو سے یہ بتلایا کہ عرب میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔

آپؐ کی عمر کے بیسویں سال میں قریش اورقیس کےدرمیان‘‘حرب فجار’’نخلہ جگہ پرجوطائف اورمکہ کےدرمیان ہے شروع ہوئی۔یہ جنگ بالآخرصلح پر منتج ہوئی۔

پچیسویں سال آپؐ دوسری بار شام تشریف لےگئے ۔ اس بارخدیجہ بنت خویلد کے تجارتی سامان کو لےکر گئے تھے۔حضرت خدیجہؓ نے آپ کے صدق اور امانت کی شہرت کی بناء پر آپؐ سے درخواست کی تھی۔اس سفر میں ’’میسرہ‘‘ نامی غلام بھی آپؐ کے ساتھ تھا۔

اسی سال خدیجہؓ نے آپؐ کو شادی کا پیغام دیا اورآپؐ کی شادی حضرت خدیجہؓ سےہوگئی۔

پنتیسویں سالسیلاب نےخانہ کعبہ کوگرادیاچنانچہ قریش نے جب اس کو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا آپؐ بھی اس تعمیر میں شریک تھے اور جب حجرِاَسود رکھنے کے اعزاز کی وجہ سےمختلف قبائل میں جھگڑاہوا تو آپؐ نے ہی ثالثی کی تھی۔آپؐ ہی کی حسنِ تدبیر سےجھگڑاختم ہوا ور نہ نہ جانے کیا نتیجہ ظاہر ہوتا۔

دوسرا دور

چالیس سال کی عمر کو جب حضورؐ پہنچے تو خدا تعالىٰ نے آپؐ کو رسالت سے سرفراز فرمایا۔ اس سے پہلے آپؐ قوم سے صادق اور امین کا لقب پا چکے تھے۔ نبوت سے پہلےآپؐ عبادت الہٰی میں غارِحرا میں مصروف رہے۔

آپؐ کے دعویٰ کے ساتھ ہی بعض اشراف قریش اور غلاموں نے آپؐ کی دعوت پر لبّیک کہنا شروع کیا۔پہلی وحی اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ تھی۔ شروع میں تبلیغ مخفی تھی پھر اعلانیہ شروع ہوئی اور مخالفت بھی تیز ہوگئی۔

پانچویں سال آپؐ نے بعض صحابہؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس پہلی ہجرت میں 10 مرد اور 5 عورتیں تهیں جو 3 ماہ کے بعد واپس آگئے ۔ اس اثناء میں حضرت حمزہؓ اور عمرؓ بن خطاب مسلمان ہو گئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد 40 سے اوپر مرد اور 11 عورتیں تھی۔

ساتویں سال حضورؐشعب ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ اس وجہ سے ہوا تھا کہ قریش نے محسوس کیاکہ یہ تو بڑھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ کا بائیکاٹ کیا اور آپؐ کے خلاف ایسا معا ہدہ لکھ کرخانہ کعبہ میں لٹکادیا۔ ان ایّام میں آپؐ کو کھانے پینے کی سخت دقّت تھی۔

اس زمانہ میں حبشہ کی طرف دوسری ہجرت ہوئی۔ 10 سے اوپر مردگئے تھے اور 18 عورتیں۔ قریش نے نجا شی کےپاس ان کے خلاف وفدبھیجا۔

دسویں سال میں قریش کے کچھ آدمیوں نے آپؐ کے خلاف جو معاہدہ کیا تھا اس کوختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی سال حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی اورحضرت خدیجہؓ کی وفات کے 2 ماہ بعد آپؐ کے چچا ابوطالب وفات پاگئے۔ ابوطالب کی وفات کے بعدقریش کی ایذا دہی میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔ اسی سال آپؐ نے طائف کا سفرفرمایا تا وہاں کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دیں۔

گیارہویں سال اسراء اور معراج سے آپؐ کو خدا تعالیٰ نے سرفراز فرمایا۔ اسی سال آپؐ مختلف قبائل میں دعوت اسلام کے لئے تشریف لے گئے۔ اسی سال مدینہ سے 6 آدمیوں نے آکر اسلام قبول کیا۔

بارہویں سال 12 آدمی مدینہ سے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپؐ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ شرائط بیعت یہ تھیں کہ شرک نہیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے،زنا کے مرتکب نہ ہوں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کر یں گے، کسی پر بہتان نہ باندھیں گے، نیک باتوں میں اطاعت کریں گے، حق کہیں گے اور اس بارہ میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔

تیرہویں سال میں مدینہ سے70مرد اور 2 عورتیں آئیں اوربیعت کی۔ اسےبیعتِ عقبہ ثانیہ کہتے ہیں۔ حضورؐ نے ان میں سے 12 نقیب مقرر فرمائے۔ اُن کے واپس جانے پر مدینے کے ہر گھر میں اسلام کا چرچا شروع ہوگیا۔

تیسرا دور

آپؐ کی حیات مبارکہ کے تیسرے دور کا آغاز ہجرت سے شروع ہوتا ہے جبکہ مکّہ والوں نےخدا کی رحمت کاہاتھ جھٹک دیا تو اللہ تعالیٰ کےحکم کے ماتحت جبکہ آپؐ کی عمر 53 سال کی تھی آپؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس سفر میں آپؐ کے ہمرکاب حضرت ابوبکرؓ تھے۔ آپؐ سے پہلے آپؐ کے بعض صحابہ آپؐ کی اجازت اور حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ دشمنوں نے آپؐ کے قتل کے لئے آپ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا کہ رات کو آپؐ مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے۔ 3 رات غار ثور میں رہنے کے بعد 12ربیع الاول کو آپؐ قباء(مدینہ) میں وارد ہوئے۔ اس سال قباء میں مسجد کی تعمیر ہوئی جسے قرآن نے کہا کہ یہ وہ مسجد ہےجس کی بنیاد تقوی اللہ پر رکھی گی ہے۔ آپؐ نے 22 دن تک قباء میں قیام فرمایا۔ سب سے پہلے جمعہ یہیں آپؐ نے یکصد مسلمانوں کے ساتھ ادا کیا۔

اس کے بعدیہ ماہِ عرب مدینہ میں طلوع ہوا۔انصارنےہتھیاربند ہوکر آپؐ کا استقبال کیا۔عورتیں اوربچے شعرپڑھتےتھے کہ

ہم پرچاند ’’ثنيات الوداع‘‘ سے طلوع ہوا۔ خداکاشکر ہےکہ خدا کا داعی آیا۔ اس کا ہرحکم ہمارے لئے واجب الاطاعت ہوگا۔

مدینہ میں آکر آپؐ نے مسجد تعمیر فرمائی اور اذان شروع ہوئی۔ آپؐ کے آنے کے ساتھ یہود کےسینوں میں بغض و حسد کی آگ بھڑکنا شروع ہو ئی۔ ادھرکفار قریش کفِ افسوس ملتے تھے کہ حضورﷺزندہ بچ کر نکل گئے اور جب دشمن نے تلوار بے نیام کی تو خدا کی طرف سے آپؐ کو اذن قتال ہوا۔ چنانچہ پہلا دستہ آپؐ نے جو بھیجا وہ آپؐ کے چچا حمزہؓ کی سرکردگی میں قریش کے ایک قافلہ کی سرکوبی کے لئے تھا۔ قریش کا منصوبہ یہ تھا کہ اس تجارت کے نفع سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کی جائے لیکن مقابلہ کی نوبت نہ آئی اور مشرک بھاگ گئے۔

(الفرقان جنوری 1974ء)

ہجرت کے دوسرے سال ’’غزوہ ودان‘‘ پیش آیا۔ آنحضرت ﷺ60 آدمیوں کے ساتھ قریش کے قافلہ سے مڈھ بھیڑ کے لیے تشریف لے گئے لیکن قا فلہ گزر چکا تھا۔

اسی سال غزوہ بواط پیش آیا۔ حضورؐ 200 مہاجرین کو لےکر نکلے لیکن اب بھی آمنا سامنا نہ ہوا۔

غزوه عشیر بھی اسی سال پیش آیا۔ 250 مہاجرین کو لےکر حضورؐ روانہ ہوئے۔ قریش کےقافلہ کی قیادت ابوسفیان کر رہا تھالیکن مقابلہ کی نوبت نہ آئی۔

غزوه ٔبدر اُولیٰ

اسی سال بدر اُولیٰ کا واقعہ پیش آیا ۔ اسے ’’غزوۂ سنوان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ایک مشرک نے مدینہ کی چراگاہ پرحملہ کیا تھا حضورؐجب مقابلہ کے لئے آئے تو دشمن رفوچکر ہو چکا تھا۔

اسی سال پہلی غنیمت مسلمانوں کوملی۔ قریش کے تجارتی قافلہ کو عبداللہ بن جحش نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ روکا اور ان کا مال ضبط کیا جو جنگ کی تیاری میں انہوں نے صرف کرنا تھا۔

تحویلِ قبلہ بھی اسی سال ہوئی۔ اب بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع ہوئی۔رمضان کی فرضیت بھی اسی سال ہوئی۔ اسی سال فطرانہ واجب ہوا اور پھر اسی سال زکوٰة کی فرضیت نازل ہوئی۔

غزوۂ بدر

پھر اسی سال حق و باطل کے فیصلہ کا دن ’’یوم الفرقان‘‘ آیا یعنی معرکہ بدرپیش آیا ۔مسلمان 313 تھے اور کفار 1 ہزار ۔ اللہ تعالی ٰنے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفر کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی۔ ابوجہل واصلِ جہنم ہوا۔ عتبہ مرا، شیبہ مرا اور مکہ کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔

غزوه قرقرۃ الکدر۔ اسی سال بنو سلیم کی سرکوبی کے لئے 15 دن تک حضورؐ مدینہ سے باہررہے۔ لیکن لڑائی کاموقع نہ آیا۔

غزوہ قینقاع۔ اسی سال مدینے کے یہودکی عہدشکنی کی وجہ سے ان کا محاصرہ کیا کیونکہ یہ ایذادہی میں اب حد سے بڑھ رہے تھے۔ ان کی درخواست پر ان کو مدینہ سے نکل جانے دیاگیا۔

غزوہ سویق۔ اسی سال ابو سفیان کے قافلہ سے جودو صد مشرکین پرمشتمل تھا مقابلہ کیلئےحضورؐ نکلے لیکن ابوسفیان ستّو پھینک کربھاگ گیا۔ اس لئے اس غزوہ کانام ہی غزوۂ سویق پڑگیا۔

عید کی نماز بھی اسی سال مسنون ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی بھی اسی سال ہوئی اور حضرت عائشہؓ کا رخصتانہ بھی اسی سال عمل میں آیا۔

ہجرت کا تیسرا سال

دعثوربن حارث محاربی نے ساڑھے چار صدسواروں کے ساتھ مدینہ پرحملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ حضورؐ کو علم ہوا تو آپؐ ان کی سرکوبی کے لئے تشریف لے گئے لیکن بزدل دشمن پہاڑوں میں بھاگ گیا۔ یہیں اسی دعثور سے وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جب حضورؐ محوِ استراحت تھے اور اس نے تلوار سونت کر کہا تھا آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ … جس کے نتیجہ میں حضورؐ کے سلوک کو دیکھ کر وہ مسلمان ہوگیا اور ساتھ ہی اس کی قوم بھی۔

غزوہ نجران۔ بنوسلیم نے بھی مدینہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ جب حضورؐ کو علم ہوا تو اس کے تدارک کے لئے تشریف لے گئے لیکن دشمن تتّربتّر ہوگیا اور حضورؐ واپس تشریف لے آئے۔

غزوهٔ اُحد

بدر کا بدلہ چکانے کے لئے دشمن نے 3 ہزار کے لشکر سے مدینہ پر چڑھائی کی۔ حضورؐ نے 1 ہزار جاں نثاروں سے مقابلہ کی ٹھانی۔ عبداللہ بن اُبیّ 300 منافقین کو لے کر واپس ہو گیا۔ یہیں کئی صحابہؓ نے عشق و وفا کی روشن مثالیں قائم کیں اورچشمِ فلک نے جاں نثاری کے وہ واقعات مشاہدہ کئےکہ کوئی انہیں بھلا نہیں سکتا۔ اپنے خون سے صحابہؓ نے یہاں اسلام کی تاریخ لکھی جو کبھی محو نہیں ہوسکتی۔ حضورؐ کے دانت مبارک یہیں شہید ہوئے۔ اسی کے دامن میں حضرت حمزہؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ یہیں عمروؓ بن جموح نےشجاعت کے گیت گائے اور یہیں نضربن انسؓ نےجامِ شہادت نوش کیا۔ اسی لئے حضورؐ جب اُحد کی طرف تشریف لے جاتے تو فرماتے اُحد پہا ڑہم سےمحبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں کہ یہاں عشاقِ رسولﷺ نے عشق کی شہنائی پر رقص کیا تھا۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍوَ بَارِكْ وَسَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔

حضرت عثمانؓ کی شادی سیدہ اُمّ کلثومؓ بنت رسولؐ سے رقیہؓ کی وفات کے بعد اسی سال ہوئی۔ اسی لئے انہیں’’ذوالنورین‘‘ ’’دو نوروں والا‘‘ کا خطاب ملاکہ حضورؐ کی دو صاحبزادیاں یکےبعد دیگرے ان کے عقد میں آئیں۔

اسی سال شراب حرام ہوئی جس سے عرب کی معیشت میں زبردست انقلاب پیدا ہوا۔

اسی سال حضورؐ نے حضرت عمرؓ کی صاحبزادی حفصہؓ سے شادی کی اور زینبؓ بنت خزیمہ سے بھی اور اسی سال سیده فاطمہؓ کے بطن مبارک سے حسنؓ پیدا ہوئے۔

ہجرت کا چوتھا سال

یہود کے قبیلہ بنونضیر کی جلاوطنی اس سال کا اہم واقعہ ہے۔

غزوہ ذات الرقاع ۔ نجد کے قبائل بنومحارب اور بنوثعلبہ نے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا ارادہ کیا۔ 700 مسلمانوں کے ساتھ حضورؐ تشریف لے گئے دشمن بھاگ گئے۔

صلوٰۃ خوف کی مشروعیت اور تیمّم کی رخصت بھی اسی سال ہوئی۔

غزوہ بدر الاُخریٰ ۔ ابوسفیان نے مدینہ لڑائی کا پیغام بھیجا۔ حضورؐ نے 1500 مسلمانوں کو روانہ کیا۔ لیکن ابوسفیان کو مقابل پر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔

زینبؓ بنت خزینہ کی وفات اسی سال ہوئی۔

حضرت حسینؓ اسی سال پیدا ہوئے۔

حضرت ام سلمہ ؓسے شادی حضورؐ نے اِسی سال کی ۔زیدؓ بن ثابت کو اسی سال یہود سے لکھنے پڑھنے کی حضورؐ نے تاکید فرما ئی۔

(الفرقان۔دسمبر1973ء)

پانچواں سال

ہجرت کے پانچویں سال میں غزوۂ دومۃالجندل پیش آیا۔دشمن مرعوب ہوا اور بھاگ گیا۔

غزوہ بنی المصطلق

اسے ’’غزوہ مریسیع‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 1 مسلمان شہید ہوا 10 کفار مارے گئے۔ حارث سردارکی بیٹی برّہ سے حضورؐ نے اس موقعہ پر شادی کی اور اس کا نام ’’جویریہ‘‘ رکھا۔

غزوۂ خندق یا غزوہ احزاب اسی سال وقوع پذیرہوا۔ 10 ہزار دشمنوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ 15دن محاصرہ جاری رہا۔یہودِ مدینہ نےبدعہدی کی۔ منافقین نے بھی سر نکالا۔یہ بہت بڑا ابتلا تھا لیکن قدرت خداوندی اورحضورؐ کی دعاؤں سےلشکرِاعداء تتّربتّر ہوگیا۔ اسی سال بنوقریظہ (قبیلہ یہود) کے فتنہ کا سدّباب ہوا۔

اسی سال متبنّٰی کا ابطال ہوا اور آیت خاتم النّبیین نازل ہوئی۔ آیت حجاب بھی اسی سال نازل ہوئی یعنی پردہ کاحکم نازل ہوا۔

حج کی فرضیت بھی اسی سال ہوئی۔

(الفرقان جنوری 1974ء)

چھٹا سال

اس سال غزوہ بنولحیان واقع ہوا۔200 سوار بھجوائے گئے لیکن بنولحیان بھاگ گئے۔

غزوہ غابۃ۔ عتیبہ بن حصن نے بیت المال کے چرواہے ابن ابی ذرکوقتل کیا اور اونٹ چھین کر بھاگ گئے۔ حضورؐ500مجاہدین کے ساتھ روانہ ہوئے اوربیت المال کے10۔اونٹ ان سے چھڑالئے۔

غزوهٔ حدیبیہ

اس سال صلح حدیبیہ کا مشہور معاہدهٔ صلح طے پایا۔حضورؐ 1400صحابہؓ کے ساتھ عمرہ کے لئے روانہ ہوئےتھے لیکن کفار نے عمرہ کرنےسے روک دیا۔آخر معاہدہ طے پایا جس کی 5 شقیں تھیں۔ یہیں بیعتِ رضوان ہوئی تھی اورسورۃ ’’الفتح‘‘ نازل ہوئی۔

بادشاہوں کو اسی سال تبلیغٰ خطوط لکھے اور حضورؐ نےمہر کے طور پر چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس کا نقش تھا ’’محمد رسول اللہ‘‘۔قیصروکسریٰ کو تبلیغی خطوط لکھے گئے۔

ساتواں سال

غزوہ خیبر اسی سال پیش آیا۔ یہ یہودکا مرکز تھا۔یہیں حضرت علیؓ کوجھنڈا عطا فرمایا تھا اور فرمایا تھا میں کل جھنڈا اس کو دوں گا جس سے اللہ اور رسول محبت کرتے ہوں گے۔ 7دن خیبرکا محاصرہ جاری رہا۔

حبشہ سے مہاجرین 10 سال کے قیام کے بعد اِسی سال واپس آئے۔

فدک مفتوح ہوا اوران سے مصالحت ہوئی۔

اہلِ تيما سے مصالحت ہوئی۔

وادی القریٰ کاغزوہ اسی سال پیش آیا۔

عمرہ قضاء اسی سال ہوا۔ اس میں وہ تمام صحابہؓ اس میں شریک ہوئےجو حدیبیہ میں موجود تھے سوائے ان صحابہؓ کے جو خیبر میں شہید ہوئے۔
عثمان بن ابی طلحٰہ ؓ،خالدبن ولیدؓ اور عمروبن عاصؓ اسی سال مسلمان ہوئے۔

صفیہؓ بنت حی اخطب اسی سال حضورؐ کے عقد مبارک میں آئیں۔

اسی سال میمونہؓ بنت الحارث سے آپؐ کی شادی ہوئی اور یہ آپؐ کی آخری شادی تھی۔

اسی سال حضورؐ کی صاحبزادی زینبؓ اپنے خاوند ابوالعاصؓ کے ہاں گئیں۔ اس سے پہلےحضرت زینبؓ ہجرت کرکے مدینہ آگئی تھیں اور ابوالعاصؓ مکہ میں ہی رہےتھے۔

اسی سال مقوقس نے حضور ؐکی خدمت میں ماریہ اور اس کی بہن سیرین، ایک خچر’’دلدل‘‘، ایک گدها ’’یعفور‘‘ او رکچھ چادریں ہدیۃً ارسال کیں۔یہ تحائف حاطب بن ابی بلتعہ لائےتھے۔

حضورؐ کا منبر جس کی 2 سیڑھیاں تھیں اسی سال بنایا گیا تھا۔

اسی سال حضورؐ نے حضرت عمرؓ کی قیادت میں 30 آدمیوں کادستہ ہوازن کی طرف بھجوایا تھا۔ یہ دستہ رات کو چلتا اور دن کو چھپ جاتا لیکن ہوازن کوپتہ چل گیا اور وہ بھاگ گئے۔

اسی سال حضورؐ نے رمضان کے مہینہ میں میفعہ کی جانب ایک دستہ روا نہ کیا۔اسی میں مرواس بن نہیک کواسامہ بن زیدؓ نے قتل کیا۔جب اس نے دیکھا کہ اسامہؓ غالب آرہے ہیں تو اس نے کہا ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ‘‘ میں گواہی دیتاہوں کہ خدا کےسوا کو ئی معبود نہیں لیکن اسامہؓ نے اسے قتل کردیا۔حضورؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ تم نے اسے ’’ اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کہنے کے باوجود قتل کر دیا۔ خدا کو کیا جواب دو گے؟ یہ واقعہ طبری میں آیا ہے۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ اسلام میں کلمۂ شہادت کا ظاہری طور پر پڑھ لینا انسان کو مسلمان قرار دینے کی بنیاد ہے۔

آٹھواں سال

واقعہ موتہ۔ شام میں اس سال یہ واقعہ ہوا جس میں زیدؓبن حارث،جعفرؓ اورعبداللہ بن رواحہؓ شہید ہوئے تھے۔ جعفرؓ نےجس طرح اسلامی جھنڈے کو تھام رکھا تھا اس کی تفصیل بہت ایمان افروز ہے۔ دایاں ہاتھ کٹا تو بائیں سے جھنڈا تھام لیا۔ بایاں کٹا تو کٹے ہاتھوں سے سینے سے لگائے رکھا۔ ان تینوں کی شہادت کے بعد خالد بن ولیدؓ نے لشکر کی قیادت کی اور بامراد واپس ہوئے۔ حضورؐ نے خالدؓ کو ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔

فتح مکہ۔ اسی سال مکہ فتح ہوا، کفر کا زور ختم ہوا بُت خانہ کعبہ سے نکالے گئے، قریش کا عَلم سرنگوں ہوا اور اب وہ حضورؐ سے رحم وکرم کے طالب ہوئے حضورؐ نے ان سب خون کے پیاسوں کو معاف فرمایا۔ ہندہ اسی سال مسلمان ہوئی۔ ابوسفیان اظہارِ اسلام پر مجبور ہوا۔ اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہیں ایک کافر سردار کا نپتاہوا آیا تھا جسے آپؐ نے فرمایا تھا۔ گھبراتے کیوں ہو میں تو اس عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھاتی تھی۔

اسی سال عکرمہ بن ابوجہل مسلمان ہوا ۔ کعبؓ بن زھیر مشہور شاعر مسلمان ہوا اور اپنا قصیدہ حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا۔

غزوہ حنین۔ اسی سال پیش آیا۔اس میں 12ہزار مسلمان شریک ہوئے حنین کے میدانوں میں حضورؐ خچر کو ایڑھ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے تھے اور فرماتے تھے

اَنَا النَّبِیُّ لَا كَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدُالْمُطْلِب

حضورؐ 2 ماه 10 دن مدینہ سے باہر رہے۔

نواں سال

اب اس سال حضورؐ نے مختلف اطراف میں وفود بھجواکر شرک کے اڈّوں کو ختم کیا اور بتوں کو عرب سےہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت کیا۔ عدی اور اس کی ہمشیرہ ’’سفانہ‘‘ اسی سال حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔جب حضورؐ ان کے ساتھ گھر تشریف لا رہے تھے ایک ضعیف عورت نے حضورﷺ کا ہاتھ تھام کر کافی دیر تک ٹھہرائے رکھا۔ اسی موقع پرعدی نے کہا تھا۔ خداکی قسم یہ بادشاہ تو نہیں۔

غزوہ تبوک۔ اس ’’غزوہ عسرہ‘‘ یعنی تنگی والاغزوہ بھی کہتے ہیں۔ سخت گرمیوں میں پیش آیا تھا۔ رومی شام میں لشکرکشی کر رہے تھے، اسی موقع پرحضرت عثمانؓ نے ایک دستہ کو تیار کیا تھا اور اسی موقع پر ابوبکرؓ اپنا سب مال حضورؐ کے پاس لے آئے تھے اور عمر ؓنصف اور اسی موقع پر کعب اور آپ کے ساتھیوں کا بائیکاٹ ہوا تھا کیونکہ وہ اس غزوہ میں شامل نہ ہوئے تھے۔حضورؐ نے اسی موقع پرحضرت علیؓ کو اپنا قائمقام مدینہ میں مقر رفرمایا تھا اور فرمایا۔ اے علی! تو مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارونؑ موسیٰؑ سے سوائےاس کے کہ تونبی نہیں ہے۔

وثقیف سے وفد اسی سال آیا۔

عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین اسی سال مرا۔

حضورؐ کی صاحبزادی امّ کلثومؓ یعنی حضرت عثمانؓ کی زوجہ محترمہ اسی سال فوت ہوئیں۔

اسی سال حضرت ا بوبکرؓ کی قیادت میں حضورؐ نے حجاج کوروانہ فرمایا اور فرمایا اعلان کر دیا جائے کہ آج کے بعدنہ کوئی مشرک طواف کرے گا نہ کوئی عریاں طواف کرے گا۔اسی سال سورهٔ توبہ نازل ہوئی۔

دسواں سال

حضرت علیؓ کو300 سواروں کی قیادت عطا فرما کر ’’بنومذحج‘‘ کی طرف روانہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے ان کے جھنڈے کو گره دی اور ان کے سر پرپگڑی باندھی اور نصیحت فرمائی کہ دوسرے آدمی کی بات سنے بغیر فیصلہ نہ کرنا ۔ اہل یمن کی طرف شریعت کی تعلیم کے لئے وفدبھیجا۔ معاذ بن جبلؓ اور ابو موسیٰ اشعریؓ کو روانہ کیا اور فرمایا آسانی پیدا کرنا، تنگی پیدانہ کرنا۔ خوشخبری دینا، نفرت نہ دلانا۔ معاذؓ حضورؐ کی وفات تک یہیں رہے لیکن ابوموسیٰؓ حضورؐ کو مکہ میں آملے جب حضورؐ حجّۃالوداع کےموقع پر تشریف لے گئے تھے۔

حجّۃالوداع۔ یہ حضورؐ کا آخری حج تھا۔ جسے حجّۃالوداع کہتے ہیں۔ عرفہ کے میدان میں حضورؐ نے وہ عظیم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں فرمایا تھا کہ لوگو! شاید اس کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ یہیں انسانی حقوق کا منشور عطا ہوا تھا جس میں تمام بنی نوع انسان کو مساوات کا درس دیا گیا تھا۔ یہیں حضورؐ نے فرمایا تھا۔ لوگو!کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا؟ اور یہیں آیت اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي نازل ہوئی تھی۔

حج کے بعد حضورؐ مدینہ تشریف لائے۔ حضورؐ کے صاحبزادے ابراہیم اسی سال خدا کو پیارے ہوئے۔

گیا رہواں سال

حضورؐنے اسامہؓ بن زید کی قیادت میں لشکر تیار کیا کہ اپنے والدزیدؓ کی موتہ میں شہادت کا بدلہ لیں ۔ اس لشکرمیں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ، ابوعبیدهؓ اور سعدؓ بھی شامل ہوئے۔ اب وہ مقدر وقت آچکا تھا ۔ خدا کے برگزیدہ رسولؐ، مسلمانوں کے محبوب اورمحبّ نے خدا کی رفاقت کو ترجیح دی۔ بُلاوا آچکا تھا۔ وہ داعی حق لبّیک وسعدیک کہتا ہوا اپنےخالق کے حضور حاضر ہوگیا۔ صحابہؓ مارے غم کے دیوانے ہوگئے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّکَ وَصَفِیِّکَ مُحَمّد خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ

(الفرقان جنوری1974ء)

(مولانا غلام باری سیف)

پچھلا پڑھیں

کتاب ’’حرفِ مبشر‘‘ کی تقریب رونمائی

اگلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک