• 3 مئی, 2024

وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا

’’جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا … قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں۔ ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ نونِ ثقیلہ سے جو اظہارِ تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ: 157) ہی ہے۔ اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے، وہ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) میں ظاہر کیا ہے … الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اورکبھی وہ مان لیتا ہے۔ یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں۔ چنانچہ آپؐ کے گیارہ بچے مرگئے مگر آپؐ نے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں ؟‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ167-168 ایڈیشن 1988ء)

پھر فرمایا: ’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ172 ایڈیشن 1988ء)

فرماتے ہیں:- ’’اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خداتعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ232 ایڈیشن 1988ء)

فرمایا:- ’’میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدّم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ مجھے تو ان کے ہی اَفکار اور رنج، غم میں ڈالتے ہیں۔ اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے اُس کو نجات دے۔ ساری سرگرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں‘‘

(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ130 تا 167، ملفوظات جلد اوّل صفحہ66 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

ساؤتومے میں جماعت احمدیہ کی مسجد (بیت الرحمٰن) کا افتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ