• 27 اپریل, 2024

لطیف دعا

حضرت زکریا علیہ السلام کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کو قرآن کریم نے سورۂ انبیاء کی آیت 90 میں ہمیشہ کے لئے محفوظ فرمادیا ہے۔ دعا یہ تھی:

وَزَکَرِیَّا اِذْ نَادیٰ رَبَّہٗ رَبِّ لاَ تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ

اور زکریا (کا بھی ذکر کر) جب اُس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔

آپؑ کی اس دعا کی قبولیت کا ذکر سورۂ مریم کی آیت 8 میں مذکور ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ ۣاسۡمُہٗ یَحۡیٰیۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا ﴿۸﴾ (مریم: 8) یعنی اے زکریا! یقینا ہم تجھے ایک عظیم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ ہم نے اس کا پہلے کوئی ہم نام نہیں بنایا۔

اور پھر اس دعا کی برکت سے جو بیٹا عطا ہوا، اُس کی خوبیاں سورۂ مریم کی تیرھویں آیت سے لے کر سولہویں آیت تک بیان کی گئی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے:
اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ اور ہم نے اسے بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔ نیز اپنی جناب سے نرم دلی اور پاکیزگی بخشی تھی اور وہ پرہیزگار تھا۔ اور اپنے والدین سے حسن سلوک کرنے والا تھا اور ہرگز سخت گیر (اور) نافرمان نہیں تھا۔ اور سلامتی ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا اور جس دن اُسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں :-
’’یہ کیسی لطیف دعا ہے اور کس طرح دعا کے چاروں کونے اس میں پورے کردئے گئے ہیں۔ اِس دعا کو اگر ہم اپنے الفاظ میں بیان کریں تو اس کی یہ صورت ہوگی کہ: ’’اے میرے خدا! میرے اندرونی قویٰ مضمحل ہوگئے ہیں، میرا بیرونی چہرہ مسخ ہوگیا ہے، مَیں ہمیشہ سے ہی تیرے الطاف خسروانہ کا عادی ہوں۔ اس لئے مایوسیاں اور ناکامیاں مَیں نے کبھی دیکھی نہیں۔ ناز کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوچکی ہے۔ رشتہ دار میرے بُرے اور موت کے بعد گدّی سنبھالنے کے منتظر۔ بیوی میری بیکار۔ ان سب وجوہ کے ساتھ مَیں مانگنے آیا ہوں اور کیا مانگنے آیا ہوں۔ یہ مانگنے آیا ہوں کہ اے میرے خدا! تُو مجھے بیٹا دے۔ ایسا بیٹا دے جو میرا ہم خیال اور دوست ہو، ایسا بیٹا دے جو میرے بعد تک زندہ رہنے والا اور میرے خاندان کو سنبھالنے والا ہو اور ایسا بیٹا دے جو میرے اخلاق اور آل یعقوب کے اخلاق کو پیش کرنے والا ہو، گویا صرف میرے نام کو ہی زندہ نہ کرے بلکہ اپنے دادوں پردادوں کے نام کو بھی زندہ کردے اور پھر وہ انسانوں ہی کے لئے باعثِ خوشی نہ ہو، بلکہ اے میرے ربّ! وہ تیرے لئے بھی باعثِ خوشی ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد پنجم۔ صفحہ125)

اب یہ دعا ایسی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنی چا ہئے اور ہر ایک کا دل چاہتاہے کہ کرے اور صالح اولاد ہو اور پھربچوں کی پیدائش کے وقت بھی اور پیدائش کے بعد بھی ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں پوری ہوتی ہیں۔ اور یہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور نصیحت ہے۔ یہاں مَیں ضمناً ذکر کردوں۔ گو ضمناً ہے مگر میرے نزدیک اس کا ایک حصہ ہی ہے کہ اگروالدین کی دعا اپنے بچوں کے لئے اچھے رنگ میں پوری ہوتی ہے تووہاں ایسے بچے جو والدین کے اطاعت گزار نہ ہوں ان کے حق میں برے رنگ میں بھی پوری ہو سکتی ہے۔ تو ماں باپ کی ایسی دعا سے ڈرنا بھی چاہئے۔ بعض بچے جائیداد یا کسی معاملہ میں والدین کے سامنے بے حیائی سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مختلف لوگ لکھتے رہتے ہیں اس لئے یہ عجیب خوفناک کیفیت بعض دفعہ سامنے آجاتی ہے۔ اس لحاظ سے ایسے بچوں کو اس تعلیم کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے تو ماں کے لئے تو خاص طورپر حسن سلوک کا حکم فرمایاہے۔ اور یہ فرمایاہے کہ تمہاری سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے۔ یہ جو قرآن حکیم کا حکم ہے کہ والدین کو اُف نہ کہو یہ اس لئے ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے اورتم سمجھتے ہو کہ تمہارا حق مارا جا رہا ہے یا تمہارے ساتھ ناجائز رویہ اختیار کیاہے ماں باپ نے۔ تب بھی تم نے ان کے آگے نہیں بولنا ورنہ کسی کا دماغ تو نہیں چلا ہواکہ ماں باپ کے فیض بھی اٹھا رہا ہو اور ماں باپ اس بچے کی ہر خواہش بھی پوری کررہے ہوں توان کی نافرمانی کرے یا کوئی نامناسب بات کرے۔ اس کا آدمی تکلیف نہیں کرتا ہے تو جیسا کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا ہے بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کی نافرمانیوں کا ذکر کرتے ہیں اپنے خطوط میں۔ اس ضمن میں والدین کا جہاں فرض ہے اور سب سے بڑا فرض ہے کہ پیدائش سے لے کر زندگی کے آخر ی سانس تک بچوں کے نیک فطرت اور صالح ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ان کی جائز اور ناجائز بات کو ہمیشہ مانتے نہ رہیں اور اولاد کی تربیت اور اٹھان صرف اس نیت سے نہ کریں کہ ہماری جائیدادوں کے مالک بنیں جیساکہ مَیں آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات میں اس کا ذکر کروں گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بچوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے کہ ماؤں کے حقوق کا خیال رکھیں، باپوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ یہ نہ ہو کہ کل کوان کے بچے ان کے سامنے اسی طرح کھڑے ہوجائیں۔ کیونکہ آج اگر یہ نہ سمجھے اور اس امرکو نہ روکا تو پھر یہ شیطانی سلسلہ کہیں جا کر رکے گا نہیں اور کل کو یہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہو سکتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور احمدیت کی اگلی نسل پہلے سے بڑھ کر دین پر قائم ہونے والی اور حقوق ادا کرنے والی نسل ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ :

مِری اولاد جو تِری عطا ہے
ہر اِک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے

دنیاوی نعماء کی بھی دعا کی ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ دعا کی ہے کہ:

یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے وقت میری واپسی کا

(درّثمین اردو۔ صفحہ48 تا 49)

(خطبہ جمعہ 4 جولائی 2003)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا