وہی ہے جو اَلشِّعْرٰی (ستارے) کا ربّ ہے (قرآن مجید)
شرک اور مخلوق پرستی اُمُّ الخَبَائث ہے (حضرت مسیح موعودؑ)
وَ اَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰی
(النجم: 50)
اس آیتِ مبارکہ میں اَلشِّعْرٰی (ستارے) کا ذکر کیا گیا ہے۔ اَلشِّعْرٰی کی اصطلاح اس ستارے کا قدیم عربی نام ہے اور یہ واحد ستارہ ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں اس کے نام سے ہوا ہے، یعنی قدیم عربی نام سے (سورج کو عام طور پر سائنسدان خالص ستارہ تصور نہیں کرتے)۔ اَلشِّعْرٰی کا انگریزی نام (Seirious) ہے جس کا مطلب ہے شدید چمکتا ہوا جو کہ یونانی زبان کے لفظ سائیریوس (Sirius) سائیریوس سے نکلا ہے۔
دنیا کی پہلی عبادت گاہ اَلشِّعْرٰی (ستارے) کی پرستش کے لئے وجود میں آئی
اب تک ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دنیا کی پہلی عبادت گاہ اَلشِّعْرٰی (ستارے) کی پرستش کے لئے بنائی گئی تھی۔ ترکی کے ایک مقام سے ملنے والے آثار قدیمہ پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق، انسانوں نے آج سے تقریباَ 11,000 ہزار سال پہلے (Göbekli Tepe) گوبیکلی ٹیپے میں اَلشِّعْرٰی (ستارے) کی پرستش شروع کی تھی۔ پتھر کے زمانہ میں قائم ہونے والی ان نہایت سادہ ساخت کی دائرہ نمااشکال کو سائنسدانوں نے مندر کا نام دیا ہے جو کہ اَلشِّعْرٰی (ستارے) کی عقیدت اور پرستش کے لئے بنائی گئی تھیں [1,2]۔ قدیم مصر ی تہذیب تقریباً 5000 ہزار سال پرانی ہے۔ جب کہ ترکی میں گوبیکلی ٹیپے کے مقام پر ہونے والی اس پتھر کے زمانہ کی دریافت سے پتہ چلا ہے کہ قدیم مصری تہذیب سے کئی ہزار سال پہلے اَلشِّعْرٰی (ستارے) کی پرستش شروع ہو چکی تھی۔
قدیم مذاہب میں اَلشِّعْرٰی (ستارے) کا
اعلیٰ مقام
اگرقدیم مذاہب کی بات کی جائے تو پتھر کے زمانے میں رائج مذہب، قدیم مصر ی تہذیب میں رائج مذہب، قدیم ایرانی مذاہب (زرتشتی اور پارسی)، قدیم یونانی اور رومی مذاہب، اور جزیرہ نما عرب میں رائج مذاہب کے ما ننے والے اَلشِّعْرٰی (ستارے) کو خدا مانتے تھے جو اُن کے مطابق بارش کا پانی، فصلیں اور زندگی کی دوسری نعمتوں کا دینے والا تھا [3-5]۔
عربوں میں بھی اَلشِّعْرٰی (ستارے) کوخاصی اہمیت حاصل تھی اور بعض اہم اور تلخ تاریخی حقائق اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پتھر کے زمانہ سے لے کر آنحضرت ﷺ کی بعثت اور قرآن مجید کے نزول تک انسان اَلشِّعْرٰی (ستارے) کی وجہ سے شرک جیسے بڑے گناہ میں ملوث تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ نجم کی آیت نمبر 50 میں فرمایا
وَ اَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰی (النجم: 50)۔ ترجمہ: اور یہ کہ وہی ہے جو شِعریٰ (ستارے) کا ربّ ہے۔
شرک ایک بہت بڑا گناہ ہے جس میں انسان زمانہ قدیم سے مبتلا ہے
قرآن مجید فرقان حمید نے شرک کو ظلمِ عظیم قرار دیا ہے
(لقمان،: 14)
حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:
شرک اور مخلوق پرستی جو اُمُّ الخَبَائث ہے
(روحانی خزائن جلد1 صفحہ92 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008)
حضرت مسیح موعودؑ شرک کی ابتدا کیسے ہوئی کے متعلق بیان فرماتے ہیں
شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے اس کی بنیاد پڑی ہے یعنی حَوّا سے جس نے خدا تعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا۔ اور اس شرکِ عظیم یعنی عیسائی مذہب کی حامی بھی عورتیں ہی ہیں
(روحانی خزائن جلد20 صفحہ476 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008)
حیرت کی بات ہے کہ قدیم مصر ی اور یونانی تہذیب میں اَلشِّعْرٰی (ستارے) کو ایک دیوی آئیسس (Isis) کے نام سے جانا جاتا تھا [5]۔ ہزاروں سال کا سفر طے کرکے شرک نے باالآخر عربوں میں بھی اپنے ڈیرے ڈال دیئے۔ عربوں میں شرک پھیلنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
اور چونکہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے وقت عرب کے جزیرہ میں ایسے ایسے مشرکانہ عقائد پھیل رہے تھے کہ بعض بارشوں کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے تھے اوربعض دہریوں کی طرح تمام چیزوں کا ہونا اسبابِ طبیعہ تک محدود رکھتے تھے۔ اور بعض دو خدا سمجھ کراپنے ناملائم قضاء قدرکو اھر من کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اس لئے یہ خدا تعالیٰ کی کتاب کا فرض تھا جس کے لئے وہ نازل ہوئی کہ ان خیالات کو مٹا دے اور ظاہر کرے کہ اصل علت العلل اور مسبب ا لاسباب وہی ہے اور بعض ایسے بھی تھے جومادہ اور روح کو قدیم سمجھ کرخدا تعالیٰ کاعلت العلل ہونا بطور ضعیف اور ناقص خیال کرتے تھے۔ پس یہ الفا ظ قرآن کریم کے کہ میرے ہی امر سے سب کچھ پیدا ہوتا ہے۔ تو حید محض کے قائم کرنے کے لئے تھے
(روحانی خزائن جلد6 صفحہ240-241 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008)
آپؑ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :
شرک اور مخلوق پرستی کو دور کرنااور وحدانیت اور جلال الٰہی کو دلوں پر جماناسب نیکیوں سے افضل اور اعلیٰ نیکی ہے۔ پس کیا کوئی اس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ نیکی جیسی آنحضرت ﷺ سے ظہور میں آئی ہے کسی اور نبی سے ظہور میں نہیں آئی۔ آج دنیا میں بجزفرقان مجید کے اور کون سی کتاب ہے جس نے کروڑہا مخلوقات کو توحید پر قائم کر رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کے ہاتھ سے بڑی اصلاح ہوئی وہی سب سے بڑا ہے
(روحانی خزائن جلد1 صفحہ117-118 حاشیہ نمبر10، کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008)
پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اَلشِّعْرٰی (ستارے) کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما کر شرک اور مخلوق پرستی جو کہ اُمُّ الخَبَائث ہے سے بچنے کے لئے تا قیامت راہنمائی فر ما دی۔ قرآن مجید میں خاص طور پر اَلشِّعْرٰی (ستارے) کا نام لینا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت اور قرآن شریف کے نازل ہو نے سے پہلے کم بیش تمام دنیا اس ستارے کو اپنا خدا، دیوتا یا دیوی مانتی تھی اور کائنات میں قادرمطلق اللہ کی قدرت سے ظہور پزیر ہونے والے واقعات اور عملوں کو اَلشِّعْرٰی (ستارے) سے منسوب کرتی تھی۔ ان تمام مشر کانا عقائد کی نفی کرتے ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَلشِّعْرٰی (ستارہ) تمھارا ربّ نہیں بلکہ یہ اللہ ہی ہے جو اَلشِّعْرٰی (ستارے) کا ربّ ہے اس لئے اِسی ایک اللہ کی عبادت کرو نہ کہ ااَلشِّعْرٰی (ستارے )کی۔
1- Ananthaswamy A. Stone Age temple tracked the dog star. New scientist. 2013(2930):14.
2- Magli G. Sirius and the project of the megalithic enclosures at Gobekli Tepe. Nexus Network Journal. 2016;18(2):337-46.
3- Brosch N. Sirius Matters (Astrophysics and Space Science Library series 354). Germany: Springer Science & Business Media B.V.; 2008.
4- Holberg JB. Sirius: Brightest diamond in the night sky. Germany: Springer Science & Business Media; 2007.
5- Lurker M. The Routledge dictionary of gods and goddesses, devils and demons (e-book). London, United Kingdom: Taylor & Francis e-Library; 2005. Available from: https://img.fireden.net/tg/image/ 1472/70/1472704308476.pdf. Accessed and retrieved on 28 April 2021.
(فرید احمد ریحان۔ جرمنی)