• 19 جولائی, 2025

سائے میں تیرے دھوپ، نہائے بصد نیاز

جب یہ آن لائن ملاقات ختم ہوئی تو حضور نے مجھے اپنے دفتر آنے کی ہدایت فرمائی تو مجھے کچھ حیرانی ہوئی کیونکہ میں توآج صبح ایک دفتری ملاقات بھی کرچکا تھا اور میرے پاس کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں تھا جو اس دن حضور کو پیش کرنے والا ہو۔

میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ حضور نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے اپنے خطاب کے ہفتہ قبل تیارشدہ متن میں کچھ تبدیلی کرنی ہو کیونکہ اجتماع سے یہ خطاب اگلے دن ہونا تھا۔

لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوامجھے اس کی بالکل بھی توقع نہ تھی۔

جب میں حضور کے کمرہ میں داخل ہوا تو حضور نے ایک الماری میں رکھے ہوئے تین آلو بخاروں کی طرف اشارہ کیا۔

اور فرمایا:
’’میں نے یہ صبح تمہیں دینے کے لئے یہاں رکھے تھے لیکن میں بھول گیا۔ یہ میرے باغ میں لگے پھل دار درخت کے تازہ آلو بخارے ہیں۔‘‘

پھر حضور نے ایک بیگ لیا اور اس میں تینوں آلو بخارے رکھ دئیے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دفترکے دائیں جانب واقع چھوٹے باغیچہ میں کھلنے والا دروازہ کھولا جو وکالت مال اور وکالت تعمیل و تنفیذ کے دفاتر کی عمارت کے صحن سے منسلک ہے۔

حضور نے مجھے آلو بخارے کا درخت دکھایا جس کی شاخوں پر ایک درجن سے زائد آلو بخارے لگے ہوئے تھے۔

حضور نے ایک ایک کرکے آلو بخارے اتارے اور ان کو بیگ میں رکھا۔ کچھ آلو بخارے جو شاخوں پر کافی اونچے تھے ان کی شاخوں کو حضور نے نیچے کھینچ کر ان سے آلو بخارے اتارے۔ آخر پر جب پورا شاپنگ بیگ آلو بخاروں سے بھر گیا تھا تو حضور نے مجھے تحفةً عطا فرمادیا۔

یہ پھلوں کاتحفہ تو ایک بہت بڑی خوش قسمتی اور ایک بیش قیمت خزانہ تھا جو حضور نے خود اگائے اور اپنے ہاتھ سے اتارے تھے۔

اس کے بعد حضور نے مجھے اپنا باقی باغ دکھایا وہاں مختلف خوشنما رنگوں کے بہت سے پھول تھے۔ حضور نے مجھے پانی کاایک چھوٹا فوارہ بھی دکھایا۔

اور فرمایا:
’’یہ چھوٹا سا فوارہ پرندوں کیلئے ہے تاکہ وہ آکر اس میں سے پانی پی سکیں۔‘‘

جب میں حضور کے پیچھے چل رہا تھا تو سورج خوب چمک رہا تھا۔ پھولوں اور پھلوں کے درمیان وہ پس منظر تصویر کشی کے لئے بہترین تھا۔ میں نے حضور سے پوچھنا چاہا کہ اگر میں ان کی تصویر شاندار پھلوں اور پھولوں کے ساتھ لے سکتا ہوں تاہم میں نے سوچا کہ اس وقت حضور کی مبارک صحبت میں ان انمول ذاتی اور غیر رسمی لمحات سے لطف اندوز ہونا زیادہ بہتر ہے۔

کچھ وقت کے بعد حضور واپس اپنے دفتر میں آگئے اور دریافت فرمایا کہ کیا میں نے کبھی تمہیں دفتر کی دوسری طرف والا باغ بھی دکھایا ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کیا میں نے وہ ابھی تک نہیں دیکھا۔ تو حضور مجھے اپنے دفتر سے ملحقہ کمرے کے دروازہ سے دوسری طرف واقع باغ میں لے گئے۔

یہاں بھی گلاب اور دیگرخوشنما پھولوں کا ایک باقاعدہ منظر تھا۔ حضوربڑی خوشی کے ساتھ ان کے رنگوں کا ذکر کررہے تھے اور یہ بھی خوب واضح تھا کہ کس طرح حضور فطرت اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے، وہاں زیتون کا ایک درخت بھی تھاجو میرے لئے حیران کن تھا۔

ایک طرف دو لکڑی کی کرسیاں تھیں جن کودیکھ کر میں نے عرض کی:
’’حضور جب سورج نکلا ہوا ہو تو آپ یہاں بیٹھ کر اپنی ڈاک دیکھ سکتے ہیں‘‘

لیکن تب میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ کسی دن حضور باہر بیٹھ کر اپنا دفتری کام کررہے ہونگے توشاید مجھے بھی اس شاندارجگہ پرملاقات کرنے کا موقع مل جائے گا۔

حضور مسکرائے اور مجھے بتایا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے تو میں دفتر سے آگیا۔

میرا دل حقیقی خوشی سے لبریز تھا اور یہ ایسے لمحات تھے کہ جن کو ان شاء اللہ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔

(عابد خان ڈائری)

پچھلا پڑھیں

ساؤتومے میں جماعت احمدیہ کی مسجد (بیت الرحمٰن) کا افتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ