• 4 مئی, 2024

دو دِن کی ہے کہانی، نفرت سے نہیں جینا!

دو دِن کی ہے کہانی، نفرت سے نہیں جینا!
نئے سال میں نئے عہد باندھنے کے لئے ایک رہنما تحریر

مکرمہ صفیہ بشیر سامی۔ لندن نے اپنی ایک تحریر اشاعت کے لیے بھجوائی۔ اس کی نوک پلک درست کرنے کے دوران اس تحریر کی اہمیت اور افادیت اجاگر ہوئی۔ ادھر نئے سال کے آغاز پر عہد و پیمان باندھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خاکسار اس تحریر کو مسز سامی کی پیشگی اجازت سے اداریہ کا حصہ بنا کر قارئین کے سامنے پیش کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں درج باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

واٹس ایپ پر ہر روز کئی قسم کی بہت ساری ویڈیو نظر سے گزرتی ہیں بار بار اُن کو ڈیلیٹ بھی کرنا پڑتا ہے کچھ اچھی بھی لگتی ہیں جن کو دوبارہ دیکھنے کو دل کرتا ہے۔ ابھی ایک کلپ دیکھا ہے جو ہوسکتا ہے میری طرح اور بھی بے شمار لوگوں نے دیکھا ہوگا۔ ایک عرب بِن بلائے اپنے بھتیجے کی شادی پر اپنے بھائی کے گھر شادی والے دن پہنچ کر سب کو حیران کر دیتا ہے اور اس سر پرائز سے سب کو اتنی خوشی ہوتی ہے کہ آ نکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ ’’دودِن کی ہے کہانی، نفرت سے نہیں جینا‘‘ یہی اس ویڈیو کا عنوان بھی تھا۔

دل خوش ہو گیا دیکھنے میں تو وہ ویڈیو بہت اچھی لگی اور خوشی بھی ہوئی کہ کتنی اچھی بات ہوئی کہ روٹھے ہوئے بھائی ایک دوسرے کے ساتھ شکوہ شکایت کیے بغیر گلے لگے اور آنسوؤں کے تبادلے سے دل صاف ہو گئے۔ میری بھی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں سوچنے لگی کیا ہم بھی ایسے کر سکتے ہیں؟ میں نے کچھ ایسے لوگوں کو جنہوں نے مجھے یہ ویڈیو بھیجی تھیں پوچھا کہ کیا آپ اپنے بھائی یا بہن کے ہاں ایسے بن بلائے شادی پر جا سکتے ہیں؟ یقین کریں سب کا یہ ہی جواب تھا کہ نہیں ہم بِن بلائے کبھی نہیں جائیں گے اور یہ بظاہر درست بھی لگتا ہے۔ کوئی بِن بلائے کسی کے ہاں کیوں جائے۔ بِن بلائے جانا مناسب نہیں لگتا۔

یوں بھی ہم لوگوں میں سے کوئی ہمت کر کے چلا بھی جائے تو ساری زندگی اُس کو یہ سُننے کو ملے گا (اسی تے انا نوں نہیں بلایا سی اے ٹیٹھاں ونگوں فیر وی آ گئے) ہم نے تو نہیں بلایا تھا مگر یہ پھر بھی آ گئے۔ نجانے کیوں ہم معاف کرنے والی قوم میں سے نہیں ہیں۔ ہم بات کو بڑھا سکتے ہیں لیکن کم یا ختم نہیں کر سکتے۔میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا ہو نہیں سکتا ایسا کہیں نا کہیں ضرورہو تا ہوگا جہاں واقعی دلوں میں سچی محبت ہو اور عارضی ناراضگی چل رہی ہو تو با لکل ممکن ہے اور یقیناً ایسے لوگ ہم میں سے ضرور ہوں گے جو اعلیٰ اخلاق پر قائم ہیں کہ اپنی ناراضگیوں کو رفع کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہوں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایسے خوش نصیب لوگ ضرور ہوں گے۔لیکن بہت کم ہوں گے۔

پھر یہی بات میں نے اپنے دل سے بھی پوچھی کہ کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ بہت ہمت کی کہ خود سے جھوٹ بول جاؤں کہ ہاں ہاں میں کر سکتی ہوں لیکن دل نہیں مانا کہ یوں جھوٹ بول کر جھوٹ موٹ ایک بات کہہ دوں۔ دل نے یہی جواب دیا کہ یقیناً میں بِن بلائے ہرگز نہیں جا سکتی۔ ہاں اگر میں جن لوگوں کے پاس جا رہی ہوں اُن سے اگر میرا ایسا پیار کا رشتہ ہے کہ شرمندہ ہونے کے باوجود مجھے اور اُن کو خوشی ملے گی تو ضرور کیوں نہیں؟ میں بخوشی چلی جاؤں گی۔

بلائے یا بِن بلائے والی بات تو میں نے ویڈیو کی وجہ سے کی ہے۔ ہماری ان ناراضگیوں کی بے پناہ وجوہات ہوتی ہیں اور ہر گھر کے مختلف حالات ہوتے ہیں۔ مثلاً میرے سامنے کچھ ایسے تکلیف دہ واقعات آ ئے ہیں کہ میں نے اُن فیملیز کو تکلیف میں دیکھا ہے اس مشاہدے کی وجہ سے یہ سطورلکھنے کا خیال آیا۔ ہنستے بستے خوش وخرم خاندان کیسے پھٹ کے رہ جاتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ والدین کا اپنی زندگی میں will نہ بنانا اور اپنے بچوں کو بیچ منجھدار کے چھوڑ جانا۔ یا will بنائی بھی ہے تو نا انصافی کر جانا۔ اس طرح سے یہ اور بھی کئی بے شمار لوگ ہوں گے جو اِن مشکلات سے دو چار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل فر مائے۔ آ مین

وہی والدین جو اپنی اولاد سے زندگی بھر محبت اور پیار کرتے ہیں اور اپنی اولاد کومحبت کا درس دیتے ہیں انجانے میں اُنہیں بچوں کو ایک ناخوشگوار حالات میں چھوڑ جاتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے۔ بہنیں اور بھائی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تمہیں زیادہ دیا مجھے کم ملا۔ میں نے زیادہ خدمت کی آپ نے کم کی ہے اور اگر بہن بھائی آپس میں معاملات کو درست کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اُن کے جیون ساتھی وہ حق چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے جو دیکھا جائے تو اُن کا ہوتا ہی نہیں ! نتیجتاً وہاں پھر ایسا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ غرض یہ ایک بہت ہی نازک اور سمجھداری سے سلجھانے والا مسئلہ ہے جس کو چاہیے کہ والدین اپنی زندگی میں ہی انصاف سے معاملات کو سلجھا لیں۔ اپنے بچوں کے لئے مسائل نہ چھوڑ کر جائیں۔پھر یہ بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے جس بچہ کے پاس والدین رہتے ہیں چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ اُسی سے سب کو شکایت ہوتی ہے۔ بیٹا یا بیٹی جب اپنے والدین کو سنبھالتے ہیں تو وہ ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ اُن کی پوری فیملی ہی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے والدین نے اپنے کسی ایک بچے کے پاس تو رہنا ہی ہوتا ہے اس لئے باقی فیملی کو اُن کی مدد کرنی چاہئے۔ شکوے شکایت نہیں۔ خاص طور پر جب والدین میں سے کوئی ایک رہ جائے تو مزید ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اُس فیملی کی اس لحاظ سے بھی عزت کرنی چاہئے کہ وہ والدین یا، والدہ یا والد کی خدمت کر رہے ہیں۔

ویسے میری نظر میں اگر والدین دونوں ایسی عمر میں ہیں کہ وہ اکیلے رہ سکتے ہیں تو اُن کو از خود علیحدہ زندگی گزارنی چاہئے۔ والدین جنہوں نے ساری زندگی محنت کر کے اولاد کی پرورش کی ہوتی ہے اُن کا حق ہے وہ اپنی زندگی جییں اور دونوں میاں بیوی اکٹھے وقت گزاریں ایسا کریں تو بہت خوشی ملے گی والدین خود بھی سیریں کریں اور وہ کچھ کریں جو وہ زندگی بھر مصروفیت کی وجہ سے نہیں کر سکے۔ میں ایک ایسے خوش نصیب میاں بیوی کو دیکھتی ہوں جو اپنی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر ہر وقت دنیا میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ وقفِ عارضی بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیں جس ملک میں جاتے ہیں وقفِ عارضی سے وہاں خدمتِ دین بھی کرتے ہیں۔ حج کیے عمرے کیے اکثر قادیان بھی زیارت کے لئے گئے۔ کتنا اچھا لگتا ہے اُن کو دیکھ کر کتنی اچھی اور خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے وہ ہمیشہ مجھے ہر ملک سے اچھی یاد گار تصویریں بھیجتے رہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو رشک آتا ہے اُن پر۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُن کو ایسے ہی رکھے۔ اور باقی باہمت جوڑے بھی اپنی زندگی کی خوشیاں حاصل کر سکیں۔ ضروری نہیں ہے کہ سب دوسرے ملکوں میں ہی جا کر خوشیاں ڈھونڈیں۔ جو بھی آپ کو پسند ہو وہ کریں کتابیں پڑھیں، لائبریری جائیں اور کچھ نہیں تو اپنے گارڈن میں باغبانی سے شوق پورا کریں غرض تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔ اس طرح خدا کے فضل سے آپ کافی حد تک بیماریوں اور مایوس زندگی سے بھی بچ سکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فر مائے کہ ہم مصروف اور صحت مند زندگی گزار سکیں۔ آمین

اس طرح سے والدین اپنے گھر میں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں اور سب کو سکون اور خوشی ملتی ہے اُن کے سب بچے آسانی سے اپنے والدین کو ملنے آ سکتے ہیں اور خدمت بھی کر سکتے ہیں ہاں جب مجبوری ہو جائے تب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ’’اُف‘‘ کہے بغیر خدمت کریں۔

اگر والدین یا دونوں میں سے ایک جو اپنے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ رہتا ہو اُن پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اب اپنے نہیں اپنے بچوں کے گھر میں رہ رہے ہیں اُن کی اپنی فیملی کی ذمہ داری بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمہ لگائی ہوئی ہے وہاں زیادہ دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر آپ صحت مند ہیں اور اس قابل ہیں تو اپنے کام خود کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح بچوں پر بوجھ بھی نہیں بنتے اور تھوڑے با ہمت بھی رہتے ہیں اور سوچ لیں کہ یہ میرے کام ہیں میں نے خود ہی کرنا ہے۔ ماں باپ بچوں پر بوجھ نہیں ہوتے لیکن جس ملک میں ہم رہتے ہیں ہر بندہ مصروف ترین ہوتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں مائیں بھاگم بھاگ بچوں کو سکول چھوڑنا،لے کر آنا، گھر کے تمام کام نپٹانا۔ اگر ماں جاب بھی کرتی ہے تو اور مزید ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح یہاں ان ملکوں میں تو باپ بھی خدا کے فضل سے ہاتھ بٹاتے ہیں لیکن پھر بھی بھاگم بھاگ ہوتی ہے ویک اینڈ پر شاپنگ لانڈری ہزاروں کام ہوتے ہیں اس پر اگر ہم ساسیں یا مائیں اپنے کام خود کر لیں تو یہی اُن کی مدد ہے سوائے اس کے کہ اگر کوئی والدین میں سے بیمار ہے یا معذور ہے پھر پہلے اُن کی خدمت ضروری ہے باقی کام بعد میں اللہ سب کو ایک دوسرے کی خدمت اور مدد کرنے کی توفیق دے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے گھر میں سکون رہتا ہے۔

گھروں کے سکون پر بات ہو رہی ہو تو ساس بہو کے ذکر کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ ہمارے پیارے حضور اکثر باہمی رشتوں اور رحمی رشتوں کی اہمیت پر خطبوں میں اور اپنی تقاریر میں نصیحت فر ماتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی یہ رشتہ بھڑکنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اکثر کبھی بہو بچاری ہوتی ہے اور کبھی ساس بچاری ہوتی ہے۔ عورت ہی عورت کی دشمن بنی رہتی ہے اور بیٹے مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ نئی دلہن جب گھر میں قدم رکھتی ہے تو باوجود اس کے وہ سمجھ دار عقلمند پڑھی لکھی ہوتی لیکن پھر بھی گھر داری کا تجربہ نہیں ہوتا اس طرح ساس پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اُس آنے والی بچی کو تھوڑا وقت دیں تاکہ وہ اپنے آپ کو سنبھال سکے اور نئے گھر کو سمجھ سکے، نیا گھر اور نئے گھر کی ہر چیز اُس کے لئے نئی ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے جتنا نئی بچی کو پیار دیں گے اُس کو اور آپ سب گھر والوں کو شادی کی خوشیاں ہی ملیں گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کوئی پودا لا کر نئی جگہ پر لگائیں تو اُس کی کتنی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے اُ سے پانی دینا،دھوپ چھاؤں کا خیال رکھنا تب جا کر وہ پودا جڑ پکڑتا ہے ایسے ہی وہ بچی ہوتی جس کو نئی جگہ سنبھلنے میں تھوڑے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام پیارے رشتوں کو چھوڑ کر ہمارے گھر آتی ہے اُس کو پیار اور محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں صرف یہاں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ لڑکی کی والدہ کو بھی تھوڑی سمجھ داری سے کام لینا چاہئے کہ وہ ہر وقت اپنی بچی کو فون کر کر کے اُس کا حال نہ پوچھتی رہیں کیا کھایا کیا پیا، کیا سلوک ہے تمہارے ساتھ ایسی با توں سے وہ نئے گھر کی ہر بات بتائے گی تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اپنی بیٹی کو اپنے نئے گھر میں قدم جمانے میں مدد کریں۔ پھر دیکھیں! کیسا خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے خوش گوار گھر کا ماحول بنے گا اور بہترین زندگی ہوگی بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو ماں اگر اپنی بیٹی کو سمجھائے تو پھر دیکھیں! اُن کو سُکھ ہی سُکھ ہوگا۔ ان شاء اللّٰہ

گھر میں بچوں کے دادا، دادی، یا نانا، نانی رہتے ہیں تو بچوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ نمازیں اور قرآن کریم پڑھتے دیکھتے ہیں اگر آج وہ نہیں پڑھ رہے تو زندگی بھر اُن کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھتے دیکھا ہے وہ خود بھی پڑھنے کی کوشش کریں گے۔ چونکہ ہمارے بڑوں کو ہر وقت سلام کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ بسم اللہ سے کام شروع کرتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو سلام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور بہت کچھ بِن بتائے سیکھنے کو ملتا اور ہر وقت بہت ساری بڑوں سے دعائیں ملتی ہیں۔ اس طرح سے اسلامی تربیت ہوتی رہتی ہے۔ الحمد للّٰہ

بڑوں بزرگوں پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ بچوں یا بچوں کے والدین کے ساتھ ہر وقت نوک جھونک نہ کریں۔ اگر اچھی بات سمجھانی بھی ہے تو بہت آرام اور تحمل سے بات کریں بچے بھی اُتنی ہی عزت چاہتے ہیں جتنی ہم سب بڑوں کو ضرورت ہے۔ دادا، دادی یا نانا، نانی بچوں کے ساتھ اپنا خود سے ایک پیار و محبت والا دوستانہ رشتہ بنائیں اُن کو اپنے پیار کا احساس دلائیں ہر وقت شکوہ شکایت نہ کریں۔ کبھی موقع ملے تو آپ اپنے بچوں کو تحفہ دیں یا اُن کو اپنے پیسوں سے کھانا کھلائیں۔ دیکھیں! بچے کیسے خود بخود آپ کے پاس آئیں گے۔ بچوں کو بھی معاف کرنا سیکھیں۔ اسی طرح بڑوں کو پیسوں یا تحفوں کی ضرورت نہیں ہوتی بس اُن کو تو تھوڑا پیار بھرا وقت مل جائے یا مسکرا کر دیکھ لیں اُن کے لئے بہت ہوتا ہے۔

پھر اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اگر آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ رہتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ جب بھی وہ اپنے بچوں کے ساتھ ڈنر پر جائیں یا سیرو تفریح کے لئے جائیں تو آپ اُن کے ساتھ ہی جانے کی ضد کریں بلکہ خوشی سے اُن کو اجازت دیں کہ وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکیں جیسے کہ آپ نے اپنے زمانہ میں گزاری ہوگی۔ بچوں پر بھی واجب ہے کہ جب وہ واپس گھر آ ئیں تو جو گھر میں ماں یا ساس یا والد صاحب ہیں تو اُن کے لئے کوئی چھوٹی سی چیز تحفہ میں لے کر آئیں اگر آپ ڈنر پر بھی گئے ہیں تو آتے ہوئے اُن کے لئے بھی کوئی کھانے پینے کی چیز لے کر آئیں یہ بہت سوچ رکھنے ولی باتیں ہوتی ہیں ان سے پیار اور عزت بڑھتی ہے اور گھر کا ماحول خوش گوار رہتا ہے۔

کار کی فرنٹ سیٹ جو بیٹے کے لئے ہمیشہ مشکل بنی رہتی ہے کہ کار میں فرنٹ سیٹ پر ماں کو بٹھاؤں یا بیوی کو اکثر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ کار میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا میرا حق ہے جب کہ بہو کا شوق ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ فر نٹ سیٹ پر بیٹھے۔ بیٹا بچارا مشکل میں پھنسا رہتا ہے کہ کیا کروں۔ مجھے لگتا ہے ماں نے الحمد للّٰہ پوری زندگی فرنٹ سیٹ پر اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کر شوق پورا کر لیا ہوتا ہے۔ اب بہو کو اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کر دل خوش کرنے دیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بیٹوں کی ماؤں کو عقلمندی سے ادا کرنی چائیں ان سے آپ کے لئے بھی اور آپ کے بیٹے کے لئے بھی سکون کا باعث ہے۔ ہمیشہ خوشی سے جئیں اور خوشی سے جینے دیں اور محبتوں کے مرہم لگائیں۔

الحمد للّٰہ! ہماری جماعت میں وصیت کا نظام قائم ہے اور ہم سب بہت شوق اور خوشی سے اس نظام میں شامل ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کے ہم سب اپنی زندگی میں ہی ادا کر سکیں (اللہ ہمیں توفیق بخشے۔ آمین) لیکن بعض اوقات ایسے نہیں ہوتا کہ ہم اپنی زندگی میں ادا کر سکیں تو جماعت اور وصیت گزار کی فیملی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اپنی وصیت کرتے وقت بھی اچھی طرح سوچ سمجھ کر وصیت کریں شوق سے کریں وصیت کا بہت بڑا ثواب ہے لیکن کوشش کریں کہ خود اپنی زندگی میں خود سے ادا کریں نا کہ اس کو اپنے بچوں کے سر پر قرض چھوڑ جائیں۔ اکثر بچوں کے لئے مشکلات ہو جاتی ہیں اُس وعدہ کو نبھانے کے لئے جو ہم نے کیا ہوتا ہے لیکن زندگی میں مجبوریوں کی وجہ سے ادا نہیں کر سکے۔ وہ ہماری اولاد کے لئے کبھی کبھی خوشی نہیں مصیبت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اُن کے ایسے حالات نہیں ہوتے کہ وہ قرض لے کر ادا کر سکیں۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ صفیہ سامی کیا تم اِن ساری باتوں پر عمل کرتی ہو ؟ جی ہاں کچھ نا کچھ جو مالی معا ملات ہیں اُن پر کوشش کی ہے۔لیکن سچ پوچھیں یہ جو میں نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے یہ سب میں اپنی تربیت کے لئے ہی لکھتی رہتی ہوں۔ جب لکھ رہی ہوتی ہوں تو اپنے اندر کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے آپ کو سدھارنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہوں۔ ورنہ تو مجھ سے بھی بہت بہتر لکھنے والے قلمکار موجود ہیں جو بہت اچھی اچھی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ اللہ مجھے توفیق عطا فر مائے کہ میں خود بھی اِن ساری اچھی باتوں پر عمل کرنے والی بن جاؤں۔ میری وجہ سے میری بہوں، بیٹیوں، بیٹوں اور دا مادوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اسی طرح میں اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے لئے ایک اچھا نمونہ چھوڑ کر جاؤں جس پر وہ ہمیشہ فخر کر سکیں۔ آ مین اللّٰھم آمین

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2023