• 19 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 11)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 11

اسلام کھیلوں سے منع نہیں کرتا

یہ امر یاد رکھو کہ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے لڑکوں کو افسردہ دل اور افسردہ دماغ بناؤ بلکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ اَلصَّبِیُّ صَبِیّ وَلَو کَانَ نَبِیًّا یعنی بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ اس نے بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جانا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ بچپن میں کبھی چڑیوں کا شکار کرتے، کبھی غلیلیں بناتے اور کبھی سواری سیکھتے۔ گویا اِس زمانہ کے نبی اور مامور نے بھی بچپن کی عمر میں کھیلوں میں حصہ لیا ہے اور جب آپ نے اس میں حصہ لیا تو اور کون ہے جو کھیلوں میں حصہ لینا خلافِ اسلام قرار دے۔

حقیقت یہ ہے کہ جن بچوں کو کھیلنے سے روکا جاتا ہے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے۔ ہماری جماعت کے ہی ایک مشہور کارکن ہیں اُن کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے بچے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے ہو کر ان کا وہ بچہ نہ دنیاکا رہانہ دین کا۔

میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ وہ لڑکا جسے دوسروں سے الگ رکھا جائے گا وہ دوسروں سے زیادہ اچھا کبھی نہیں بن سکے گا کیونکہ اس میں قوتِ عملیہ مفقود ہوگی۔ پس میں یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے بچوں کو نہ کھلاؤ۔ انہیں کھلاؤ اور پہلے سے زیادہ کھلاؤ اور جتنا ہنسی مذاق وہ پہلے کیا کرتے ہیں اُس سے بھی زیادہ ہنسی مذاق اُنہیں کرنے دو۔

میں صرف یہ کہتا ہوں کہ تم ان کی کھیلوں کو مہذب اور اُن کی ہنسی اور مذاق کو شُستہ بنا دو اور ان پر یہ اثر ڈالو کہ تمہیں ان کی کھیلوں سے دلچسپی ہے۔….میں نے خود ایک ایسا کھیل سیکھا ہوا ہے کہ اگر آج کوئی بچہ وہی کھیل سیکھنے لگے تو شاید پچاس ساٹھ فیصدی احمدی کہنے لگ جائیں کہ توبہ توبہ کیسی لغو کھیل سیکھ رہا ہے حالانکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدد سے وہ کھیل سیکھا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک احمدی دوست آئے اور کہنے لگے میرا دل چاہتا ہے کہ میں حضور کو کسی طرح خوش کروں۔ مگر میں غریب آدمی ہوں نذرانہ دے نہیں سکتا اور عالم بھی نہیں کہ اپنے علم کے زور سے کوئی خدمت بجا لا سکوں۔ مجھے صرف تماشے دکھانے آتے ہیں اگر اجازت ہو تو میں حضور کو وہ تماشے مسجد میں دکھا دوں۔ اگر آج کسی مسجد میں تماشہ دکھایا جانے لگے تو شاید اسّی فیصدی احمدی شور مچا دیں کہ یہ کفر ہو گیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ ہنس پڑے اور فرمایا بہت اچھا ہم تماشہ دیکھیں گے۔

چنانچہ وہ مداری کا تھیلا لے کر مسجد مبارک میں مغرب کی نماز کے وقت آگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھ گئے اور ان صاحب نے اپنے کرتب دکھانے شروع کیے۔ کبھی گولہ غائب کر دیتے، کبھی تاش اُڑانے لگ جاتے، کبھی کچھ کرتے اور کبھی کچھ۔ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے بائیں طرف گوشہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھے تھے اور آپ سے ذرا پرے حضرت خلیفۂ اول مولوی نورالدین صاحب بیٹھے تھے۔ حضور کے بائیں طرف میں بیٹھا تھا اور مجھ سے ہٹ کر ایک طرف پیرسراج الحق صاحب تھے۔

غرض اُس نے عجیب و غریب تماشے دکھانے شروع کر دیئے۔ کبھی بوتل دکھاتا اور پھر وہ غائب ہو جاتی اور اس کی جگہ گلاس آجاتا اور کبھی گلاس بھی غائب ہو جاتا۔ مولوی عبدالکریم صاحب بہت سادہ طبیعت کے تھے۔ وہ تماشہ دیکھتے جائیں اورسُبحَانَ اللّٰہِ سُبحَانَ اللّٰہِ کہتے جائیں۔ مگر حضرت خلیفہ اول ان باتوں کو جانتے تھے اوروہ تو اس کا پول بھی کھولنے لگے تھے مگر پھر اُس کی درخواست پر رُک گئے۔

بہرحال اُس نے مسجد مبارک میں تماشے دکھائے اور میں نے بھی دیکھے۔ میرے لئے یہ بات ایسی عجیب تھی کہ گویا آسمان کے فرشتوں نے کائنات کے تمام اسرار کھول کر میرے سامنے رکھ دیئے ہیں۔

جب کھیل ختم ہو گیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زور دینا شروع کر دیا کہ اِن صاحب سے کہیں کہ یہ کھیل مجھے بھی سکھا دیں۔ جب میرا اصرار بہت ہی بڑھ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس دوست کے نام ایک رُقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ:-

مکرمی فلاں صاحب!
محمود کو آپ کی کھیلیں سیکھنے کا بہت شوق پیدا ہو گیا ہے اور وہ بار بار مجھے دِق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کھیلیں اسے سیکھا دی جائیں آپ کا تو یہ پیشہ ہے اس لئے میں زور نہیں دیتا لیکن اگر آپ کا کوئی حرج نہ ہو تو بعض کھیلیں محمود کو سکھا دیں۔

چنانچہ میں باقاعدہ اس مداری کا شاگرد بنا اور پانچ سات دنوںمیں اُن کرتبوں کا ایک حصہ اس نے مجھے سکھادیا۔

اب اگر کوئی مداری کے کھیل سیکھنا چاہے تو تم فوراً کہہ دو گے کہ توبہ!توبہ! یہ تو بڑے گناہ کی بات ہے حالانکہ میں نے خود یہ کھیل سیکھا اور نہ صرف سیکھا بلکہ کئی دفعہ اپنے گھر میں دوسروں کو بھی میں نے یہ کھیل دکھائے ہیں۔

اب تو ایک عرصہ سے مجھے اس کا موقع نہیں ملا لیکن اس سے پہلے کبھی فرصت کا وقت ہوا اور بچوں سے باتوں میں مشغول ہوا تو میں انہیں بعض کھیل دکھادیا کرتا تھا۔ میرے ایک بھتیجے کا ایک لطیفہ ہے جو اب تک مجھے یاد ہے۔ 41-51 سال کی بات ہے میاں بشیر احمد صاحب کا لڑکا منیر احمد ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ ایک دن بعض بچوں کے کہنے پر میں نے بعض کھیل اُنہیں دکھائے۔

عزیزم منیر احمدبہت چھوٹا تھا اور کرسی پر سامنے بیٹھا تھا۔ باقی تو ان کھیلوں پر بڑا تعجب کرتے رہے مگر میں نے دیکھا کہ منیر پتھر کی طرح کرسی پر جم کر بیٹھا رہا اور جب تک میں کھیلیں دکھاتا رہا وہ برابر مجھے گھورتا چلاگیا۔ چارپانچ منٹ بچوں کا دل خوش کرنے کے بعد جب میں نے بچوں سے پوچھا اور وہ سب اپنی حیرت کا اظہار کر چکے تو میں نے منیر سے بھی پوچھا منیر تم نے کیا دیکھا؟

اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگا۔ چچاابا! جان بھی دیو میں جانداں ہاں تہاڈی چلاکیاں نوں۔ یعنی چچا ابا! آپ جانے بھی دیں میں آپ کی چالاکیوں کو خوب جانتا ہوں۔ ہم سب لوگ دیر تک اُس کے اِس فقرہ پر ہنستے رہے۔ اب منیر کو کبھی یہ بات یاد کرائی جاتی ہے تو وہ بڑا شرمندہ ہوتا ہے۔ تو اِس قسم کی کئی کھیلیں ہیں جو ہم کھیلتے رہے۔

حضرت مسیح موعود ؑنے بھی اپنے بچپن میں کئی کھیلیں کھیلیں اور ہمیں بعض کھیل دیکھنے کے لئے بھجواتے رہے اور بعض دفعہ مداریوں کا تماشہ گھر کے دروازہ پر بچوں کے دیکھنے کے لئے اجازت دی۔

پس کھیلوں میں حصہ لینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر بچے کھیلوں کی طرف توجہ نہ کریں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ اُن کی اخلاقی حالت اچھی نہیں ہوگی۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ564-567)

دنیا کوئی حقیقت نہیں رکھتی

خداتعالیٰ کے نزدیک دین ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے دنیا کے کام جب دین کے مقابل پر آئیں تو اللہ تعالیٰ اُنہیں مٹانے سے دریغ نہیں کرتا۔ یا پھر وہ ان دنیاوی کاموں کو مٹانے سے دریغ کرتا ہے جو دینی کاموں کی تائید میں ہوں۔ یا کسی دینی کام کے مخالف نہ ہوں اور کسی دینی کام کے مقابل پر نہ آئیں۔ ذیل کی روایت روایتاً خواہ کیسی ہی کمزور ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کی اچھی مثال ہے۔

کہتے ہیں کہ جب طوفانِ نوح آیا اور پانی بہت اونچا ہونے لگا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ پانی کافی اونچا ہو گیا ہے، کافی تباہی آچکی ہے اب اسے بند کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابھی اَور اونچا ہونے دو۔ پھر اَور اونچا ہوا۔ تو فرشتوں نے عرض کیا کہ اب بند کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں ابھی اور اونچا ہونے دو فلاں پہاڑ کی چوٹی پر ایک درخت کی اوپر کی شاخ پر ایک چڑیا کا بچہ ہے وہ پیاسا ہے جب تک وہ اپنی چونچ سے نہ پی لے طوفان بند نہ کرو۔

تو دنیا اپنی ظاہری شان و شوکت کے باوجود کوئی حقیقت نہیں رکھتی بِالخصوص جب وہ دین کے مقابل پر آئے تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ586-587)

زہر دے دیا تریاق پسند نہیں

ایک احمدی طالب علم نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام اخبار الفضل جاری نہیں کراتے۔

ان کی دو بیویاں تھیں اور پہلی کے ساتھ اُن کے تعلقات کشیدہ تھے۔مَیں نے خیال کیا کہ یہ بیٹا اُس بیوی سے ہوگا مگر جب مَیں نے ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی دوسری بیوی سے ہے۔ جب مَیں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ اس کے نام الفضل کیوں جاری نہیں کراتے۔

تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے بارہ میں اِس کی رائے آزاد رہے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ نے اسے دُنیوی تعلیم کے لئے کالج میں بھیجا ہوا ہے جہاں وہ فلسفہ کی کتابیں اس پر اثر ڈالتی ہیں جو وہ پڑھتا ہے۔ جہاں اُس کے استاد اور دوست اثر ڈالتے ہیں۔

آپ کا یہ خیال ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے مذہبی خیالات پر گمراہ کن اثر نہیں ڈالتا؟ آپ نے اس کے لئے زہر کا انتظام تو کر رکھا ہے مگر تریاق آپ کو پسند نہیں۔

وہ جن کا کوئی حق نہ تھا کہ اسے مذہب کے بارہ میں کچھ سکھاتے وہ تو سکھا رہے ہیں مگر آپ جن کا فرض تھا اِس سے غافل ہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ592-593)

دل میں ایمان ہو تو تعلیم و تربیت درست ہو جاتی ہے

اپنی نیتوں کو درست کر لو اور تعلیم و تربیت کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔ دیکھو قرآن کریم نے کیسی موٹی مثال تربیت کی دی ہے۔

فرعون حضرت موسٰی کے مقابلہ پر بازیگروں کو لایا۔ ان لوگوں کی تربیت اور اخلاق جس قسم کے ہوتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ یہ لوگ ذلیل طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے سب کام ایک دھوکا کی شکل رکھتے ہیںہاتھ اِدھر مارا اور چیز اُدھر سے نکال دی۔ ظاہر ایسا کرتے ہیں کہ گویا وہ پیٹ میں سے گولہ نکال رہے ہیں لیکن نکالتے دراصل آستین میں سے ہیں۔

چنانچہ جب ان کو فرعون نے حضرت موسٰی کے مقابلہ کے لئے بُلایا تو اُنہوں نے پہلے یہی کہا کہ اچھا اگر ہم خوش کریں گے تو آپ کیا دیں گے؟

اس سے بھی اُن لوگوں کی ذہنیت کا اندازہ ہو سکتا ہے ؛لیکن جب حضرت موسٰیؑ کے معجزہ نے ان کو مغلوب کر دیا اور ان پر ظاہر ہو گیا کہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے تو فوراً ایمان لے آئے۔

یہاں تک تو دلیل کی بات تھی جو انہوں نے مان لی مگر آگے تربیت کا حصہ ہے۔ فرعون نے ان کو دھمکی دی کہ میں تمہیں بہت اذیت دوں گا بلکہ یہاں تک کہا کہ صلیب پر لٹکا دوں گا کیونکہ تم لوگوں نے مجھے ذلیل کرایا ہے۔

تو دیکھو وہی لوگ جو ایک منٹ پہلے کہہ رہے تھے کہ اچھا مولا خوش کریں گے تو دلاؤ گے کیا؟ وہ فرعون کی اِس دھمکی کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگرتو ہمیں پھانسی بھی دے دے گا تو کیا، تو ہماری جان ہی لے سکتا ہے اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔ تو یہ تربیت ایمان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔

حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو ایک پیسہ کا خط اس کا کوئی عزیز لکھتا ہے تو وہ جب تک اسے سات مختلف لوگوں سے پڑھوا کر نہ سن لے اُسے چین نہیں آتا لیکن قرآن کریم جو خداتعالیٰ کا کلام ہے اس کے پڑھنے کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ نہیں۔

پس اپنے دلوں میں ایمان پیدا کرو۔ اگر دل میں ایمان پیدا ہو جائے تو تعلیم و تربیت خود بخود درست ہو جاتی ہے۔

پس میری آپ لوگوں کو پہلی اور آخری نصیحت یہی ہے کہ اپنے دلوں میں ایمان پیدا کرو۔ اپنی اور اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت کا خود فکر کرو۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ596-597)

قرآن میں تاثیر ہوئی تو مسلمان ہو جائیں گے

مہاشہ محمد عمر صاحب نے بھی پنجاب یونیورسٹی سے مولوی عالم کی ڈگری کے برابر ڈگری سنسکرت میں حاصل کی ہوئی ہے یہ مادرزاد ہندو ہیں اس لئے ان کا لہجہ وغیرہ بھی ہندوانہ ہے…….. غالباً 1922ء کی بات ہے کہ مہاشہ محمد عمر صاحب ہندو طالب علموں کی ایک پارٹی کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آئے تھے۔

گوروکل کانگڑی کے ایک پروفیسر صاحب یہاں ایک جلسہ پر آئے تھے اور اپنی بہادری دکھانے کے لئے کہ دیکھو میں کیسی اچھی تقریر کرتا ہوں طالب علموں کی ایک پارٹی کو بھی ساتھ لے آئے۔ اُنہوں نے طلباءکومجھ سے ملنے کے لئے بھی بھیجا۔

اُس وقت مہاشہ محمد عمر بھی ان کے ساتھ تھے مَیں نے طالب علموں سے کہا پروفیسر صاحب سے کہو کہ آپ اپنے چند طالب علم یہاں بھیج دیں میں خود اُن کو قرآن پڑھاؤں گا۔

اِسی طرح میں چند طالب علم بھیجتا ہوں جن کو وہ وید پڑھائیں۔ خرچ اپنے طالب علموں کا بھی اور اُن کے بھیجے ہوئے طالب علموں کا بھی مَیں ہی دوں گا۔

اگر قرآن کریم میں تاثیر ہوگی تو ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کو میں مسلمان کر لوں گا اور اگر ویدوں میں تاثیر ہوگی تو ہمارے طالب علموں کو وہ ہندو کر سکیں گے اور یہ ہم دونوں کا انعام ہوگا مگر اُنہوں نے اِس تجویز کو نہ مانا۔

مہاشہ محمد عمر صاحب بھی اِس پارٹی میں تھے اُن کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ چند دنوں کے بعد بھاگ کر یہاں آگئے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 ص606-607)

چالاقیاں ہی نقصان پہنچاتی ہیں

کہتے ہیں کوئی شخص کسی درزی کے پاس کپڑا لے کر گیا اور کہنے لگا کہ کیا اِس کپڑے کی دو ٹوپیاں بن جائیں گی؟

اُس نے کہا کہ ہاں دو ٹوپیاں تیار ہو جائیں گی۔ وہ کہنے لگا کیا اس کی تین ٹوپیاں بن سکتی ہیں؟

درزی نے کہا تین بھی بن سکتی ہیں اِس پر وہ کہنے لگا اچھا بتاوٴ کیا اس کپڑے کی چار ٹوپیاں بن جائیں گی؟

اس نے کہا کہ ہاں آپ چاہیں تو چار ٹوپیاں بھی بن سکتی ہیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا اس کی پانچ ٹوپیاں بن سکتی ہیں؟

درزی نے کہا کہ پانچ بھی بن سکتی ہیں۔ اِسی طرح بڑھتے بڑھتے وہ آٹھ تک پہنچا اور درزی نے پھر بھی یہی کہا کہ ہاں اِس کی آٹھ ٹوپیاں بھی بن سکتی ہیں۔

چنانچہ اُس نے کہا بہت اچھا اِس کی آٹھ ٹوپیاں تیار کر دو۔ درزی نے کپڑا رکھ لیا اور وہ شخص چلا گیا۔ جب چند دنوں کے بعد وہ ٹوپیاں لینے کے لئے آیا تو درزی نے چوہے کے سر جیسی آٹھ ٹوپیاں اُس کے سامنے رکھ دیں۔ وہ کہنے لگا ہیں یہ کیا، اتنی چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں بنانے کے لئے کس نے کہا تھا؟

درزی نے کہا اپنا کپڑا ناپ لیجئے اگر اِس میں سے کچھ کم ہو تو آپ مجھے کوسیں ورنہ آپ جتنے کپڑے میں مجھے آٹھ ٹوپیاں بنانے کے لئے کہہ گئے تھے اِتنے کپڑے کی آٹھ ٹوپیاں تیار کر دی گئی ہیں۔ اگر آپ کو اب تکلیف ہوئی ہے تو اِس کے ذمہ دار آپ ہیں میں نہیں۔۔۔۔درحقیقت جب بھی تقویٰ کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا تو اس کا نتیجہ ایسا ہی نکلےگا۔۔۔جب بھی انسان پوری طرح تقوی سے کام نہ لے گا،وہ ضرور پھنسے گا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ625-626)

یہ اطاعت نہیں ہے

قصّہ مشہور ہے کہ ایک چوہے نے کسی اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور کئی میل تک چلتا گیا۔ اونٹ بھی خاموشی سے اُس کے پیچھے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ چلتے چلتے سامنے دریا آ گیا۔ اونٹ نے دریا کو دیکھا تو رُک گیا اور اُس نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ یہ دیکھ کر چوہا کہنے لگا اب تک تو تم میری اطاعت کرتے آئے تھے یہ کیا ہوا کہ یہاں آ کر تم نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا؟

اونٹ کہنے لگا میں تمہاری اطاعت تو نہیں کر رہا تھا میری تو اپنی مرضی اِس طرف آنے کی تھی تم نے یہ سمجھ لیا کہ میں تمہاری اطاعت کر رہا ہوں۔ اب آگے جانے کی میری مرضی نہیں اِس لئے میں تمہارے ساتھ نہیں چلتا۔

اِس قِصّہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ کئی اطاعتیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر تو اطاعتیں نظر آتی ہیں مگر درحقیقت اُن میں انسان کی اپنی مرضی اور رضا کا دخل ہوتا ہے۔ جب تک اس کے منشاءکے مطابق کام ہوتا رہتا ہے وہ چلتا چلا جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اطاعت کر رہا ہے مگر جونہی اس کی طبیعت کے خلاف کوئی بات آ جاتی ہے اُس کا تمام تعاون جاتا رہتا ہے اور وہ مخالفت کرنے لگ جاتا ہے۔ جس سے صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ اُس کا تعاون اپنی مرضی کے لئے تھا اطاعت اور فرمانبرداری کا اس میں دخل نہیں تھا۔

(خطبات شوریٰ جلد 2صفحہ655)

آزادانہ زندگی پر خانگی زندگی کو ترجیح

اگر مجبوری نہ ہو تو کون ہے جو یورپ کے فلسفہ کے آگے سر جُھکا سکے۔ ہم نے تو دیکھا ہے کہ یورپ کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی کی فضاء میں جن عورتوں نے پرورش پائی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی جب دیکھتی ہیں کہ اُن کے تمام حقوق اُن کو مل گئے ہیں تو یورپ کی آزادانہ فضاءکو ایک لمحہ کے لئے برداشت نہیں کر سکتیں۔

تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ ایک ریاست میں سے کوئی مسلمان لو ہار ولایت گیا۔ تو وہاں سے وہ ایک انگریز عورت کو بیاہ لایا۔ وہ ہندوستان آ کر اُسی طرح پردہ کرتی تھی جس طرح مسلمان عورتیں پردہ کرتی ہیں بلکہ گھر کے کام میں بھی وہ پورا حصہ لیتی۔ چکّی اپنے ہاتھوں سے پیستی اور صبح شام خاوند کو روٹی پکا کر دیتی۔

کچھ عرصہ کے بعد لوگوں میں یہ بات مشہور ہوئی تو کسی شخص نے ریذیڈنٹ کو ایک چٹھی لکھ دی کہ اس اس طرح ریاست میں فلاں لوہار نے ایک انگریز عورت کو قید کر رکھا ہے۔ ریذیڈنٹ نے نواب صاحب کو لکھا کہ فوراً تحقیقات کی جائے اور عورت کو اس سے چھڑایا جائے۔

ریاستوں کے نواب بظاہر تو نواب کہلاتے ہیں مگر ریذیڈنٹ کے مقابلہ میں خادموں کی طرح ہوتے ہیں۔ اُس کے پاس چٹھی پہنچی تو کانپنے لگ گیا کہ اب نہ معلوم میرے ساتھ کیا سلوک ہو۔ چنانچہ اُس نے لوہار کو بلایا اور اُسے خوب ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے اور اُسے کہا کہ وہ فوراً عورت کو رخصت کر دے ورنہ اس کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا جائے گا۔

لوہار نے کہا کہ صاحب! مجھے کوئی اعتراض نہیں میں بھیجنے کے لئے تیار ہوں آپ اُس سے بھی تو دریافت فرما لیں کہ آیا وہ واپس جانے کے لئے تیار ہے یا نہیں؟ اس سے پوچھا گیا تو وہ کہنے لگی یہ لوگ ہیں کون جو میرے ذاتی معاملات میں دخل دیتے ہیں۔ مَیں نے جو کچھ کیا اپنی مرضی سے کیا ان کا کیا اختیار ہے کہ مجھے زبردستی واپس بھجوانے کی کوشش کریں۔ اُس سے کہا گیا کہ دیکھو یہ شخص تم سے چکّی پِسواتا ہے، صبح شام کھانا تیار کراتا ہے اور گھر کا تمام کام لیتا ہے، یہ سلوک نہایت ہی نامناسب ہے، پس ایسے شخص کے پاس ایک منٹ بھی نہیں رہنا چاہئے۔

اس نے کہا چکّی میں اپنی مرضی سے پِیستی ہوں، پردہ اپنی مرضی سے کرتی ہوں، کھانا اپنی مرضی سے پکاتی ہوں اِس پر کسی اَور کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ مَیں نے تو جب اِس خاوند کو اپنے لئے پسند کیا تھا اُسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ جو رواج اس کے ملک کا ہو گا وہی میں قبول کروں گی۔چنانچہ اب مَیں خوشی سے اِس رواج کو قبول کر چکی ہوں کسی شخص کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس بارہ میں دخل دے اور مجھے اپنے خاوند سے الگ کرنے کی کوشش کرے۔

آخر نواب صاحب نے مجبور ہو کر ریذیڈنٹ کو لکھا کہ وہ عورت قید نہیں بلکہ آرام سے گھر میں رہتی ہے۔ ہم نے خود اُسے بلاکر تمام حالات دریافت کیے ہیں اور ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی خوشی اور رضا مندی سے اس کے گھر میں رہتی ہے، زبردستی اُسے نہیں رکھا گیا اور اب وہ اس گھر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر کہا جائے تو زبردستی اِس کو بھجوا دیا جائے۔

گورنمنٹ نے جواب دیا کہ ہمارا یہ منشاء نہ تھا۔ اگر وہ خوشی سے رہتی ہے تو اس کا اختیار ہے۔

تو ایسی مثالیں یورپین عورتوں کی بھی ملتی ہیں کہ جب انہیں تمام حقوق دے دیئے گئے تو انہوں نے یورپ کی آزادانہ زندگی پر خانگی زندگی کو ہزار درجہ زیادہ ترجیح دی اور باوجود لوگوں کے بہکانے اور اکسانے کے وہ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ676-677)

ہمارے ہاں کوئی بددیانتی نہیں کرتا

ہمارے ہاں خداتعالیٰ کے فضل سے چندہ کی وصولی میں اتنی غیر معمولی دیانت پائی جاتی ہے کہ اس زمانہ میں کسی قوم میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔

مَیں ایک دفعہ شملہ میں تھا کہ ایک بڑے گورنمنٹ افسر نے دعوت کی اور اس میں مجھے بھی مدعو کیا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسی دعوتوں میں انگریز افسروں کے ساتھ اُن کی بیویاں بھی آجاتی ہیں اور وہ مصافحہ کرنا چاہتی ہیں اور مَیں نے مصافحہ کرنا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اُنہیں تکلیف ہوتی ہے مگر اُنہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ ضرور شامل ہوں، ہم آپ کو ایک طرف بٹھا دیں گے۔ چنانچہ مَیں اس دعوت میں شریک ہو گیا۔

مسٹر سٹرک لینڈ کوآپریٹو سوسائٹیز کے ایک انگریز رجسٹرار تھے۔ انہیں جب میرا پتہ لگا تو وہ میرے پاس آبیٹھے اور کہنے لگے کہ ہمارے پاس طاقت بھی ہے حکومت بھی ہے مگر پھر بھی ہمارے ملازموں میں بڑی بددیانتی پائی جاتی ہے۔ آپ کی جماعت بھی چندے وصول کرتی ہے آپ نے اس بددیانتی کو دُور کرنے کا کیا علاج کیا ہوا ہے؟

مَیں نے کہا ہمارے ہاں کوئی بددیانتی نہیں کرتا کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ بددیانتی انسان کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے۔ بے شک ہم کسی طاقت یا حکومت کا دباؤ اُن پر نہیں ڈال سکتے مگر ایمان کا دباؤ ایسی چیز ہے کہ جو کام حکومت کے دباؤ سے نہیں ہو سکتا وہ ایمان کے دباؤ سے ہو جاتا ہے اور اصل چیز ایمان ہی ہے۔ یہ اگر دل میں پیدا ہو جائے تو انسان نہ بددیانتی کرتا ہے، نہ چوری کرتا ہے، نہ ڈاکہ ڈالتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ چیزیں اس کے ایمان کو ضائع کرنے والی ہیں۔

وہ انگریز افسر اُس وقت چھٹی پر انگلستان جا رہا تھا۔ میری اِن باتوں سے اِس قدر متأثر ہوا کہ کہنے لگا اگرمیں واپس آیا تو میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ کوآپریٹو سوسائٹیز کے انسپکٹر پہلے چھ ماہ کے لئے امام جماعت احمدیہ کے پاس بھیج دیئے جایا کریں تا کہ وہ ان میں دیانت کی روح پیدا کریں۔

میں نے کہا آپ کو گورنمنٹ اِس کی اجازت نہیں دے گی۔ کہنے لگا میں تو ضرور درخواست کروں گا۔غرض وہ بہت ہی متأثر ہوا کہ جماعت احمدیہ میں کس قدر دیانت پائی جاتی ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ700-701)

احمدیت سے باہر دیانتداری کا معیار

سندھ میں ایک اکاؤنٹنٹ تھا جس نے بہت اچھا کام کیا اور بعض دفعہ انعام حاصل کیا۔ بعد میں اُس کی ایک بددیانتی ثابت ہوئی، اُس پر مقدمہ چلا اور وہ قید ہو گیا مگر اس سے پہلے اُس کے اچھے کام پر انعام منظور ہوا۔

مقدمہ کے دوران میں ہی انعام کا بل منظور ہو کر وہاں پہنچا اور چونکہ اُس وقت اِس اکاؤنٹنٹ پر مقدمہ چل رہا تھا اور اُس کی جگہ ایک اور اکاؤنٹنٹ کام کر رہا تھا، اِس لئے اُس دوسرے اکاؤنٹنٹ کو یہ روپے پہنچا دیئے گئے اور اُسے کہہ دیا گیا کہ یہ فلاں کو پہنچا دینا۔

کچھ عرصہ کے بعد چیکنگ میں وہ رقم جو بطور انعام بھجوائی گئی تھی دفتر سے غائب معلوم ہوئی۔ اِس پر نئے اکاؤنٹنٹ سے دریافت کیا گیا تو اُس نے کہا کہ یہ تو اکاؤنٹنٹ کا انعام تھا چونکہ اُس کی جگہ میں کام کر رہا تھا اِس لئے وہ روپے میں نے خرچ کر لئے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ روپے مجھے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرنے چاہئے تھے تو مَیں واپس دے دیتا ہوں۔

اِس سے پتہ لگتا ہے کہ دیانتداری کا معیار بعض لوگوں کے نزدیک کتنا گر جاتا ہے کہ دوسرے کی چیز وہ اپنے استعمال میں لے آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کیا درست اور صحیح کیا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ136-137)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2023