• 29 اپریل, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 13)

اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد12۔ حصہ دوم
قسط 13

اللہ کے احکام دوسروں کو یاد دلانے کے حوالے سے اپنے جائزے لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں جو احکامات دئیے ہیں ان کو یاد رکھنا، ان کو دہراتے رہنا، انہیں دوسرے جن لوگوں کی یاد دلانے کی ذمہ داری ہے کو بھی یاد دلانا، مومنین کی جماعت کا کام ہے۔ یہ جو میں نے کہا کہ ان احکامات کو دوسروں کو یاد دلانا، یا دلاتے رہنا جن کی یاد دلانے کی ذمہ داری ہے اس میں ہم میں سے وہ سب شامل ہیں جو یا مربّیان ہیں یا عہدیداران۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام میں ایک مرکزی نظام کے علاوہ ذیلی تنظیموں کا بھی نظام ہے اور پھر جماعتی مرکزی نظام میں بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام میں بھی ملکی سطح سے لے کر مقامی محلے کی سطح تک عہدیدار مقرر ہیں اور ہر عہدیدار سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خلافت کا دست و بازو بن کر ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرے جو وسیع تر پھیلاؤ کے ساتھ خلافت کی ذمہ داری ہے۔ پس اگر اس بات کو تمام مربیان اور عہدیدار سمجھ لیں تو ایک انقلابی تبدیلی جماعت میں پیدا ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دوسروں کو یاد دلانا یا یہ احساس پیدا ہونا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے طوعی طور پر یا مکمل طورپر وقف زندگی کر کے جو جماعتی خدمت کی توفیق دی ہے تو میں سب سے پہلے اپنے جائزے لوں کہ کس حد تک مَیں خود اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر کے وہ نمونہ بننے کی کوشش کر رہا ہوں جو ایک خدمت کرنے والے کی ذمہ داری ہے تا کہ میں دوسروں کو ان احکامات کی یاد دلا سکوں۔ اگر میں صرف دوسروں کو یاد دلا رہا ہوں اور میرا اپنا عمل اس کے خلاف ہے یا اس سے دُور ہے تو پھر بڑے خوف کا مقام ہے اور استغفار کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی استغفار کرنا چاہئے لیکن اس حوالے سے بہت زیادہ استغفار کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد13 صفحہ391-392۔ خطبہ جمعہ3؍جولائی 2015ء)

ہمیں اپنی عبادتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’مجھے جب بعض کارکنان اور عہدیداروں کے بارے میں یہ شکایت ملتی ہے کہ وہ نمازوں میں سست ہیں۔ مسجد میں نہیں آتے یا بعض ایسے ہیں کہ گھروں میں بھی نہیں پڑھتے اور ان کی بیویاں شکایت کر رہی ہوتی ہیں تو اس بات پر بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ پس ہمیں اپنی عبادتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

اس کے بغیر تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تقویٰ نہ ہو تو پھر انسان نہ خدا تعالیٰ کے حق ادا کر سکتا ہے، نہ ہی اس کی مخلوق کے حق ادا کر سکتا ہے، نہ ہی جماعت کے لئے کوئی کارآمد وجود بن سکتا ہے، نہ ہی اس کے کام میں برکت پڑ سکتی ہے۔ پس ہمیں ہر وقت ہوشیار رہ کر اپنی عبادتوں کی نگرانی اور حفاظت کی ضرورت ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے چلے جائیں اور روحانی ترقیات بھی حاصل کرنے والے ہوں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد13 صفحہ 396۔ خطبہ جمعہ03؍جولائی 2015ء)

عہدیدار اپنے سپرد امانتوں کا حق ادا کرنے کا جائزہ لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’عہدیداروں کے سپرد ان کی جو امانتیں کی گئی ہیں اپنی ان امانتوں کا حق ادا کرنے کا جائزہ اگر ہر انسان خود لے، ہر خدمت کرنے والا خود لے اور خدا تعالیٰ کا تقویٰ سامنے رکھتے ہوئے یہ جائزہ لے تو پھر خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ کس حد تک اس امانت کا وہ حق ادا کر رہا ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ92۔ خطبہ جمعہ03؍جولائی 2015ء)

نماز جمعہ میں سستیاں کرنے والوں کو اپنے جائزے لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ ہر جمعہ کی اہمیت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہر جمعہ کو ہی اہتمام کریں اور تمام مصروفیات کو ہم ترک کریں۔ تمام کاموں اور کاروباروں سے وقفہ لیں اور مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے آئیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح کھول کر اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ مومن کے ایمان کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے ہر مومن پر جمعہ کی ادائیگی فرض ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کا منفی پہلو اور انذار بھی بیان فرما دیا کہ جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کا دل نیکیوں کے بجا لانے کے لئے بالکل بند ہو جاتا ہے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ سستیاں کرنے والوں کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور بغیر عذر کے بلا وجہ کی سستیاں ترک کرنی چاہئیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ421۔ خطبہ جمعہ17؍جولائی 2015ء)

ہمیں آج رمضان کے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’رمضان میں جو کچھ ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اسے خود ہی ہم نے ضائع بھی کر دیا اور جس کامیابی اور اخلاص کا، جس کامیابی اور فلاح کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اس سے ہم محروم ہو گئے۔ روزے کے بارے میں جو آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے روزے کے حکم اور روزے کے دوسرے احکامات کے بجا لانے کا نتیجہ تقویٰ بتایا ہے۔ پس ہمیں آج اس کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اس نتیجے کو حاصل کر لیا ہے یا نہیں؟ یا کم از کم ہم نے اس کوشش میں کچھ قدم بڑھائے ہیں کہ نہیں اور کیا یہ عہد کیا ہے کہ ہم نے رمضان میں جو حاصل کیا ہے اس پر ثابت قدم رہنے اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ427۔ خطبہ جمعہ17؍جولائی 2015ء)

ہر ایک کو اپنے اپنے جائزے بھی لیتے رہنا چاہئے کہ جلسہ پر دوسروں پر جو اثر قائم ہوا ہے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کو ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کے بعد مہمانان کے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تین افراد پر مشتمل سلوینین وفد بھی تھا۔ وہاں کے ایک دوست زماگو پاؤلچچ (Zmago Pavlicic) جو کہ بطور ترجمان کے کام کرتے ہیں کچھ عرصہ سے جماعتی لٹریچر کے ترجمہ پر بھی کام کر رہے ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے سے پہلے میرا جماعت کے متعلق تعارف صرف پڑھنے تک محدود تھا لیکن جلسے میں شامل ہو کر اور جلسے کا ماحول دیکھ کر اب یقین ہو گیا ہے کہ جو کچھ میں نے جماعت کے بارے میں پڑھا تھا وہ ایک حقیقت ہے۔ مثال کے طور پر محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا قول میں نے پہلے پڑھا تھا یا سنا تھا لیکن جلسے میں آ کر اور مختلف لوگوں سے مل کر، جلسے کے ماحول کو دیکھ کر، اس قول کی عملی حالت بھی دیکھ لی کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس قول پر عمل کرنے والا ہے۔ جہاں لوگوں کے تاثرات آپ سنتے ہیں وہاں ہر ایک کو اپنے اپنے جائزے بھی لیتے رہنا چاہئے کہ دوسروں پر یہ جو اثر قائم ہوا ہے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کو ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ517۔ خطبہ جمعہ28؍اگست 2015ء)

اسائلم سیکرز کو شرط 10 کے حوالے سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتا ہے تو ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھے اور خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا اس پر فرض ہے کیونکہ یہی بیعت کرتے ہوئے عہد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نئے شامل ہونے والے، خاص طور پر وہ جنہوں نے پورے یقین کے ساتھ علی وجہ البصیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سمجھ کر قبول کیا وہ اپنے عہد بیعت اور اس کی شرائط پر غور بھی کرتے رہتے ہیں۔ بہت سارے لوگ مجھے خطوط بھی لکھتے رہتے ہیں۔ لیکن بہت سے وہ جو پیدائشی احمدی ہیں یا جن کے ماں باپ نے ان کے بچپن میں احمدیت کو قبول کیا اور جو یہاں آ کر دنیاوی معاملات میں زیادہ لگ گئے ہیں وہ نہ ہی عموماً شرائط بیعت پر غور کرتے ہیں، نہ بیعت کے عہد کو سمجھتے ہیں، نہ احمدیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد رکھتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اب تو ہر جگہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعت کی کارروائی بھی دیکھی جاتی ہے اور سنی جاتی ہے اس طرف توجہ کر کے بیعت کی حقیقت کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی طرح خلافت سے اپنے تعلق کو اس طرح جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو اس کا حق ہے۔ اس میں صرف ان ملکوں میں اسائلم لے کر آنے والے ہی نہیں ہیں بلکہ ہر قسم کے احمدی ہیں۔ میں نے اسائلم والوں کی مثال اس لئے دی ہے کہ اس وقت میرے سامنے اکثریت اسائلم والوں کی بیٹھی ہے اور آج ان کی بہتر حالت جماعت کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ ایسے لوگ ہر جگہ اور ہر طبقے میں موجود ہیں۔ پس ہر ایک جب اپنا جائزہ لے گا تو خود بخود اسے پتا چل جائے گا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ اس وقت مَیں اس جائزے کے لئے صرف ایک شرط بیعت سامنے رکھتا ہوں۔ اس کو صرف سرسری طور پر نہ دیکھیں بلکہ غور کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں۔ اگر تو اس جائزے کا جواب اثبات میں ہے، ہاں میں ہے تو وہ خوش قسمت ہیں اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہیں۔ اگر کمزوری ہے تو اصلاح کی کوشش کریں۔ بیعت کی دسویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوّت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوّت میں ایسا اعلیٰ درجے کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو‘‘۔

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ564)

پس یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں آپ علیہ السلام سے بے غرض اور بے انتہا محبت اور تعلق قائم کرنے کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ آپ ہم سے عہد لے رہے ہیں۔ کیا عہد لے رہے ہیں؟ کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر مجھ سے محبت، تعلق اور بھائی چارے کے اعلیٰ معیار قائم کرو۔ یہ عہد لے رہے ہیں کہ یہ اقرار کرو کہ آپ کے ہر معروف فیصلے کو مانوں گا۔ یعنی ہر وہ بات جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آپؑ کو مامور فرمایا ہے۔ ہر وہ بات جس کی اسلام کی تعلیم کی روشنی میں آپؑ ہمیں ہدایت فرمائیں گے اور پھر صرف اس کا ماننا ہی نہیں ہے، اس کی کامل اطاعت ہی نہیں ہے بلکہ مرتے دم تک اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا اور عمل کروں گا اور یہ عہد بھی کہ جو تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہو گا اس کا معیار ایسا اعلیٰ درجے کا ہو گا کہ جس کی مثال دنیوی رشتوں اور تعلقوں میں نہ ملتی ہو گی۔ نہ ہی اس تعلق کی مثال اس حالت میں ملتی ہو گی جب انسان کسی سے وفا کی وجہ سے خالص ہو کر تعلق رکھتا ہے۔ نہ اس کی مثال اس صورت میں ملے جب انسان کسی کے زیر احسان ہو کر اپنے آپ کو اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔

پس اس دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اعلیٰ معیار کی محبت اگر کسی سے ہو سکتی ہے تو وہ آپؑ کے غلام صادق سے ہو۔ پس یہ معیار ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد آپؑ سے تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ ان باتوں کی روشنی میں ہر ایک اپنا جائزہ خود لے سکتا ہے کہ کیا ہمارے یہ معیار ہیں؟ یا جب دنیاوی معاملات ہمارے سامنے ہوں، دنیاوی منفعتیں ہمارے سامنے ہوں، دنیاوی فوائد ہمارے سامنے ہوں تو ہم یہ باتیں بھول جاتے ہیں، دنیاوی تعلقات اور دنیاوی اغراض اس محبت کے تعلق اور اطاعت پر حاوی ہو جاتے ہیں؟ انسان کسی بھی کام کو یا تو اپنے فائدے اور مفاد کے لئے کرتا ہے یا اگر مرضی کا کام نہیں ہے تو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ خوف کی وجہ سے بھی کرتا ہے کہ مجبوری ہے۔ نہ کیا تو پوچھا بھی جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ سزا بھی مل جائے۔ یا محبت اور اخلاص اور وفا کے جذبے کے تحت کرتا ہے۔ اگر دین کا صحیح فہم و ادراک ہو تو دین کے کام انسان محبت اور اخلاص و وفا کے جذبے کے تحت ہی کرے گا۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے یہ توقع رکھی ہے کہ آپؑ کی بیعت میں آ کر اس جذبے کو بڑھائیں۔ جب تک یہ اطاعت اور خلوص کا جذبہ اور اخلاص کا تعلق اگر پیدا نہیں ہو گاتو جو نصائح کی جاتی ہیں ان کا بھی اثر نہیں ہو گا۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہیں ہو گی۔ پس اگر نصائح پر عمل کرنا ہے، آپؑ کی باتوں کو ماننا ہے، اپنے عہد بیعت کو نبھانا ہے تو اپنے اطاعت اور اخلاص اور وفا کے معیاروں کو بھی بڑھانا ضروری ہے۔ کیا کوئی احمدی کبھی یہ تصور کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی بات قرآن و سنّت کے منافی کی ہو گی؟ یقیناً نہیں۔

پس جب نہیں تو پھر ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ معروف اطاعت کا مطلب ہے کہ محبت و اخلاص کو انتہا پر پہنچا کر کامل اطاعت کرنا اور کامل اطاعت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب جس کی اطاعت کی جا رہی ہے اس کے ہر حکم کی تلاش اور جستجو بھی ہو۔ ‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ593-594۔ خطبہ جمعہ09؍اکتوبر 2015ء)

ہر ایک خود اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ دنیا کا غم اسے زیادہ ہے یا دین کا

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمارا سب سے بڑا غم یہ ہونا چاہئے۔ پس اس کے لئے کسی لمبی چوڑی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر ایک خود اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ دنیا کا غم اسے زیادہ ہے یا دین کی بہتری کا غم اور یہ غم نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی ہے یا نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف توجہ ہے یا نہیں ہے۔ یا جب دنیاوی معاملات ہوں تو خدا تعالیٰ کی رضا پیچھے چلی جاتی ہے۔ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ روزمرہ کے معاملات میں بھی ناجائز غضب اور غصے سے بچنا تقویٰ کی ایک شاخ ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ36)

جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر غصے میں آ جاتے ہیں انہیں خود ہی اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے کہ وہ بھی تقویٰ سے دور ہو رہے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ596۔ خطبہ جمعہ 09؍اکتوبر 2015ء)

اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس لوگوں کی بھی آپ پر نظر ہے۔ اس لئے اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ لوگ خلافت کے حوالے سے زیادہ نظر رکھیں گے۔ اس لئے صرف عہد بیعت کافی نہیں ہے۔ اپنی اصلاح کے لئے بھی اور تبلیغ کے لئے بھی عمل کی ضرورت ہے۔ ہر جگہ اور ہر سطح پر اپنی اِکائی کو قائم رکھنے اور ایک ہاتھ پر اٹھنے اور بیٹھنے کے لئے خلافت کی اطاعت کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ اس زمانے میں احمدی خوش قسمت ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے جدید سہولتیں اور ایجادات پیدا فرمائیں وہاں احمدیوں کو بھی ان سے نوازا۔ دین کی اشاعت کے لئے جماعت کو بھی یہ سہولت مہیا فرمائی۔ ٹی وی، انٹرنیٹ اور ویب سائٹس وغیرہ پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کلام آج موجود ہے جس پر ہم جب چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔ مختلف بڑی زبانوں میں ان کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں وہاں خلیفۂ وقت کے نصائح اور خطابات بھی وہاں سن پڑھ سکتے ہیں جو قرآن، حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر ہی مشتمل ہوتے ہیں اور انہی پر بنیاد ہے اس کی جو دنیا میں آج ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہر جگہ پہنچ رہا ہے۔ جس نے جماعت کو اِکائی بننے کا ایک نیا انداز دیا ہے۔ پس آپ میں سے ہر ایک کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے اور اس کی ہر ایک کو ضرورت ہے کہ ایم ٹی اے سے اپنا تعلق جوڑیں تا کہ اس اکائی کا حصہ بن سکیں۔ ہر ہفتہ کم از کم خطبہ سننے کی طرف خاص توجہ دیں۔ ہر گھر اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا گھر کے ہر فرد نے یہ سنا ہے یا نہیں۔ اگر بیوی سنتی ہے اور خاوند نہیں تو تب بھی فائدہ نہیں اگر باپ سنتا ہے اور ماں اور بچے نہیں سن رہے تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ598۔ خطبہ جمعہ 09؍اکتوبر 2015ء)

ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری قوت یقین بڑھ رہی ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری قوت یقین بڑھ رہی ہے؟ کیا ہمارے دل روشن ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری دین کی طرف رغبت ہے؟ کیا ہم اسلامی احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟ ہم اپنی روحانی اور عملی حالتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ614۔ خطبہ جمعہ16؍اکتوبر 2015ء)

ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس تعلیم کے مطابق ہمارے عمل اور سوچیں ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس تعلیم کے مطابق ہمارے عمل اور سوچیں ہیں۔ اگر نہیں تو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں بعد میں آنے والی قومیں ترقی کر کے ہم سے بہت آگے نہ نکل جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا کر اتنی دُور نہ چلی جائیں کہ ہمیں جب احساس ہو کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں، ہماری نسلیں پیچھے رہ رہی ہیں تو پھر دہائیاں ان فاصلوں کو پورا کرنے میں لگ جائیں۔ نسلوں کو اگلی نسلوں کو سنوارنے میں وقت لگ جائے۔ یہ دیکھیں کہ کہیں اس دنیا میں ڈوب کر ہماری نسلیں بہت پیچھے نہ چلی جائیں۔ ان ملکوں میں آ کر صرف دنیا داری کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں وہ بہرحال ادا کرنے فرض ہیں۔ نمازیں جو ہیں بہرحال ادا کرنی ضروری ہیں اور سمجھ کر ادا کرنی ضروری ہیں۔ پس یہ نہ ہو کہ ہماری نسلیں بہت پیچھے چلی جائیں اور نئے آنے والے ان انعامات کے وارث بن کر جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اپنے مقام کو ہم سے بہت بلند کر لیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے، اس پر بہت کوشش کریں اور اس کو سمجھیں اور یہ سمجھنا اور اس پر کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور ان الفاظ پر بھی غور کریں کہ اپنی قوت یقین کو بڑھائیں اور دلوں کو روشن کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے پھر ان انعاموں کو حاصل کرنے والے بنیں۔ یہ نہ ہو کہ پیچھے رہنے سے ان انعاموں سے محروم ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق قائم ہوا ہے یہ کوشش کریں وہ کبھی نہ ٹوٹے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں اور جماعت کا ایک فعّال اور مضبوط حصہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ہمیشہ وارث بنتے چلے جائیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ617۔ خطبہ جمعہ 16؍اکتوبر 2015ء)

اپنی عملی حالتوں کے جائزے لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جاپان میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر فرمایا:
’’یہ مسجد جو بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ اس حق کو ادا کرنے کے لئے اسے پانچ وقت آباد کریں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عملی حالتوں کے جائزے لیں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے تبلیغ کے میدان میں وسعت پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو تو تبلیغ کے راستے اور تعارف کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ681 خطبہ جمعہ20؍نومبر 2015ء)

نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے والے ہوں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے اعمال میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دیتا چلا جائے تبھی دنیا کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکیں گے اور یہی چیز پھر اُس تمکنت کا بھی باعث بنے گی جب حکومتیں بھی اس حقیقی تعلیم کے تابع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئیں گی۔ پس اللہ تعالیٰ بہت بڑے مقاصد کے حصول کی حقیقی مسلمانوں کو خوشخبری دے رہا ہے لیکن اُن مسلمانوں کو جو ظالم نہ ہوں بلکہ انصاف پر قائم ہوں۔ جو خدا تعالیٰ کو بھولنے والے نہ ہوں بلکہ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے نہ ہوں بلکہ حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ جو خود غرض نہ ہوں بلکہ بے نفس ہوں۔ جو خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھتے ہوں۔ صرف اجتماعوں پر عہد دہرانے والے نہ ہوں بلکہ نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے والے ہوں۔ جو نظام جماعت کی حفاظت کے لئے اپنی اَناؤں کو قربان کرنے والے ہوں۔ پس یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنائیں گی۔یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والا بھی بنائیں گی۔ یہ چیزیں ہیں جو وہ حقیقی احمدی بننے والا بنائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں سے توقع رکھتے ہیں۔

آپ میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب آپس کی رنجشوں اور چپقلشوں کو ختم کرنے اور ایک وحدت بننے کا کہا جاتا ہے تو پھر سو بہانے بھی تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ پس اگر حقیقی مومن بننا ہے تو فساد کے بہانے اور راستے تلاش کرنے والا بننے کی بجائے قربانی کر کے امن اور سلامتی قائم کرنے والا بنیں۔ جب اس مسجد کی طرف منسوب ہو رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک اینٹ، سیمنٹ، پتھر کی عمارت کی طرف منسوب نہیں ہو رہے بلکہ اس شخص کی طرف منسوب ہو رہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اس لئے بھیجا ہے کہ بندے کو خدا سے جوڑے اور تمام ذاتی رنجشوں اور خواہشوں اور اَناؤں کو ختم کرتے ہوئے اس نظام میں پروئے جو قربانی چاہتا ہے۔ صرف مال کی قربانی نہیں بلکہ اپنی اَنا کی قربانی بھی۔ صرف امر بالمعروف دوسروں کے لئے نہیں چاہتا بلکہ پہلے اپنے نفس کو متوجہ کرتا ہے کہ کیا تم جو کہہ رہے ہو وہ کرتے بھی ہو۔ نہی عن المنکر کے لئے دوسروں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے کے لئے کہتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ 683۔ خطبہ جمعہ 20؍نومبر 2015ء)

اپنے جائزے لیں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو سچا مومن ہونے کی خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ بھی یاد رکھیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ان باتوں پر نظر رکھیںا ور ان کی حفاظت کریں۔ یعنی ان پر عمل کی پوری پابندی کے ساتھ کوشش کریں جو باتیں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں۔ جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ ان باتوں کی حفاظت کرنا بھی کام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے بتائی ہیں۔ ان باتوں کی طرف بھی توجہ دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں اور اپنی جماعت سے توقع رکھی ہے۔ ان باتوں کی طرف بھی توجہ کریں، انہیں سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو خلیفۂ وقت کی طرف سے آپ کو کہی جاتی ہیں۔ اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کریں۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے اس کی قدر کریں کہ اللہ تعالیٰ نے تمکنت دین کے لئے یہ لازمی جزو قرار دیا ہے اور ایسے مومنین کو خوشخبری دی ہے جو ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس اپنے جائزے لیں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو سچا مومن ہونے کی خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ686۔ خطبہ جمعہ 20؍نومبر 2015ء)

(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2023