• 25 اپریل, 2024

فقہی کارنر

خلافِ شرع امور میں والدین کی فر مانبرداری کس حد تک کی جائے؟

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی محمد بشیر بھو پالی سے مباحثہ فرمایا تھا۔ اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا۔ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہمراہ تھے۔ ان دنوں میری شادی و نکاح کا مرحلہ در پیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیا دارانہ وضع کے پابند اور نام و نمود کے خو گر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثر شادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنی جائے ملازمت راجپور سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق و تمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کاپیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر بزرگان کے نام بھجوا دیں۔ اس کے بعد میں پٹیالہ آ کر اپنے والد صاحب سے ملا۔ والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اور اُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا۔ میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے۔ میں تو اسی طرح کروں گا جیسا میرا دل چاہتا ہے، تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس کا جواب خاموش رہنے کے سوا اور میرے پاس کچھ نہ تھا۔ آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے۔ اپنی یہ مشکل پیش کی۔ انہوں نے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرأت نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان کے خلاف شرع رسومات کے ادا کرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرنے سے انکار کر دو۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت نا گوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہو کر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ اس لئے ان حالات میں میَں سخت پریشانی اور تردّد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے۔ ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ ایک دن موقعہ پا کر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنا اور فرمایا کہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرما ہیں اس لئے اس معاملہ کو حضور کو پیش کر دو۔ میں نے عرض کیا کہ لوگوں کی ہر وقت آمد ورفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ مولوی صاحب نے فرمایا موقعہ نکالنے کی ہم کو شش کریں گے۔ خا کسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپور اپنی ملازمت پر چلا گیا۔ حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض واپسی راجپور صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم راجپور پر تشریف لائے تو مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرمایا کہ یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کر دیا ۔حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کاپیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاً اس کے خلاف اور اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر تم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کردو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میرا اُن سے انقطاع انجام ہو گا۔ اس کے بعد فرمایا آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہو گی۔ خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایا کہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جو خلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو۔ دل سے نا پسند کرنے کے باوجود کچھ تعرض نہ کرو۔ اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا۔ پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کردے۔ سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کا اور اُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اتنے میں گاڑی آ گئی۔ خا کسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کر دیا۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے۔ در اصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ بلا مخالفت گزر گیا۔

(سیرت المہدی جلد2 صفحہ88۔90)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ بر طانیہ)

پچھلا پڑھیں

نیشنل اجتماع مجلس انصار اللہ گیمبیا 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 فروری 2023