دشت طلب میں جا بجا، بادلوں کے ہیں دَل پڑے
کاش! کسی کے دل سے تو چشمہٴ فیض اُبل پڑے
بے آسراؤں کے لئے کوئی تو اَشکبار ہو
پیاس بجھے غریب کی تشنہ لبوں کو کَل پڑے
بادِ سموم سے چمن، دَردوں دُکھوں سے لد گیا
آہِ فقیر سے مرے اَشک اُبل اُبل پڑے
چشمِ حزیں کے پار اُدھر۔ دردِ نہاں کی جھیل پر
کھلتے ہیں کیوں کسے خبر، حسرتوں کے کنول پڑے
سود و زیاں سرور و غم، روشنیوں کے زیر و بم
آس بجھے تو یاس کے دیپ کی لو اُچھل پڑے
چاند نے پی ہوئی تھی رات، ڈول رہی تھی کائنات
نور کی مے اُتر رہی تھی، عرش سے جیسے طَلْ پڑے
بن گئی بزمِ شش جہات میکدۂ تجلیات
دَیر و حرم کو چھوڑ کر رند نکل نکل پڑے
صبر کا درس ہو چکا، اب ذرا حالِ دل سنا
کہتے ہیں تجھ کو ناصحا، چَین نہ ایک پل پڑے
آنکھ میں پھانس کی طرح ہجر کی شب اَٹک گئی
اے مرے آفتاب! آ۔ رات ٹلے تو کَل پڑے
(کلام طاہر ایڈیشن 2004ء صفحہ53۔54)