• 5 مئی, 2024

انسان سے کُتپن نہیں ہوتا

الفضل آن لائن موٴرخہ 6؍جنوری 2023ء کے صفحہ اوّل پر رشحات قلم کے تحت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد شائع ہوا۔ جسے خاکسار نے ملفوظات جلد اوّل صفحہ102-103 میں سیاق و سباق کے ساتھ جب دیکھا تو معاشرہ کو اسلامی اور دینی بنانے کے لیے بہت سے اصولوں پر مبنی یہ عبارت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں ’’ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:
’’ ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں۔ کیونکہ الاستقامت فوق الکرامت مشہور ہے۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے۔ تو حتی الوسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں۔ تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں۔ انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں۔ امّارہ، لوّامہ،مطمئنّہ۔ امّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اوراخلاقی حالت سے گر جاتا ہے مگر حالت لوّامہ میں سنبھال لیتا ہے۔ مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے۔ کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا۔ گھر آیا۔ گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ لیا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی۔ وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا ؟ اس نے جواب دیا۔ بیٹی! انسان سے کُتپن نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔ نہیں تو وہی کُتپن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقرّبوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔بہت بُری طرح ستایا گیا۔ مگر اُن کو وَاَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَکا ہی خطاب ہوا۔ خود اُس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بُری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اُس خُلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ اُن کے لیے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضورؐ کے مخالف آپؐ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں میں گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ غرض یہ صفت لوّامہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔ روز مرہ کی بات ہے۔ اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے جس قدر اس سے اعراض کرو گے۔ اسی قدر عزت بچا لو گے اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاؤ گے اور ذلت خرید لو گے۔ نفس مطمئنّہ کی حالت میں انسان کا ملکہ حَسَنات اور خیرات ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا اور مَاسِوی اللہ سے بکلّی انقطاع کر لیتا ہے۔ وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا۔ جہاں وہ ہوتا ہے وہ دنیا اور ہی ہوتی ہے۔ وہاں کا آسمان اور زمین اور ہوتی ہے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 1صفحہ102-103 ایڈیشن1984ء)

یہ ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلسہ سالانہ 1897ء کی طویل تقریر کا ایک حصہ ہے۔ جو آپؑ نے 28؍دسمبر1897ء کو بعد نماز ظہر فرمائی۔ اس تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آمد کے مقاصد بیان فرما کر بعض اسلامی نیکیوں کا ذکر فرمایا اور بعض بدیوں، برائیوں کی نشاندہی کر کے ان سے رکنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان میں بعض کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور بعض حقوق العباد کی مناسبت سے ہیں۔ جیسا کہ ایک خطیب تقریر کے آخر میں سامعین کو جذباتی رنگ میں بتائی ہوئی اپنی باتوں پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہاں بھی حضرت مسیح موعودؑ نے ایک لمبی گزارشات ( جو ملفوظات کی تختی میں 53صفحات پر پھیلی ہیں ) کے بعد آخر میں محولہ بالا حصہ پڑھ کر سنانے کے بعد فرمایا۔

’’ یاد رکھو اور دل سے سن لو! پھر ایک بار ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں۔ بلکہ بہت زبردست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر نہ صرف میری ذات تک بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسان ِ کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتا۔ تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی۔ مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثرہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور خود خدا ئے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتاہے۔ پس ایسی صور ت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفّرین پر غالب رہو گے )کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی مَیں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنّہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔‘‘

( ملفوظات جلد 1 صفحہ104 ایڈیشن1984ء)

اس حصہ میں زیادہ تر حقوق العباد کا تعلق ہے اور اپنے ماننے والوں کو نفسانی جوشوں اور جذبات سے دور رہتے ہوئے نفس مطمئنہ کے درجہ تک پہنچنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ مخالفین کا نفس امّارہ پر قائم رہنے اور احمدیوں کو گالیاں دینے بُرا بھلا کہنے کا ذکر کر کے اس ضمن میں شیخ سعدی کی بہت پیاری حکایت سنا کر حاضرین جلسہ اور بعد میں آنے والے ممبران جماعت کو نصیحت فرمائی کہ مخالفین اور معاندین کی گالیوں کا اور بکواس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی کُتپن کرتا ہے تو ایسا ہمیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو انسان ہیں جو دو اُنس لیے ہوئے ہیں۔ ایک اُنس اللہ تعالیٰ سے محبت کی صورت میں ہے اور دوسرا اُنس اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت کرنے میں ہے۔ اسی لیے شیخ سعدی نے اپنی بیٹی کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ بیٹی! انسان سے کُتپن نہیں ہوتا۔ جذبات پر قابو رکھنا دو طرح سے ہے۔ ایک مخالفین کی مخالفت پر خاموش رہنا اور دوسرا اپنے معاشرہ میں بسنے والے احمدی بھائیوں اور خاندان کے افراد خانہ کی باتوں کو سن کر خاموشی اختیار کرنا۔ ہم نے عموماً دیکھا ہے کہ جب معاند احمدیت نفس امّارہ کو اپناتے ہوئے احمدیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ان پر گند اچھالتا ہے تو ہم عمومی طور پر گالیاں سن کر یہ کہتے ہوئے خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تعلیم ہے

گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

لیکن معاشرہ اور سوسائٹی میں بسنے والے احمدیوں اور گھروں میں رہنے والے عزیز، رشتہ دار وں سے جب جذبات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہم ‘‘ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو’’اورLove for all hatred for none کی نہایت حسین تعلیم کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اپنے حقوق بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسے میں حضرت مسیح موعودؑ کی اس تعلیم کوحرز جان بنانے کی ضرورت ہے کہ

’’ انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے نہیں تو وہی کُتپن کی مثال صادق آئے گی۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 1 صفحہ 103)

گھروں میں، اپنے ماحول میں، اپنے ارد گرد بھی امن و امان کے سامان مہیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔صلح صفائی کے ساتھ رہیں۔ ایسے جیسے ایک ماں کے پیٹ سے دو بھائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں:
’’ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشوکیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹ دیا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لیے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بد قسمت ہے وہ شخص جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ 16-17)

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

زندگی میں یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے
جنگ کسی اپنے سے ہو تو ہار جانا چاہیے

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین

( ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ گنی کناکری 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2023