• 2 مئی, 2024

ظلم نہ کرو

دوسری شرط بیعت
ظلم نہ کرو

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت میں سے دوسری شرط بیعت ہے کہ بیعت کنندہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق وفجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کامغلوب نہ ہو گا۔

اس شرط بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 9 برائیوں کا ذکر فرمایا ہے جس میں سے خاکسار اس مضمون میںظلم نہ کرو کے متعلق اسلامی تعلیمات تحریر کرنا چاہتی ہے۔ اردو لغت میں دیکھیں تو ظلم کے معنی اندھیرا، ستم، بےانصافی، بے رحمی، پاپ، زبردستی، زور اور زیادتی کے ہیں اور جب بھی بے انصافی اور بے رحمی،زور، زبردستی اور زیادتی سے کام لیا جاتا ہے تو گھروں اور معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے، فساد اوربے چینی پھیلتی ہے، انسانیت کا خون ہوتا ہے۔ مظلوم تو دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہوتا ہی ہے ظالم خود گناہ کا مرتکب ہو کراپنے اعمال نامہ کو سیاہ کر دیتا ہے اور خدا کی سزا اور غضب کے وارد ہونے کا موجب بنتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی بات کریں تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اسلام اپنی پر حکمت تعلیمات کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جو ہر فرد بشر کیلئے پر سکون زندگی کا ضامن ہو۔ گویا کہ اسلام ہمیں اپنی پر امن تعلیمات کے ذریعہ جنت نظیر معاشرہ قائم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔

یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں سب سے افضل مذہب ’’اسلام‘‘، سب سے افضل کتاب’’ قرآن کریم‘‘ اور سب سے افضل رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ومہدئ موعود کو ماننے کی تو فیق عطا فرمائی جنہوں نے اسلام کی حقانیت دنیا پر اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری تمام انبیاء اور رسولوں پر ثابت کی اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے دنیا کو روشناس کروایا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ’’نوع انسان کےلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کو شش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات زندگی اور سیرت طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ تھے۔ آپ کے اخلاق عین قرآن مجید کے مطابق تھے۔

قرآن کریم میں آتا ہے:

فَاخۡتَلَفَ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَیۡنِہِمۡ ۚ فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡ عَذَابِ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍ ﴿۶۶﴾

(الزخرف:66)

اس کا ترجمہ ہے:پس ان کے اندر ہی سے گروہوں نے اختلاف کیا۔ پس اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ہلاکت ہودردناک دن کے عذاب کی صورت میں۔

مگر افسوس کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کو بھول چکے ہیں یا یوں کہیںکہ اسلامی تعلیمات جانتے ہیں مگر عمل نہیں اور نام نہاد علماء اپنے مفاد کی خاطر معصوم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیںاور ان نام نہاد علماء نے اسلام کے نام پر ظلم کی انتہا کر دی ہے۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کی ساری زندگی اعلیٰ اخلاق سے مزین تھی۔ آپ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی نہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم کیا۔ بلکہ ہمیشہ عفو اور درگزر سے کام لیا یہاں تک کہ اپنےجانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا۔

لیا ظلم کا عفو سے انتقام
علیک الصلوٰۃ علیک السلام

آپ نہایت رحم دل، نرم دل اور بہت احتیاط سے کام لینے والے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ شیطان اس کے ہاتھ سے یہ ہتھیار بے قابو کر دے اور دوسرے کو لگ جائے اور اس طرح سے وہ آگ کے گڑھے میں جا گرے۔

(مسلم کتاب البرّوالصلۃباب النھی عن الاشارۃ بالسلاح الی المسلم)

اسی طرح ایک حدیث ہے حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئےگا۔حرص،بخل اور کینہ سے بچو کیونکہ حرص، بخل اور کینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا،اس نے ان کو خوں ریزی پر آمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کرائی۔

(مسند احمد جلد نمبر 3صفحہ 323)

عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بے انصافی اور حق تلفی سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کے حق دبا جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ کون سا ظلم سب سے بڑا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سےبڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبا لے۔اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے ازراہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائےگا اور زمین کی گہرائی سوائے اس ہستی کے کوئی نہیں جانتا جس نے اسے پیدا کیا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 396 مطبوعہ بیروت)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ جو اپنے بہنوں بھائیوں یا ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کرتے یا لڑائیوں میں جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرلیتے ہیں، زمینیں دبا لیتے ہیں ان کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ احمدی ہونے کے بعد جبکہ اس شرط کے ساتھ ہم نے بیعت کی ہے کہ کسی کا حق نہیں دبائیں گے،ظلم نہیں کریں گے، بہت زیادہ خوف کا مقام ہے۔‘‘

(کتاب شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ34)

پھر ظالم کو ظلم سے روکنے کے تعلق سے حدیث ہے:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں اپنےمظلوم بھائی کی مدد کا مطلب تو سمجھتا ہوں۔ لیکن ظالم بھائی کی کس طرح مدد کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس کو ظلم سے روکو اور اس سے اس کو منع کرو یہی اس کی مدد ہے۔

(بخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ انہ اخوہ)

ظلم انسان کی تمام نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے اس تعلق سے حدیث ہے حضر ت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ہم نے عرض کی جس کے پاس نہ روپیہ ہو،نہ سامان۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ،زکوٰۃ وغیرہ جیسے اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی اورکسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کامال کھایا ہوگا اور کسی کاناحق خون بہایا ہوگایا کسی کو مارا ہوگا۔پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دئے جائیں گے اور اس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔یہی شخص دراصل مفلس ہے۔

(مسلم،کتاب البرّوالصلۃ باب تحریم الظلم)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:
’’ اب سوچیں غور کریں،ہم میں سے ہر ایک کوسوچنا چاہئے۔جو بھی ایسی حرکات کے مرتکب ہورہے ہوں ان کے لئے خوف کا مقام ہے۔اللہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی مفلسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور کبھی پیش نہ ہو۔‘‘

(کتاب شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ 35)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودو باش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کارکھتے ہیں،اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اوربدچلنی ان کے نزدیک نہ آسکے۔وہ پنجوقت نمازجماعت کے پابند ہوں۔وہ جھوٹ نہ بولیں۔وہ کسی کو زبان سے ایذانہ دیں۔وہ کسی قسم کی بدکاری کےمرتکب نہ ہوں او رکسی شرارت اورظلم اور فساداورفتنہ کاخیال بھی دل میں نہ لاویں۔غرض ہر ایک قسم کے معاصی اورجرائم اورناکردنی اورناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اوربیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خداتعالیٰ کےپاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہوجائیں اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے…اورتمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بیجا طرفداری سے باز رہیں اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو ان کے ساتھ آمدورفت رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے…….یا حقوق عبادکی کچھ پرواہ نہیں رکھتااور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افتراکی عادت جاری رکھ کرخدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہر گز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کاموجب ہوں گے۔‘‘

اسی طرح فرمایا:’’یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتداءسے کہتا چلا آیا ہوں۔میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں اورچاہئےکہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کی ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔اگر تم ستائے جاؤاور گالیاں دئے جاؤاور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار ہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہوورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہر وگے جیسا کہ وہ ہیں۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اورر استبازی کانمونہ ٹھہر و۔سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اورشرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے کیونکہ ہماراخدا نہیں چاہتاکہ ایساشخص ہم میں رہے اور یقیناً وہ بدبختی میں مرے گاکیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ۔تم پنجوقتہ نماز اور اخلاق حالت سے شناخت کئے جاؤگے اور جس میں بدی کابیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکےگا۔‘‘

(اشتہار مؤرخہ 29؍ مئی1898ءتبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ 42-43)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ قادیان 2022ء کے اختتامی خطاب مؤرخہ 25؍دسمبر میں فرما تے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ظلم کرنے والوں کو دردناک دن کے عذاب میں ہلاکت سے ڈرایا ہے جبکہ جو ظلم نہیں کرتے ان سے امن کا وعدہ ہے….پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ کسی پر ظلم نہ کرو۔ کسی کو گالی مت دو خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لیے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ پس یہ ہیں وہ باتیں اور بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہمیں اپنے روز مرّہ کے معاملات میں ان سے بچنا چاہئے۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات پر کماحقہٗ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(امة الشافی رومی۔ قادیان)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ گنی کناکری 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2023