• 17 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر40)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر40

ماضی ناتمام: اس میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ گزشتہ زمانے میں کام جاری تھاجیسے وہ کھا رہا تھا، یا کھاتا تھا۔ ان دونوں مثالوں میں سے جو دوسری مثال ہے وہ عادت یا مستقل رویےکو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے دو اور بھی طریقے ہیں جیسے کھایا کرتا تھا۔ کھاتا رہتا تھا۔اس کے علاوہ ماضی ناتمام ایک اور طرح سے بھی ظاہر کی جاتی ہے۔ مثلاً کہتا رہا، کھاتا رہا، تکتا رہا اکثر یہ صورت فعل یعنی Verb کے جاری رہنے کو ظاہر کرتی ہے یا کسی ایسی حالت کو بتاتی ہے جبکہ دو کام ماضی میں ایک ساتھ ہوتےرہے ہوں مثلاً میں ہر طرح منع کرتا تھا مگر وہ کھیلتا رہا۔ بارش ہوتی رہی اور وہ نہاتا رہا۔ ان صورتوں کے علاوہ ماضی ناتمام کی ایک چوتھی صورت بھی ہے۔ جیسے پکارا کیا، بکا کیا، سنا کیا، اور یہ صورت بھی وہی معنی دیتی ہے جو گزشتہ صورت دیتی ہے۔

گزشتہ سبق میں ہم نے ماضی ناتمام کی دو صورتوں کی وضاحت کی تھی اور مثالوں سے بھی واضح کیا تھا کہ اس زمانے کا استعمال فعل پر کس کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ نیز ہم نے دیکھا تھا کہ گفتگو کرنے کے کتنے انداز اس زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑہاتے ہیں اور ماضی ناتما م کی تیسری صورت دیکھتے ہیں۔

تیسری صورت: کہتا رہا، کھاتا رہا، تکتا رہا۔ جیسے کہ اوپر بھی اختصار سے بیان ہوا ہے کہ یہ صورت بتاتی ہے کہ فعل اس وقت بھی جاری تھا جب اس کے متعلق بات ہورہی تھی یا اس کہ ساتھ کوئی دوسرا کام جاری تھا۔ جیسے ہم کھانا پکاتے رہے اور وہ کھاتا رہا۔ یعنی دو کام ایک ساتھ ماضی میں جاری رہے۔ جس طرح انگریزی میں جاری کام کے لئے Verb کی پہلی فارم کے ساتھ (ing-) کا اضافہ کردیا جاتا ہے اسی طرح اردو میں فعل رہنا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پس رہا، رہی، رہے، رہیں وغیرہ بطور امدادی فعل استعمال ہوتے ہیں۔

جملے

وہ (مذکر واحد) رات گئے (late night) تک خطوط کے جوابات لکھتا رہا۔ ماں کپڑے سیتی (stitching) رہی اور بچہ پڑھتا رہا۔ اس جملے میں بھی دو کام جاری تھے۔ فعل سینا سے مادہ بنے گا سی اور اگر فاعل مونث ہو تو شکل بنے گی سیتی۔ اگر فاعل مذکر ہوگا تو بنے گا سیتا۔ اگرفاعل مذکر جمع ہو یعنی ایک سے زائد مرد ہوں تو بنے گا سیتے۔ جیسے درزی کپڑے سیتے رہے اور بچے پڑھتے رہے۔ اگر فاعل خود بات کرنے والا ہو تو بنے گا سیتا۔ جیسے میں کپڑے سیتا رہا، اور رات ڈھلتی رہی۔ ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ وہ داستان کہتا رہا اور لوگ سنتے رہے،سر دھنتے رہے۔یہاں سر دھننا کا محاورہ استعمال کیا ہے اس کا مطلب ہے تعریف کرتے رہے، مزے لیتے رہے وغیرہ۔ پس طویل اور پیچیدہ جملوں میں دو سے زائد افعال بھی موجود ہوتے ہیں جو ایک ساتھ جارہی رہتے ہیں۔

منفی جملے: منفی بنانے کے لئے اس طرح کے جملوں میں صرف نہیں لگانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان جملوں کو نفی بنانے کے لئےجملے کا انداز اور ساخت بدل دی جاتی ہے۔ جیسے وہ کہتا رہا کونفی بنائیں گے تو کہیں گے اس نے کچھ نہیں کہا۔ یا وہ کچھ نہیں کہ رہا تھا۔ اسی طرح ’’وہ داستان کہتا رہا‘‘ کو نفی بنائیں تو بنے گا اس نے داستان نہیں سنائی۔ یا وہ داستان نہیں سنا رہا تھا۔

چوتھی صورت: ماضی ناتمام کی ایک چوتھی صورت بھی ہے۔ جیسے پکارا کیا، بکا کیا، سنا کیا، اور یہ صورت بھی وہی معنی دیتی ہے جو گزشتہ صورت دیتی ہے۔یہ صرف بات کرنے کا ایک مختلف انداز ہے جو زیادہ تر ادبی تحریرات میں ملتا ہے۔

آخری علامت کو ختم کر دینا

بعض اوقات ماضی ناتمام میں جملے کے آخر میں آنے والا تھا، تھی اور تھے وغیرہ نہیں لکھے جاتے۔ جیسے اس میں لڑائی کی کیا بات تھی، وہ اپنا کام کرتا تم اپنا کام کرتے۔ یعنی کرتے رہتے کی بجائے صرف کرتے ہی لکھا اور کہا جاتا ہے۔ اسی طرح، میری عادت تھی کہ پہلے کھانا کھاتا پھر پڑھنے جاتا۔ یعنی تھا نہیں لکھا گیا۔ جب کبھی وہ آتے ہزاروں باتیں سنا جاتے۔ یہاں محاورہ استعمال ہوا ہے، باتیں سنانا جس کا مطلب ہے کہ برا بھلا کہنا، طنز کرنا، ڈھکے چھپے الفاظ میں سخت تنقید کرنا۔

ماضی تمام

ماضی یعنی گزرا ہوا وقت یعنی Past اور تمام یعنی جو مکمل ہوچکا ہو، ختم ہوچکا ہو۔ پس اس زمانے میں فعل یا Verb ایسے کام کے بارے میں بتاتا ہے جو ماضی یعنی Past میں مکمل ہوچکا ہو۔ اس کی عام علامت یہ ہوتی ہے کہ جملے کے آخر میں تھا، تھی، تھے وغیرہ آتے ہیں۔

جیسے میں نے کھانا کھا لیا تھا۔ اس نے کھانا کھالیا تھا۔ تم نے صفائی کرلی تھی۔ ہم نے کتابیں الماری میں رکھ دی تھیں۔ میں نے روٹی کھالی تھی۔ اس نے کباب کھالیا تھا۔اگر آپ ان مثالوں پہ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس بات کا انحصار کے جملے کے آخر میں تھا آئے گا یا تھی یا تھیں یا تھے، اس بات پہ ہوتا ہے کہ مفعول مذکر ہے یا مونث۔ کھانا مذکر ہے تو جملے کے آخر میں تھا آئے گا چاہے کھانے والا مذکر ہو یا مونث۔ لیکن روٹی مونث ہے تو جملے کے آخر میں تھی آئے گا۔ کتابیں مونث جمع ہیں تو جملے کے آخر میں تھیں آئے گا۔

منفی جملے

منفی بنانے کا سادہ اصول ہے کہ جملے میں مناسب جگہ پہ نہیں کا اضافہ کردیں گے، میں نے مناسب اس لئے کہا ہے کیونکہ منفی بناتے وقت نہیں کی جگہ کا تعین یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ کس چیز کا انکار ظاہر کرنا ہے۔ جیسے ’’میں نے کھانا نہیں کھایا تھا‘‘ میں کھانے پہ زور ہے، اس لئے ’’نہیں‘‘ کھانا کے بعد آیا ہے۔ جبکہ ’’اس نے کتابیں الماری میں نہیں رکھیں تھیں‘‘ میں ’’الماری میں رکھنے‘‘ پہ زور ہے۔

سوالیہ جملے

سوالیہ بنانے کے لئے عام اصول یہی ہے کہ جملے کے شروع میں کیا کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے کیا تم نے کھانا کھایا تھا؟ کیا اس نے کتابیں الماری میں رکھ دیں تھیں۔ یہ تو گرامر کے قواعد کی روشنی میں ہے البتہ عام بول چال میں لہجے کا استعمال کرکے سوال کیا جاتا ہے۔ جیسے تم نے کھانا کھالیا تھا؟ اس نے کتابیں الماری میں رکھ دیں تھیں؟ کھانا کھالیا؟ کتابیں الماری میں رکھ دیں؟ وغیرہ

ماضی تمام کی دوسری صورت

اس کی دوسری صورت میں جملے کے آخر میں چکا تھالگایا جاتا ہے۔ یہ اس صورت میں استعمال ہوتا ہے جب اس سے پہلے ایک اور کام ہوچکا ہو۔ جیسے وہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی جا چکا تھا۔میں وہاں جا کر کیا کرتا اجلاس پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں
دعا کے متعلق ذکر تھا۔ فرمایا: دعا کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہیں۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہےاور حقیقت کو نہ پہچانے۔ اتباع سنت ضروری ہے، مگر رقت بھی اتباع سنت ہے۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو دعا کرو تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو۔ الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے۔ حقیقت پرست بننا چاہیے۔مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہیے، مگر حقیقت کو پاؤ۔ ہاں جس کو زبان عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ231 ایڈیشن 2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

رقت: اثر پذیری کی صلاحیت، نرمی، ملائمت (سختی کی ضد)، رحم، ہمدردی، رحمدلی۔ آنسوؤں سے رونے کی صورتِ حال، گریہ، بکا، نالہ و فریاد

رقت والے الفاظ: یعنی الفاظ کا چناؤ ایسا ہو جو خوبصورت بھی ہو، خود اپنے دل پہ بھی اثر کرنے والے ہوں تاکہ جذبات ابھریں اور دعا میں تاثیر پیدا ہو۔

مسنون: وہ (فعل یا طریقہ) جو سنت ہو یعنی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اختیار کیا ہو یا کرنے کا حکم دیا ہو۔

جنتر منتر: ٹوٹکا، افسوں، جھاڑ پھونک۔غیر حقیقت پسند طریق پہ کسی بھی بات یا الفاظ کی محض بار بار تکرار کرتے رہنا جیسا کہ ان میں کوئی جادوئی اثر ہے۔

اتباع سنت: سنت پہ عمل کرنا۔

رقت بھی اتباع سنت ہے: یعنی دعا کرتے ہوئے ایسے مناسب الفاظ کا استعمال جو حقیقت حال بھی بیان کریں اور انسانی جذبات کی بھی عکاسی کریں جس کے نتیجے میں آنسوؤں سے رونے جیسی حالت پیدا ہوجائے بذات خود سنت نبویﷺ ہے۔

الفاظ پرست: معنی و حکمت کی بجائے صرف لفاظی پہ زور دینا یا لفاظی ہی کو سب کچھ سمجھ لینا۔

مخذول: ذلیل، رُسوا، خوار

حقیقت پرست: Realistic approach

برکت: افزائش، زیادتی، ترقی، نیک بختی، نصیب وری، سعادت، نیکی یا نیک بختی کا خوشگوار اثر یا نتیجہ۔

موافقت: مزاج یا طبیعت وغیرہ کی مناسبت، ہم آہنگی۔

فہم: عقل، خرد، سمجھ، سمجھ بوجھ، ادراک، دریافت، علم، سمجھنا، ادراک حاصل کرنا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

رمضان کے پہلے عشرہ رحمت کی مناسبت سے حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ