• 15 مئی, 2024

روزہ اور فدیہ کی غرض

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے۔ تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خد اتعالیٰ تو قادر ِمطلق ہے، وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دُعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور مَیں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خد ا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص563)

  • ’’اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری اُمتوں کی طرح اس اُمت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اُس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خد ا تعالیٰ اُسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ ِرمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیمار ی اُس کے حق میں رحمت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خد اتعالیٰ کی راہ میں دِلاور ثابت کردے ۔جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اُس کے دل میں یہ نیت دردِدل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اُس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُونہ ہو تو خد اتعالیٰ اُسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص563)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 07۔مئی2020ء