• 6 مئی, 2024

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيعاً إِنَّ اللّٰهَ عَلیٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

(البقرہ:149)

اس آیت میں انسان کی نجی اور جماعتی و قومی زندگی میں ترقی کا رہنما اصول بیان ہوا ہے اور وہ ہرنیکی اور اچھائی کے میدان میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی نصیحت و تلقین اور عمل ہے۔

بالخصوص مسلمانوں کو نیکی اور بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا درس دیا گیا ہے۔ ویسے تو ایک مسلمان کی سارا سال ہی اس رہنما اصول کو اپنانے کی طرف توجہ رہتی ہے لیکن رمضان کے مبارک مہینہ میں جب نیکیوں کا بازار گرم ہوتا ہے ہر طرف نیکیوں کے میدان سجے ہوتے ہیں۔ اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے اور ہر مومن دوسرے مومن سے آگے بڑھنے کی فکر میں بھی رہتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے۔

آج سے 14سو سال قبل صحابہؓ کی نجی و مذہبی زندگی کو اگر ہم تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں تو نیکیوں کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہیں پہلی صف میں بیٹھنے کے ثواب کے حصول کی خاطر اتنے صحابہؓ جمع ہو جاتے ہیں کہ قرعہ اندازی کروانے کا اظہار ہوتا ہے۔

کہیں اذان دینے کے شوق میں صحابہؓ میں قرعہ اندازی کروانی پڑتی ہے اور جب غریب اور مفلس صحابہؓ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ صاحبِ ثروت صحابہؓ مالی قربانی کرتے ہیں ہم نہیں کر سکتے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا ہر نماز کے بعد 33 ،33 دفعہ سبحان اللّٰہ، الحمدللّٰہ اور 34 مرتبہ اللّٰہ اکبر پڑھ لیا کرو تو تمہیں بھی امیر صحابہؓ کے برابر ثواب مل جایا کرے گا۔ جب یہ ارشاد امیر صحابہؓ کے کانوں میں پڑا تو انہوں نے بھی ان تسبیحات کا ورد شروع کر دیا۔ اس پر غریب صحابہؓ نے دوبارہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی تو آنحضور ﷺ نےفرمایا۔

یہ اللہ تعالیٰ کافضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے (میں اس فضل کو کیسے روک سکتا ہوں)

گویا نیکیوں میں آگے بڑھنا بھی اللہ کا فضل ہے جس کے حصول کے لئے اس میدان میں کوشاں رہنا چاہئے۔

صحابہؓ تو آنحضور ﷺ کے ارشاد سُننے کو ہر وقت مشّاق نظر آتے تھے۔ وہ تو دیوانوں کی طرح اپنے ساتھیوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی تازہ ارشاد ہو تو بتاؤ تا اس پر عمل کیا جائے۔ مدینہ کے نواح میں بسنے والے صحابہؓ نے ڈیوٹیاں لگا رکھی تھیں کہ فلاں شخص فجر کی نماز اور فلاں شخص ظہر کی نمازاور فلاں فلاں باقی نمازوں پر مسجد نبوی میں حاضر ہوگا، اور جو ارشاد ہو اس کو مدینہ کے نواح میں بسنے والے صحابہ تک پہنچائے گا تا وہ مدینہ کے صحابہ سے پیچھے نہ رہ جائیں۔

  • حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں مسابقت فی الخیرات کی دوڑ ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ اشاعت اسلام کے لئے حضرت عمرؓ گھر کا نصف اثاثہ لے آتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ آج میں اپنے بھائی حضرت ابوبکر ؓ کو مات دے دوں گا مگر تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ گھر کا سارا مال اُٹھا لاتے ہیں اور پوچھنے پر فرماتے ہیں ’’میں اللہ اور اس کا رسولؐ گھر چھوڑ آیا ہوں‘‘
  • ایک دفعہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ہر عبادت کا ایک دروازہ ہوتا ہے، نمازی کے لئے الگ دروازہ ہے۔ روزے دار کے لئے الگ، جہاد کرنے والوں کے لئے الگ اور ہر مومن اپنی نمایاں عبادات کی وجہ سے متعلقہ دروازہ سے داخل ہوگا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی۔ کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں سے گزرے؟ تو آنحضور ﷺ نے فرمایا میں اُمید کرتا ہوں آپ اُن میں ایک ہوں گے۔
  • ایک روز نبی کریم ﷺ نے علی الصبح اپنے صحابہؓ کا مسابقت فی الخیرات کے لئے جائزہ لیا۔ تو حضرت ابوبکرؓ ہی اول ٹھہرے اور جنت کی بشارت حاصل کی۔

مجمع الزوائد میں یہ واقعہ یوں لکھا کہ ایک صبح فجر کی نماز کے بعد آنحضور ﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا ۔آج روزہ کس نے رکھا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی۔ میں نے رات ہی نفلی روزہ کی نیت کر لی تھی۔ پھر پوچھا مریض کی عیادت کس نے کی ہے؟ حضرت عمرؓ کہنے لگے صبح کی نماز کے بعد ابھی توہم یہیں ہی بیٹھے ہیں۔حضرت ابوبکرؓنے عرض کی میں راستے میں آتا ہوا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ان کی بیماری کا حال احوال پوچھ آیا ہوں۔ پھر پوچھا کسی نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پھر وہی بات دہرائی جبکہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں جب مسجد میں داخل ہوا تو ایک سوالی کو کھڑا دیکھا تو اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا لے کر اس سائل کو دے آیا ہوں۔ آنحضور ﷺ نے اس پر فرمایا اے ابوبکر!تمہیں جنت کی بشارت ہو۔ اس پر حضرت عمرؓنے لمبی سانس لی اور کہا وائے جنت تو مجھ سے دُور ہے۔ اس پر آنحضورﷺنے دُعا دی اللہ عمر پر رحم کرے اللہ عمر پر رحم کرے جب بھی وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے ابوبکر اس سے سبقت لے جاتا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے لمبی سانس لی اور کہا یہ بڈھا (پیار سے) کسی میدان میں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔

  • صحابہؓ میں بالخصوص ابوبکرؓو عمرؓ میں مسابقت فی الخیرات کے بے شمار ایمان افروز واقعات ملتے ہیں۔ صرف ایک واقعہ اور بیان کر کے مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں۔

ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات گئے گشت پر نکلے۔ راستے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو نماز میں قرآن پڑھتے سنا تو آنحضور ﷺ رُک گئے جب وہ رکوع میں گئے تو آپ ؐ نے فرمایا مانگو۔ جو مانگو گے عطا کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ صبح سویرے یہ بشارت دینے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے گھر گئے۔ وہاں جا کر علم ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ تو رات ہی کو یہ بشارت سنا گئے تھے۔ اور پوچھا تھا کہ آپ اس وقت کون سی دُعا کر رہے تھے ۔کہا ’’رسول اللہؐ کی رفاقت اورمعیت کی دُعا‘‘۔ سُبْحَانَ اللّٰهِ ۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

یہی وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تھے جو کہا کرتے تھے کہ جنگ بدر میں مشورہ کے وقت حضرت مقداد بن الاسود کے الفاظ کاش میرے منہ سےنکلے ہوتے اور یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی کہ میں یہ کہتا کہ یارسول اللہ !ہم موسیٰ کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جاؤ آپؐ اور آپؐ کا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ہم تو آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے۔

آئیں!اب دیکھتے ہیں کہ اپنے پیارے امام کے ہر حکم کو دل میں اُتارنے اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے رمضان میں کون سے میدان سرگرم ہیں۔گھر میں بسنے والے افراد خانہ اور محلہ اورماحول میں رہنے والے احباب جو نیکیاں کما رہے ہیں۔ اُن سے مقابلہ کرتے ہوئے ہر نیکی کے میدان میں اوّل رہنا ہے اور یوں خدائی صفت ’’الاوّل‘‘ سے بھی مشابہت ہوگی۔ خدا کو ’’مَلنے‘‘ کا میدان ہے۔خدا کا ہوجانے کا میدان ہے۔ خدا کو اپنا بنانے کا میدان ہے۔ نمازوں میں مقابلہ کا میدان ہے۔ نماز تہجد، نوافل میں پڑھنے کا میدان ہے۔ ذکر الٰہی ،تلاوت قرآن پاک، درس القرآن میں شمولیت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا میدان ہے۔ صد سالہ خلافت جوبلی کے روحانی پروگرام پر کما حقہٗ عمل کرنے میں مسابقت کا میدان ہے۔ غرباء مفلس اور مستحقین افراد کی دیکھ بھال اور اُن کی اطاعت کا رمضان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اس لئے صدقات میں آگے بڑھنے اور صدقۃ الفطر کی ادائیگی کا میدان ہے۔

زکوٰۃ کا رمضان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔جو صاحب نصاب ہیں اُن کو زکوٰۃ کی ادائیگی کر کے دوسروں سے آگےبڑھنے کی ضرورت ہے بالخصوص خواتین جن کے ہاں زیور ہیں اور وہ صاحب نصاب ہیں ان کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔جماعت احمدیہ میں نیکیوں میں آگے بڑھنے کا ایک میدان جو رمضان میں لگتا ہے وہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندہ جات کی ادائیگی کا میدان ہے۔

پس آج مغرب کے بعد رمضان ڈھل رہا ہے اور روزوں کی گنتی کا countdown شروع ہونے والا ہے اور ایک کسان کی طرح جو سورج ڈھلتے ہی ساتھ ساتھ فصل کاٹتا ہے اور کاٹی ہوئی فصل کو سنبھالنےکی فکر میں بھی رہتا ہے۔اسی طرح رمضان میں روحانی فصل کاٹنے کے لئے تیزی بھی لانی ہے اور نیکیوں کا بازار پہلے سے زیادہ گرم کرنا ہے اور گزشتہ کی ہوئی نیکیوں پر شکرانے کے نوافل پڑھ کر ذکر الٰہی کر کے عبادات کو بڑھا کر باڑ بھی لگانی ہے تا وہ محفوظ رہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اتنی سعی کرنی ہے کہ رمضان کے آخیر میں ایک نومولود اور معصوم بچے کی طرح صاف ستھرےہو کر رمضان کو الوداع کہنے والے ہوں۔

اب ان گنت نیکیوں کا بازار لگا ہے اور جس طرح بازار سے ہم اچھی اور عمدہ چیز خریدتے ہیں۔ اس طرح ہم کونیکیوں کے بازار سے اچھی خریداری کرنی ہے جو آئندہ آنے والے دنوں میں زادِ راہ کے طور پر کام آئے۔

حدیث اِذَا سَلِمَ الرَّمَضَانُ سَلِمَتِ السَّنَۃُ کے تحت نیکیوں کے میدان میں ایک دوسرے کو رشک کے ساتھ بڑھ کر نہ کہ حسد سے آگے بڑھ کر رمضان کو اس قدر محفوظ بنانا ہے کہ ہمارا باقی ماندہ سال بھی سلامتی کا سال بن جائے۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 07۔مئی2020ء