بسمل کو شب کا روگ تڑپ صبح نور کی
غالب نے کوئی بات یہاں پر ضرور کی
مانا سبھی کا ذوقِ نظر ہے جدا جدا
پھر بھی چلو کہ سیر کریں کوہ طور کی
فردا کی فکر ہے تو کر امروز جستجو
اور یہ بھی سوچ رکھ کہ یہ منزل ہے دور کی
رستے ہیں سارے بند کبوتر اڑائیے
لندن سے چٹھی لائے جو میرے حضور کی
خلدِ بریں کا شوق ہے عرفانِ ذات رکھ
باتیں سمجھ نہ پایا میں اس پر غرور کی
عارفؔ تماشا کیا ہے سہل بول بولئے
پلے تو کوئی بات پڑے ذی شعور کی
(عبد السلام عارف)