• 27 اپریل, 2024

تالیف اور تصنیف کا سلسلہ

منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف اور تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اِس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں اور انسانی تکلّف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیئے گئے۔

دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکمِ الٰہی اتمامِ حجّت کی غرض سے جاری ہے اور اب تک بیس 20 ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجّتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔

تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرّقہ سے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کار خانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیّتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں۔ یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ 60 ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے۔ اور اُن کی کمزوری کو دور کر دیا گیا اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریریں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئیں یا کی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیفات کی نسبت نہایت مفید اورمؤثر اور جلد تر دلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نبی اس طریق کو ملحوظ رکھتے رہے ہیں اور بجز خدا تعالیٰ کے کلام کے جوخاص طور پر بلکہ قلم بند ہو کر شائع کیا گیا باقی جس قدر مقالات انبیاء ہیں وہ اپنے اپنے محل پر تقریروں کی طرح پھیلتے رہے ہیں۔ عام قاعدہ نبیوں کا یہی تھا کہ ایک محل شناس لیکچرار کی طرح ضرورتوں کے وقتوں میں مختلف مجالس اور محافل میں اُن کے حال کے مطابق روح سے قوّت پا کر تقریریں کرتے تھے۔ مگر نہ اِس زمانہ کے متکلّموں کی طرح کہ جن کو اپنی تقریر سے فقط اپنا علمی سرمایہ دکھلانا منظور ہوتا ہے۔ یا یہ غرض ہوتی ہے کہ اپنی جھوٹی منطق اور سو فسطائی حُجّتوں سے کسی سادہ لوح کو اپنے پیچ میں لاویں اور پھر اپنے سے زیادہ جہنّم کے لائق کریں بلکہ انبیاءنہایت سادگی سے کلام کرتے اور جو اپنے دل سے اُبلتا تھا وہ دوسروں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔ اُن کے کلمات قدسیّہ عین محل اور حاجت کے وقت پر ہوتے تھے اور مخا طبین کو شغل یا افسانہ کی طرح کچھ نہیں سُناتے تھے بلکہ اُن کو بیمار دیکھ کر اور طرح طرح کے آفات ِ روحانی میں مبتلا پا کر علاج کے طور پر اُن کو نصیحتیں کرتے تھے یا حُججِ قاطعہ سے اُن کے اوہام کو رفع فرماتے تھے۔ اور اُن کی گفتگو میں الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے تھے۔ سو یہی قاعدہ یہ عاجز ملحوظ رکھتا ہے اور واردین اور صادرین کی استعداد کے موافق اور اُن کی ضرورتوں کے لحاظ سے اور اُن کے امراض لاحقہ کے خیال سے ہمیشہ باب ِ تقریر کھلا رہتا ہے۔

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ12-17)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز عید الفطر، کینیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جون 2022