• 5 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 16)

قرآنی انبیاء
صبرایوبی
قسط 16

مشکلات اور مصائب کا ایک طوفان تھا جوآپ پر آیا اور اچھے دنوں کو ساتھ بہا کر لے گیا اب مشکلات اور پریشانیوں میں صبر کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔ آپ نےان ابتلاؤں کو خداتعالیٰ کے قرب کا ذریعہ سمجھ کر بڑی محبت کے ساتھ قبول کیا اور صبر کی اعلیٰ ترین مثال قائم کردی۔

حضرت ایوبؑ کے واقعات جن پر مصائب اور مشکلات نے حملہ کر دیا تھا۔

یہ آج سے قریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل کا واقعہ ہے۔ لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے واقعہ ایسا ہے کہ ہر دور میں اس کا ذکر کیا جاتا رہا ہے اور ہمیشہ کیا جاتا رہے گا۔ بحر مردار (فلسطین) اور جزیرہ عرب کے درمیان ادوم یا ادومنہ نام کی ایک بستی آباد تھی۔ جس میں خداتعالیٰ کا ایک نیک اور بزرگ بندہ ایوب نامی رہا کرتا تھا۔ اپنی نیکی اور تقویٰ شعاری کی بناء پر ایوب خداتعالیٰ کے مقرب تھے اور قرآن کریم نے آپ کو اپنا نبی بتایا ہے۔

آپ ایک مالدار صاحب عزت اور تندروست آدمی تھے۔ مساکین اور غرباء کی مدد کرنے والے اور بیواؤں اور مظلوموں کی فریادرسی کرنے والے تھے۔ پھر جیسا کہ عام دستور ہے خداتعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے تاکہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ یہ لوگ ہر مصیبت اور تنگی میں بھی خداتعالیٰ کے سچے وفادار رہتے ہیں۔حضرت ایوبؑ پر بھی بعض مصائب آگئے۔ یہ تکلیفیں آپ کی کسی غلطی یاگناہ کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ صرف اس لئے تھیں کہ دنیا جان لے کہ ایوبؑ ایک صابر اور وفادار بندہ ہے۔

چنانچہ ایساہی ہوا اور حضرت ایوبؑ کے حالات خراب ہوگئے مال ودولت اور روپیہ پیسہ بعض واقعات کی وجہ سے جاتا رہا اور جسمانی طور پر بھی بعض بیماریاں آپ کو لاحق ہوگئیں۔ یہ مصائب اور مشکلات خداتعالیٰ کی طرف سے صرف ایک آزمائش کے طور پر تھیں اور آپ اس بات کی حقیقت کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ آپ نے ان تمام مشکلات پر صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اس حدتک کہ آپ کاصبر آج تک ایک مثال کے طورپر بیان کیا جاتا ہے۔ آپ نے ان مشکلات کے وقت صرف اور صرف خداتعالیٰ سے التجائیں کیں کہ اےاللہ! مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے۔ تو بہت رحم کرے تو میری یہ تکالیف دور ہوسکتی ہیں۔

اس دعا کے سوا آپ نے نہ تو کوئی شکوہ کیا اور نہ ہی شور مچایا کہ مجھ پریہ ابتلاء کیوں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی حالت سے واقف تھا۔ اس نے جب آپ کی دعاؤں کو قبول کیا تو یہ تمام تکالیف اور جسمانی بیماریاں دور ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فریاد کو سن کر آپ کو حکم دیا کہ اس جگہ کو چھوڑ کر فلاں علاقے میں چلے جاؤ۔ وہ علاقہ تمہارے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اس علاقے میں لوگ تمہاری مخالفت بھی کر رہے ہیں اور حالات بھی خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اس لئے تم اس علاقے سے ہجرت کر کے دوسرے علاقے کی طرف نکل جاؤ۔ وہاں تمہاری اس بیماری کا بھی علاج ہوجائے گا اور تم اور تمہارے اہل وعیال سکون کی زندگی بھی گزار سکیں گے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت ملنے پر آپ نے ایک چشموں والے پہاڑی علاقے کی طرف ہجرت کی۔(جس کا معین طور پر اندازہ لگانا مشکل ہے) وہاں پر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طورپر نہ صرف یہ کہ آپ کو کامل صحت اور تندروستی عطا کی۔ بلکہ آپ کو تبلیغ دین کیلئے نیک اور سعید فطرت لوگ بھی عطا کئے۔آپ نے انہیں خدائے واحد کا پیغام پہنچایا اور اپنے فرائض نہایت خوبصورتی کے ساتھ اداکئے۔

اللہ تعالیٰ نے تکلیف پر آپ کے صبر کو اس قدر پسند کیا کہ قرآن کریم میں آپ کو ’’صابر‘‘ یعنی صبر کرنے والا قرار دیا ہے۔ آپ نے تقریباً 93 سال عمر پائی اور پھر اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز عید الفطر، کینیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جون 2022