• 29 اپریل, 2024

یہ ہے فیصلے نپٹانے کا طریقہ اور یہ ہے تقویٰ کا وہ معیار جو ایک مومن میں ہونا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہمارے قضاء میں بھی جب خلع اور طلاق کے معاملات آتے ہیں تو بعض میں خود بھی دیکھتا ہوں کہ انصاف پر مبنی اور حقائق پر مبنی نہ بیان دئیے جاتے ہیں، نہ ہی گواہان اپنی گواہیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح لین دین کے معاملات ہیں، ان میں بھی بعض لوگ عارضی اور ذاتی فائدے کے لئے تقویٰ سے دُور ہٹ کر آگ کا گولہ لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ آگ کا گولہ لینے والی جو حدیث ہے اس میں بھی دو بھائیوں کی جائیداد کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو یہی فرمایا کہ اگر کوئی چرب زبان ہے تو میرے سے فیصلہ کروا لے گا۔ لیکن یہ آگ کا گولہ ہے جو میں تمہیں دوں گا۔ اور قیامت کے دن یہی پھندا بنے گا۔ اس پر دونوں بھائیوں نے چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا اور یہ کہا کہ ہم کچھ نہیں لیتے۔ اپنا حق چھوڑتے ہیں اور دوسرے کو دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حق چھوڑنا بھی غلط ہے۔ تم لوگوں کا حق ہے تو ضرور لو اور اگر فیصلہ نہیں کر رہے، کوئی ایسے کاغذات نہیں ہیں جو ثبوت ہوں، کوئی گواہیاں ایسی نہیں جو ثبوت کے طور پر پیش ہو سکیں تو قرعہ اندازی کر لو، جو جس کے حصہ میں آئے وہ اُس پر راضی ہو جائے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ642-643 حدیث اُمّ سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 27253 عالم الکتب بیروت 1998ء)۔ تو یہ ہے فیصلے نپٹانے کا طریقہ۔ اور یہ ہے تقویٰ کا وہ معیار جو ایک مومن میں ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے اور عقل دے جو انصاف کرنے میں روک بن رہے ہوتے ہیں۔ اگر گھریلو سطح پر بھی اور کاروباری معاملات میں بھی سچائی پر مبنی گواہیاں ہوں، عدل قائم کرنے کے لئے گواہیاں ہوں تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ اس دنیا میں بھی پیش کر سکتاہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا، قرآنِ کریم میں عدل کے بارے میں بھی تفصیلی احکامات ہیں۔ اس بارے میں ایک دو اور آیات مَیں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ نساء میں ہی فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۵۹﴾ (النساء: 59) کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں اُن کے حق داروں کے سپرد کیا کرو۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔

اس آیت میں پہلی بات تو امانتوں کو حق داروں کے سپرد کرنے کی بیان فرمائی۔ اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے مَیں ایک تفصیلی خطبہ دے چکا ہوں کہ یہ سال عہدیداران کے انتخاب کا سال ہے۔ اس لئے ذاتی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، خاندانی تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، امانت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی نظر میں ایسے عہدیدار منتخب کریں جو اپنے کام سے انصاف کر سکیں۔ بہرحال انتخاب تو ہو گئے۔ بعض جگہ خود منتخب کرنے والوں نے اپنی نظر میں بہتر عہدے داران منتخب کئے۔ بعض جگہ میں نے خود بعض تبدیلیاں کیں یا مشورے دینے والوں کے مشورے نہیں مانے اور اگر کوئی اچھا کام کر رہا تھا تو اُسی کو رہنے دیا۔ ہر ایک کام کرنے کا ایک لیول ہے۔ جب اس تک کوئی انسان پہنچ جاتا ہے، اُس کی صلاحیتیں پہنچ جاتی ہیں تو پھر مزید اُس شعبہ میں ترقی نہیں ہوتی اور ہو سکتا ہے کہ وہی شخص جو ایک جگہ زیادہ بہتر کام نہ کر رہا ہو، دوسری جگہ بہتر کام کر دے۔ اس لئے بھی بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض تبدیلیاں ناراضگی کی وجہ سے کی گئی ہیں۔ ناراضگی سے زیادہ جماعتی مفاد کو دیکھا گیا ہے۔ جہاں میں نے سمجھا کہ جماعتی مفاد اس میں ہے کہ تبدیلیاں کی جائیں، وہاں انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے شعبوں میں تبدیلیاں کی جائیں۔ دلوں کا حال تو خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ ہم تو مشورے اور فیصلے ظاہری حالت کے مطابق ہی کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ لیکن بعض مقامی جماعتوں میں، بعض ممالک میں ابھی بھی ذاتی پسند اور قرابت داری کو ترجیح دیتے ہوئے عہدیدار منتخب کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل دے اور اُن پر بھی رحم فرمائے جو ذاتی ترجیحات کو انصاف پر مقدم سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ انتخاب تو ہو گئے، اب جو عہدیدار منتخب ہوئے ہیں اُن کا فرض بنتا ہے کہ اپنی کمزوریوں کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہوئے اُس سے مغفرت اور مدد کے طالب ہوں اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

عہدہ بھی ایک خدمت ہے، اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے، ایک انعام ہے۔ اُس کی قدر کرنی چاہئے۔ احبابِ جماعت سے سلوک میں، اُن کے معاملات کو حل کرنے میں، اُن کی تربیت پر توجہ دینے میں جماعت کے مقاصد کے حصول کے لئے پروگرام بنانے میں، ان سب باتوں میں انصاف سے کام لیں اور محنت کریں۔ محنت سے کام کرنے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل (النساء: 59)۔ کہ انصاف سے حکومت کرو، اس کے تقاضے تبھی پورے ہوں گے جب اپنی تمام تر استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ دین کی خدمت کا جو کام ملا ہے، اُسے سرانجام دیں گے۔ اس میں ہر عہدیدار شامل ہے۔ مقامی سطح پر بھی اور نیشنل لیول پر بھی ان باتوں کا اُسے خیال کرنا چاہئے۔ جماعت کا مفاد ہر ذاتی مفاد سے بالا ہونا چاہئے، اُس پر حاوی ہونا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گہری نظر رکھتا ہے۔ ہمارے ایک ایک پل کا جو بھی عمل ہے اُس کے علم میں ہے اور وہ شمار ہو رہا ہے۔ پس خدمتِ دین کا جو موقع ملا ہے اُسے فضلِ الٰہی سمجھ کر بجا لانے کی کوشش اب ہر منتخب یا مقرر کئے جانے والے عہدیدار کو کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تو دنیاوی حاکموں سے بھی پوچھے گا اور حساب لے گا اور جو خدا تعالیٰ کے نام پر کسی کام کے لئے مقرر کئے جائیں اگر وہ اپنی امانتوں کے حق ادا نہیں کر رہے اور انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں گے تو دنیا داروں سے بڑھ کر پوچھے جائیں گے۔ پس ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ استغفار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، عاجزی دکھاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ تمام عہدیداروں کو، تمام خدمت کرنے والوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 9؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

واقعات حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2022