• 7 مئی, 2024

زلزلے کیسے آتے ہیں

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔

اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا

(الزلزال: 2)

اور جب زمین اپنے بھونچال سے جنبش دی جائے گی۔

(ترجمہ از خلیفة المسیح الرابعؒ)

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ

(الحج: 2)

اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو یقیناً ساعت کا زلزلہ ایک بہت بڑی چیز ہوگی۔

(ترجمہ از خلیفة المسیح الرابعؒ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ دو عظیم جماعتیں قتال کریں گی۔ ان کے مابین بڑی قتل و غارت ہوگی اور ان دونوں کا ایک ہی دعویٰ ہوگا اور تیس دجال کذاب بھیجے جائیں گے وہ سب یہی دعویٰ کریں گے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلے کثرت سے آئیں گے۔ زمانہ (قیامت کا وقت) قریب آ جائے گا۔ فتنے ظاہر ہوں گے، قتل زیادہ ہوں گے اور تم میں مال کی کثرت ہو جائے گی۔

(مشکوۃالمصابیح 5410)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ !ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہؓ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہؓ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔

(صحیح بخاری 7094)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
دنیا میں ایک نظیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا۔

پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جس کے الفاظ یہ ہیں۔

’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی پنج بار‘‘

اس وحی الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ میں اس کی طرف سے ہوں۔پانچ دہشت ناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلے سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں ان میں سے ایک ایسی چمک ہوگی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد آجائے گا۔ اور دلوں پر ان کا ایک خوفناک اثر پڑے گااور وہ اپنی قوت اور شدت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے۔ جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔ یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی۔

(تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ395)

سو ان میں سے اس ملک میں ایک طاعون اور دوسخت زلزلے آچکے جن کی پہلے سے میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی۔ مگر اب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پانچ زلزلے اور آئیں گے۔ اور دنیا ان کی غیر معمولی چمک کو دیکھے گی اور ان پر ثابت کیا جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں جو اس کے بندے مسیح موعودؑ کے لئے ظاہر ہوئے۔

(تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ398)

4 اپریل 1905ء کے زلزلے کی پیش گوئی ایک برس پہلے میں نے اخباروں میں شائع کی تھی……. سو اب مجھے اس بات کے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کس صفائی سے وہ پیش گوئی پوری ہوگئی۔ پھر بعد اس کے اسی اپریل کے مہینے میں یہ دوسری پیشگوئی خدا تعالیٰ کی وحی سے میں نے شائع کی تھی کہ جیسا کہ یہ زلزلہ 4 اپریل 1905ء کا موسم بہار میں آیا ایسا ہی ایک دوسرا زلزلہ موسم بہار میں ہی آئے گا اور اس سے پہلے نہیں آئے گا اور ضروری ہے کہ 25 فروری 1906ء تک وہ زلزلہ نہ آوے۔ سوگیارہ مہینے تک کوئی زلزلہ نہ آیا اور جب 25 فروری 1906ء گزر گئی تب 27فروری 1906ء کی رات کو عین وسط بہار میں ایک بجے کے وقت ایسا سخت زلزلہ آیا کہ انگریزی اخبارات سول وغیرہ کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ زلزلہ 4 اپریل 1905ء کے زلزلے کے برابر تھا۔ یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت گیارہ مہینے پہلےخدا تعالیٰ کی وحی نےیہ خبر دی تھی۔کہ

پھر بہار آئی خدا کی بات پھرپوری ہوئی

(تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ402)

دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے ان میں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ حادثات اور قدرتی آفات میں زلزلے سے بڑھ کر کوئی دہشت ناک نہیں، اس لئے کہ یہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ایک دم نازل ہوتا ہے۔ یوں ذہنی طور پر اس کا سامنا کرنے کی تیاری کا کسی کو بھی وقت نہیں ملتا۔ یوں بھی انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفان، وبائی بیماریوں اور جنگوں وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ زلزلوں کی ہلاکت خیزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہیں۔ معلوم تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ مالی نقصانات کا تو شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جا سکتا۔

زلزلہ کیا ہے؟

زلزلے کا لفظ لاطینی ٹیرایموٹس (حرکت میں آنے والی زمین) سے آیا ہے اسے زلزلہ بھی کہا جاتا ہے یہ زمین کے پرت کو اچانک حرکت دینے یا لرز اٹھنےوالا عمل ہے جو زمین کے کسی حصے میں اندرونی مظاہر سے پیدا ہوتا ہے۔

زلزلے کیسے آتے ہیں؟

زلزلہ قشر الارض سےتوانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے زلزلیاتی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ توانائی اکثرآتش فشانی لاوے کی شکل میں سطح زمین پر نمودار ہوتی ہے۔ اس توانائی (آتش فشانی لاوے) کے قوت اخراج سے قشر الارض کی ساختمانی تختیوں میں حرکت پذیری پیدا ہوتی ہے۔ لہذا اپنے دوران حرکت یہ تختیاں آپس میں ٹکراتی ہیں جس کی وجہ سے سطح زمین کے اوپر جھٹکے tremours پیدا ہوتے ہیں۔ اور زلزلے رونما ہوتے ہیں۔

پیمائش کا آلہ

زلزلوں کی شدت کا اندازہ ریکٹر اسکیل پر زلزلہ پیما کے ریکارڈ سے لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدت مرکلی اسکیل Mercally intensity scale سے ناپی جاتی ہے۔

پہلی قوموں میں زلزلوں کے متعلق روایات

صدیوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے میں عجیب و غریب رائے رکھتے تھے مثلاً عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لیے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں۔ بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قو تو ں کے مالک دیو ہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں زلزلے پیدا کرتے ہیں۔ قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینزکابھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کےحرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔ سائبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمہ داری ایک قوی البحثہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں۔ جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنےکے لیے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے۔ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی دان فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اس قسم کا تھا کہ زیر زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔ تقریبا 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصے میں آگ کا جہنم دھک رہا ہے اور اس بےپناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارہ کی طرح پھیلتی ہے۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ پلیٹ ٹیکٹونکس کا ہےجس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کےماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔

زمین کی پلیٹیں

زمین کی پلیٹیں کے نظریے کے مطابق زمین کی بالائی پرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے جب زمین کے اندرونی کرے میں موجود پگھلے ہوئے مادے جسے جیولوجی کی زبان میں میگما کہتے ہیں میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے یوںمتحرک ہو جاتی ہے جیسےکنویئربیلٹ پر رکھی ہوئی ہو ں۔میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر، نیچے یا پہلو میں ہو جاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے جوان پلیٹوں کے joint پر واقع ہیں۔

ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ پیدا ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ زیر زمین جو مقام میگماکے دباؤ کا نشانہ بنتا ہے، اسے محورFOCUS اور اس کے عین اوپر کے مقام کو جہاں اس جھٹکے کے فوری اثرات پڑتے ہیں زلزلے کا مرکز epicentre کہا جاتا ہے۔ زلزلےکی لہریں پانی میں پتھر گرنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی طرح دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔ ان سے ہونے والی تباہی کا تعلق جھٹکوں کی ریکٹراسکیل پر شدت، فالٹ یا دراڑوں کی نوعیت، زمین کی ساخت اور تعمیرات کے معیار پر ہوتا ہے۔ اگر زلزلہ زمین کی تہہ میں آۓ تو اس سے پیدا ہونے والی بلند موجیں پوری رفتار کے ساتھ چاروں طرف چلتی ہیں اور ساحلی علاقوں میں سخت تباہی پھیلاتی ہیں۔

زلزلوں کی اقسام اور پلیٹوں کی حرکت

زلزلے دو قسم کے ہوتے ہیں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹیکٹونک زلزلے کہا جاتا ہے۔ جبکہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹیکٹونک کہلاتے ہیں۔ ٹیکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہو سکتے ہیں۔ جبکہ نان ٹیکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کسی خطے میں تو بہت زیادہ تباہی ہو جاتی ہے لیکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہیں۔ زلزلے کی لہریں 25 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھیلتی ہیں۔ نرم مٹی اور ریت کے علاقے میں یہ نہایت تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی شدت کا اندازہ ریکٹر اسکیل پر زلزلہ پیما کے ریکارڈ سے لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدت مرکلی اسکیلmercally intensity scale سے ناپی جاتی ہے۔ زلزلے سمندر کی تہ میں موجود زمینی سطح پر بھی پیدا ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر زلزلے سمندر کی تہہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ بحری زلزلوں یعنی سونامی سے سمندر میں وسیع لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایک سو میل سے لے کر 200 میل تک کی لمبائی تک پھیل جاتی ہیں، جبکہ ان کی اونچائی 40 فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ لہریں ساحل پر پہنچتی ہیں تو ساحل سے گزر کرخشکی کی جانب سیلاب کی طرح داخل ہو جاتی ہیں اور بے پناہ تباہی و بربادی پھیلا دیتی ہیں۔

جب زمین کی پلیٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضیاتی دباؤ کا شکار ہو کر ٹوٹتی یا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں دائروں کی صورت میں ہر سمت پھیل جاتی ہیں۔ جہاں پلیٹ میں حرکت کا مرکز واقعہ ہوتا ہےوہ hypo centre کہلاتا ہے۔ اس کے عین اوپر سطح زمین پر زلزلے کا مرکزepicentre کہلاتا ہے۔ یہ لہریں نظر تو نہیں آتیں لیکن ان کی وجہ سے سطح زمین پر موجود ہر شے ڈولنے لگتی ہے۔

زلزلوں کے لحاظ سے دنیا کی تقسیم

دنیا کے وہ خطے جہاں زلزلے زیادہ پیدا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر 3 پٹیوں belts میں واقع ہیں۔ پہلی پٹی جو مشرق کی جانب ہمالیہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے،انڈیا اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ اور یوگوسلاویہ سے فرانس تک یعنی کو ہ ایلپس تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری پٹی براعظم شمالی امریکہ کے مغربی کنارے پر واقعہ الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف Rocky Mountains کو شامل کرتے ہوئے میکسیکو سے گزر کر براعظم جنوبی امریکہ کے مغربی حصے میں واقع ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے ہوتی ہوئی چلی تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ تیسری پٹی براعظم ایشیا کے مشرق پر موجودجاپان سے شروع ہوکر تائیوان سے گزرتی ہوئی جنوب میں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتی ہے۔ دنیا میں 50 فیصد زلزلے کوہ ہمالیہ، روکیز ماؤنٹین اور کوہ اینڈیز میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ تینوں پہاڑی سلسلے اوپر بیان کردہ پٹیوں ہی میں واقع ہیں۔ تقریباً 40 فیصد زلز لے براعظموں کے ساحلی علاقوں اور ان کے قرب و جوار میں پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ بقیہ دس فیصد زلزلے دنیا کے ایسے علاقوں میں جو نہ تو پہاڑی ہیں اور نہ ساحلی ہیں، رونما ہوتے ہیں۔

سالانہ زلزلوں کا تناسب

کیفیتشدت میگنیٹیوڈہر سال آنے والے زلزلوں کی تعداد میگنیٹیوڈ کیفیت
صرف سیسموگراف محسوس کرتا ہے۔2.0 سے کم6 لاکھ سے زائد
انسان محسوس نہیں کرپاتا۔2.0 سے 2.93 لاکھ
ارتعاش محسوس کرتا ہے۔3.0 سے 3.949 ہزار
ہلکی توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔4.0 سے 4.96 ہزار
کھڑکیوں کے شیشوں پر اثر انداز ہوتا ہے پلستر اکھڑ جاتا ہے۔5.0 سے 5.91 ہزار
دیواروں میں دراڑیں پڑجاتی ہے۔ تہ عمارتیں ڈھے جاتی ہیں۔6.0 سے 6.9120
کئی عمارتیں تباہ ہوجاتی ہیں، ڈیم کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔7.0 سے 7.918
پورا شہر ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ پہاڑوں کی چٹانیں ٹوٹ کر گرتی ہیں۔8.0 سے زیادہ1

(Earthquake and urban environment vol.1 G.lennis berlin, 1980)

زلزلہ کی عمومی اصطلاحات

زلزلہ کی صورت میں لیٹ جانا (DROP)، ڈھک لینا COVER اور پکڑے رہنا HOLD ON کو یاد رکہیں۔ فرش پر لیٹ جائیں اور چھپنے کے لئے کسی چیزکے نیچے رہیں اور اسے اس وقت تک پکڑے رہیں جب تک زلزلہ رک نہ جائے۔

(ماخوذ از ویکیپیڈیا)

(نوید احمد غفار)

پچھلا پڑھیں

واقعات حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2022