• 5 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 43)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 43

تلاشِ اسباب
بجائے خود ایک دعا ہے

شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ہے؟ یا اسباب دعا نہیں؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ۔

انسان کی ظاہری بناوٹ، اُس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا رہنما ہے۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے۔ ہاں مَیں یہ کہتا ہوں کہ تلاشِ اسباب بھی بذریعہ دعا کرو۔ امدادِ باہمی میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تم اس سے انکار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے۔ مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (اٰل عمران: 53) کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا وہ ایک ٹکڑگدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (المومن: 52)۔ ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد دے سکتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَوۡلٰٮکُمۡ ؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَنِعۡمَ النَّصِیۡرُ دنیا اور دنیا کی مددیں اِن لوگوں کے سامنے کا لمیّت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔ لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ12-13 ایڈیشن 1984ء)

دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہوجاتی ہے

ہے نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہئے۔ کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے۔ سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہئے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہئے اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہئے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تاکہ حضور دل پیدا ہوجاوے۔ کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں وہ نماز نہیں۔ آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگے دار پڑھ لیتے ہیں۔ جلدی جلدی نماز کو ادا کرلیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے۔ پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں۔ یہ بدعت ہے۔ حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دعا کی جاوے۔ نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں۔ نماز خود دعا ہے۔ دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں۔

نماز کے اندر ہر موقعہ پر دعا کی جاسکتی ہے۔ رکوع میں بعد تسبیح، سجدہ میں بعد تسبیح، التحیات کے بعد، کھڑے ہو کر رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تاکہ مالا مال ہوجاؤ چاہئے کہ دعا کے واسطے روح پانی کی طرح بہہ جاوے۔ ایسی دعا دل کو پاک و صاف کردیتی ہے۔ یہ دعا میسر آوے تو پھر خواہ انسان چار پہر تک دعا میں کھڑا رہے۔ گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں مانگنی چاہئیں۔

دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہوجاتی ہے۔ بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ غلط خیال ہے ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ54-55 ایڈیشن 1984ء)

ابتدائے اسلام میں جو کچھ ہوا
وہ آنحضرتؑ کی دعاوٴں کا نتیجہ تھا

اللہ تعالیٰ نے ہم کو سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی کہ اے خدا نہ تو ہمیں مغضوب علیہم میں سے بنائیو اور نہ ضالین میں سے۔ اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان ہر دو کا مرجع حضرت عیسیٰؑ ہی ہیں۔ مغضوب علیہ وہ قوم ہے جس نے حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ عداوت کرنے اور ان کو ہر طرح سے دکھ دینے میں غلو کیا۔ اور ضالّین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ محبت کرنے میں غلو کیا اور خدائی صفات ان کے دے دیئے۔ صرف ان دونو کی حالت سے بچنے کے واسطے ہم کو دعا سکھلائی گئی ہے۔ اگر دجّال ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو یہ دعا اس طرح ہوتی کہ غیر المغضوب علیہم ولا الدجّال۔ یہ ایک پیشگوئی ہے جو کہ اس زمانہ کے ہر دو قسم کے شرّ سے آگاہ کرنے کے واسطے مسلمانوں کو پہلے سے خبردار کرتی ہے …ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں۔ جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا۔ وہ سب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا اثر تھا۔ ورنہ صحابہؓ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہؓ کے پاس صرف تین تلواریں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ58-60 ایڈیشن 1984ء)

کلام پڑھ کر پھونکنا

ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تاکہ اس کو شفا ہو۔ حضرت نے فرمایا بیشک قرآن شریف میں شفا ہے۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلا ہے۔ قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو۔ خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو۔ تمہارے واسطے یہی کافی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ70 ایڈیشن 1984ء)

نماز میں حضور قلب

انسان کی کوشش سے جو حضور قلب حاصل ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمان وضو کرتا ہے۔ اپنے آپ کو کشاں کشاں مسجد تک لے جاتا ہے۔ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ یہاں تک انسان کی کوشش ہے۔ اس کے بعد حضور قلب کا عطا کرنا خدا تعالےٰ کا کام ہے۔ انسان اپنا کام کرتا ہے۔ خدا تعالےٰ بھی ایک وقت پر اپنی عطا نازل کرتا ہے۔ نماز میں بے حضوری کا علاج بھی نماز ہی ہے۔ نماز پڑھتے جاؤ۔ اس سے سب دروازے رحمت کے کھل جاویں گے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ71 ایڈیشن 1984ء)

انسان کو چاہئے کہ دعا میں مصروف رہے

خدا تعالیٰ کے کام بے نیازی کے بھی ہیں اور وہ رحم بھی کرنے والا ہے۔ لیکن میرا عقیدہ یہی ہے کہ اس کی رحمت غالب ہے۔ انسان کو چاہئے کہ دعا میں مصروف رہے۔ آخر کار اس کی رحمت دستگیری کرتی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ88 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

غزل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2022