• 14 مئی, 2024

سٹرائیک اور ہڑتال کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا مؤقف

آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں خصوصاً پاکستان میں حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، آئے روز ہڑتالوں، فسادوں اور دھرنوں کی بات کی جاتی ہے۔ بعض احباب اس سے متعلق جماعتی مؤقف پوچھتے رہتے ہیں۔ جماعتی مؤقف تو قرآن و حدیث کی روشنی میں نہایت واضح ہے۔ قرآن و حدیث ہمیں اطاعت حکام کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اور جہاں تک قانون کے مطابق محدود یا مطلق اجازت ہے اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کئی بار خطبات میں ذکر فرما چکے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحب بنوں ہسپتال کے انچارج تھے، یہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1905ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بیعت کی تھی۔ دستی بیعت دسمبر 1905ء میں کی۔ بذریعہ خط اپریل 1905ء میں اور دستی دسمبر 1905ء میں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر کی تھی یہ بیعت۔ اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور مَیں میڈیکل کالج لاہور میں سب اسسٹنٹ سرجن کلاس میں پڑھتا تھا۔۔۔۔ لاہور میڈیکل کالج کے ہسپتال اسسٹنٹ کلاس نے جن میں مَیں بھی شامل تھا، 1906ء کے آغاز میں بعض شکایات کی بنا پر سٹرائک کر دی (ہڑتال کر دی) اس میں احمدی میڈیکل طلباء بھی شامل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے ازراہِ کرم ایک تاکیدی حکم ہمیں بھیجا کہ ایسی تحریکات میں حصہ لینا اسلام کے خلاف ہے اور جماعت احمدیہ کی بھی روایات کے خلاف ہے اس لئے تم سب پرنسپل صاحب سے معافی مانگ کر کالج میں پھر داخل ہو جاؤ۔ ساتھ ہی پرنسپل صاحب میڈیکل کالج کو بھی لکھا اور ساتھ ہی سفارش بھی کی کہ ہماری جماعت کے طلباء کو معافی دے کر پھر داخل کر لیویں۔ چنانچہ ہم پانچوں احمدی طلباء معافی مانگ کر پھر داخل ہو گئے۔ اس پر پیسہ اخبار لاہور نے مسیح کے پانچ حواری کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور احمدی جماعت پر بہت اعتراض کئے۔ لیکن پھر بھی اثر نہیں ہوا، باقی لڑکے بھی اُس کے بعد معافی مانگ کر داخل ہو گئے۔ کہتے ہیں حضورؑ کے بہت سارے خطوط میرے پاس ہیں۔ لیکن جنگِ عظیم کی وجہ سے باہر تھے، وہ گم گئے۔

(مأخوذ از روایات حضرت ڈاکٹر محمد دین ؓ رجسٹر روایات
غیر مطبوعہ جلد1 صفحہ53-54)

بہر حال ہڑتال کے بارے میں سٹرائکوں کے بارے میں ہمارا کیا مؤقف ہے اس بارے میں مَیں بڑے واضح طور پرخطبات دے چکا ہوں۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ321-322)

جماعت احمدیہ کا مؤقف

مذکورہ بالا حوالہ سے قبل 25 فروری 2011ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختصر اً اس طرف توجہ دلائی تھی جبکہ 1 اپریل 2011ء کو اطاعت اولی الامر کے حوالہ سے مکمل خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں اس سوال اور اس سے متعلقہ سوالات و اوہام پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ کی جانب سے کی گئی رہنمائی پیش ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم

حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
بعض خطوط اور سوالات سے مجھے لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو جماعت احمدیہ کے نقطۂ نظر جس کی بنیاد قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پر ہے اُس کی واضح طور پر سمجھ نہیں آئی۔ اسے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے مَیں نے اس بارہ میں کچھ مواد جمع کروایا ہے، کچھ باتیں اکٹھی کی ہیں جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ ہر قسم کے ابہام دور ہو جائیں۔ سب سے بنیادی چیز قرآنِ کریم ہے۔ اس میں بھی ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآنِ کریم حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور اطاعت کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے۔ پھر یہ کہ عمومی فسادات میں ایک مسلمان کا ردّعمل کیا ہونا چاہئے۔ کس حد تک اُس کو اپنا حق لینے کے لئے حکومت کے خلاف مہم میں حصہ لینا چاہئے۔ پھر احادیث کیا کہتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے کیا ارشاد فرمایا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ (النحل: 91) یہ حصہ آیت جو ہے ہم ہر جمعہ کو عربی خطبہ میں پڑھتے ہیں۔ اور اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر قسم کی بےحیائی، ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے تمہیں اللہ تعالیٰ روکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ’’بَغْی‘‘ کے لفظ کی وضاحت کی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’بَغْی اُس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کر دے‘‘۔ فرمایا ’’حقِ واجب میں کمی رکھنے کو بَغی کہتے ہیں اور یا حقِ واجب سے افزونی (زیادتی) کرنا بھی بَغی ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ354)

تو یہ ہے قرآنِ کریم کے احکامات کی خوبصورت تعلیم کہ ہر پہلو اور ہر طبقے کے لئے حکم رکھتا ہے۔ اس حکم میں یہ خیال نہیں آ سکتا کہ ایک طبقے کو حکم ہے اور دوسرے طبقے کو نہیں ہے۔ اس آیت کی مکمل تفسیر تو اس وقت بیان نہیں کر رہا، صرف بغاوت کے لفظ کی ہی وضاحت کرتا ہوں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے، حقِ واجب میں کمی کرنے اور حقِ واجب میں زیادتی کرنے دونوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے۔ یعنی جب حاکم اور محکوم کو حکم دیا جاتا ہے تو دونوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا جاتا ہے۔ نہ حاکم اپنے فرائض اور اختیارات میں کمی یا زیادتی کریں، نہ عوام اپنے فرائض میں کمی یا زیادتی کریں۔ اور جو بھی یہ کرے گا اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والا ہو گا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والا پھر خدا تعالیٰ کی گرفت میں بھی آ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہایت ناپسند ہے۔ پس آج کل چونکہ عوام حکومتوں کے خلاف سختی سے قدم اٹھانے کا جوش رکھتے ہیں اس لئے عوام کی حد تک آج بات کروں گا۔

احادیث کی روشنی میں

اس بارے میں کئی احادیث ہیں جو حکمرانوں کے غلط رویے کے باوجود عوام الناس کو، مومنین کو صبر کی تلقین کا حکم دیتی ہیں۔ بخاری کتاب الفتن کا ایک باب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا انصار سے یوں فرمانا کہ تم میرے بعد ایسے ایسے کام دیکھو گے جو تم کو بُرے لگیں گے۔ اور عبداللہ بن زید بن عامرؓ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار سے یہ بھی فرمایا:تم ان کاموں پر حوضِ کوثر پر مجھ سے ملنے تک صبر کئے رہنا۔ زید بن وہب نے کہا کہ مَیں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے سنا۔ وہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا:تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہاری حق تلفی کر کے دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ نیز ایسی باتیں دیکھو گے جن کو تم بُرا سمجھو گے۔ یہ سن کر صحابہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ! پھر ایسے وقت میں آپؐ کیا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا: اُس وقت کے حاکموں کو اُن کا حق ادا کرو اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو۔

(بخاری کتاب الفتن باب قول النبیؐ سترون بعدی اموراً تنکرونھا حدیث نمبر 7052)

پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جو شخص اپنے امیر کی کسی بات کو ناپسند کرے تو اُس کو صبر کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ جو شخص اپنے امیر کی اطاعت سے بالشت برابر بھی باہر ہوا تو اُس کی موت جاہلیت کی سی موت ہو گی۔

(بخاری کتاب الفتن باب قول النبیؐ سترون بعدی اموراً تنکرونھا حدیث نمبر 7053)

پھراُسَید بن حُضَیرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! آپ نے فلاں شخص کو حاکم بنا دیا اور مجھ کو حکومت نہیں دی۔ آپؐ نے فرمایا:تم میرے بعد دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی گئی ہے۔ پس تم قیامت کے دن مجھ سے ملنے تک صبر کئے جاؤ۔

(بخاری کتاب الفتن باب قول النبیؐ سترون بعدی اموراً تنکرونھا حدیث نمبر7057)

سلمہ بن یزید الجعفیؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی۔ یارسول اللہﷺ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق مانگیں مگر ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو ایسی صورت میں آپؐ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے اِعراض کیا۔ اُس نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ آپؐ نے پھر اِعراض کیا۔ اُس نے دوسری یا تیسری دفعہ پھر اپنا سوال دہرایا۔ جس پر اشعث بن قیس نے اُنہیں پیچھے کھینچا (یعنی خاموش کروانے کی کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ سوال پسند نہیں آیا)۔ تب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایسے حالات میں اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور اُن کی اطاعت کرو۔ جو ذمہ داری اُن پر ڈالی گئی ہے اُس کا مؤاخذہ اُن سے ہو گا اور جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اُس کا مؤاخذہ تم سے ہو گا۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب فی طاعۃ الامراء و ان منعوا الحقوق حدیث نمبر 4782) جُنادہ بن اُمیہؓ نے کہا کہ ہم عُبادہ بن صامتؓ کے پاس گئے۔ وہ بیمار تھے۔ ہم نے کہا اللہ تمہارا بھلا کرے ہم سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سُنی ہو۔ اللہ تم کو اُس کی وجہ سے فائدہ دے۔ اُنہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو بلا بھیجا۔ ہم نے آپؐ سے بیعت کی۔ آپؐ نے بیعت میں ہمیں ہر حال میں خواہ خوشی ہو یا نا خوشی، تنگی ہو یا آسانی ہو اور حق تلفی میں بھی یہ بیعت لی کہ بات سنیں گے اور مانیں گے۔ آپؐ نے یہ بھی اقرار لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہ کریں سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُن کو کفر کرتے دیکھو جس کے خلاف تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ حدیث نمبر 4771)

اِن احادیث میں اُمراء اور حکام کی بے انصافیوں اور خلافِ شرع کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی آپؐ نے یہ فرمایا کہ اِن کے خلاف بغاوت کرنے کا تمہیں حق نہیں ہے۔ حکومت کے خلاف مظاہرے، توڑ پھوڑ اور باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کا طرزِ عمل خلافِ شریعت ہے۔

اس آخری حدیث کی مزید وضاحت کر دوں کہ اس حدیث کے آخری الفاظ میں جو عربی کے الفاظ ہیں کہ وَاَنْ لَّا نُنَا زِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اِلَّا اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَّاحًا عِنْدَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے یہ اقرار بھی لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُس کو کفر کرتے ہوئے دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔

حدیث کے یہ جو آخری الفاظ ہیں اِن کے معنیٰ بعض سلفی، وہابی اور باقی متشدد دینی جماعتیں یا جو فرقے ہیں وہ یہ لیتے ہیں کہ صرف اُس وقت تک حکاّم سے لڑائی جائز نہیں جب تک کہ اُن سے کفر بواح نہیں ظاہر ہو جاتا۔ (کھلا کھلا کفر ظاہر نہیں ہو جاتا) اگر حاکم سے کفرِ بوّاح نظر آ جائے تو پھر اس کے ازالے کے درپے ہونا اور اُس سے حکمرانی چھین لینا فرض ہے۔ یہی متشدد جماعتیں ہیں جنہوں نے اِس پر یہ دلیل سوچ رکھی ہے کہ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی جا سکتی ہے۔ بلکہ بعض اپنے فتوؤں کو آپس میں ہی اتنا مضبوط کرنے کی کو شش کرتے ہیں کہ فتوے دینے والے یہ کہتے ہیں کہ جن کو ہم نے کافر قرار دے دیا اُن کو جو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے۔ اور کافر کو کافر نہ سمجھے والا بھی کافر ہے۔ تو یہ جو تکفیر ہے اس کا ایک لمبا سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔

بہر حال اس حدیث میں اصل الفاظ یہی ہیں کہ تم نے اطاعت کرنی ہے سوائے اس کے کہ ایسی بات کی جائے جو کفر کی بات ہو یا تمہیں کفر پر مجبور کیا جا رہا ہو۔ اس کے علاوہ ہر معاملے میں اطاعت ہونی چاہئے اور اُس صورت میں بھی بغاوت نہیں ہے بلکہ وہ بات نہیں ماننی۔ بہر حال یہ اِن لوگوں کا نظریہ ہے، احمدیوں کا نہیں۔ ہاں اطاعت نہ کرنے کی بعض حالات میں جیسا کہ مَیں نے کہا سوائے اس کے کہ کفر پر مجبور کیا جا رہا ہو، جو ہمیں جماعت میں ایک مثال نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب پاکستان میں یا بعض دوسرے ممالک میں احمدیوں کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ ہم مسلمان کہتے ہیں۔ یا کلمہ نہ پڑھو۔ ہم پڑھتے ہیں۔ یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو، یا قرآنِ کریم نہ پڑھو۔ تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے۔ اس بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے۔ صرف اِن معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے حکموں کا معاملہ ہے۔ جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین کا تعلق ہے، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی کرتا ہے۔

آئمہ سلف کا حوالہ

ہمارے نظریہ کی تائید میں پرانے ائمہ میں سے بھی ایک کا حوالہ ہے جو مَیں پیش کرتا ہوں۔ اس حدیث کی شرح میں حضرت امام النووی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’کفر بواح کا مطلب ظاہر کفر ہے، اور اس حدیث میں کفر سے مراد گناہ ہے‘‘

پھر مزید فرماتے ہیں کہ ’’تم اربابِ حکومت سے اُن کی حکومت کے اندر رہ کر جھگڑا نہ کرو اور نہ اُن پر اعتراض کرو۔ سوائے اس کے کہ تم اُن سے کوئی ایسی بُری بات دیکھو جو ثابت اور متحقق ہو، جس کا بُرا ہونا تم اسلام کے قواعد یعنی قرآن اور حدیث کی رُو سے جانتے ہو۔ اگر تم ایسا دیکھو تو اُن کی اس بات کا بُرا مناؤ اور تم جہاں بھی ہو حق بات کہو۔ لیکن ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا، اُن کے ساتھ لڑائی کرنا، مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے۔ خواہ وہ حکمران فاسق اور ظالم ہوں‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس حدیث کا معنیٰ جو مَیں نے بیان کیا ہے، دیگر احادیثِ نبویہ اس کی تائید کرتی ہیں۔ اہلِ سنت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ فسق کے بناء پر حکمران کو معزول کرنا جائز نہیں۔۔۔۔ علماء کہتے ہیں کہ فاسق اور ظالم حکمران کو معزول نہ کرنے اور اُس کے خلاف لڑائی نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ ایسی صورت میں مزید فتنے، خونریزی اور آپس میں فساد پیدا ہو گا۔ پس فاسق اور ظالم حکمران کا برسرِاقتدار رہنا کم فساد پیدا کرے گا بہ نسبت اس کے جو اُسے معزول کرنے کی کوشش کے نتیجے میں پیدا ہو گا‘‘

(المنہاج بشرح صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ صفحہ1430 دار ابن حزم 2002ء)

اور یہ بات آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔ دونوں طرف سے لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ بندوقیں چل رہی ہیں۔ جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ پھر بخاری کی ایک حدیث ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ حدود اللہ میں سستی کرنے والے اور حدود اللہ میں گر پڑنے والے افراد کی مثال اُس قوم کی طرح ہے جنہوں نے کشتی کی بابت قرعہ ڈالا جس کے نتیجے میں بعض کشتی کے اوپر والے حصے پر قیام پذیر ہوئے اور بعض کشتی کے نچلے حصے میں۔ جب کشتی کے نچلے حصے والے لوگ اوپر والوں کے پاس سے پانی لے کر گزرتے تھے تو وہ اس سے تکلیف محسوس کرتے تھے۔ جس پر نچلے حصے والوں میں سے ایک نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا جس سے اوپر کے حصے والے اس کے پاس آئے اور اُس سے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میرے اوپر جا کر پانی لانے سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور پانی کے بغیر میرا گزارا نہیں۔ پس اگر اوپر والے اِس کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اُسے بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے۔ اگر وہ اسے چھوڑ دیں گے اور کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے دیں گے تو وہ اُسے بھی ہلاک کر دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیں گے۔

(صحیح بخاری کتاب الشہادات باب القرعۃ فی المشکلات حدیث نمبر2686)

اس حدیث سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ عوام بدی کرنے والوں کو، بدی کے ارتکاب سے یا غلط کاموں سے زبردستی روک دیں جو درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح باہم جھگڑا اور فساد پیدا ہو جائے گا۔ اگر اس سے مراد حکومت کے خلاف بغاوت لیں تو وہ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے خلافِ ارشاد بات ہوتی ہے۔ حدیث یہ ہے۔ دوبارہ واضح کر دوں۔ اگر کشتی والے اُن کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اسے ڈوبنے سے بچائیں گے اور اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے۔ اگر چھوڑ دیں گے تو پیندے میں سوراخ ہو گا وہ آپ بھی ہلاک ہوگا، اُن کو بھی ہلاک کرے گا، اس سے ایک تویہ لیا جاتا ہے کہ اگر کوئی فساد پیدا ہو رہا ہو، اگر نقصان پہنچ رہا ہو تو اس کا قلع قمع کرنے کے لئے زبردستی روک دینا جائز ہے لیکن یہ باقی احادیث سے خلاف ہے۔ حکومتوں کے معاملے میں یہ چیز نہیں ہے۔ اس کی تائید میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک اور حدیث پیش کی جاتی ہے اور اُس کے حوالے سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود سختی کا حکم دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایسی کوئی بات فرما ہی نہیں سکتے جو قرآن کی تعلیم کے خلاف ہو۔ یقیناً اس کے سمجھنے میں بھی لوگوں کو غلطی لگی ہے۔ روایت یہ ہے۔ ’’ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ تم میں سے جو کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے وہ اُسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر اسے طاقت نہ ہو تو پھر اپنی زبان سے اور یہ طاقت بھی نہ ہو تو پھر اپنے دل سے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان حدیث نمبر177) (اس حدیث کی شرح میں) امام ملا علی قاری لکھتے ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:ہمارے بعض علماء کہتے ہیں کہ ناپسندیدہ کام کو ہاتھ سے تبدیل کرنے کا حکم حکمرانوں کے لئے ہے۔ زبان سے تبدیل کرنے کا حکم علماء کے لئے ہے اور دل سے ناپسندیدہ بات کو ناپسند کرنے کا حکم عوامِ مؤمنین کے لئے ہے۔

(مرقاۃ شرح مشکاۃ جزء9 کتاب الاداب باب الامر بالمعروف الفصل الاول حدیث نمبر 5137 صفحہ نمبر 324 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

پس یہ اس حدیث کی بڑی عمدہ وضاحت ہے کہ تین باتیں تو ہیں لیکن تین باتیں تین مختلف طبقوں کے لئے اور صاحبِ اختیار کے لئے ہیں۔ وہاں بھی اگر کشتی میں روکنے کی بات ہے تو اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے صاحبِ اختیار کو ہی روکنے کا حکم ہے۔ اگر ہر کوئی اس طرح روکنے لگ جائے گا تو پورا ایک فساد پیدا ہو جائے گا۔ اور فساد اور بدامنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ۔ سورۃ البقرہ کی آیت 206 ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اگر یہ مراد لی جائے کہ عوام حکمران کی کسی بات کو ناپسند کریں تو وہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور توڑ پھوڑ اور فتنہ و فساد اور قتل و غارت اور بغاوت شروع کر دیں تو یہ مفہوم بھی شریعت کی ہدایت کے مخالف ہے۔ اس بارہ میں قرآنِ کریم کا جو حکم ہے، فیصلہ ہے وہ مَیں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ وَیَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ وَالۡبَغۡیِ

(النحل: 91)

انبیاء کا حکومتِ وقت کی اطاعت کے بارے میں کیا نمونہ رہا ہے؟ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا میں آئے۔

(کنز العمال کتاب الفضائل باب الثانی فی فضائل سائر الانبیاء …الفصل الثانی الاکمال
جلد6 صفحہ219 حدیث 32274 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

قرآنِ کریم نے دو درجن کے قریب انبیاء، بیس پچیس انبیاء کے حالات بیان فرمائے ہیں مگر کسی نبی کی بابت یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اُس نے دنیاوی معاملات میں اپنے علاقے کے حاکمِ وقت کی نافرمانی یا بغاوت کی ہے۔ یا اُس کے خلاف اپنے متبعین کے ساتھ مل کر مظاہرے کئے ہوں یا کوئی توڑ پھوڑ کی ہو۔ دینی امور کے بارے میں تمام انبیاء نے اپنے اپنے علاقوں کے حکمرانوں کے غلط عقائد کی کھل کر تردید کی اور سچے عقائد کی پُرزور تبلیغ کی۔ حضرت یوسفؑ کی مثال لیتا ہوں جو عموماً بیان کی جاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بیان کی ہے، حضرت مسیح موعودؑ نے بھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی۔ اس کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ٭ۖ وَاِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۴﴾ (یوسف: 4) کہ ہم نے جو یہ قرآن تجھ پر وحی کیا ہے اس کے ذریعے ہم تیرے سامنے ثابت شدہ تاریخی حقائق میں سے بہترین بیان کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے اس بارہ میں تو غافلوں میں سے تھا۔ ثابت شدہ تاریخی حقائق کیا ہیں جو قرآنِ کریم واضح بیان فرما رہا ہے۔ سورۃ یوسف میں جو اکثر حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات پر مشتمل ہے، اِن حالات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے کافر بادشاہ فرعونِ مصر کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ کے طور پر، مال کے نگران کے طور پر کام کیا۔ اگر بادشاہ کو یہ خیال ہوتا کہ یوسف علیہ السلام اس کے وفا دار نہیں ہیں اور نعوذ باللّٰہ محض منافقانہ طور پر اس کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ ہرگز اپنی کابینہ میں شامل نہ کرتا۔ اور ویسے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ خیال کرنا بھی بے ادبی میں داخل ہے کہ نعوذ باللّٰہ وہ دل سے تو فرعونِ مصر کے خلاف بغض و عناد رکھتے تھے مگر ظاہری طور پر منافقانہ رنگ میں اُس کی اطاعت کرتے تھے اور اس سے وفاداری کا اظہار کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ (یوسف: 77) اس طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کی۔ اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ اپنے بھائی کو بادشاہ کی حکمرانی میں روک لیتا سوائے اس کے کہ اللہ چاہتا۔ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہِ مصر کے قانون کے مطابق اپنے حقیقی بھائی کو مصر میں روکنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے بھلوا کر شاہی پیمانہ جو تھا اپنے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا اور تلاشی لینے پر اُن کے بھائی کے سامان میں سے ہی وہ پیمانہ نکل آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے کافر اور مشرک بادشاہ کے قانون کے پابند تھے۔ دنیاوی معاملات میں حضرت یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے قانون کی پابندی اور وفاداری سے اطاعت کے باوجود دینی امور میں اس کے غلط عقائد کی پابندی اور اطاعت نہیں کرتے تھے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم

پھر قرآنِ کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا

(النساء: 60)

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ ’’یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہ کی تابعداری کرو‘‘۔ یہ شہادۃ القرآن میں فرمایا۔

(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ332)

پھر ایک دفعہ فرمایا کہ: ’’یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو‘‘۔ بادشاہوں کی اطاعت اختیار کرو۔

(الحکم 10 فروری 1901ء جلد5 نمبر5 صفحہ1)

پھر ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’اے مسلمانو! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقع ہو تو اس امر کو فیصلے کے لئے اللہ اور رسول کے حوالے کرو۔ اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہو تو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن تاویل ہے‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ596)

فرمایا کہ: ’’یعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف ردّ کرو اور صرف اللہ اور رسول کو حَکم بناؤ، نہ کسی اور کو‘‘

(الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد4 صفحہ184)

اور اللہ اور رسول کا فیصلہ جیسا کہ پہلے مَیں بیان کر آیا ہوں یہی ہے کہ عام دنیاوی حالات میں ایک مومن پہ جو بھی حالات گزر جائیں تو بغاوت نہ کرو۔ اگر کفر کو دیکھو یا کفر کا حکم سنو تو اطاعت اُس حد تک واجب ہے جہاں تک اس کے علاوہ باتیں ہیں۔ اِن باتوں میں اطاعت نہیں ہے۔ لیکن بغاوت کی تب بھی اجازت نہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں حکم ہے اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ یہاں اُولِی الۡاَمۡرِ کی اطاعت کا حکم صاف طور پر موجود ہے۔ اور اگر کوئی شخص کہے کہ مِنْکُم میں گورنمنٹ داخل نہیں تو یہ اُس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے وہ اُسے مِنْکُم میں داخل کرتا ہے۔ مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے حکم مان لینے چاہئیں‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ171 ایڈیشن1988ء)

ظالم حاکم کو بھی برا نہ کہو

فرمایا: ’’اگر حاکم ظالم ہو تو اُس کو برا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو، خدا اُس کو بدل دے گا یا اُسی کو نیک کر دے گا۔ جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے۔ ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے، مؤمن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو۔ خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو۔

(الحکم 24 مئی 1901ء نمبر19 جلد5 صفحہ9 کالم نمبر 2)

یہ نیکی کے نمونے ہیں جو احمدیوں کو بھی قائم کرنے چاہئیں بلکہ احمدیوں کو ہی قائم کرنے چاہئیں۔ اُولِی الۡاَمۡرِ سے مراد صرف مسلمان حکمران نہیں۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بعض مسلمان غلطی سے اس آیت کے معنیٰ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مسلمان حکاّم کے حق میں ہے کہ اُن کی اطاعت کی جاوے۔ لیکن یہ بات غلط ہے اور قرآنِ کریم کے اصول کے خلاف ہے۔ بیشک اس جگہ لفظ مِنْکُم کا پایا جاتا ہے۔ مگر مِنْکُم کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ جو تمہارے ہم مذہب ہوں بلکہ اس کے یہی معنیٰ ہیں کہ جو تم میں سے بطور حاکم مقرر ہوں۔ مِنْ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اَلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ (الانعام: 131)۔ اس آیت میں مِنْکُم کے معنیٰ اگر ہم مذہب کریں تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ، رسول کفار کے ہم مذہب تھے۔ پس ضروری نہیں کہ مِنْکُم کے معنیٰ ہم مذہب کے ہوں۔ یہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنیٰ ہیں کہ وہ حاکم جو تمہارے ملک کے ہوں یعنی یہ نہیں کہ جو حاکم ہو اُس کی اطاعت کرو بلکہ اُن کی اطاعت کرو جو تمہارا حاکم ہو۔ اور فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوۡلِ کے یہ معنیٰ نہیں کہ قرآن و حدیث کی رُو سے فیصلہ کر لو۔ بلکہ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ اگر حکام کے ساتھ تنازع ہو جائے تو خدا اور اُس کے رسول کے احکام کی طرف اُس کو لوٹا دو۔ اور وہ حکم یہی ہے کہ انسان حکومتِ وقت کو اُس کی غلطی پر آگاہ کر دے۔ اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ وہ خود فیصلہ کرے گا اور ظالم کو اُس کے کردار کی سزا دے گا‘‘

جیسا کہ حضرت یوسفؑ کے واقعہ میں بیان کر آیا ہوں، آپ بھی یہی دلیل دے رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ کریم میں حضرت یوسفؑ کا واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے وہ بھی دلالت کرتا ہے کہ حاکم خواہ کسی مذہب کا ہو اُس کی اطاعت ضروری ہے۔ بلکہ اگر اُس کے احکام ایسے شرعی احکام کے مخالف بھی پڑ جاویں جن کا بجا لانا حکومت کے ذمہ ہوتا ہے تب بھی اُس کی اطاعت کرے۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اُن کے بھائی اُن کے پاس چھوٹے بھائی کو لائے تو وہ اُن کو وہاں کے بادشاہ کے قوانین کی رو سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے اس لئے خدا نے اُن کے لئے خود ایک تدبیر کر دی‘‘۔ اسی طرح آپؑ آگے جا کر فرماتے ہیں کہ ’’یہ جو آیت ہے اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ (یوسف: 56) اس کے نیچے تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے۔ اس نے اس کی تفسیر بیان کی ہے۔ یعنی اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ‘‘ظالم بلکہ کافر بادشاہ کی طرف سے عُہدوں کا قبول کرنا اس شخص کے لئے جائز ہے جو اپنی جان پر اعتبار رکھتا ہے کہ وہ حق کو قائم رکھ سکے گا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ حق کے قیام سے یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی شریعت کو چلا سکے۔ کیونکہ جیسا کہ حضرت یوسفؑ کے بھائی کے معاملہ سے ظاہر ہے، کافر کی ملازمت کے لئے یہ شرط نہیں کہ مومن اپنا ذاتی خیال چلا سکے۔ پس حق کی حفاظت سے یہی مراد ہے کہ ظلم کی باتوں میں ساتھ شامل نہ ہو جائے۔ پس حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملہ سے بھی ظاہر ہے کہ خواہ گورنمنٹ کافر ہی کیوں نہ ہو، اُس کی وفاداری ضروری ہے۔

(ترک موالات اور احکام اسلام، بحوالہ انوار العلوم جلد5 صفحہ259-260)

حکمرانوں سے اختلاف کی صورت

اس کی مزید وضاحت کہ حکمرانوں سے اختلاف کی صورت میں کیا کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ کیا حکمران صرف مسلمان ہیں جن کی اطاعت کرنی ہے۔ یا یہ جو حکم ہے یہ دونوں کے لئے آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بارہ میں کیا ارشاد فرمایا؟ آپ نے پہلے خلفاء کی بابت فرمایا کہ ’’مَیں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اطاعت اور فرمانبرداری کو اپنا شیوہ بناؤ خواہ کوئی حبشی غلام ہی تم پر حکمران کیوں نہ ہو۔ جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے، وہ لوگوں میں بہت بڑا اختلاف دیکھیں گے۔ پس ایسے وقت میں میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کرنا۔ تَمَسَّکُوْا بِھَا۔ تم اُس سنت کو مضبوطی سے پکڑ لینا اور جس طرح کسی چیز کو دانتوں سے پکڑ لیا جاتا ہے، اسی طرح اس سنت سے چمٹے رہنا اور کبھی اس راستے کو نہ چھوڑنا جو میرا ہے یا میرے خلفاءِ راشدین کا ہو گا‘‘۔ مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند العرباض بن ساریہ جلد نمبر5 صفحہ842 حدیث نمبر 17275 عالم الکتب بیروت 1998ء)

دنیاوی حکام کی اطاعت

اور دنیاوی حُکاّم کی بابت کیا تعلیم ہے؟ یہ بخاری میں ہی ہے۔ فرمایا کہ ’’تم میرے بعد ایسے حالات دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ بے انصافی ہو گی‘‘۔ (اس کا پہلے بھی ذکر آ چکا ہے۔ جو دنیاوی حکام ہیں یہ اُن کے لئے ہے۔) ’’تمہارے حقوق دبائے جائیں گے اور دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم ناپسند کرو گے۔ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ! ایسے حالات میں آپ ہمیں حکم کیا دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا۔ اُن کا یعنی ایسے حکمرانوں کا حق اُنہیں دینا اور اپنا حق اللہ سے مانگنا‘‘۔

(صحیح بخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺ سترون بعدی اموراً تنکرونہا حدیث نمبر 7052)

مسلم میں بھی اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خواہ حکمران بہت ظالم اور غاصب ہو، اُس کی اطاعت کرنی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فی طاعۃ الامراء و ان منعوا الحقوق حدیث نمبر 4782)

پس ظالم حکمران کی بھی اطاعت کا حق ادا کیا جائے۔ اُس کے خلاف بغاوت نہ کی جائے اور اُس کی اطاعت سے انکار نہ کیا جائے۔ بلکہ اُس کی تکلیف اور شر کے دور کرنے اور اُس کی اصلاح ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور تضرّع کے ساتھ دعا کی جائے۔

ایک احمدی کی ذمہ داری: اطاعت حکام

ایک احمدی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے کن شرائط پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بیعت کی ہے؟ شرط دوم مثلاً یہ ہے کہ ’’جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا۔ اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے‘‘

اور چوتھی شرط یہ ہے کہ ’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ159)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ:
’’وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ: 218) اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ255)

فرمایا کہ ’’اُوْلِی الْاَمْرِ سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے۔ اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اُس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے‘‘

(ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ493)

پھر فرمایا کہ ’’خدا نخواستہ اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے جہاں تم میں سے کوئی ہو تو مَیں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو۔ اکثر مقامات میں سنا گیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا۔ میرے نزدیک گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے جو خطرناک جرم ہے۔ ہاں گورنمنٹ کا بیشک یہ فرض ہے کہ وہ ایسے افسر مقرر کرے جو خوش اخلاق، متدیّن اور ملک کے رسم و رواج اور مذہبی پابندیوں سے آگاہ ہوں۔ غرض تم خود اِن قوانین پر عمل کرو اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو اِن قوانین کے فوائد سے آگاہ کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ134 ایڈیشن1988ء)

ہڑتال میں شمولیت

پھر ایک دفعہ کالج میں، یونیورسٹی میں ایک ہڑتال ہوئی۔ اُس کے بارہ میں فرمایا کہ ’’مفسد طلباء کے ساتھ شمولیت کا جو طریق اختیار کیا ہے یہ ہماری تعلیم اور ہمارے مشورہ کے بالکل مخالف ہے۔ لہٰذا وہ اس دن سے اس بغاوت میں شریک ہے۔‘‘ (یعنی جو بھی اپنے ایک عزیز کے بارے میں فرمایا)۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ جب طلباء نے لاہور میں اپنے پروفیسروں کی مخالفت میں سٹرائیک کیا تھا تو جو لڑکے اس جماعت میں شامل تھے اُن کو میں نے حکم دیا تھا کہ وہ اس مخالفت میں شامل نہ ہوں اور اپنے استادوں سے معافی مانگ کر فوراً کالج میں داخل ہو جاویں۔ چنانچہ انہوں نے میرے حکم کی فرمانبرداری کی اور اپنے کالج میں داخل ہو کر ایک ایسی نیک مثال قائم کی کہ دوسرے طلباء بھی فوراً داخل ہو گئے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ172-173 ایڈیشن1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اس بارہ میں کیا وضاحت ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک مسلمان کے لئے اطاعت اللہ و اطاعت الرسول و اطاعت اولی الامر ضروری ہے۔ اگر اولی الامر صریح مخالفت فرمانِ الٰہی اور فرمانِ نبوی کی کرے تو بقدر برداشت مسلمان اپنی شخصی و ذاتی معاملات میں اولی الامر کا حکم نہ مانے یا اُس کا ملک چھوڑ دے۔ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ صاف نصّ ہے۔ اُولِی الۡاَمۡرِ میں حکاّم و سلطان اول ہیں اور علماء و حکماء دوم درجے پر ہیں‘‘

(البدر نمبر8 جلد9، 16 دسمبر 1909ء صفحہ4 کالم2)

توجہ دلاؤ جلوس

اب بعض لوگ یہ بھی سوال اُٹھا دیتے ہیں کہ کشمیریوں کے حق میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جو جلسہ اور جلوس کیا تھا اور اُس کی اجازت دی تھی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جو طریق تھا یہ بھی وہی طریق ہے جو آج کل حکومت کے خلاف بغاوت ہے اور اس لئے جائز ہے۔ حالانکہ یہ ایک باہر کی آواز تھی۔ جلوس اور جلسے اُن کے حقوق دلوانے کے لئے تھے۔ کوئی لڑائی نہیں تھی۔ کوئی توڑ پھوڑ نہیں تھی۔ حکومت کو توجہ دلائی گئی تھی کہ کشمیریوں کے جو حقوق غصب کئے جا رہے ہیں وہ دیئے جائیں۔ اُن کی جائیدادیں اُن کے نام برائے نام ہیں، اور ساری جائیداد کی جو آمد ہے وہ راجہ کے پاس چلی جاتی ہے تو اُن حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اُن کے حقوق اُن کو دلوائے جائیں۔ بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 1929ء میں 29 نومبر کی ہڑتال کے متعلق دریافت کیا گیا کہ احمدیوں کا اِس کے متعلق کیا رویہ ہونا چاہئے؟ تو آپ ؓنے فرمایا کہ ’’ہڑتال میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں، جلسے اور جلوس وغیرہ میں شامل ہو جانا چاہئے‘‘۔ حقوق کے لئے جہاں تک جلسے جلوس کا تعلق ہے ٹھیک ہے کیونکہ اس کی حکومت نے ایک حد تک اجازت دی ہوئی ہے۔ لیکن ہڑتال اور دکانیں بند اور توڑ پھوڑ، یہ چیزیں جائز نہیں۔ پھر ’’ایک صاحب نے کہا کہ شہروں میں احمدیوں کی دکانیں چونکہ بہت کم ہوتی ہیں اس لئے اگر وہ کھلی رہیں تو حملہ کا خطرہ ہوتا ہے اور لوگ ڈنڈے سے بند کرواتے ہیں‘‘۔ اس پر فرمایا کہ ’’اگر ڈنڈے سے کوئی بند کرائے تو کر دی جائے اور پولیس میں جا کر اطلاع دے دی جائے کہ ہم دکان کھولنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں فلاں آدمی نہیں کھولنے دیتے۔ اگر پولیس حفاظت کا ذمہ لے تو کھول دی جائے ورنہ نہ سہی‘‘

ہڑتال کا نقصان

ایک صاحب نے عرض کیا کہ کیا ہڑتال قانوناً ممنوع ہے؟ تو جواب میں آپؓ نے فرمایا کہ ’’قانون کا سوال نہیں۔ یہ یوں بھی ایک فضول چیز ہے جس سے گاہک اور دکاندار دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اب 29 تاریخ کو جو مسلمان باہر سے لاہور یا اپنے قریبی شہروں میں سودا وغیرہ خریدنے جائیں گے وہ مجبوراً ہندوؤں کی دکانوں سے سودا خریدیں گے (کیونکہ مسلمانوں نے ہڑتال کی ہوئی ہے) جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔

(ماخوذ از اخبار الفضل قادیان مؤرخہ 10 دسمبر 1929ء نمبر47 جلد17 صفحہ6 کالم 1)

پھر آپ ؓنے ایک دفعہ فرمایا کہ قانون شکنی کی تلقین کرنے والوں سے ہم کبھی تعاون نہیں کر سکتے۔ ’’بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں۔ بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں۔ بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں۔ اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اُسے صلیب پر لٹکانا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانونِ شریعت اور قانونِ ملک کبھی توڑا نہ جائے۔ اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں‘‘

(الفضل 6 اگست 1935ء جلد23 نمبر31 صفحہ10 کالم3)

پس ہڑتالوں کے بارہ میں بڑے واضح طور پر یہ سارے احکامات سامنے آ گئے ہیں۔

حکمرانوں کو نصیحت اور تنبیہ

میں نے پہلے بھی حدیث کی وضاحت میں سورۃ البقرہ کی آیت 206 کا ایک حصہ سنایا تھا کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ۔ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ جب زبردستیاں شروع ہوتی ہیں تو فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے اس فساد کی حالت میں سب سے زیادہ مسلمان ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ مکمل آیت جو ہے یوں ہے کہ وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَیُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَالنَّسۡلَ ؕ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ﴿۲۰۶﴾ (البقرہ: 206) اور جب وہ صاحبِ اختیار ہو جائے تو زمین میں دوڑا پھرتا ہے تا کہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

تو جب ظالم حکمران ہو جاتے ہیں تو وہ دوسروں کی جو مخالفین ہیں اُن کی جائیدادوں کو، اُن کی فصلوں کو، اُن کی نسلوں کو بے دریغ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ پوری آیت جو ہے یہ حکمرانوں کو تنبیہ کر رہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک عمومی فرمان بھی ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ۔ اس لئے بغاوت کرنے والوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ قرآنِ کریم صرف عوام الناس کو یہ حکم نہیں دیتا بلکہ حکمرانوں کو بھی یہی کہتا ہے کہ اپنے اقتدار پر تکبر کر کے ملک میں فساد پیدا نہ کرو۔ عوام کے حقوق تلف نہ کرو۔ امیر اور غریب کے فرق کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ عوام میں بے چینی پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پھر بغاوت کے حالات پیدا ہوں اور اس طرح تم اپنے اس عمل کی وجہ سے بھی خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ۔

اب دیکھیں جو حالات سامنے آ رہے ہیں، بلا استثناء ہر جگہ یہی آواز اُٹھ رہی ہے کہ قومی دولت لوٹی گئی ہے اور عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔ کس قدر بدقسمتی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نصیحت کی اور تنبیہ فرمائی تھی، اُنہی میں سے سب سے آگے یہ لوگ ہیں جو آج کل مسلمان ملکوں کے حکمران ہیں، جو اس قسم کی غلط حرکتیں کر رہے ہیں۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے، اُن کی اقتصادیات کی بہتری کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے۔ اُن کی صحت کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے اور اس طرح دوسرے بہت سارے حقوق ہیں۔ غرضیکہ یہ سب حکومتوں کے کام ہیں۔ اُن کو یہ ادا کرنے چاہئیں۔ ان کو سرانجام نہ دے کر یہ لوگ فساد پیدا کر رہے ہیں اور فساد اللہ تعالیٰ کی نظر میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انتہائی ناپسندیدہ ہے۔

پس ہمارے حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی قدر کرتے ہوئے اُن اصولوں اور اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی مثالیں ہم دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جب حکومت کی تھی تو کس طرح انصاف قائم فرمایا تھا کہ عیسائی، عیسائیوں کی حکومت دوبارہ قائم ہونے پر رو رو کر یہ دعا کرتے تھے کہ مسلمان دوبارہ ہمارے حکمران بن جائیں۔ اور یہاں یہ حال ہے کہ مسلمان رعایا مسلمان حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہے کہ انصاف قائم نہیں ہو رہا۔ پس اُس تقویٰ کی تلاش کی ضرورت ہے جو آج مسلمانوں میں مفقود ہے، ختم ہو چکا ہے۔ حکمران ہیں یا عوام ہیں دونوں اگر اس اَصل کو پکڑیں گے تو کامیاب ہوں گے۔

احمدی فساد سے بچیں

بہر حال احمدیوں کے لئے یہ واضح ہدایت ہے کہ اپنے آپ کو اس فساد سے بچانا ہے۔ دعائیں کریں۔ اگر دل سے نکلی ہوئی دعائیں ہوں گی تو ایک وقت میں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا قبولیت کا درجہ پائیں گی اور ان ظالموں سے اگر ظالم حکمران ہیں تو نجات ملے گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے۔

آگے بھی جو تبدیلیوں کے بعد حالات نظر آ رہے ہیں وہ شاید عارضی امن کے تو ہوں لیکن مستقل امن کے نہیں ہیں۔ اس طرح جو تبدیلیاں ہوتی ہیں، جو ظلم کر کے اقتداروں پر قبضہ کیا جاتا ہے یا انقلاب لائے جاتے ہیں تو اُن میں بھی ایک مدت کے بعد پھر ظالم حکمران پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک ظالم کے جانے کے بعد دوسرے ظالم آ جاتے ہیں۔ اس لئے یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کوئی ظالم حکمران کبھی مسلّط نہ کرے۔ اللہ کرے کہ عامة المسلمین بھی اور حکمران بھی اپنے اپنے فرائض اور حقوق کو پہچانیں اور پھر اُن کو ادا کرنے کی کوشش کریں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ153-166)

(ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

غزل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2022