• 19 اپریل, 2024

مخالف علماء کی حقیقت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت میاں عبداللہ خان صاحبؓ جنہوں نے بیعت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کر لی تھی لیکن آپ کو دیکھا نہیں تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ جس سال تحصیل ظفر وال طاعون پڑی ہے، اُس سال میں پلیگ کلرک مقرر ہو کر سیالکوٹ سے ظفر وال گیا۔ صبح کے وقت چوہدری محمد حسین صاحب ساکن تلونڈی عنایت خان نے مجھے کہا کہ کیا تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے ہو۔ میں نے سائنس کے لحاظ سے کہا کہ نہیں۔ میرے دل میں کوئی تعصب کسی قسم کا نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مسیح آنے والا مَیں ہوں اور مسیح بنی اسرائیل فوت ہو گیا ہے۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حضور کو نبی تسلیم کر کے بیعت کا خط اُسی وقت لکھ دیا۔ پھر مَیں ملازمت کے سلسلے میں کراچی اور پھر افریقہ چلا گیا۔ میرے والد غیر احمدی تھے۔ وہ بیعت کے وقت بالکل مخالف نہیں تھے لیکن علاقے کے وہابیوں میں سرکردہ آدمی تھے۔ لوگوں نے اُنہیں اکسایا کہ آپ کا لڑکا مرزائی ہو گیاہے۔ 1911ء میں آپ نے مجھے افریقہ میں خط لکھ دیا کہ حضرت صاحب کو میرے الفاظ میں کہو (یعنی جو کچھ انہوں نے لکھوایا تھا) اگر نہیں کہوگے تو میں تم کو اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا۔ کہتے ہیں اُس وقت مَیں کینیا میں سلطان حمود سٹیشن پر سٹیشن ماسٹر تھا۔ مَیں نے آٹھ دس دن خط اپنے پاس رکھا۔ ایک رات کو اپنی بیوی سے عشاء کی نماز کے وقت اس کا ذکر کیا۔ بیوی بالکل اَن پڑھ تھی۔ اُس نے کہا کہ جب یہ لوگ حضرت صاحب کو مہدی ماننے کے لئے تیار نہیں تو ہم کو برا کہنے کے لئے کیوں کہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمارا انتظام پہلے ہی کر دیا ہے (یعنی روزی کا بندوبست کر دیا ہے) اس لحاظ سے بھی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ آپ لکھ دیں کہ ہم ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ بیشک ہمیں جائیداد سے عاق کر دیں۔ کہتے ہیں مَیں نے ایسا ہی لکھ دیا۔ میرے والد صاحب نے جواب دیا کہ تم میرے اکلوتے بیٹے ہو۔ تم ہی میرے وارث ہو۔ میں نے لوگوں کے اکسانے سے ایسا لکھ دیا تھا۔ میں نے دوبارہ بھی لکھا مگر اُن کا یہی جواب آیا۔ میں جب رخصت پر آیا تو کوئی نو بجے کا وقت تھا۔ میں اور بھائی محمد حسین صاحب اور بھائی محمد عالم صاحب مرحوم والد صاحب کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے اور بحث گرما گرم تھی۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ میں مرزا صاحب کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب آپ سیالکوٹ میں ملازم تھے۔ میں آپ کو ملا کر تا تھا۔ آپ بہت نیک آدمی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے رو برو ایک مسلمان زمیندار سیالکوٹ کے مشرق کی طرف سے کسی گاؤں کا رہنے والا آپ کے پاس آیا اور مرزا صاحب کو کہنے لگا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کہ مرزا جی! میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وہ مہدی معلوم ہوتے ہیں جو آنے والا ہے۔ اُس وقت مرزا صاحب کی عمر بیس بائیس سال کی تھی اور میری عمر بھی قریباً اتنی ہی تھی۔ کہتے ہیں جب میرے والد صاحب کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ آپ کے رو برو اس زمیندار کی زبان سے حضرت صاحب کی نسبت ایسے الفاظ نکلنے، یہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حجت قائم کی ہے۔ مگر والد صاحب فرمانے لگے کہ خواہ مرزا صاحب سچے ہوں۔ میں نہیں مانوں گا۔ اس پر ہم لوگوں نے استغفار پڑھا اور اُٹھ کر چلے گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ جلد9 صفحہ65-66)

پھر ایک روایت ہے حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مولوی محمد علی بوپڑی بٹالہ آیا ہوا تھا اور ہمارے مکان میں ہی اُس کی رہائش تھی اور میرے والدین نے مجھے گھر سے نکالا ہوا تھا۔ ایک دن مہررلدو جو میرے والد کا دوست تھا، مجھے ملا اور کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ مولوی محمد علی سے بات کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی سمجھ آ جائے کہ آپ کیا کہتے ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں؟۔ (یعنی مولوی محمد علی جو غیر احمدی تھا اُس کا اور ان کا مقابلہ کرانے لگا۔) چنانچہ ان دنوں میں مجھے بہت جوش تھا۔ میں فوراً اُس کے ساتھ مولوی محمد علی کے پاس چلا گیا اور جب اُن کے سامنے ہوا تو مولوی صاحب کہنے لگے۔ مہررلدو! اس کافر کو میرے سامنے کیوں لائے ہو؟ مہر رلدو کو یہ بات ناگوار گزری اور مجھے بھی مگر میں چاہتا تھا کہ اس پر اتمامِ حجت کر دوں اور مہر رلدو نے بھی میری بات کی تائید کی کہ مولوی صاحب اس بچے کو نہیں سمجھا سکتے تو کسی اور مرزائی کو کیا سمجھائیں گے۔ (اگر یہ بچہ ہی نہیں آپ سے سمجھ سکتا تو اور کون سمجھے گا۔) چنانچہ اس بات کے کہنے سے اُس نے کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ والی حدیث پڑھنی شروع کردی اور خود ہی واعظانہ طور پر اس کی تشریح شروع کر دی۔ جب وہ بہت سا وقت لے چکا تو میں نے کہا کہ میری بات بھی سن لو کہ اس حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے کہ یہ تاویل طلب ہے اور پھر میں نے اس پر جرح کرنی شروع کر دی۔ میری جرح سے وہ تنگ پڑا۔ (جو حدیث ہے وہ بخاری کی حدیث بھی ہے، مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں بھی ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔ اور بعض روایات میں فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ ہے۔ یعنی تمہاری کیسی نازک حالت ہو گی جب ابن مریم یعنی مثیل مسیح مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہو گا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض انجام دے گا۔ اسی حدیث کو اُس مولوی نے پیش کیا لیکن میں نے اُس سے کہا کہ تم تشریح غلط کر رہے ہو) اور میں نے آیات مَاالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ، اور پھر اس کے بعد وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ والی آیات پیش کیں اور پھر فَاَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ والی حدیث پڑھی۔ (یہ بھی ایک لمبی حدیث ہے) اور اس کی تفسیر ذرا وضاحت سے بیان کی تو وہ بہت پریشان ہوا اور غیظ و غضب میں بھر گیا اور مہر رلدو کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ اس نے سیدھا نہیں ہونا۔ یہ مرزائی بڑے سخت اور بے ادب ہوتے ہیں اور میں کوئی بات اور بیان نہیں کروں گا۔ چنانچہ مہر رلدو بھی بہت شرمندہ سا ہوا اور اُس کے چہرہ سے شرمندگی کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ کیونکہ اس مولوی سے کوئی معقول جواب اور مجھے پوری تبلیغ نہ پہنچی۔ خیر ہم اُٹھ کر چلے آئے اور میرے والد صاحب کے سامنے مہر رلدو نے بیان کیا کہ مولوی محمد علی، عبدالرشید کو پورے طور پر سمجھا نہیں سکا اور مولوی صاحب غصے میں بھر گئے تھے۔ بچہ ہے۔ سمجھ جائے گا۔ (لیکن ان کا تو آج تک یہی حال ہے کہ مولویوں کے پاس جو علم ہے اس سے تو ہمارے جو بچے اللہ کے فضل سے علم رکھتے ہیں، اُن کا علم بھی ان مولویوں کے علم سے زیادہ ہے۔ اور ان بچوں کا بھی منہ بند نہیں کر سکتے۔ لیکن ڈھٹائی کا تو کوئی علاج نہیں ہے۔)

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ جلد 12صفحہ 32-33)

ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا۔ مکرم ثاقب زیروی صاحب نے لکھا ہے۔ چند دہائیاں پہلے عطاء اللہ شاہ بخاری ایک مولوی ہوتے تھے۔ وہ ایک جگہ تقریر کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ مجھے بھی کان میں آواز پڑ گئی کیونکہ اتفاق سے میں اُس علاقے میں تھا۔ اور مولوی صاحب فرمانے لگے۔ یہ عطاء اللہ شاہ بخاری بڑے عالم تھے، کہ اگر خدا تعالیٰ بھی مجھے آکر کہے کہ مرزا صاحب سچے ہیں تب بھی میں نہیں مانوں گا۔ تو یہ تو ان کے ایمان کی حالت ہے۔

(خطبہ جمعہ20 ؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

قرآن کریم نصائح سے لبریز ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اکتوبر 2021