• 25 اپریل, 2024

قریش کی وجہ تسمیہ اور تعارف (قسط 2۔ آخری)

ہماری جماعت کے لئے سبق

میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت جو اس امر کی مدعی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی نازل کی ہوئی تعلیم پر ایمان رکھتی اور اس کے نور کی حال ہے اس کے افراد کو بھی اِس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد اور آپ کے خا ص اتباع کی اولاد کو میں ان کے اِس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔میں دیکھتا ہوں کہ دین کے لئے قربانی اور ایثار کا وہ مادّہ ابھی تک ان میں پیدا نہیں ہوا جو احمدیت میں داخل ہونے اور حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کے بعد ان میں پایا جانا چاہئے تھا۔ان کا قدم نہایت سست ہے اور ان کے اندر قربانی اور ایثار کا مادّہ ابھی بہت کم ہے یقیناً اِس معیار کے ساتھ ہم کبھی بھی دنیا پر غالب نہیں آسکتے جب تک ہم میں سے ہر شخص یہ نہیں سمجھ لیتا کہ وہ غرض جس کے لئے وہ اِس سلسلہ میں شامل ہوا ہے اور وہ مقصد جس کےلئے اس نے بیعت کی ہے وہ دوسری تمام اغراض اور دوسرے تمام مقاصد پر مقدّم ہے اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنے ایمان کا کوئی اچھا نمونہ دکھایا ہے۔بلکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد کے لئے تو ایسے کام کرنا جن سے دین کی خدمت میں روک پیدا ہو قطعی طور پر ناجائز ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ ویسا ہی دنیا دار شخص ہے جیسے کوئی اور لیکن دوسروں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے اندر یہ مادہ ہونا چاہئےکہ جب دین کی طرف سے انہیں آواز آئے وہ اپنے تمام کام کاج چھوڑکر فوراً چلے آئیں اور اپنے آپ کو دینی خدمات میں مشغول کر دیں۔ اب اگر وہ دنیا کاکام کرتے ہیں تو اِس لئے کہ ابھی دین کو ان کی ضرورت پیش نہیں آئی۔لیکن اگر ضرورت پیش آجائے تو پھر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ بیعت کے وقت انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم دین کودنیا پر مقدّم رکھیں گے۔اِس دین کودنیاپرمقدّم رکھنے کے عہد کے آخر کوئی معنے تو ہونے چاہیئں۔ اِس کے تم کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ معنے کر لو آخر کسی نہ کسی چیز کو تمہیں بہر حال اپنے کاموں پر مقدّم رکھنا پڑے گا۔اگر اس عہد میں تم مال شامل کرو تو تمہیں مال پر دین کو مقدّم رکھنا پڑے گا۔اگرجان شامل کرو تو تمہیں جان پر دین کو مقدّم رکھنا پڑے گا۔اگرخدمت شامل کرو تو تمہیں ہر قسم کی خدمت پر پر دین کو مقدّم رکھنا پڑے گا۔بہر حال کوئی نہ کوئی مفہوم تمہیں اِس اقرار کا تسلیم کرنا پڑے گا اور جب یہ اقرار ہر احمدی نے کیا ہے تو ہماری جماعت کے افراد کو سوچنا چاہئے کہ اس اقرار کے بعد وہ کیا کر رہے ہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے احمدی موجود ہیں جو سو میں سے 50روپے دین کے لئے خرچ کرتے ہوں۔مقدّم کے معنے تو یہ ہوتے ہیں کہ میں اور کاموں پر اس کام کو ترجیح دیتا ہوں۔اگر انہیں سو روپیہ اپنے اخراجات کے لئے ملتا ہے اور وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام کاموں پر دین کو مقدّم سمجھتے ہیں تو اس کا ثبوت اِسی طرح مل سکتا ہے کہ وہ سو میں سے 51 روپے دین کے لئے خرچ کرتے ہوں۔مگر کیا وہ ایسا کرتے ہیں؟کیا وہ دن رات کے 24گھنٹوں میں سے تیرہ گھنٹےدین کے کاموں پر صرف کرتے ہیں؟یا قربانی اور ایثار کے لحاظ سے وہ اپنے بیوی بچوں اور دوسری چیزوں پر دین کو مقدّم کرتے ہیں؟یا وطن کے لحاظ سے وہ دین کو دنیا پر مقدّم سمجھتے ہیں؟یا جان کے لحاظ سے وہ دین کو دنیا پر مقدّم سمجھتے ہیں؟آخر کوئی ایک چیز تو ہونی چاہئے جس کے لحاظ سے وہ کہہ سکتے ہوں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم کر رہے ہیں۔اگرہر احمدی اِس نقطہ نگاہ سے غور کرے اور اسےاپنےاندرایک بات بھی ایسی نظر نہ آئے جس میں وہ دین کو دنیا پر مقدّم کر رہا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ محض منافقت کی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدّم کرتا ہوں مگر عمل یہ ہے کہ وہ کسی ایک چیز کے لحاظ سے بھی دین کو دنیا پر مقدّم نہیں کرتا۔آخر کوئی ایک چیز تو ہونی چاہئےجس کے متعلق وہ کہہ سکے کہ میں فلاں چیز کے لحاظ سے دین کو دنیا پر مقدّم کر رہا ہوں۔اور اس عہد کا کوئی نہ کوئی مفہوم تو ہونا چاہئے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عہد ہم سے صرف اتنا تقاضا نہیں کرتا کہ ہم کسی ایک پہلو میں دین کو دنیا پر مقدّم کریں بلکہ ہر بات میں اور اپنے ہر کام میں ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم کریں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جو شخص اپنے ہر کام میں دین کو دنیا پر مقدّم نہیں کر سکتااسے کم از کم یہ تو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کسی ایک کام میں ہی دین کو دنیا پر مقدّم رکھے تاکہ وہ کہہ سکے کہ میں اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔یہ کوشش خواہ وہ مال کے لحاظ سے کرے، خواہ تجارت کے لحاظ کرے، خواہ پیشہ کے لحاظ سے کرے،خواہ وطن کی محبت کے لحاظ سے کرے، خواہ ملازمت کے لحاظ سے کرے، خواہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے تعلقات کے لحاظ سے کرے، خواہ عبادت کے لحاظ سے کرے، خواہ قربانی اور ایثار کے لحاظ سے کرے،بہر حال کوئی ایک چیز تو ایسی ہونی چاہئےجسے وہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہو اور کہہ سکتا ہو کہ جن کاموں کا مجھے موقع ملا ہے ان میں میں نے دین کو دنیا پر مقدّم کر لیا ہے اور جو باقی کام ہیں ان میں بھی میں پوری طرح تیار ہوں کہ اس عہد کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کروں۔لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا دعویٰ ایمان محض ایک منافقانہ فعل ہے جو اس کے کسی کام نہیں آ سکتا۔تم قریش کے اس واقعہ پر غور کرواور دیکھو کہ باوجود اس کے کہ یہ لوگ سچّے دین کے حامل نہیں تھے،باوجود اِس کے کہ یہ لوگ بت پرست تھے، باوجود اس کے کہ یہ لوگ بے دین تھے انہوں نے کتنی عظیم الشان قربانی کی۔یہ لوگ اپنی قوم پر بوجھ نہیں بنے انہوں نے کہا ہم خدا کے لئے آئے تھے ہماری قوم کا کیا حق ہے کہ وہ ہماری خدمت کرے۔وہ خیمہ اٹھا کر مکہ سے باہر چلے جاتے۔ باپ کے سامنے اس کا بیٹا مرتا،ماں کے سامنے اس کی بیٹی مرتی،بیوی کے سامنے اس کا خاوند مرتا،بچوں کے سامنے ان کا باپ مرتا، دوست کے سامنے دوست اور رشتہ دار کے سامنے رشتہ دار مرتا مگر کیا مجال کہ ان کی زبان پر کوئی شکایت آتی۔ کیا مجال کہ وہ اس جگہ کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے۔اتنی بڑی مصیبت دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے اس جگہ کو نہیں چھوڑا۔ وہ کسی معجزہ کو دیکھ کر وہاں نہیں آئے تھے،وہ کسی نشان کو دیکھ کر وہاں نہیں آئے تھے،وہ کسی تازہ تعلیم پر ایمان لا کر وہاں نہیں آئے تھے،دو ہزار سال پہلے ان کے دادا ابراہیمؑ نے ایک بات کہی تھی اور وہ اپنے دادا کے وعدہ کے مطابق اس سر زمین میں آبسے۔ ان پر فاقے آئے مگر انہوں نے اس جگہ کو نہ چھوڑا ان میں فاقہ سےموتیں ہو ئیں مگر انہوں نے اس جگہ کو نہ چھوڑا۔ انہوں نے سالہا سال غربت اور تنگی اور افلاس میں اپنی زندگی کے دن بسر کئے۔ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا ان کے پاس گزارہ کا کوئی سامان نہیں تھا مگر انہوں نے کہاہم اس مقام کو اب نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم مٹ جائیں گے ہم ایک ایک کر کے فنا ہو جائیں گے مگر ہم مکہ کو چھوڑ کر کہیں باہر نہیں جائیں گے۔یہ اتنی عظیم الشان قربانی ہے کہ یقیناً اِس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔

قریش کی اقتصادی حالت میں بہتری

بہر حال اسی طرح مکہ میں ہو تا چلا گیا یہاں تک کہ ہاشم بن عبد مناف جو رسول کریمؐ کے پڑدادا تھے ان کا وقت آگیا۔جب انہوں نے یہ حال دیکھا تو سمجھا کہ اس طرح تو قوم فنا ہو جائے گی۔انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور ان میں تقریر کی کہ جو طریق تم نے ایجاد کیا ہے یہ اپنی ذات میں تہور کے لحاظ سے تو بڑا اچھا ہے مگر اس طرح وہ کام پورا نہیں ہو گا جس کےلئے تم لوگ مکہ میں آئے ہو۔اگر یہی طریق جاری رہا اور تم میں سے اکثر مر گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مکہ خالی ہو جائے گا بے شک جوش وخروش اور عزم کی پختگی کے لحاظ سے یہ کام ایسا شاندار ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر عقل کے لحاظ سے یہ اچھا نہیں کوئی ایسی تدبیر ہونی چاہئے کہ ہم سب لوگ مکہ میں بھی رہیں اور اس قسم کی موت بھی ہم میں واقعہ نہ ہو۔غالباً ان کے ذہن میں خیال بھی آیا ہو گا کہ اگر اس طریق کو جاری رہنے دیا گیا تو دوسری قوموں پر اس کا برا اثر پڑے گا اور وہ کہیں گی یہ لوگ خدا کےلئے مکہ میں بیٹھے ہوئے تھے مگر بھوکے مر گئے۔ پس اس طرح خدا کا احترام کم ہو جائے گا اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ہمیں اپنے آپ کو اِس طرح رکھنا چاہئے کہ ہمارا اعزاز دنیا میں قائم ہو اور دوسرے عرب قبائل سے ہماری حالت اچھی ہو۔مکہ والوں نے ہاشم کی بات سن کر کہا آپ جو تدبیر بتائیں ہم اسے ماننے کے لئے تیار ہیں۔آپ نے فرمایا میری تجویز تو یہ ہیں کہ ہم لوگ رہیں تو مکہ میں ہی مگر اپنی حالت کو بہتر بنانے کےلئے تجارت شروع کر دیں۔ یوں بھی اپنی ذاتی اغراض کے لئے ہم بعض دفعہ سفر کر لیتے ہیں اگر آئندہ ہم بعض سفر محض تجارت کی خاطر کریں تو اس سے ہماری گری ہوئی حالت بہت کچھ سدھر جائے گی اور ہماری پریشانی دور ہو جائے گی۔زراعت کی تجویز آپ نے اِس لئے نہ کی کہ مکہ میں زراعت کی کوئی صورت نہیں تھی دکانداری کی تجویز آپ نے اِس لئے نہ کی کہ دکاندار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ رات دن دکان پر بیٹھا رہے۔آپ نے سمجھا کہ اگر لوگوں نے دکانداری شروع کر دی تو خدمت کعبہ کا وہ موقع جواب انہیں مل رہا ہے اس سے وہ محروم ہو جائیں گے چنانچہ آپ نے یہ تجویز کی کہ قوم کا روپیہ لے کر ہر سال دوسفر کئے جائیں۔ایک سفر سردی کے موسم میں کیا جائے جو یمن کی طرف ہو اور ایک سفر گرمی کے موسم میں کیا جائے جو شام کی طرف ہو۔شام بوجہ سرد مقام ہونے کے گرمی کے سفر کے لئے موزوں تھااور یمن بوجہ گرم مقام ہونے کے سردی کے سفر کے لئے موزوں تھا۔آپ نے تجویز کیا کہ ہر سال اہل مکہ کے نمائند ہ قافلے یہ دوسفر محض تجارت کی غرض سے کیا کریں اور تجارت بھی قوم کے لئے کریں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاشم بن عبد مناف نے دنیا میں یا کم سے کم عرب میں سب سے پہلے کمپنی سسٹم جاری کیا ہے۔یوں تو تاجر دنیا میں ہمیشہ تجارت کیا ہی کر تے ہیں۔ زید تجارت کی غرض سے باہر جاتا اور سودا لے کر آجاتا ہے تو پھر اسے زیادہ مہنگے داموں پروہ فروخت کر دیتا ہے۔مگر یہ کہ سفر کسی فرد کا نہ ہو بلکہ قومی طور پر تمام قبیلہ کا مشترکہ سرمایہ لے کر سفر کیا جائے اِس کی ابتداء کم سے کم عرب میں ہاشم بن عبد مناف سے ہی ہوئی ہے۔لوگوں نے کہا بہت اچھا ہمیں منظور ہے چنانچہ قافلے جانے لگے۔ جب بھی کوئی قافلہ جاتا تو ہر شخص دس بیس پچاس یا سو روپیہ جتنا دینا چاہتا قافلہ والوں کے سپرد کر دیتا۔ پھر ان میں سے ایک کو رئیس بنا دیا جاتا۔ اور باقی لوگ اہل مکہ کی طرف سے نمائند ہ بن کر اس سفر پر روانہ ہو جاتے۔امراجن کی حالت کچھ اچھی تھی وہ بعض دفعہ تجارت کی غرض سے اپنے غلام بھی اِن سفروں میں بھیج دیا کرتے تھے ان کا طریق تجارت یہ تھا کہ وہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت ایسی چیزیں اپنے ساتھ لے لیتے تھے جو ان کی نظروں میں متبرک ہوتی تھیں اور جہاں جہاں عرب قبائل میں سے گزرتے وہاں مکہ کے تبرکات انہیں دیتے جاتے۔مثلا آب زمزم کے کچھ مشکیزےبھر کر اپنے ساتھ رکھ لیتے چونکہ عرب قبائل کو خانہ کعبہ سے بہت عقیدت تھی اِس لئے جب انہیں گھر بیٹھے آب زمزم میسر آجاتا یا اسی طرح کی بعض اور چیزیں مل جاتیں تو وہ بہت خوش ہوتے اور قریش کو نہایت ادب اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے۔اِسی طرح اور بھی کئی چیزیں وہ اپنے ساتھ رکھ لیتے تھے۔مثلاً مکہ میں لوہارے کا کام اچھا ہوتا ہے وہ لوہے کی تیار شدہ چیزیں لے لیتے۔اِسی طرح کھجوریں اپنے ساتھ رکھ لیتے اور یہ سب چیزیں رستہ میں فروخت کرتے جاتے۔ پھر جہاں عرب قبائل میں ٹھہرتے اور دیکھتے کہ وہاں کوئی چیز ایسی ہے جو شام میں اچھے داموں پر فروخت کی جاسکتی ہے تو وہ ان قبائل سے ایسی چیزیں خود خرید لیتے اور شام میں جا کر فروخت کر دیتے پھر جب شام سے آتے تو وہاں سے دو قسم کا مال خرید لیتے کچھ تو مکہ والوں کے لئے اور کچھ راستہ میں آنے والے عرب قبائل میں فروخت کرنے کے لئے۔ اِس طرح ان کو نفع بھی حاصل ہوتا اور شام اور دوسرے عرب علاقوں کا مال بھی مکہ میں آجاتا۔اِسی طرح سردیوں میں یمن کا سفر کیاکرتے تھے۔مکہ اور یمن کے درمیان بھی بڑا لمبا فاصلہ تھا اور اس راستہ پر بھی مختلف عرب قبائل آ با دتھے اس سفر میں بھی وہ تمام لوگوں کو مکہ کے تحائف دیتے اور ان سے عمدہ عمدہ چیزیں خریدتے ہوئے یمن پہنچ جاتے اور یمن میں تمام مال فروخت کر کے وہاں کی مصنوعات اور غلہ وغیرہ کچھ مکہ والوں کے لئے اور کچھ رستہ کے عرب قبائل میں فروخت کرنے کے لئےلے آتےنتیجہ یہ ہوا کہ چند سال میں ہی مکہ کی دولت سارے عرب سے زیادہ ہو گئی۔ان کا یہ بھی طریق تھا کہ جب قافلہ واپس آتا تو ہر آدمی جس کا اِس تجارت میں حصہ ہوتا تھا وہ اپنا آدھا حصہ غربا کے لئے نکال دیتا تھا۔مثلاً ایک شخص کو دو سو روپیہ نفع حاصل ہوا تو سو روپیہ وہ خود رکھ لیتا تھا اور سو روپیہ قومی فنڈمیں دے دیتا تھا۔اِس طرح غربا کے گزارہ کے لئے ایک کافی رقم نکل آتی تھی۔ فرض کرو ایک دفعہ قافلہ گیا اور اسے ایک لاکھ روپیہ نفع حاصل ہوا تو پچاس ہزار روپیہ اسی وقت غربا میں تقسیم کرنے کے لئے علیحدہ کر لیا جاتا تھا۔اِس طرح ایک قلیل مدت میں غربا کی حالت بھی بہت بہتر ہو گئی۔چنانچہ ایک عرب شاعر مکہ والوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مکہ کے لوگ ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے مالک ہیں کہ وہ اپنا آدھا مال غربا میں بانٹ دیتے ہیں اور اس طرح ان کے غریب بھی امیر کے برابر ہو جاتے ہیں۔یہ تو ایک مبالغہ ہے کیونکہ سارےمکہ میں زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس مالدار ہونگے اور سارے شہر کی آبادی پندرہ بیس ہزار ہو گی وہ اپنا نصف نصف مال تقسیم بھی کریں تو بہت تھوڑا روپیہ لوگوں کو مل سکتا تھا۔لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اِن سفروں کے نتیجہ میں ان کی حالت اچھی ہو گئی اور وہ موت جو محض فاقوں کی وجہ سے ان پر آرہی تھی اس سے انہوں نے نجات حاصل کر لی اِس کے بعد قریش اِس طریق پر برابر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام آگیا اور مکہ والے باقی سارے عرب سے زیادہ امیر ہو گئے اور دوسروں سے زیادہ معزز بھی ہو گئے۔

اِن مذکورہ بالاواقعات سے دو باتیں نکلتی ہیں۔ایک تو یہ کہ بنو اسمٰعیل وعدۂ ابراہیمی کی پابندی کرتے ہوئے مکہ میں بیٹھ نہیں رہے بلکہ شروع میں ہی وہ مکہ چھوڑ کر اِدھر ادھر پھیل گئے تھے۔قصی بن کلاب نے تحریک کر کے دوبارہ انہیں مکہ میں بسایا۔پس جو لوگ ان کے کہنے پر مکہ میں آبسے ان کو قریش کہاجانے لگا۔ یعنی وہ لوگ جو پہلے بکھرے ہوئے تھے مگر پھر قصی کی تحریک پر دوبارہ مکہ میں جمع ہوئے۔

دوسری بات اِن واقعات سے یہ نکلتی ہے کہ مکہ میں بسنے کی وجہ سے یہ لوگ غریب ہو گئے تھے۔ ہاشم جو رسول کریمؐ کے پڑدادا تھے انہوں نے تحریک کی کہ یہ لوگ شام اور یمن کا سفر کیا کریں تاکہ ان کی حالت اچھی ہو۔

مکہ میں دوبارہ آباد ہونے کا وقت

اگر تیس سال ایک نسل کا فرق سمجھا جائے تو یہ تحریک رسول کریمؐ کی پیدائش سے کوئی سوا دو سو سال پہلے ہوئی ہے۔یوں تو انسانوں کی عمر ساٹھ ستر سال بلکہ اسی سال بھی ہوتی ہے مگر قومی عمریں ہمیشہ تھوڑی ہوتی ہیں۔ہندوستان کی عمر پہلے 22 سال تھی اب کہتے ہیں کہ 28 سال کے قریب ہے۔یورپ کے لوگ جن کا آدمی بعض دفعہ 85 سال کی عمر میں بھی فوت ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی تو وہ جوان تھا اور اس کے کام کرنے کا وقت تھا ان میں بھی بڑی سے بڑی عمر 56سال سمجھی جاتی ہے۔عام طور پر چا لیس سال عمر اوسط سمجھی جاتی ہے۔ہندوستان میں چونکہ غربت زیادہ ہے اِس لئے یہاں کی عمر پہلے 22سال تھی اب 28 سال کے قریب قریب سمجھی جاتی ہے۔اگر ہم عربوں کی ایک نسل کی عمر30 سال فرض کرلیں تو یہ تحریک رسول کریمؐ کی پیدائش سے کوئی سوا دوسو سال پہلے شروع ہوئی ہے۔حضرت ابراہیمؑ اور رسول کریمؐ کے زمانہ کے درمیان کوئی23,22سو سال کا فرق تھا۔میں نے بتایا تھا کہ یہ اندازہ 22سو سے 28 سو سال تک سمجھا جاتا ہے اگر ہم چھوٹے سے چھوٹا اندازہ رکھ لیں جو 22سو سال کا ہے اور اس میں سے یہ سوا دو سو سال نکال دیں تو باقی دوہزار سال رہ گئے۔یہ دو ہزار سال کا زمانہ ایسا تھا جس میں قوم اپنا فرض بھولی رہی دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جوں جوں اوپر کی نسل کی طرف جائیں ماں باپ کی یاد اولاد کے دلوں میں زیادہ قائم ہوتی ہے اور جوں جوں نیچے کی طرف آئیں یہ یاد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔اِس قاعدہ کے مطابق حضرت اسمٰعیلؑ کے زمانہ کا قرب جس نسل کو حاصل تھا اسے قدرتاً وہ وعدے زیادہ یاد ہونے چاہئے تھے جو حضرت ابراہیمؑ سے ہوئے۔ کیونکہ دنیا میں طریق یہی ہے کہ باپ کو بیٹا زیادہ یاد رکھتا ہے پوتا اس کی یاد کو کم کر دیتا ہے اور پڑپوتا اس کی یاد کو اور بھی کم کر دیتا ہے یہاں تک کہ چار پانچ پشت میں تو اولاد اپنے دادا پڑ دادا کو بالکل ہی بھول جاتی ہے۔اور اگر اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر جائے تو انہیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔چنانچہ تمام بڑی بڑی قوموں کو دیکھ لو سب میں یہی کیفیت نظر آئے گی مثلاً رسول کریمؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی اولاد نے جو ابتداء میں قربانیاں کیں وہ کتنی حیرت انگیز ہیں مگر اب سادات کو دیکھ لو ان کی کیا حالت ہے۔ان میں سے اکثر ایسے ملیں گے جو اسلام سے کوسوں دور ہیں حالانکہ وہ رسول کریمؐ کی بیٹی کی اولاد ہیں۔پھر ہماری اپنی قوم کو دیکھ لو۔چینی ترکستان سے باتوخان جو مغلوں کا ایک پڑدادا تھا اٹھا اور طوفان کی طرح تمام یورپ پر پھیلتا چلا گیا۔دوسری طرف جتلائی خان مشرق میں چینی سمندر کے کناروں تک پر قابض ہو گیا۔اگر ایک طرف جاپان کے کناروں تک ہماری قوم پہنچی تو دوسری طرف یورپ کو بھی اس نے روندڈالا۔مگر اب کئی مغل ایسے نظر آئیں گے جو دشمن کا مقابلہ تو الگ رہا خطرہ سامنے دیکھ کر چیخ مار کر بھاگ جائیں گے اور اپنے باپ دادوں کے کارنامے انہوں نے یکسر بھلا دئے ہیں۔اِسی طرح پٹھان آئے تو وہ کس طرح سارے ہندوستان میں پھیل گئے مگر اب سمٹ سمٹاکر وہ پٹھان ایک چھوٹے سے علاقہ میں رہ گئے ہیں۔اگر قربانی اور ایثار کااِن میں وہی مادہ رہتا جو اِن کے باپ دادا میں تھا تو یہ انقلاب کیوں پیدا ہوتا اور کیوں وہ حاکم ہونے کے بعد محکوموں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے۔غرض طبعی طریق کو اگر مد نظر رکھا جائے تو شروع زمانہ میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کا اثر ان کی قوم پر زیادہ ہونا چاہئے تھا اور دو ہزار سال کے بعد تو ایسی جاہل اور ان پڑھ قوم میں سے ان کا ذکر بالکل مٹ جا نا چاہئےتھا مگر ہوا یہ کہ عین دو ہزار سال کے بعد پھر ان میں ایک تحریک پیدا ہوئی اور وہ اپنے دادا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مکہ میں آبسے۔وہ بھوکے بھی رہے،وہ ننگے بھی رہے، وہ تکلیفیں بھی برداشت کرتے رہے مگر انہوں نے مکہ کو نہ چھوڑا۔اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا اتفاق تھا جس نے دو ہزار سال کے بعد قوم میں خانہ کعبہ کے گرد بسنے کا پھر احساس پیدا کر دیا۔علم النفس کے ماتحت اگر ہم غور کریں تو دوہزار سال کے بعد یہ ذکر قوم میں سے بالکل مٹ جانا چاہئے تھا مگر ہوا یہ کہ دو ہزار سال کے بعد ےیکدم ان میں ایک شخص پیدا ہوا اور اس نے کہا کہ ہم کو پھر مکہ میں جمع ہو جانا چاہئے اور اولاد اسمٰعیلؑ میں سے ایک قبیلہ باوجود ہر قسم کے مخالفانہ حالات کے مکہ میں بیٹھ جاتا ہے اور خانہ کعبہ کی خدمت اور مکہ کی حفاظت کا کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور پھر یہ لوگ اِس کام کو اتنی محبت اور اتنے پیار سے سر انجام دیتے ہیں کہ وہ بھوکے مرتے ہیں۔ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہیں۔ان کی بیویاں اور ان کی بیٹیاں مرتی ہیں مگر وہ مکہ کوچھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ اتنا شدید احساس دو ہزار سال گزرنے کے بعد اِن لوگوں میں کیوں پیدا ہوا اور پھر اسی قبیلہ کے دل میں یہ خیال کیوں پیدا ہوا۔ جس میں سے محمد رسول اللہؐ نے پیدا ہونا تھا ایک معمولی غور سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ قدرت کی ایک انگلی تھی جس نے قوم کو اشارہ کیا کہ جس بات کے لئے تمہارے باپ دادا نے اس مکہ کو آباد کیا تھا اس کا وقت اب بالکل قریب آرہا ہے جاؤ اور مکہ میں رہو۔ورنہ یہ اتفاق کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہزار سال اِدھر ادھر پھر نے کے بعد ایک بڑی قوم کا صرف وہی ٹکڑہ مکہ میں جمع ہوتا جس میں سے آنے والے موعود نے پیدا ہونا تھا۔دشمن کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہؐ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیا بات ہے کہ اس جھوٹے کی آمدسے پہلے تمام قوم چاروں طرف سے اکٹھی ہو کر مکہ میں آجاتی ہے اور اس لئے آتی ہے کہ ہمارے دادا ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ تم اس مقام پر رہو اور اِسے آباد رکھو کہ یہ عالمگیر مذہب کا مرکز بننے والا ہے۔یہ عظیم الشان تغیر جو یکدم بنو اسمٰعیل میں پیدا ہوا اور جس نے ان میں تہلکہ ڈال دیا بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وعدہ کے مطابق ہوا جو حضرت ابراہیمؑ سے کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُولًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِ یْزُ الْحَکِیْمٌ۔ اے میرے رب! اِن مکہ والوں میں ایک رسول مبعوث فرماجو انہی میں سے ہو وہ انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے، تیری کتاب کا علم ان کو دے حکمت کی باتیں ان کو سکھائے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے اِس دعائے ابراہیمی سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ رسول مکہ میں آئے گا اور مکہ کے رہنے والوں سے سب سے پہلے کلام کرے گا اگر مکہ آباد نہ ہوتا تو وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُولًا کی دعا کس طرح پوری ہوتی اور وہ کون سے لوگ تھے جن میں یہ رسول مبعوث ہوتا۔ اسی طرح ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ وہ انہیں کتاب اور حکمت سکھائے۔اگر مکہ آباد نہ ہوتاتو وہ کون لوگ تھے جن کو کتاب اور حکمت سکھائی جاتی۔ پھر حضرت ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ وہ رسول ان کو پاک کرے۔ اگر وہاں کوئی آدمی ہی نہ ہوتا تو اس رسول نے پاک کن کو کرنا تھا وہ تو خس کم جہاں پاک کا پہلے ہی مصداق بن چکے تھے۔اگر مکہ آباد نہ ہوتا تو حضرت ابراہیمؑ نے جو یہ چاردعائیں کی تھیں اِن میں سے ایک بھی پوری نہ ہو سکتی۔پس یہ اتفاق نہیں تھا بلکہ جو کچھ ہوا الٰہی سکیم اور اس کے منشاء کے مطابق ہوا۔دشمن کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہؐ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا دعویٰ کر دیا مگر اس امر کو کون اتفاق کہہ سکتا ہے کہ دو ہزار سال تک ایک قوم اِدھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے۔وہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی تمام پیشگوئیوں کو فراموش کر دیتی ہے مگر جب زمانہ ٔمحمدیؐ قریب آتا ہے تو یکدم اس قوم میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔وہ کہتی ہے ہم سے یہ کیا بےوقوفی ہوئی کہ ہم اِدھر ادھر پھرتے رہے ہمارے دادانے تو ہم سے کہا تھا کہ مکہ میں رہو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ہمارے دادانے تو کہا تھا کہ تمہاری تمام ترقی مکہ میں رہنے سے وابستہ ہے مگر ہم کہیں کے کہیں پھرتے رہے۔ اور وہ پھر مکہ میں آکر بس جاتی ہے۔اِس لئے نہیں کہ مکہ میں کوئی کار خانہ کھل گیا تھا، اس لئے نہیں کہ وہاں تجارتیں اچھی ہوتی تھیں، اِس لئے نہیں کہ وہاں زراعت اچھی تھی۔ بلکہ صرف اس لئے کہ ابراہیمؑ نے انہیں ایک بات کہی تھی اور وہ اس پر عمل کرنے کے لئے وہاں اکٹھے ہوگئے۔پس یہ اتفاق نہیں بلکہ جو کچھ ہوا للہ تعالیٰ کے منشا اور اس کے ازلی فیصلہ کے مطابق ہوا۔

پھر میرے نزدیک بالکل ممکن ہے کہ اس اجتماع میں یہودی اور نصرانی روایات کا بھی دخل ہو کیونکہ قوم کو دوبارہ بسانے والے قصی تھے جن کے تعلقات نصاریٰ اور یہودسے تھے۔ تعجب نہیں کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں میں یہ چرچے شروع ہوئے ہوں کہ نبی ٔ مختون کی آمد کا وقت قریب ہے اور یہوونصاریٰ کے علماء سے انہوں نے یہ سنا ہو کہ موعود نبی عرب میں ظاہر ہونے والا ہے تو اپنی قومی روایات کو ملا کر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ اگر یہ موعود نبی عرب میں آیا تو پھر مکہ میں ہی آئے گا اور اس طرح ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا ہو کہ جب ہمارے لئے خدا تعالیٰ یہ نعمت ظاہر کرنے والا ہے تو کیوں نہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی قوم کو وہاں لےجا کر بیٹھا دیں۔ تاکہ جب نبیٔ عرب کے ظہور کا وقت آئے تو ہماری قوم اس پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل کرے۔جیسا کہ مدینہ والوں نے کیا کہ انہوں نے یہودیوں سے آنے والے نبی کے متعلق باتیں سنیں اور انہی باتوں کے نتیجہ میں وہ رسول کریمؐ پر ایمان لے آئے چنانچہ تاریخ میں مذکور ہے کہ جب رسول کریمؐ نے دعویٰ کیا اور آپ کی قوم نے آپ کی مخالفت شروع کی تو ایک دفعہ مدینہ سے چند افراد حج کے لئے مکہ میں آئے۔ رسول کریمؐ حج کے دنوں میں ایک ایک قبیلہ کے پاس جاتے اور کہتے کہ میں تمہیں خدا کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں کہ تم شرک کو چھوڑ دو۔ خدائے واحد کی پرستش کرو اور اخلاق فاضلہ اپنے اندر پیدا کرو۔جب آپ یہ باتیں کہتے تو باہر سے آئے ہوئے لوگ قہقہ مارکر اور ایک دوسرے کی طرف آنکھیں مٹکا مٹکا کر دیکھتے اور یہ کہتے ہوئے کہ معلوم ہوتا ہے ’’یہ وہی مکّہ کا پاگل ہے‘‘ منہ پھیر کرچلے جاتے۔ روحانی نقطۂ نگاہ کو مدنظر رکھا جائے تو اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی نجات کے لئے آپ پاگل ہو رہے تھے۔آپ کے دل میں دردتھا کہ کسی طرح یہ دنیا ہلاکت اور تباہی کے راستوں سے بچ جائے۔ اِن معنوں کے لحاظ سے اگر کوئی شخص آپ کو پاگل کہتا ہے تو ہم اسے کہیں گے کہ خدا کرے ایسے پاگل دنیا میں اور بھی پیدا ہوں کیونکہ اِن معنوں کا پاگل بڑی قیمتی چیز ہے۔لیکن وہ لوگ جو کچھ کہتے مخالفت اور عناد کے نتیجہ میں کہتے اور وہ رسول کریمؐ کی باتیں سننے سے انکار کر دیتے لیکن باوجود اِس کے آپ مایوس نہ ہوتے اور حج کے دنوں میں آپ ایک ایک قبیلہ کے پاس جاتے اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے۔ایک سال مدینہ کے کچھ لوگ جو حج کے لئے آئے ہوئے تھے آپ نے ان کو تبلیغ شروع کی۔ان کے دلوں میں کچھ شرافت تھی۔کچھ یہودیوں سے بھی انہوں نے باتیں سنی ہوئی تھیں جب ایک جگہ کھڑے ہوکر رسول کریمؐ نے انہیں تبلیغ کی تو انہوں نے آپ سے کہا آئیے ہم ایک طرف کنارے پر بیٹھ کر آپ کی باتیں سنیں۔ چنانچہ سب ایک طرف بیٹھ گئے اور رسول کریمؐ نے انہیں اپنا پیغام پہنچانا شروع کیا۔کچھ دیر سننے کے بعد انہوں نے کہا ہمارے شہر میں کچھ یہودی بستے ہیں اور چونکہ ہم زیادہ ہیں اور وہ تھوڑے ہیں اور معاہدات میں ہمارا پہلو غالب رہتا ہے وہ ہمیشہ ہم سے کہا کرتے ہیں کہ آج کل اِس ملک میں ایک بہت بڑا نبی ظاہر ہونے والا ہے اس کے ذریعے ہم لوگ تم پر غالب آجائیں گے لیکن اس نے ہم میں سے آنا ہے اور مدینہ میں آنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم مدینہ آبسے ہیں۔جب وہ وقت آئے گا ہم اس کے ذریعہ سے پھر ترقی کریں گے۔مگر ہمیں تو آپ کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی جس کے متعلق یہودی یہ سمجھتے تھے کہ ان میں سے آنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے آنا تھا۔ہمیں آپ کی باتیں سچی نظر آتی ہیں اور جو علامتیں یہودیوں نے ہمیں بتائی تھیں وہ آپ میں پوری ہوتی نظر آتی ہیں مگریہ بھی ڈر ہے کہ اگر ہم نے اِس بارہ میں کوئی فیصلہ کیا تو قوم میں جوش پیدا نہ ہو جائے۔اور وہ یہ نہ سمجھے کہ آپ تو غلطی سے مان آئے ہیں اب ہمیں بھی غلطی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنی قوم کے سامنے یہ باتیں رکھیں اور پھر اگر خدا انہیں اور ہمیں توفیق دے تو آپ پر ایمان لے آئیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اچھی بات ہے۔چنانچہ وہ لوگ گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو یہ تمام باتیں بتائیں۔ چونکہ وہ لوگ آنے والے نبی کے متعلق یہودیوں سے مختلف باتیں سنتے رہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال مدینہ کے 12 آدمی رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ آپ پر ایمان لے آئے۔ اِس طرح اسلا م مکہ سے مدینہ جا پہنچا۔ میں سمجھتا ہوں اِسی طرح بالکل ممکن ہے قصی بن حکیم نے بھی یہودی علماء اور نصاریٰ سے اِس قسم کی باتیں سنی ہوئی ہوں اور ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ خدا تو ہمارے گھر میں نبوّت کا چشمہ پھوڑنے والا ہے اور ہم اِدھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے اپنی قوم کو یہ نصیحت کی ہو کہ آؤ اور مکّہ میں اکٹھے ہو جاؤ تاکہ آنے والے ظہور سے فائدہ اٹھا سکو۔

میں نے اوپر کہا تھا کہ خدا کی انگلی نے انہیں اشارہ کیا اور وہ مکّہ میں جمع ہو گئے۔لیکن اب میں کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے یہود اور نصاریٰ سے آنے والے نبی کی باتیں سنیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ عرب میں ایک نبی آنیوالاہے تو اپنی قومی روایات اور حضرت ابراہیمؑ کے وعدے ملا کر انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہو کہ وہ نبی مکہ میں پیدا ہونے والا ہے۔بظاہر ان دونوں میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن در حقیقت کوئی اختلاف نہیں۔ اِس لئے کہ اگر انہوں نے یہود اور نصاریٰ سے سن کر ایسا کیا تب بھی یہود اور نصاریٰ نے جو کچھ بتایا وہ خدائی پیشگوئیاں تھیں اور خدائی پیشگوئیاں بھی قدرت کی انگلی ہوتی ہیں جو بنی نوع انسان کی راہنمائی کرتی ہیں۔اور اگر انہوں نے اِن پیشگوئیوں کو نہیں سنا تب بھی یہ خدائی انگلی اور اس کی قدرت کا ایک زبردست ہاتھ تھا کہ جس بات کا انہیں دو ہزار سال تک خیال نہ آیا وہ نبی ٔ عربﷺ کے ظہور سے سوا دوسو سال پہلےانہیں یاد آگئی اور ایسی یاد آئی کہ ہزاروں تکالیف کے باوجود وہ مکّہ میں آکر بس گئے۔پس اگر وہ یہودو نصاری کی باتیں سن کر آئے تب بھی اور اگر وہ خودبخود آئے تب بھی، جو کچھ ہوا قدرت کے اشارہ کے ماتحت ہوا اور اس طرح اپنی قوم کو وہاں جمع کرکے وہ خدائی تدبیر کا آلۂ کاربن گئے۔

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ94-109)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

محترم چوہدری سمیع اللہ سیال وکیل الزراعت تحریک جدید کی وفات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اکتوبر 2022