• 14 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 22)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 22

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں

’’اللہ تعالےٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129)۔ تقویٰ،طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے والے خدا تعالےٰ کی حمایت میں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت نافرمانی کرنے سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں۔ آجکل دنیا کا اصول منافقانہ زندگی بسر کرنا ہو گیا ہے۔ اوّل اوّل انسان انسان سے نفاق کرتا ہے اور منافقانہ رنگ میں ہاں میں ہاں ملاتا ہے حالانکہ دلوں میں کدورت اور رنج و بغض بھرا ہوتا ہے۔ پھر یہ عادت ترقی کرتے کرتے ایسی بڑھتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے بھی منافقانہ تعلق کرنا چاہتا ہے اور خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ خدا عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ہے دل سے تو مومن ہوتا نہیں مگر خدا کے آگے مومن بننا چاہتا ہے۔ بھلا خدا کسی کے دھوکے میں آسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔

دیکھو تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالےٰ صرف ایک متقی انسان کی خاطر دوسروں پر بھی رحم کرتا ہے اور اس کے اہل و عیال، خویش و اقارب اور متعلقین پر بھی اثر پڑتا ہے اور اسی طرح سے اگر جرائم اور فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا اثر بھی پڑتا ہے۔

غرض خدا تعالیٰ سے ڈرنا اور متقی بننا بڑی چیز ہے۔ خدا اس کے ذریعہ سے ہزار آفات سے بچا لیتا ہے بجز اس کے خدا تعالےٰ کی حفاظت اس کے شامل ہو۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بَلا نہیں پکڑے گی اور کسی کو بھی مطمئن نہیں ہونا چاہیئے۔ آفات تو ناگہانی طور سے آ جاتے ہیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ رات کو کیا ہو گا۔ لکھا ہے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے۔ پہلے بہت روئے اور پھر لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ یَا عِبَادَ اللّٰہِ خدا سے ڈرو۔ آفات اور بلیّات چیونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں بجُز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہو جاؤ۔

استغفار اور توبہ کا یہ مطلب نہیں جو آجکل لوگ سمجھے بیٹھے ہیں۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جبکہ اس کے معنے بھی کسی کو معلوم نہیں۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ایک عربی زبان کا لفظ ہے۔ ان لوگوں کی تو چونکہ یہ مادری زبان تھی اور وہ اس کے مفہوم کو اچھی طرح سے سمجھے ہوئے تھے۔ استغفار کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ سے اپنے گذشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا استغفار انبیاء بھی کیاکرتے تھے اور عوام بھی۔

بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کے استغفار پر اعتراض کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے استغفار کرنے سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کا گنہگار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ استغفار تو ایک اعلیٰ صفت ہے۔ انسان فطرتًا ایسا بنا ہے کہ کمزوری اور ضعف اس کا فطری تقاضا ہے۔ انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ دُعا کرتے ہیں کہ یا الہٰی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔ غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو۔ اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے نہ ولی کو اور نہ رسُول کو۔ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں۔ پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے۔

یہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے کہ حضرت عیسیٰؑ استغفار نہ کرتے تھے۔ یہ ان کی بیوقوفی اور بے سمجھی ہے اور یہ حضرت عیسیٰ ؑ پر تہمت لگاتے ہیں۔ انجیل میں غور کرنے سے صریح اور صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جابجا اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا۔ اچھا بھلا اَیْلِیْ اَیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ سے کیا مطلب ہے؟ اَبِیْ اَبِیْ کر کے کیوں نہ پکارا؟ عبرانی میں اَیْل خدا کو کہتے ہیں۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ رحم کر اور فضل کر اور مجھے ایسی بے سر و سامانی میں نہ چھوڑ (یعنی میری حفاظت کر)

درحقیقت مشکل تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بوجہ اختلاف زبان استغفار کا اصل مقصد ہی مفقود ہو گیا ہے اور ان دعاؤں کو ایک جنتر منتر کی طرح سمجھ لیا ہے۔ کیا نماز اور کیا استغفار اور کیا توبہ۔ اگر کسی کو نصیحت کرو کہ استغفار پڑھا کرو تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ میں تو استغفار کی سو باریاد و سو بار تسبیح پڑھتا ہوں مگر مطلب پوچھو تو کچھ جانتے ہی نہیں۔ استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنے ہیں طلب مغفرت کرنا کہ یا الہٰی ہم سے پہلے جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں ان کے بد نتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اور اس کا اثر بھی لازمی ہے۔ اور آئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں۔ صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا۔

توبہ کے معنے ہیں ندامت اور پشیمانی سے ایک بد کام سے رجوع کرنا۔ توبہ کوئی بُرا کام نہیں ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ توبہ کرنے والا بندہ خدا کو بہت پیارا ہوتا ہے۔ خدا تعالےٰ کا نام بھی توّاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے گناہوں اور افعالِ بد سے نادم ہو کر پشیمان ہوتا ہے اور آئندہ اس بد کام سے باز رہنے کا عہد کر لیتا ہے تو اللہ تعالےٰ بھی اس پر رجوع کرتا ہے رحمت سے۔ خدا انسان کی توبہ سے بڑھ کر توبہ کرتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے۔ اگر انسان چل کر آتا ہے تو خدا تعالےٰ دوڑ کر آتا ہے یعنی اگر انسان خدا کی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالےٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہاء درجہ کا اس پر فضل کرتا ہے۔ لیکن اگر خدا سے مُنہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خدا تعالیٰ کو کیا پروا۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ336 تا 339، ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں

’’اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تدبیر سے فائدہ اُٹھاتا ہے لیکن تدبیر پر کلّی بھروسہ کرنا سخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تدبیر نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے۔ پہلے ضروری ہے کہ اس کھڑکی کو بند کیا جاوے۔ پھر نفس کی کشاکش کے لئے دعا کرتا رہے اسی کے واسطے کہا کہ وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70)۔ اس میں کس قدر ہدایت تدابیر کو عمل میں لانے کے واسطے کی گئی ہے۔ تدابیر میں خدا کو نہ چھوڑے دوسری طرف فرماتا ہے۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن: 61) پس اگر انسان پورے تقوےٰ کا طالب ہے تو تدبیر کرے اور دعا کرے۔ دونو کو جو بجا لانے کا حق ہے بجا لائے۔ تو ایسی حالت میں خدا اس پر رحم کرے گا لیکن اگر ایک کرے گا اور دوسری کو چھوڑیگا تو محروم رہے گا۔‘‘

’’انسان ایسے طریق سے تقویٰ پر قائم ہوتا ہے اور تقوی اللہ ہر ایک عمل کی جڑ ہے جو اس سے خالی ہے وہ فاسق ہے۔ تقویٰ سے زینت اعمال پیدا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالےٰ کا قرب ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ اللہ تعالےٰ کا ولی بن جاتا ہے چنانچہ فرمایا ہے اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ (الانفال: 35)‘‘

’’کامل طور پر جب تقویٰ کا کوئی مرحلہ باقی نہ رہے تو پھر یہ اولیاء اللہ میں داخل ہو جاتا ہے اور تقویٰ حقیقت میں اپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کی سارے پہلوؤں سے مخالفت کرے گا تو نفس مر جاوے گا۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا۔ نفس تو سن گھوڑے کی طرح ہوتا ہے اور جو لذّت تبتّل اور انقطاع میں ہوتی ہے اس سے بالکل نا آشنا ہوتا ہے۔ جب اس پر موت آ جاوے گی تو چونکہ خلا محال ہے اس لئے دوسری لذّات جو تبتّل اور انقطاع میں ہوتی ہیں شروع ہو جائیں گی۔ یہی وہ بات ہے جس کی ہماری ساری جماعت کو ہر وقت مشق کرنی چاہیئے۔ جیسے بچّے جب تختیوں پر بار بار لکھتے ہیں تو آخر خوش نویس ہو جاتے ہیں۔

وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا (العنکبوت: 70) میں مجاھدہ سے مراد یہی مشق ہے کہ ایک طرف دعا کرتا رہے دوسری طرف کامل تدبیر کرے۔ آخر اللہ تعالیٰ کا فضل آ جاتا ہے اور نفس کا جوش و خروش دب جاتا اور ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور ایسی حالت ہو جاتی ہے جیسے آگ پر پانی ڈال دیا جاوے۔ بہت سے انسان ہیں جو نفس امارہ ہی میں مبتلا ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ339 تا 341، ایڈیشن 1984ء)

’’اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ۔ ولائت کا حصہ تقویٰ ہی پر ہے۔ خدا تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں ہو کر اگر اسے حاصل کرو گے تو کمال تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘

’’نفس ظاہری لذّات کا دلدادہ ہوتا ہے۔ پنہانی لذات سے یہ بالکل بیخبر ہے اسے خبردار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اول ظاہری لذّات پر ایک موت وارد ہو اور پھر نفس کو پنہانی لذّات کا علم ہو۔ اس وقت الہٰی لذّت جو کہ جنتی زندگی کا نمونہ ہے شروع ہو گی۔‘‘

’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ نفس پر موت وارد کرنے اور حصول تقوےٰ کے لئے اول مشق کریں جیسے بچّے خوش خطی سیکھتے ہیں تو اوّل اوّل ٹیڑھے حرف لکھتے ہیں لیکن آخر کار مشق کرتے کرتے خود ہی صاف اور سیدھے حروف لکھنے لگجاتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی مشق کرنی چاہیئے جب اللہ تعالےٰ ان کی محنت کو دیکھے گا تو خود ان پر رحم کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ340-341، حاشیہ۔ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں

’’میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہو جاتی ہیں اور معمولی نزاع سے پھر ایک دوسرے کی عزّت پر حملہ کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔ یہ بہت ہی نا مناسب حرکت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کر لے تو کیا حرج ہے۔

بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلّت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ خدا تعالےٰ کا نام ستّار ہے۔ پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا۔ چاہیئے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزّت و آبرو پر حملہ نہ کرے۔

ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا۔ ایک ملّا نے کہا کہ یہ آیت (البدر میں یوں لکھا ہے:۔ ’’یہ لفظ تم نے غلط لکھا ہے‘‘) غلط لکھی ہے۔ بادشاہ نے اُس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا۔ جب وہ چلا گیا تو اُس دائرہ کو کاٹ دیا۔ جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ در اصل وہ غلطی پر تھا مگر میں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیاکہ اس کی دلجوئی ہو جاوے۔

(البدر میں ہے:۔ ’’دیکھو اس نے بادشاہ ہو کر ایک غریب ملاں کا دل نہ دُکھانا چاہا‘‘)

یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے۔ ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی۔ تقویٰ حاصل کرو۔ کیونکہ تقوےٰ کے بعد ہی خدا تعالےٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے۔ خدا اُن کا پردہ پوش ہو جاتا ہے۔ جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ فائدہ ہو بھی تو کس طرح جب کہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا۔ اگر وہی جوش، رعونت، تکبر، عجب، ریا کاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟ سعید اگر ایک ہی ہو اور وہ سارے گاؤں میں ایک ہی ہو تو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔ نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربّانی رُعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ با خدا ہے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا تعالےٰ کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے۔

پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دُکھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے متمم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے ۔ اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے۔ پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے۔

بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں۔ ان باتوں سے پرہیز کرو۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی۔ ہمسایوں سے نیک سلوک کرو۔ اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔‘‘

(الحکم جلد8 نمبر8 صفحہ7-8 مورخہ 10 مارچ 1904ء)
(ملفوظات جلد6 صفحہ341 تا 344، ایڈیشن 1984ء)

’’ابھی تک بہت سے آدمی جماعت میں ایسے ہیں کہ تھوڑی سی بات بھی خلافِ نفس سُن لیتے ہیں تو اُن کو جوش آ جاتا ہے حالانکہ ایسے تمام جوشوں کو فرو کرنا بہت ضروری ہے تاکہ حلم اور بردباری طبیعت میں پیدا ہو۔ دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک ادنیٰ سی بات پر بحث شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی فِکر میں ہوتا ہے کہ کسی طرح میں فاتح ہو جاؤں ایسے موقعہ پر جوش نفس سے بچنا چاہیئے اور رفع فساد کے لئے ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں دیدہ دانستہ خود ذلّت اختیار کر لینی چاہیئے۔ اس امر کی کوشش ہر گز نہ کرنی چاہیئے کہ مقابلہ میں اپنے دوسرے بھائی کو ذلیل کیا جاوے۔‘‘

’’اپنے بھائی پر فتح پانے کا خیال رعونت کی ایک جڑ ہے۔ اور بڑی بھاری مرض ہے کہ وہ اپنے ایک بھائی کے عیب کے مشتہر کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔‘‘

’’یاد رکھو بیعت کا زبانی اقرار کچھ شئے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تزکیۂ نفس چاہتا ہے۔‘‘

’’اس لئے اپنے نفسوں میں تبدیلی کرو اور اخلاق کا اعلےٰ نمونہ حاصل کرو۔‘‘

’’خواہ کیسی ہی دشمنی ہو رفتہ رفتہ سب خود بخود اس کے تابع ہو جاویں گے اور بجائے حقارت کے اس کی عظمت کرنے لگ جاویں۔‘‘

’’چھوٹی چھوٹی باتوں میں طول دینا اور بھائیوں کو رنج پہنچانا بہت بُری بات ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ341-343، حاشیہ۔ایڈیشن 1984ء)

(ترتیب و کمپوزنگ: خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد۔ لٹویا)

پچھلا پڑھیں

سیرالیون واٹرلو ریجن میں جلسہ سیرۃ النبی ؐو ریفریشرکورسز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2021