• 9 مئی, 2024

دوسری قوموں سے بھی ہمدردی کرو

قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ دوسری قوموں سے بھی ہمدردی کرو جیسا کہ اپنی قوم کے لئے اور دوسری قوموں کو بھی معاف کرو جیسا کہ اپنی قوم کو۔ کیونکہ قرآن شریف میں یہ نہیں لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف قریش کے لئے بھیجے گئے ہیں بلکہ لکھا ہے کہ وہ تمام دنیا کے لئے بھیجے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا

(الاعراف: 159)

یعنی لوگوں کو کہہ دے کہ میں تمام دُنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں نہ صرف ایک قوم کے لئے اور پھر دوسری جگہ فرمایا:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾

(الانبیاء: 108)

یعنی ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کرنے کے لئے تجھے نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جائے۔ پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دُنیا کے لئے رسول ہیں اور تمام دُنیا کے لئے رحمت ہیں اور آپ کی ہمدردی تمام دنیا سے ہے نہ کسی خاص قوم سے اور خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو بھی وہ کامل اور عام ہمدردی کی تعلیم دی ہے کہ کسی دوسرے رسول کو ہرگز نہیں دی۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ387-388)

اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرےکہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہےجب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔ خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھےافسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ (بنی اسرائیل: 85) بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور۔ اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا، لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ99-100 ایڈیشن1988ء)

پچھلا پڑھیں

مونٹے نیگرو کی پہلی عاملہ کی پہلی میٹنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2022