• 19 مئی, 2025

حسنِ ظن

کسی کے بارے میں اچھا خیال یا اچھا گمان رکھنا حسن ظن کہلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ واقعہ افک کے ذکر میں مؤمنین کو مخاطب کرکے فرماتا ہے: لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّقَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۳﴾ (النور: 13) ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اُسے سنا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے متعلق حسن ظن کرتے اور کہتے کہ یہ کھلا کھلا بہتان ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکی یعنی حسن ظن کو بیان کرتے ہوئے مومن مرد اور مومن عورت کو مخاطب کیا ہے۔ اور اس میں یہ حکم پوشیدہ ہے کہ اگر کسی کے متعلق کوئی بُری بات سنی جائے تو مومن کا پہلا فرض ہوتا ہے کہ وہ نیک ظنی کو کبھی ترک نہ کرے۔ کیونکہ اگر وہ برائی بعد میں دوسرے میں ثابت بھی ہوجائے تب بھی اسے نیک ظنی کا ثواب ضرور مل جائے گا اور اگر وہ برائی ثابت نہ ہو تو دوہرا نقصان ہوگا ایک تو بدظنی کا مرتکب ٹھہرے گا دوسرا ایک بے گناہ پر الزام لگاکر خلاف شریعت عمل کرے گا۔پس حسن ظن سراسر مومنانہ فعل ہے۔

حسن ظن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسن ظن ایک حسین عبادت ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب حسن الظن)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ لوگوں میں سے کون افضل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مغموم القلب اور صدوق اللسان۔ اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمیں صدوق اللسان کا تو علم ہے۔ یہ مغموم القلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک و صاف دل جس میں کوئی گناہ، کوئی کجی اور کوئی بغض، کینہ اور حسد نہ ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع و التقویٰ)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں اس حوالے سے نصیحت فرمائی کہ ’’ایک سچے مسلمان کی نشانی، ایک سچے احمدی کی نشانی اور اس کا مقام یہ ہے کہ مغموم القلب بننے کی کوشش کرے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 26؍مئی 2006ء)

حسن ظنی کا معیار کیسا ہو اس بارہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اس سے کہا کہ تم چوری کرتے ہو؟ تو وہ شخص خدا کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں نے چوری نہیں کی۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہنے لگے میں تمہاری قسم پر اعتبار کرتا ہوں اور اپنے نفس کو جھٹلاتا ہوں۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ میں اپنی آنکھوں کو جھٹلاتا ہوں۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل عیسیٰ علیہ السلام)

اسی طرح ایک روایت میں حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آگ سے اس کے چہرے کی حفاظت فرمائے گا۔

(جامع ترمذی کتاب البر و الصّلۃ باب ماجاء فی الذب عن عرض المسلم)

حسن ظن کے فوائد بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ215)

یہ حسن ظن ہی ہے جس سے عبادتوں میں بھی حسن پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے۔ حسن ظن سے ایک دوسرے کے لئے دل میں عزت پیدا ہوتی ہے۔ جب عزت پیدا ہوجائے تو اس کا مزید فائدہ یہ ہوگا کہ کسی کے لئے برا سوچنے کا خیال پیدا نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دل کو سکون اور اطمینان ملے گا۔ غرضیکہ حسن ظن میں فائدے ہی فائدے ہیں۔ انسان ایک نیکی کرتا ہے تو اس سے اور نیکیاں جنم لیتی ہیں۔ اسی طرح حسن ظن سے کام لینے سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آپس میں محبت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اپنے تعلقات کو دوسروں سے محبت کے رشتوں سے استوار کریں اور نظام جماعت سے بھی محبت پیدا کریں اور جو نظام جماعت چلانے والے ہیں ان سے ادب اور محبت کا رشتہ باندھیں… بعض دفعہ احترام محبتوں میں بدل جاتے ہیں اور بعض دفعہ محبتیں احترام پیدا کرتی ہیں یہ دونوں طبعی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔‘‘

(خطبات طاہر جلد13 صفحہ874 خطبہ جمعہ18؍نومبر 1994ء)

بد ظنی کے نقصانات

جب انسان حسن ظن سے کام نہ لے تو اس کے نتیجے میں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے… بدظنی بہت بُری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنّی شروع کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ375)

اسی طرح بد ظنی کے اور نقصانات یہ بھی ہیں کہ اس سے بے سکونی ہونے لگتی ہے۔ دوسروں سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ انسان غرور، تکبر جیسی خطرناک برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جن کو قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناپسند فرمایا ہے۔ بد ظنی سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کی زبان بھی پاک نہیں رہتی۔ اچھے کلمات اس کی زبان سے نہیں نکلتے جو کسی سننے والے کو اضطراب میں ڈال دیتے ہیں اور بد ظنی کرنے والا شخص آہستہ آہستہ بُرے اخلاق کا مظاہرہ کرنے لگ جاتا ہے۔ جس سے معاشرے کا امن و سکون خراب ہوتا ہے۔ بد ظنی انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نصیحت فرمائی کہ
’’اگر کسی کی نسبت سوء ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خداتعالیٰ سے دعائیں کرے تاکہ معصیت اوراس کے برے نتیجہ سے بچ جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ246)

ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں تک ہوسکے کسی سے متعلق بدگمانی کرنے سے بچیں کیونکہ یہ ایک گناہ بھی بن سکتی ہے اور جب تک کسی معاملے سے متعلق خوب وضاحت نہ ہوجائے ہم اپنی طرف سے قیاس آرائیاں نہ کریں بلکہ ہمیشہ ایک مثبت اور پائیدار سوچ کے مالک ہوں۔ قرآنِ کریم نے ہمیں بدظنی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوۡا

(الحجرات: 13)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ برائیوں سے بچنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’غور کرکے دیکھیں کن کن جگہوں پر ہم ٹھوکر کھاتے ہیں ان ان جگہوں پر بچنے کے سائن بورڈ لگادیئے اور تقویٰ کا ایک معنی بچنا بھی مراد ہے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہاں ٹھوکریں ہیں کہاں خطرناک موڑ ہیں کہاں گڑھے ہیں کہاں اور قسم کے خطرات تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ اس زندگی کے سفر میں بیان کردہ سائن بورڈ یا نشان لگا دیئے گئے ہیں ان کو غور سے دیکھنا اور ان کے خلاف عمل نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤگے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد13 صفحہ893)

عربی زبان میں ایک شعر ہے

وَعَیْنُ الرَّضَا عَنْ کُلِّ عَیْبٍ کَلِیْلَۃٍ
کَمَا اَنَّ عَیْنَ السُّخْطِ تُبْدِی الْمَسَاوِیَا

یعنی وہ انسان بھی کیسا جاہل ہے کہ آنکھ تو وہی ہے لیکن جب محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو ہر برائی نظر سے غائب ہوجاتی ہےاور جب نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے تو جو برائی نہ بھی ہو وہ بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔

پس ہمیں اپنی نگاہوں کو اپنے خیالات کو پاک کرنے کی ضرورت ہے اور آپس میں محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہم ان معاشرتی برائیوں سے بچ سکیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے بن سکیں گے۔

ارشادات و واقعات

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حاجی الحرمین حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرے بعض دوستوں نے مجھ کو ملامت کی کہ تو اس قدر حسن ظن سے کیوں کام لیتا ہے؟ میں نے کہا یہ تو میرے خداتعالیٰ نے بلاواسطہ مجھ کو بتایا ہے۔ میں کیوں بدظنی سے نہ بچوں۔ بد ظنی سے بچنے کا طریق سورہ نور کے پہلے رکوع میں لکھا ہے۔

(مرقات الیقین فی حیات نور الدین صفحہ222)

آپؓ نے ایک جگہ اس بارے میں مزید تحریر فرمایا:
’’اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ میں نے ایک کتاب منگوائی۔ وہ بہت بے نظیر تھی۔ میں نے مجلس میں اس کی اکثر تعریف کی۔ کچھ دنوں بعد وہ کتاب گم ہو گئی۔ مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر یہ خیال ضرور آیا کہ کسی نے اٹھا لی ہے۔ پھر جب کچھ عرصہ نہ ملی تو یقین ہوگیا کہ کسی نے چرا لی۔ ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور وہ پیچھے جا پڑی۔ اس وقت مجھ پر دو معرفت کے نکتے کھلے۔ ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی؟ دوم میں نے صدمہ کیوں اٹھایا؟ خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیزاور عمدہ میرے پاس موجود تھی۔

اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ تہیں ہوں گی۔ ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا۔ ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی۔ اسے اس کام کا بہت شوق تھا۔ اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی۔ مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی، نہ میرے بچوں کے سر پر۔ مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آ گئی ہو گی۔ مدت گزر گئی۔ اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کے لئے کھولا گیا تو اس کی ایک تہ میں سے نکل آئی۔ دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میری رہنمائی کی اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گے مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے۔

اس بدظنی کی جڑ ہے ’’کُرید‘‘ خواہ مخواہ کسی کے حالات کی جستجو اور تاڑ بازی۔ اسلئے فرماتا ہے وَلَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات: 13) اور پھر اس تجسس سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ ان آیات میں تم کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ گناہ شروع میں بہت چھوٹا ہوتا ہے مگر آخر میں بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ جیسے بڑ کا بیج دیکھنے میں کتنا چھوٹا ہے لیکن پھر بعض بڑیں ایک ایک میل تک چلی گئی ہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور بدی کو اس کی ابتداء میں چھوڑ دو۔‘‘

(خطبات نورخطبہ جمعہ 12؍نومبر 1909ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ بدظنی کی وجہ سے ایک دوسرے کے عیب تلاش کئے جاتے ہیں تاکہ اس طرح اسے نیچا دکھایا جائے، اسے بدنام کیا جائے۔ اس لئے فرمایا کہ آپس کے تعلقات کے جو معاملات ہیں لوگوں کے ذاتی معاملات ہیں، ان کے معاملہ میں تجسس نہ کرو۔ یہ تجسس خداتعالیٰ کو ناپسند ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 27؍مارچ 2009ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک واقعہ کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا۔ بڑا قریبی آدمی تھا۔ اس کا نام ایاز تھا۔ انتہائی وفادار تھا اور اپنی اوقات بھی یاد رکھنے والا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ میں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یاد رکھنے والا تھا۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جود وسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کوبادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں۔ اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو۔ بادشاہ کو بہرحال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا۔ بدظن نہیں ہوا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں۔ آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اُٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب میں گیا تومیں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیرکمان تھی تاکہ جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے۔ تو جو سب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے۔

تو اس واقعہ سے ایک سبق بدظنی کے علاوہ بھی ملتا ہے کہ ایاز ہروقت بادشاہ پر نظر رکھتا تھا۔ ہر اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پس یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر حکم کو ماننے کے لئے بلکہ ہر اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ خلیفہٴ وقت کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ان باتوں پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو تبھی بیعت کا حق ادا ہو سکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ26؍مئی 2006ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(صباحت مصطفیٰ)

پچھلا پڑھیں

مونٹے نیگرو کی پہلی عاملہ کی پہلی میٹنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2022