آنکھوں میں دعاؤں بھرا اک دریا رواں ہے
اس موسم فرقت میں تڑپ اور عیاں ہے
ہر چند کہ ربوہ پہ اداسی کا سماں ہے
خدام خلافت کی محبت بھی جواں ہے
تو اپنے کرم سے یہ نصیبہ ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے
اقصٰی کے میناروں کی صدا گونج رہی ہے
پھر مسجد مبارک سے وفا گونج رہی ہے
بہتے ہوئے دریا کی ادا گونج رہی ہے
ربوہ کے مکینوں کی دعا گونج رہی ہے
پھر اس کی قرابت کا سہارا ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
یا باری تعالیٰ!! تو یہاں بھیج خلافت
خدام خلافت کو ملے اس سے سعادت
ربوہ کے محلوں میں ہو پھر نور بصیرت
ہر دل میں ہو ایمان کی حد درجہ حرارت
اس خواب کی تعبیر کا تحفہ ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
ربوہ تیری بستی، تیرا مسکن ہی رہے گا
ہر قلب و نظر میں تیرا درشن ہی رہے گا
اور قصر خلافت پہ وہ جوبن ہی رہے گا
ہر آن مہکتا ہؤا گلشن ہی رہے گا
وہ حسن و محبت کا سراپا ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
اک بار تو آئے تو چمن زار سجا دیں
ہم راہوں میں تیری انہیں پلکوں کو بچھا دیں
پھر نعرہ تکبیر فلک بوس لگا دیں
اور فرش سے ہم عرش کے کنگرے بھی ہلا دیں
وہ پیکر الفت جو اشارہ ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
ہم مذہب و ملت کے علمدار رہیں گے
جاں، مال کے دینے کو بھی تیار رہیں گے
ہم تابع احکام ، وفادار رہیں گے
ہم عہدوں کے پابند سر دار رہیں گے
جذبوں کی فراوانی کا دریا ہمیں دے دے.!!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
اے روح رواں!! جان جہاں !!
ہر ظلم سہیں گے
اے وحدت اقوام زماں!! تجھ سے نہ ہٹیں گے
اے شیریں سخن!! سحر بیاں!! ہم عہد کریں گے
اطفال قوی ، خدام جواں تیرے ہی رہیں گے
پُر نور سے چہرے کا نظارہ ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
صدقات میں، اعمال میں آگے ہی بڑھیں گے
ہم نفل پڑھیں گے، سبھی روزے بھی رکھیں گے
راتوں کو دعاؤں سے یونہی زندہ کریں گے
ہم تیری ہی آواز پہ بیٹھیں گے، چلیں گے
تعمیل خلافت کا تہیہ ہمیں دے دے !!
اے قادر مطلق!! تو خلیفہ ہمیں دے دے !!
یا باری تعالیٰ!! اسے نصرت تو عطا کر
خدام کو خدمت کی سعادت تو عطا کر
اب لوٹ کے آنے کی سہولت تو عطا کر
پھر میرے وطن کو کوئی الفت تو عطا کر
یعقوبیؑ نگاہوں سا نظارہ ہمیں دے دے
اے قادر مطلق !! تو خلیفہ ہمیں دے دے
(اطہر حفیظ فرازؔ)