• 2 مئی, 2024

مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی کا ذکر خیر

ڈاکٹر صاحب کی وفات کا سن کر سخت صدمہ ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود بھی خاکسار کا لحاظ کرتے تھے۔جب کبھی کسی مریض کے ساتھ ہسپتال ٹائم کے بعد گھر جاتا تو فوراً بلالیتے۔ شروع شروع میں کچے کوارٹر میں رہائش تھی۔ اس دور میں اپنے ننھیال سے آنے والے غیرازجماعت مریضوں کے ساتھ جانا پڑتا تو بہت فراخ دلی اور حسنِ سلوک سےعزّت فرماتے اور مجھ سے پوچھ لیتے کہ فیس لینی ہے یا نہیں؟ مریض کی مالی پوزیشن دیکھتے ہوئے اگر میں کہتا نہ لیں تو نہ لیتے تھے۔ ایک روز میرا ایک غیرازجماعت دوست اپنا علاج کروانے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی شہرت سن کر نصیرپور خورد تخت ہزارہ سے ربوہ آیا۔ ہسپتال کا ٹائم ختم ہوچکا تھا اور ڈاکٹر صاحب گھر جا چکے تھے۔اس کے اصرار کرنے پر بطور سفارشی ڈاکٹر صاحب کے گھر چلا گیا۔ ان دنوں مسجد مبارک کے قریب کچے کوارٹرز میں ان کی رہائش تھی۔ میں نے اندر اطلاع بھجوائی تو جلد ہی اندر بلوا لیا اور مریض کو اچھی طرح چیک کیا اور سکون سے اس کی ساری حقیقت حال سنتے رہے اور اسے تسلی دلائی اور نسخہ لکھ دیا۔ مریض بہت مطمئن ہوا اور جب اٹھ کر باہر نکل آئے تو اس نے مجھ سے کہا ’’تساں اِڈا وڈا ڈاکٹرکچے جئے گھر وچ رکھیا ہویا ای۔ ایہہ بڑی زیادتی ای۔ تے شاباش ای اس ڈاکٹر نون جیہڑا ایتے گزارا کر رہیا اے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو اپنی رحمت کی چادرمیں لے کر ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

مجھے وہ دور بھی یاد ہے 1963، 1962 کاجب فضل عمر ہسپتال اپنے ابتدائی زمانہ میں مختصر سا تھا۔ آؤٹ ڈور صرف ڈاکٹر محمد احمد کا کام کرتا تھا۔ ان بیچاروں کی نظربہت کمزور تھی۔نسخہ لکھ تو دیتے تھے اور ڈسپنسری کی کھڑکی سے پرچی دکھا کر ضیاء الدین اور بعد میں قادر بخش سے مطلوبہ دوائی ملتی تھی۔ یہ دونوں حضرات ڈاکٹر محمد احمد کا لکھا پڑھ سکتے تھے۔
ایسے دور میں میں ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر جو انگلینڈ سے میڈیکل کا سندیافتہ ہو فضل عمر میں کام کرنا بہت بڑی قربانی ہے۔مریضوں کا اتنا رش کہ ڈاکٹر صاحب کو سر کھجلانے کی بھی فرصت نہیں۔ ربوہ کی کچی سڑکوں پر عوام کی خدمت میں موصوف نے گردوغبارکی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی گاڑی دوڑائے رکھی۔ جماعتی اجتماعات اور جلسوں مین وقف کے جزبہ سے خدمت میں مصروف رہے۔ کسی نے خوب کہا ہے

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

ذاتی زندگی میں بھی اپنی اہلیہ کے آئیڈیل تھے۔گو شوکت گوہر ان کی خالہ زاد تھیں پر باہم موانست اور موافقت دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے ان کے بچوں کو کچے کوارٹر میں رہائش کے دوران گھرجاکر پڑھانےکا موقعہ ملا۔ موصوفہ بہت احترام کا برتاؤ کرتی تھیں۔ سلام دعا کے بعد خیرخیریت بھی پوچھا کرتی تھیں۔ موسم کی رعایت سے چائے کا ساتھ بھی کچھ رکھا کرتی تھیں۔ داکٹر صاحب نے اپنی اہلیہ سے 10روز بعد وفات پائی۔ اللہ دونوں کے درجات اپنے قرب میں بلند فرمائے۔ آمین

ہاں! یاد آیا مجھ پر برین ہیمبرج کا اٹیک ہوا تھا تو میرے گھر تشریف لاکرعلاج کرتے رہے۔ جزآءہ اللّٰہ خیراً۔ برادرم محمد اکرم کی شدید بیماری میں بھی میرے ساتھ اپنے سائیکل پر انہیں دیکھنے گھر آئے اورہر ممکن علاج مہیا فرمایا تھا۔

مجھے ایک سال زعیم اعلیٰ انصاراللہ ربوہ کی عاملہ میں منتظم صحت جسمانی کی حیثیت سے خدمت بجالانے کا موقعہ ملا تو اجتماع میں سادگی سے شامل رہتے تھے۔ مستعدی اور اخلاص سے کھیلوں کے مقابلہ مین ہرطرح سے تعاون کرتے رہے تھے۔

ایک سال جرمنی کے جلسہ سالانہ میں وقفہ کے دوران میں باہر نکلا۔ واپس جلسہ گاہ آرہا تھا تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب جلسہ گاہ میں فرش پر سیدھے لیٹے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے ذرا کمر سیدھی کر رہا ہوں گویا عادات و اطوار معاشرتی سادگی ان کا شیوہ دیکھا۔ بڑے ڈاکٹروں کے سے نخرے نہ تھے۔ میرے ساتھ مرحوم کا محبت کا سلوک 2015ء میں مسجدلطیف دارالعلوم وسطی سے نکلتے ہوئے محسوس ہوا۔ ابھی صحن ہی میں تھا تو پیچھے سے مجھے جپھی ڈال کر کہنے لگے ’’ماسٹر صاحب کب آئےہیں؟‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب کی مغفرت فرمائے۔ آمین

(ماسٹر احمد علی۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جماعت سُرینام کی مذہب کے عالمی دن کے پروگرام میں شرکت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2020