• 2 مئی, 2024

اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہجرت کرنا یہ بھی ایمان کا حصہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ: ’’شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوّت ایمانی اور قوّت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ516)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس قدر ایمان قوی ہوتا ہے، اُسی قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ قوتِ ایمانی پورے طور پر نشوونما پا جاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی امر اُس کے سدّ راہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ (کوئی روک نہیں بن رہا ہوتا)۔ ’’وہ اپنی عزیز جان تک دینے میں بھی تأمل اور دریغ نہ کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ226)

پس شہید کا رُتبہ پانا صرف جان دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان کے اعلیٰ معیار کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اپنے ہر عمل اور فعل کے کرتے وقت یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔
مختصراً یہ بھی بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے ایمان کے کیا معیار رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرہ: 4) کہ غیب پر ایمان لاؤ۔ فرمایا کہ نمازوں کو قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ تمام گزشتہ انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان رکھو۔ اس زمانے کے امام اور مسیح موعود پر بھی ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ: 5)۔ اور مومن آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی بعد میں آنے والی موعود باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور آخری زمانے کی سب سے بڑی موعود بات تو مسیح موعود کا آنا ہی ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آیت کے اس حصہ میں وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ: 5) میں میرے پر ایمان لانے کو اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا ہے۔

(ماخوذ از ریویو آف ریلجنز ماہ مارچ و اپریل 1915 صفحہ164جلد14 نمبر3و4)

پھر ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو مضبوط کرو۔ ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔ یہ بات بھی ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے۔ ہر محبت سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ اگر یہ محبت نہیں تو ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان، اُس کے فرشتوں پر ایمان، اُس کی کتابوں پر ایمان، اُس کے رسولوں پر ایمان، پہلے بھی ذکرآ چکا ہے کہ یہ سب باتیں ایمان کے لئے ضروری ہیں۔ اور پھر ان کے معیار بھی بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ پھر ایمان کا معیار اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب ایمان لانے والوں کے سامنے خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے تو اُن کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے ڈر جاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ اب جہاد بھی کئی قسم کے ہیں۔ ایک تو جہاد تلوار کا جہاد ہے وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے بند ہو گیا۔ اب نہ کوئی مذہبی جنگیں ہیں نہ اُس قسم کا جہاد ہے۔ اور وہ جہاد جو ایک احمدی کا فرض ہے اور ایمان کی مضبوطی کے لئے اور شہادت کا رُتبہ پانے کے لئے ہر جگہ اور ہر ملک میں کرنا چاہئے وہ جہاد ہے تبلیغ کا جہاد۔ پس جہاں اپنے نفسوں کے اصلاح کا جہاد کرنا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا جہاد کرنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے اور یہ جہاد ہر ملک میں اور ہر جگہ رہ کر کیا جا سکتا ہے اور یہاں آنے والے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اس جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔

اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہجرت کرنا یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔

پھر ایمان کی یہ نشانی ہے کہ جب اُن ایمان لانے والوں کواللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف بلایا جائے تو وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سن کرایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال نہیں دیں، بلکہ سنا اور اُس کی اطاعت کی اور یہی ایک حقیقی مومن کا طُرّۂ امتیاز ہونا چاہئے۔

بہت ساری باتیں ہیں، نصیحتیں کی جاتی ہیں، خطبات جو آپ سنتے ہیں، صرف اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ نے سن لئے اور بس، بلکہ اُس پر عمل کرنا، سنا اور اطاعت کی، ایسا عمل جو اطاعت کا نمونہ دکھانے والا ہو۔ پس جب یہ کوششیں ہوں گی تو حقیقی مومن بنیں گے اور پھر اُن رتبوں کی طرف بڑھیں گے جو شہادت کا رُتبہ دلاتے ہیں۔ اُن منزلوں کی طرف بڑھیں گے جو شہادت کا رُتبہ دلاتی ہیں۔ مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ بحث کرنا شروع کر دے کہ یہ حکم فلاں ہے اور اس حکم کی فلاں تشریح ہے، interpretation ہے۔ یا حجتیں کرنی شروع ہو جائے۔ یہ مومن کا کام نہیں۔ پھر یہ بھی حقیقی مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سنتے ہیں تو فرمایا کہ اُن کے دل کانپ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے آگے اُن سب احکامات پر عمل کرنے کی طاقت مانگتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والا بھی ایک حقیقی مومن ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسولﷺ من الایمان حدیث: 15)

پس یہ خصوصیات ہیں جو اس زمانہ میں مومن کی ہونی چاہئیں۔ بلکہ اس زمانے میں جیسا کہ شرائط بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے آپ کے عاشقِ صادق مسیح موعودجن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مبعوث فرمایا ہے، اُن کے ساتھ بھی تعلق سب دنیاوی تعلقوں سے زیادہ ہونا چاہئے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلدنمبر3 صفحہ 564)

پس یہ خصوصیات ہیں جو جیسا کہ مَیں نے کہا ایک مومن کی ہونی چاہئیں اور یہ خصوصیات ہوں تو چاہے وہ انسان طبعی موت مر رہا ہوشہادت کا رتبہ پاتا ہے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ یہ رُتبہ پانے کے لئے خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین پیدا کریں۔ روزِ جزا پر کامل یقین پیدا کریں۔ اپنے ہر عمل میں اس بات پر یقین رکھیں۔ ہر عمل کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر سختی کو جھیلنے کے لئے اُس سے مدد مانگیں۔ ایسی قوتِ ایمانی خدا تعالیٰ سے مانگیں جو بطور نشان کے ہو جائے۔ ایمان کو اتنا مضبوط کریں کہ کوئی دنیاوی لالچ، کوئی خواہش ہمارے ایمان میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ نیک اعمال بجا لانے کے لئے ہر قسم کے خوف سے دل و دماغ کو صاف رکھیں۔ بلا تکلف ہر نیکی کو بجا لانے والے ہوں۔ ہر نیکی ہماری فطرت کا حصہ بن جائے۔ ہم استقامت اور سکینت کی قوت پانے کے لئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ہوں۔ عبادت کے ایسے معیار تلاش کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں۔ پس یہ وہ معیار ہیں جن کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ کیا کوئی حقیقی مومن ہے جو اس کے بعد یہ سوال اُٹھائے کہ ہم شہادت کی دعا کیوں کریں؟ یہ وہ حقیقی شہادت ہے جس کے لئے ایک مؤمن کو دعا کرنا ضروری ہے تا کہ وہ حقیقی مومن بن سکے۔

(خطبہ جمعہ 14؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد جامعہ احمدیہ تنزانیہ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2022