• 7 مئی, 2024

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات (قسط پنجم – آخری)

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات
اور نظریہء وحدت الوجود کا تدریجی ارتقاء
(قسط پنجم – آخری)

نظریہ وحدت الوجود کے منطقی نتائج

پچھلی چار قسطوں میں میں نے کوشش کی کہ وحدت الوجود کے فلسفہ کو وضاحت سے بیان کر دوں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر نظریہ وحدت الوجود میں ایسی کیا بات ہے کہ یہ اتنی اہمیت اختیار کر چُکا ہے اور صوفیاء اسے ایک مذہبی عقیدہ سمجھ کر اس سے چمٹےہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس فلسفہ کے مخالفین اسے قطعا غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دے کر اسے رد کرتے چلے آئے ہیں حتی کہ اس کے بانی حضرت شیخ محی الدین ابن عربی پر کفر کے فتوے تک لگائےگئے۔ چونکہ جماعت احمدیہ بھی وحدت الوجود کے ہمہ اوست نظریے کی قائل نہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کے آخر پر وہ نکات بیان کر دوں جو اس فلسفے یا نظریے کوماننے کے منطقی نتائج کے طور پر سامنے آتے ہیں اور یہ نتائج کلیۃً اسلامی تعلیم کے مخالف اور متصادم ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ نظریہ وحدت الوجود کے دو ستون ہیں۔ ایک اعیان ثابتہ اور دوسرا وجود مطلق۔ ان دونوں پر اعتقاد کے نتیجے میں جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان کی کسی قدر تفصیل بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

اعیان ثابتہ (معلومات الہیہ یا صور علمیہ)
پر اعتقاد کے نتائج:

1۔ خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کا انکار:

ابن عربی کے نزدیک یہ کائنات ازل سے خدا کے خیال میں موجود تھی اور اس کے تمام مظاہر اعیان ثابتہ کی صورت خدا تعالیٰ کے خیال میں قائم تھے اور پھر جب خدا تعالیٰ کی تجلی ان اعیان ثابتہ پر پڑی تو وہ اپنے ظلی وجودوں کے ساتھ خارج میں نظر آنے لگ گئے۔ شیخ اکبر کا یہ نظریہ خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار اپنی خالقیت کا اظہار فرمایاہے اور کائنات کی ہر شے کو اپنی مخلوق قرار دیا ہے۔ یعنی خالق اور مخلوق کا آپس میں تعلق غیریت کا ہے نہ کہ عینیت کا۔ جیسے ایک بڑھئی جب ایک میز بنانے کا سوچتا ہے تو پہلے اس کا ایک اجمالی نقشہ اپنے ذہن میں قائم کرتا ہے جسے ابن عربی کی اصطلاح میں عین ثابت کہتے ہیں۔ پھر اس میز کی تفصیل تیار کرتا ہے کہ اس کا سائز کیا ہوگا، اونچائی کتنی ہو گی، رنگ کیسا ہوگا، دراز کی تعداد کیاہوگی وغیرہ۔ یہ جو تفصیل ہے اس کو شیخ اکبر اعیان ثابتہ کہتے ہیں۔ جب بڑھئی میز تیار کر لیتا ہے تو جیسے بڑھئی کا وجود حقیقی ہے اسی طرح میز بھی اپنا ایک حقیقی وجود رکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میز کے خیال پر بڑھئی کی تجلی پڑی اور میز اپنے ظلی وجود کے ساتھ ظاہر ہو گیا۔ بعینہ یہی تعلق خدا تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ہے یعنی دونوں کا وجود حقیقی ہے مگر ابن عربی اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں اور کائنات اور انسان کے وجود کو حقیقی وجود نہیں مانتے بلکہ اسے ظلی اور خیالی تصور کرتے ہیں۔ ابن عربی کا یہ نظریہ PLOTINUS کے EMANATION کے نظریہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

2۔ عابد و معبود کے تعلق کا انکار:

قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کی پیدائش کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ فرمایا:

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ

(الذاریت: 57)

ترجمہ: اور میں نے جن وانس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔

پھر فرمایا:

وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ

(الحجر: 100)

اور اپنے رب کی عبادت کرتا چلا جا یہاں تک کہ تجھے یقین آ جائے۔

عبد اور معبود کا تعلق صرف اسی صورت قائم ہو سکتا ہے جب دونوں اپنے حقیقی وجودوں کے ساتھ قائم ہوں۔ اگر خدا کا وجود حقیقی ہے اور انسان محض ایک سایہ اور ظل ہے تو اس پر عبادت کیسے فرض قرار دی گئی۔ میں پہلے ابن عربی کا وہ مشہور شعر نقل کر چکا ہوں جس میں وہ فرماتے ہیں

؎اَلرَّبُّ حَقٌّ، وَالْعَبْدُ حَقٌّ
یَا لَیْتَ شَعْرِیْ مَنِ الْمُکَلّفِ

یعنی رب بھی خدا ہے اور عبد (انسان) بھی خدا ہے۔ کاش مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔ اس شعر کی بنا ء پر ابن عربی پر کفر کا فتوی بھی لگایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وجودی کہتے ہیں کہ جب ہم خدا کے وجود کا حصہ ہیں تو کیا ہم خود اپنی عبادت کرنا شروع کر دیں۔ اسے ارشاد خداوندی اور اسوہ رسول کی کھلی نافرمانی کےسوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی آیات محکمات میں بار بار اور تاکیدی طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے وہ سب مخلوق ہے اور خدا اور انسان میں ابدی امتیاز ہے کہ جو نہ اس عالم میں اور نہ دوسرے عالم میں مرتفع ہو گی۔اس جگہ بھی بندگی بیچارگی ہے اور وہاں بھی بندگی بیچارگی ہے۔ بلکہ اُس پاک کلام میں نہایت تصریح سے بیان فرمایا گیا ہے کہ انسان کی روح کے لئے عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اس کی پیدائش کی عبودیت ہی علت غائی ہے‘‘۔

(مکتوب بنام میر عباس علی لدھیانوی نمبر41، مکتوبات احمد جلد اول صفحہ590)

3۔ خدا تعالیٰ کی صفت قدیر کا انکار:

اسلام میں خدا کا تصور ایک قادر مطلق ہستی کا ہے جس کی قدرت لامحدود ہے اور وہ جب چاہے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کر سکتا ہے۔ اس کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں وہ کسی شے میں اور کائنات میں ہونے والے کسی واقعہ میں جب چاہےتبدیلی لا سکتا ہے۔ ابن عربی نے اعیان ثابتہ کا جو تصور پیش کیا اس کے مطابق یہ کائنات اعیان ثابتہ کی شکل میں ازل سے خداکے علم میں تھی اور جو کچھ گزر چُکا وہ سب کچھ اور قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کی ایک ایک تفصیل ازل سے خدا کےعلم میں موجود ہے اور یہ کائنات اُس طے شُدہ پروگرام کے مطابق ہی چل رہی ہے۔ اگر خدا چاہے بھی تو اس میں تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا ورنہ یہ تبدیلی خدا کے علم کے خلاف ٹھہرے گی۔ جبکہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حاکمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ جب چاہے اس پروگرام میں تبدیلی کر کے اسے نئی شکل میں ڈھال سکتا ہے۔اسی لئے فرمایا:

وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ

(البقرہ: 118)

اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ اسے محض ہو جا کہتا ہے تو وہ ہونے لگتا ہے اور ہو کر رہتا ہے۔

؎ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

(درثمین)

4۔ قبولیت دعا کا انکار:

خدا تعالیٰ کی صفت قدیر سے انکار کا ایک لازمی نتیجہ قبولیت دعا کا انکار کرنا ہے کیونکہ اگر ہر چیز اس کائنات میں ازل سے ابد تک ایک طے شُدہ پروگرام کے مطابق چل رہی ہے جس میں خدا چاہے بھی تو تبدیلی نہیں کر سکتا تو پھر دعا کرنے کا کیا فائدہ؟۔ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر قبولیت دعا کی بشارت دی ہے۔ فرمایا۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن: 61) ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ اور تعلیم ہمارے سامنے ہے۔ سرسید احمد خان بھی ابن عربی کے نظریے کے قائل تھے اور دعا کو محض ایک عبادت سمجھتے تھے۔ اسی باطل نظریے کے رد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پُر معارف کتاب ’’برکات الدعا‘‘ تحریر فرمائی اور بڑی وضاحت سے سر سید احمد خان پران کی غلطی واضح کرتے ہوئے دعا کی قبولیت کا فلسفہ بیان فرمایا۔ حضور اپنی ایک اور تصنیف ’’ایام الصلح‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’نادان خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بے ہودہ امر ہے مگر اُسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دعا ہی ہے جس سے خداوند ذوالجلال ڈھونڈنے والوں پر تجلی کرتا ہے اور اَنَا الْقَادِرُ کا الہام ان کے دلوں پر ڈالتا ہے۔ ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یاد رکھے کہ اس زندگی میں روحانی روشنی کے طالب کے لئے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بخشتا اور تمام شکوک وشبہات دور کر دیتا ہے۔‘‘

5۔ یوم آخرت میں سزا جزا کا انکار :

ابن عربی کے نظریہ وجود مطلق کے مطابق وجود حقیقی صرف خدا کی ذات ہے اور باقی وجود ظلی اور اعتباری ہیں۔ وحدت الوجود ہمہ اوست ہی کا دوسرا نام ہے اور اگر سب خدا کے وجود ہی کا حصہ ہیں تو روز قیامت سوال جواب کس سے ہوگا؟ کیا خدا اپنے آپ سے مؤاخذہ کرے گا؟ اعیان ثابتہ کے نظریے کے مطابق جب کائنات کی ہر حرکت اور اچھائی اور برائی ازل سے خدا کے علم میں موجود ہے تو انسان بے اختیار ہوا تو پھر جزا سزا کس لئے مقرر کی گئی؟ اسی وجہ سے وجودیوں کی عملی حالت نہایت خراب اوربے راہ روی کا شکار نظر آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قایان میں بعض وجودی رہتے ہیں جو دین اور سچائی کے سخت مخالف بلکہ اللہ اور رسول کے علانیہ منکر ہیں۔‘‘

’’پنجاب کے وجودی اکثر تارک الصلوت والصوم، زانی، فاسق، فاجر بلکہ کجرو، شارب الخمر وغیرہ ہیں۔‘‘

(مکتوب بنام منشی مظہرحسین صاحب۔ مکتوب نمبر 1۔ مکتوبات احمد جلد اول)

اس نظریے کی بہترین عکاسی میر کے ان اشعار میں کی گئی ہے

؎ مختاری نام اسی کا ہے مجبوری اسی کو کہتے ہیں
جو آپ نے چاہا ہو کے رہا جو ہم نے چاہا ہو نہ سکا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سوآپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

(میر تقی میر)

6۔ عملی زندگی میں جدوجہد سے فرار:

اعیان ثابتہ پر اعتقاد کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جب تقدیر خیر وشر ازل سےلکھی جا چُکی ہے جسے خدا چاہے بھی تو تبدیل نہیں کر سکتا اوردعا کی حیثیت ایک عبادت سے زیادہ کچھ نہیں تو پھر انسان اپنے حالات میں بہتری لانے کے لئے جدوجہد کیوں کرے گا۔ اس لحاظ سے وحدت الوجود کا عقیدہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف انسان کو راغب کرتا ہے۔

وجود مطلق پر اعتقاد کے بد نتائج:

نظریہ وحدت الوجود کا دوسرا بڑا ستون وجود مطلق ہے جس کے مطابق اس کائنات کی ہر شے خدا کے وجود کا حصہ ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا مخلوق ہے اور مخلوق خدا ہے۔ ابن عربی نے خدا کو وجود مُدرِک اور کائنات کو معنی قرار دیا یعنی جو رشتہ لفظ اورمعانی کا ہے وہی خدا اور کائنات کا ہے۔ جس طرح لفظ کو اس کے معنیٰ سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح خدا اور کائنات کوایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور خدا کا مخلوق کی طرف سفر تنزلات کی صورت میں ہوا ہے۔ اس غلط نظریے کی زد خداتعالیٰ اور مخلوق دونوں پر پڑتی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا کی روح انسان کے اندر ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تمام بدیاں اور گناہ جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں وہ خدا میں بھی پائے جاتے ہیں اور روز قیامت انسان کے ساتھ خدا کا بھی حساب ہوگا اورخدا خود بھی انسان کے ساتھ جہنم کی آگ میں جلے گا۔ جبکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کی صفت پاک اور قدوس ہے جو ہر نیکی اور اچھائی کا سرچشمہ اور ہر قسم کی بدی سے پاک ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’محی الدین ابن عربی صاحب جا بجا اپنی تالیفات میں اسی پر زور دیتے ہیں کہ ’’الخالق عین مخلوقہُ‘‘ دیکھو فصوص الحکم پہلے ہی صفحات پر۔ پس جب کہ وجودی بزعم خود خدا ہوئے تو اب کس قدر ان پر اعتراض ہوتے ہیں۔ کیا کوئی گن سکتا ہے؟ کیا خدائے عزوجل کی روح کبھی خدائی کے مرتبہ سے تنزل بھی کرتی ہے اور اس سے گناہ اور فسق و فجور اور ہر طرح کی حرامکاری سرزد ہوتی ہے؟ اور نیز ضعف اور جہل اور نادانی وغیرہ رذائل اس کے عائد حال ہو جاتے ہیں اور پھر جہنم ابدی اس کے نصیب ہوتا ہے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھٰذَا الْخَرَافَاتِ وَ سُبْحٰنَ رَبِّنَا عَمَّا یَصِفُوْنَ‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ نمبر 648)

اللہ تعالیٰ کی تحقیر کے ساتھ ساتھ انسان اور معاشرے پر بھی اس نظریے کے بداثرات بڑے نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔

وجود مطلق کے مطابق تمام مخلوق نہ صرف خدا کے وجود کا حصہ ہے بلکہ آپس میں بھی ان میں کوئی فرق نہیں۔ محی الدین ابن عربی تو موسی اور فرعون کو بھی ایک قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے ماں، بہن، بیٹی، بیوی، باپ، بھائی اور دوسرے سب رشتے زیر وزبر ہو جاتے ہیں۔ وجودیوں سے جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ رشتے معاشرے نے قائم کئے ہیں ورنہ ہم کسی رشتے میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ وحدت الوجود کے نظریے نے مسلمانوں میں شرک کو جنم دیا جو اولیاء پرستی اور مزاروں اور قبروں کی پرستش کی صورت میں آج بھی جاری ہے اور یہی وہ گروہ ہے جو وحدت الوجود کا سب سے بڑا حامی ہے۔

کائنات کے اسرار و رموز اور ربط الحادث بالقدیم پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ انسان صرف اسی حدتک اپنے علم کا اور ذہن کا استعمال کر سکتا ہے جتنا خدائے علیم و خبیر نے اسے عطا کیا ہے۔ اس سے زیادہ کی نہ اسے استطاعتدی گئی ہے اور نہ ہی اجازت دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ

(البقرہ: 256)

اور وہ اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔

انسان کو اپنی ذات اور ارد گرد کی طبعی اشیاء کا بھی پورا حال معلوم نہیں اور دعوی یہ کے مابعد الطبیعات کے اسرار تک اس کی رسائی ہو گئی ہے۔

؎ یہ حیات کیا یہ ممات کیا، یہ عدم ہے کیا یہ وجود کیا
تیری کائنات کا راز تو نہ کسی پہ تیری قسم کھلا
ہے یہ لامکان و مکان کیا، ہیں رموز و سر جہان کیا
کوئی کیسا ذہن رسا ہو اُس پہ بہت کھلا بھی تو کم کھلا

(صاحبزادی امۃ القدوس)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

؎ کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسر ار کا
تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
کس سے کھل سکتا ہے پیچ اس عقدۂ دشوار کا

(ڈاکٹر فضل الرحمن بشیر۔موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 فروری 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا