• 28 اپریل, 2024

تقویٰ کے دو پہلو

تقویٰ کے دو پہلو ہیں۔ ایک ترک شر اور دوسرا ایصال خیر۔

قرآن کریم کی آیت اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129) سے یہ مفہوم روز روشن کی طرح درخشاں ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس آیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔ تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو۔ اور مُحۡسِنُوۡنَ وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں۔ پھر یہ بھی فرمایا:

لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی

(یونس: 27)

یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کرکرتے ہیں۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ بخوبی آپؑ کی اسبات سے بھی ہوتا ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں:
مجھے یہ وحی باربارہوئی اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129) اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا۔ خدا جانے دوہزار مرتبہ ہوئی ہو۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ652)

آپؑ نصیحت کی غرض سے فرماتے ہیں:
اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہوجاوے کہ صرف اسبات پر ہی فریفتہ نہیں ہوجانا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہوگئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اورپھر نیکی ساتھ ہو۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ 652)

تقویٰ کی باریک راہیں

حضرت سیدالانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کی سیرت طیبہ کے اس ایک واقعہ سے بھی اسپر روشنی خوب پڑتی ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جب میں اپنے گھر لوٹ کرجاتا ہوں تو اپنے بستر پر کھجور پاتا ہوں۔ اسکو اٹھاتا ہوں کہ کھاؤں مگر مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی نہ ہو۔اس لئے میں اسے چھوڑ دیتا ہوں۔

(کتاب اللقطۃ۔بخاری)

آنحضرتﷺ کی ازواج مطہراتؓ میں فطری لحاظ سے نظریاتی طورپردوگروہ تھے،ایک میں حضرت عائشہؓ، سودہؓ، حفصہؓ اور صفیہؓ تھیں۔ جبکہ دوسرے میں حضرت ام سلمہؓ اور باقی تھیں۔ ایک موقعہ پریہ معاملہ اٹھا جب آنحضرتﷺ حضرت عائشہؓ کے ہاں تشریف فرما ہوتے تواکثرصحابہ اپنے ہدایا انکے ہاں بجھوایا کرتے۔ یہ بات حضرت ام سلمؓہ وغیرہ کواچھی نہ لگی۔ان کا مطالبہ تھا کہ سب ازواج کے گھروں میں برابر ہدایہ صحابہ بجھوائیں صرف عائشہ ہی کیوں؟ ام سلمہؓ نے تین باراسبات کا تذکرہ آپؐ سے کیا۔ تو فرمایا۔ عائشہ کی بابت مجھے اذیت نہ دو۔اسی کے ہاں مجھے وحی الہٰی ہوتی ہے۔پھر حضرت فاطمہؑ کے ذریعہ سفارش کرائی گئی۔ اس پہ بھی کامیابی نہ ہوئی تو حضرت زنیب بنت جحش بارگاہ نبوت میں یہ کیس لیکرپیش ہوئیں۔ زبان میں تیزی تھی اور حضرت عائشہ کی بابت بھی سخت باتیں کیں۔ آنحضرتﷺ نے عائشہ کی جانب دیکھا تو عائشہ نے جواباً زینب کو خاموش کرا دیا۔ اسپر نبی اکرمﷺ نے فرمایا، اِنَّھَا بِنْتُ اَبِیْ بَکْرٍ۔ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔

(کیاب الھبہ۔بخاری)

ایک طرف حضرت زینبؓ کا حضرت عائشہؓ کی نسبت یہ فکری عدم مناسبت لیکن دوسری جانب تقویٰ کا یہ معیارکہ جب واقعہ افک ہوا اور رسول کریمﷺ عائشہؓ کی ذات و کردارکی بابت شواہد جمع کر رہے تھے۔اس سلسلہ میں حضرت اسامہ بن زید، حضرت علی، بریرہ لونڈی اور حضرت زینب بنت جحش کی آراء لی گئیں۔ حضرت زینب سے دریافت کیا گیا۔ مَا عَلِمْتِ مَا رَاَیْتِ؟

آپؓ نے عرض کیا:

یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اَحْمِیْ سَمْعِیْ وَ بَصَرِیْ۔وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلَیْھَآ اِلَّا خَیْرًا۔

(کتاب حدیث الافک۔بخاری)

یعنی یا رسول اللہﷺ!میں کان اور آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں۔ بخدا میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وہ میری ہمسر تھیں مگر اللہ نے اسے تقویٰ کے سبب بچا لیا۔

حضرت مسیح موعودؑ شان اتقا کی نسبت فرماتے ہیں:

؎ جڑ ہے ہر ایک خیروسعادت کی اتقا
جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اسکاسب رہا

(محمد اشرف کاہلوں)

پچھلا پڑھیں

سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد جامعہ احمدیہ تنزانیہ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2022