• 10 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 35)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 35

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

  • ایک شخص نے سوال کیا کہ وہ کیا راہ ہے جس سے انسان خدا کو پاسکے؟

فرمایا:۔ ’’جو لوگ برکت پاتے ہیں ان کی زبان بند اور عمل ان کے وسیع اور صالح ہوتے ہیں۔ پنجابی میں کہاوت ہے کہ کہنا ایک جانور ہوتا ہے اس کی بد بو سخت ہوتی ہے اور کرنا خوشبو دار درخت ہوتا ہے۔ سوایسا چاہئے کہ انسان کہنے کی نسبت کر کے بہت کچھ دکھائے۔ صرف زبان کام نہیں آتی۔ بہت سے ہوتے ہیں جو باتیں بہت بناتے ہیں اور کرتے ہیں۔ نہایت سست اور کمزور ہوتے ہیں۔ صرف باتیں جن کے ساتھ روح نہ ہو وہ نجاست ہوتی ہیں۔ بات وہی برکت والی ہوتی ہے جس کے ساتھ آسمانی نور ہو اور عمل کے پانی سے سرسبز کی گئی ہو۔ اس کے واسطے انسان خودبخودہی نہیں کرسکتا۔ چاہئے کہ ہر وقت خدا سے دعا کرتا رہے اور دردو گداز سے، سوز سے اس کے آستانہ پرگرا رہے اور اس سے توفیق ما نگے ورنہ یاد رکھے کہ اندھا مرے گا۔

دیکھو جب ایک شخص کو کوڑھ کا ایک داغ پیدا ہو جاوے تو وہ اس کے واسطے فکرمند ہوتا ہے اور دوسری با تیں اسے بھول جاتی ہیں۔ اسی طرح جس کو رُوحانی کوڑھ کا پتہ لگ جاوے۔ اسے بھی ساری باتیں بھول جاتی ہیں اور وہ سچے علاج کی طرف دوڑ تا ہے مگر افسوس کہ اس سے آگاہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ انسان کے واسطے یہ مشکل ہے کہ وہ سچی توبہ کرے ایک طرف سے توڑ کر دوسری طرف جوڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ہاں مگر جسے خدا توفیق دے۔ ہاں ادب سے، حیا سے، شرم سے اُس سے دعا اور التجا کرنی چاہئے کہ وہ توفیق عطا کرے اور جو ایسا کرتے ہیں وہ پا بھی لیتے ہیں اور ان کی سنی بھی جاتی ہے۔

صرف باتونی آدمی مفید نہیں ہوتا۔ کپڑا جتنا سفید ہوتا ہے اور پہلے اس پر کوئی رنگ نہیں دیا جاتا اتنا ہی عمده رنگ اس پر آتا ہے۔ پس تو اس طرح اپنے آپ کو پاک کرو تا تم پر خدائی رنگ عمده چڑھے۔ اہلِ بیت جو ایک پاک گروہ اور بڑا عظیم الشان گھرانا تھا۔ اس کے پاک کرنے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَیُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا

(الاحزاب: 34)

میں بھی ان سے ناپاکی اور نجاست کو دور کروں گا اور خودہی ان کو پاک کیا تو بھلا اور کون ہے جو خود بخود پاک صاف ہونے کی توفیق رکھتا ہو۔ پس لازمی ہے کہ اس سے دعا کر رہو اور اسی کے آستانہ پر گرے رہوساری تو فیقیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ60-61 ایڈیشن 2016ء)

  • ’’یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے اور اس کی برکات اور تاثیرات اسی شخص سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتا ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہو گا، لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشو و نما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشو و نما کے قابل ہوتا ہے۔ لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا۔ صوفیوں نے بعض جگہ لکھا ہے کہ اگر مرید کو اپنے مرشد کے بعض مقامات پر بظاہر غلطی نظر آوے تو اسے چاہئے کہ اس کا اظہار نہ کرے اگر اظہار کرے گا تو حبطِ عمل ہو جاوے گا (کیونکہ اصل میں وہ غلطی نہیں ہوتی صرف اس کے فہم کا اپنا قصور ہوتا ہے) اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دستور تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں اس طرح بیٹھتے تھے جیسے سر پر کوئی پرندہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان سر اوپر نہیں اُٹھا سکتا یہ تمام ان کا ادب تھا کہ حتی الوسع خود کبھی کوئی سوال نہ کرتے۔ ہاں اگر باہر سے کوئی نیا آدمی آ کر کچھ پوچھتا تو اس ذریعہ سے جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے نکلتا وہ سن لیتے صحابہ بڑے متادّب تھے اس لیے کہا ہے کہ اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ۔ جو شخص ادب کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو پھر شیطان اس پر دخل پاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی نوبت ارتداد کی آ جاتی ہے اس ادب کو مدِ نظر رکھنے کے بعد انسان کو لازم ہے کہ وہ فارغ نشین نہ ہو۔ ہمیشہ توبہ استغفار کرتا رہے اور جو مقامات اسے حاصل ہوتے جاویں ان پر یہی خیال کرے کہ میں ابھی قابل اصلاح ہوں اور یہ سمجھ کر کہ بس میرا تزکیہ نفس ہو گیا وہاں ہی نہ اڑ بیٹھے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ306 ایڈیشن 2016ء)

  • ’’اگر کوئی شخص بیعت کر کے یہ خیال کرتا ہے کہ ہم پر احسان کرتا ہے تو یاد رکھے کہ ہم پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس نے یہ موقعہ اس کے نصیب کیا۔ سب لوگ ایک ہلاکت کے کنارہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ دین کا نام ونشان نہ تھا اور تباہ ہورہے تھے۔ خدا نے ان کی دستگیری کی ( کہ یہ سلسلہ قائم کیا) اب جواس مائدہ سے محروم رہتا ہے وہ بے نصیب ہے لیکن جو اس کی طرف آوے۔ اسے چاہئے کہ اپنی پوری کوشش کے بعد دعا سے کام لیوے۔ جو شخص اس خیال سے آتا ہے کہ آزمائش کرے کہ فلاں سچا ہے یا جھوٹا وہ ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ آدمؑ سے لے کر اس وقت تک کوئی ایسی نظیر نہ پیش کر سکو گے کہ فلاں شخص فلاں نبی کے پاس آزمائش کے لئے آیا اور پھر اسے ایمان نصیب ہوا ہو۔ پس چاہئے کہ خدا کے آگے رووے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر گریہ وزاری کرے کہ خدا اُسے حق دکھاوے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 347 ایڈیشن 2016ء)

نفس کے حقوق

  • ’’صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہو گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّلۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا

(التوبہ: 82)

کہ ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں۔ اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رو رہا ہے وہی روتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ کرخشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز و نیاز سے خدا کے آستانہ پرگر پڑے تا کہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں۔ اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ ہنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے۔ بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں ہے۔ اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے۔

جب لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں۔ کیا ہم نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کو حقیقت ایمان کا علم نہیں ہے۔ اگر علم ہوتا تو وہ ایسی باتیں نہ کرتے۔ اسلام کا مغز کیا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں۔ حالانکہ خدا کی یہ عادت قدیم سے چلی آئی ہے کہ جب مغز اسلام چلا جا تا ہے تو اس کے ازسرنو قائم کرنے کے واسطے ایک کو مامور کر کے بھیج دیتا ہے تا کہ کھائے ہوئے اور مرے دل پھر زندہ کئے جاویں مگر ان لوگوں کی غفلت اس قدر ہے کہ دلوں کی مردگی محسوس نہیں کرتے خدا تعالیٰ فرماتا ہے بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

(البقرہ:113)

یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے اور نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لیے قائم ہو جاوے گویا اس کے قویٰ خدا تعالیٰ کے لیے مر جاتے ہیں گویا وہ اس کی راہ میں ذبح ہوجاتا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اس اسلام کا نمونہ دکھلا یا کہ اراده الٰہی کی بجا آوری میں اپنے نفس کو ذرہ بھی دخل نہ دیا اور ایک ذراسے اشارہ سےبیٹے کو ذبح کرنا شروع کر دیا۔ مگر یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ جو کام ہیں ان میں ملونی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ان میں سے رسالہ جاری کرتا ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ روپیہ کماوے بال بچے کا گذارہ ہو۔ ابھی حال میں ایک شخص کا خط آیا ہے لکھتا ہے کہ میں نے عبد الغفور کے مرتد ہونے پر اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں ایک رسالہ لکھنا شروع کیا ہے۔ امداد فرماویں ۔ ان لوگوں کو اس بات کاعلم نہیں ہے کہ اسلام کیا شے ہے۔ خدا کی طرف سے کوئی نفخ روح اس میں نہیں لیکن رسالہ لکھنے کوطیارہے۔ ایسے شخص کو چاہئے تھا کہ اوّل تزکیہ نفس کے لئے خود یہاں آتا اور پوچھتا اور اوّل خود اپنے اسلام کی خبر لیتا، لیکن عقل، دیانت اور سمجھ ہوتی تو یہ کرتا۔ مقصود تو اپنی معاش ہے اور رسالہ کو ایک بہانہ بنایا ہے۔ ہر ایک جگہ یہی بد بو آتی ہے کہ جو کام ہے خدا کے لئے نہیں بیوی بچوں کے لیے ہے۔جو خدا کا ہو جاتا ہے تو خدا اس کا ہو جاتا ہے اور اس کی تائیدیں اور نصرت کا ہاتھ خود اس کے کاموں سے معلوم ہو جاتی ہیں اور آخر کار انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ ایک غیب کا ہاتھ ہے جو اسے ہر میدان میں کامیاب کر رہا ہے۔ انسان اگر اس کی طرف چل کر آوے تو وہ دوڑ کر آتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف تھوڑا سا رجوع کرے تو وہ بہت رجوع ہوتا ہے۔ وہ بخیل نہیں ہے سخت دل نہیں ہے۔ جو کوئی اس کا طالب ہے تو اس کا اوّل طالب وہ خود ہوتا ہے۔ لیکن انسان اپنے ہاتھوں سے اگر ایک مکان کے دروازے بند کردیوے تو کیا روشنی اس کے اندر جاوے گی؟ ہرگز نہیں۔ یہی حال انسان کےقلب کا ہے۔ اگر اس کا قول و فعل خدا کی رضا کے موافق نہ ہوگا اور نفسانی جذبات کے تلے وہ دباہواہوگا تو گویا دل کے دروازے خود بند کرتا ہے کہ خدا کا نور اور روشنی اس میں داخل نہ ہو، لیکن اگر وہ دروازوں کو کھولے گا تو معاً نور اس کے اندر داخل ہو گا۔

ابدال، قطب اور غوث وغیرہ جس قدر مراتب ہیں یہ کوئی نماز اورروزوں سے ہاتھ نہیں آتے۔ اگر ان سے یہ مل جاتے تو پھر یہ عبادات تو سب انسان بجالاتے ہیں۔ سب کے سب ہی کیوں نہ ابدال اور قطب بن گئے۔ جب تک انسان صدق وصفا کے ساتھ خدا کا بندہ نہ ہوگا۔ تب تک کوئی درجہ ملنامشکل ہے۔ جب ابراہیم کی نسبت خداتعالیٰ نے شہادت دی وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا۔ تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنااور محبت ِ الہٰی سے بھرنا، خدا کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے و یسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں۔ نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پردعا کرے لیکن جو شخص سویا ہوا نمازادا کرتا ہے کہ اسے اس کی خبرہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں۔ جیسے دیکھا جا تا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں، لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا حالا نکہ نماز وہ شے ہے کہ جس سے پانچ دن میں روحانیت حاصل ہوجاتی ہے۔ بعض نمازیوں پر خدا نے لعنت بھیجی ہے جیسے فرماتا ہے فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ (الماعون: 5) وَیۡل کے معنے لعنت کے بھی ہوتے ہیں۔ پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سُست نہ ہو اور نہ غافل ہو۔

ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شے پر مقدم رکھے۔ بہت سی ریا کاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے پوچھا جاوے تو لوگ کہتے ہیں کہ برادری کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔ ایک حرام خور کہتا ہے کہ بغیر حرام خوری کے گذارا نہیں ہوسکتا۔ جب ہر ایک حرام گذارہ کے لیے انہوں نے حلال کر لیا تو پوچھو کہ خدا کیا رہا؟ اورتم نے خدا کے واسطے کیا کیا؟ ان سب باتوں کو چھوڑ نا موت ہے جو بیعت کر کے اس موت کو اختیار نہیں کرتا تو پھر یہ شکایت نہ کرے کہ مجھے بیعت سے فائدہ نہیں ہوا۔ جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جاتا ہے تو جو پرہیز وہ بتلاتا ہے اگر اسے نہیں کرتا تو کب شفا پا سکتا ہے، لیکن اگر وہ کرے گا تو یوماً فیوماً ترقی کرے گا تو یہی اصول یہاں بھی ہے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 308-311 ایڈیشن 2016ء)

بنی نوع کے حقوق

  • سیالکوٹ کے ضلع کا ایک نمبردار تھا۔ اس نے بیعت کرنے کے بعد پوچھا کہ حضور اپنی زبان مبارک سے کوئی وظیفہ بتادیں۔

’’فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے اور اسی میں ساری لذات اور خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ صدق دل سے روز ے رکھو۔ صدقہ و خیرات کرو۔ درود اور استغفار پڑھا کر و۔ اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو۔ ہمسایوں سے مہربانی سے پیش آؤ۔ بنی نوع بلکہ حیوانوں پر بھی رحم کرو اور ان پر بھی ظلم نہ چاہئے۔ خدا سے ہر وقت حفاظت چاہتے رہو کیونکہ ناپاک اور نامراد ہے وہ دل جو ہر وقت خدا کے آستانہ پر نہیں گرا رہتا وہ محروم کیا جاتا ہے۔ دیکھو اگر خدہی حفاظت نہ کرے تو انسان کا ایک دم گذارہ نہیں۔ زمین کے نیچے سے لے کر آسمان کے اوپر تک کا ہر طبقہ اس کے دشمنوں کا بھرا ہوا ہے۔ اگر اسی کی حفاظت شاملِ حال نہ ہو تو کیا ہوسکتا ہے۔ دعا کرتےرہو کہ الله تعالیٰ ہدایت پر کار بند رکھے۔ کیونکہ اس کے ارادے دو ہی ہیں۔ گمراہ کرنا اور ہدایت دیناجیسا کہ فرماتا ہے۔ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّیَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا (البقرہ: 27) پس جب اس کے ارادےگمراہ کرنے پر بھی ہیں تو ہر وقت دعا کرنی چاہئے کہ وہ گمراہی سے بچاوے اور ہدایت کی توفیق دے۔ نرم مزاج بنو کیونکہ جو نرم مزا جی اختیار کرتا ہے خدا بھی اس سے نرم معاملہ کرتا ہے۔ اصل میں نیک انسان تو اپنا پاؤں بھی زمین پر پھونک پھونک کر احتیاط سے رکھتا ہے تا کسی کیڑے کو بھی اس سے تکلیف نہ ہو۔ غرض اپنے ہاتھ سے، پاؤں سے، آ نکھ وغیرہ اعضاء سےکسی کو کسی نوع کی تکلیف نہ پہنچاؤ اور دعائیں مانگتے رہو‘‘

مرزا خدا بخش صاحب مالیر کوٹلہ سے تشریف لائے تھے۔ ان سے وہاں کے جلسہ کے حالات در یافت فرماتے رہے۔ انہوں نے سنایا کہ ایک شخص نے یوں اعتراض کیا کہ اسلام میں جو چار بیویاں رکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور ساری بداخلاقیوں کا سرچشمہ ہے۔

حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
’’چار بیویاں رکھنے کا حکم تونہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چارہی کو گلے کا ڈھول بنالے۔ قرآن کا منشاء تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چارتک کی اجازت دے دی ہے ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعویٰ بھی کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے۔ وہ تو اسلام کے معترض ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ بھلا اگرکسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جذام ہوگیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اندھی ہوگئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حاصل ہو سکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلا ہو جاوے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہئے کیا اسی بیوی پر قناعت کرے؟ ایسی مشکلات کے وقت وہ کیا تدبیر پیش کرتے ہیں۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بدمعاشی زنا وغیرہ میں مبتلا ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پُر عصمت بیوی کا خطاب دے رکھے؟ خداجانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریات کو ہی پورا نہیں کرسکتا۔ اب ان مذکورہ حالتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے؟ قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنا دیا ہو۔ اب تو انگلستان میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے۔ ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کرلی آخر اسےسزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جارہا۔

غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرے جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کر نے کوقرآن شریف سی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ236-238 ایڈیشن 2016ء)

(ترتیب و کمپوزنگ: خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد، لٹویا)

پچھلا پڑھیں

پیارے امام کا پیغام عہدیداران کے نام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2022