• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 5)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 5

رشک کا مقام دعا ہے

  • دنیا کی دولت اور سلطنت رشک کا مقام نہیں۔ مگر رشک کا مقام دعا ہے میں نے اپنے احباب حاضرین۔ اور غیر حاضرین کے لئے جن کے نام یاد آئے یا شکل یاد آئی۔ آج بہت دعا کی اور اتنی دعا کی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی تو سر سبز ہوجاتی ہمارے احباب کے لئے یہ بڑی نشانی ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 239 آن لائن ایڈیشن 1984)

مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے
کی دعا قبول ہوتی ہے

  • … اس دن سے ڈرنا چاہیئے جب ایک دفعہ ہی وبا آپڑے اور سب کو تباہ کرڈالے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ کیونکہ خوف و خطر میں مبتلا ہونے کے وقت تو ہر شخص دعا اور رجوع الی اللہ کر سکتا ہے۔ سعادتمندی یہی ہے کہ امن کے وقت دعا کی جائے۔ انسان کو چاہیئے۔ کہ ان لوگوں کی حالت سے عبرت حاصل کرے جو اس خطرہ میں مبتلا ہیں۔ یہاں سے تو بہت قریب گاؤں میں یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ وہاں کے حالات دریافت کرکے ہر شخص قبل از وقت عبرت حاصل کرسکتا ہے…

(ملفوظات جلد اول صفحہ 262-263 آن لائن ایڈیشن 1984)

اپنی صداقت پر چار قسم کے نشانات

  • اول۔ عربی دانی کا نشان…. دوم۔ دعاؤں کا قبول ہونا۔ میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے۔ اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مستثنیٰ کرتاہوں (کیونکہ ان کی طفیل اور اقتداء سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے) اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دولاکھ یا کتنی۔ اور بعض نشانات قبولیت کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالم ان کو جانتا ہے…

(ملفوظات جلد اول صفحہ277 آن لائن ایڈیشن 1984)

عربی تصنیفات میں ایک ایک لفظ دعا ہی کا اثر ہے

  • عربی تصنیفات میں ایک ایک لفظ دعا ہی کا اثر ہے ورنہ انسانی طاقت کا کام نہیں۔ کہ تحدی کرے۔ اگر دعا کا اثر نہیں تو پھر کیوں کوئی مولوی یا اہلِ زبان دم نہیں مار سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اہلِ زبان کے رنگ اور مُحاورہ پر ہماری کُتب تصنیف ہوئی ہیں۔ ورنہ اہل زبان بھی سارے اس پر قادر نہیں ہوتے کہ کُل مُسلّم محاورات زبان پر اطلاع رکھتے ہوں۔ پس یہ خدا ہی کا فضل ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ280 آن لائن ایڈیشن 1984)

دعا کیا ہے؟

  • سخت ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ دعا کے مضمون پر پھر قلم اٹھایا جائے۔ کیونکہ پہلے مضامین اس بارہ میں کافی ثابت نہیں ہوئے۔ دعاء نہایت نازک امر ہے اور اس کے لئے شرط ہے کہ مستدعی اور داعی میں ایسا مستحکم رابطہ ہوجائے کہ ایک کا درد دوسرے کا درد ہوجائے اور ایک کی خوشی دوسرے کی ہوجائے۔ جس طرح شیر خوار بچہ کا رونا ماں کو بے اختیار کردیتا اور اس کی چھاتیوں میں دودھ اتار دیتا ہے ویسے ہی مستدعی کی حالت زار اور استغاثہ پر داعی سراسر رقت اور عقد ہمت بن جائے۔

دعا کیلئے توجہ اور رقت بھی
خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے

  • فرمایا: اصل بات یہ ہے کہ یہ سب امور خدا تعالیٰ کی موہبت ہیں۔ اکتساب کو ان میں دخل نہیں۔ توجہ اور رقت بھی خداتعالیٰ کے ہاں سے نازل ہوتی ہے۔ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی کے لئے کامیابی کی راہ نکال دے۔ تو وہ داعی کے دل میں توجہ اور رقت ڈال دیتاہے۔ مگر سلسلہ اسباب میں ضروری ہوتا ہے کہ داعی کو کوئی محرک شدید جنبش اور حرکت دینے والا ہو۔ اس کی تدبیر بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ مستدعی اپنی حالت ایسی بنائے کہ اضطراراً داعی کو اس کی طرف توجہ ہوجائے۔
  • فرمایا کہ جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتا ہوں۔وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کرلوں۔ کہ یہ خدمتِ دین کے سزا وار ہے اور اس کا وجود خداتعالیٰ کے لئے، خدا کے رسولؐ کے لئے خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے۔ ایسے شخص کو جو دردوالم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچتا ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ323-324 آن لائن ایڈیشن 1984)

ہماری جماعت کو ہمت نہیں ہارنی چاہیئے

  • ہماری جماعت کو چاہیئے کہ ہمت نہ ہار بیٹھے۔ یہ بڑی مشکلات نہیں ہیں۔ میں تمہیں یقیناً کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری مشکلات آسان کردی ہیں۔ کیونکہ ہمارے سلوک کی راہیں اور ہیں۔ ہمارے ہاں یہ حالت نہیں ہے کہ کمریں جھک جائیں یا ناخن بڑھالیں۔ یا پانی میں کھڑے رہیں اور چلہ کشیاں کریں یا اپنے ہاتھ خشک کرلیں اور یہاں تک نوبت پہنچے کہ اپنی صورتیں بھی مسخ ہوجائیں۔ ان صورتوں کے اختیار کرنے سے بعض لوگ بخیال خویش باخدا بننا چاہتے ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسی ریاضتوں سے خدا تو کیا ملنا ہے انسانیت بھی جاتی رہتی ہے۔ لیکن ہمارے سلوک کا یہ طریق ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ اسلام نے اس کے لئے نہایت آسان راہ رکھ دی ہے۔ اور وہ کشادہ راہ وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) یہ دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھلائی ہے تو ایسے طورپر نہیں کہ دعا تو سکھادی لیکن سامان کچھ بھی مہیا نہ کیا ہو۔ نہیں بلکہ جہاں دعا سکھلائی ہے وہاں اس کے لئے سامان بھی مہیا کردیئے ہیں۔ چنانچہ اس سے اگلی سورۃ میں اس قبولیت کا اشارہ ہے۔ جہاں فرمایا۔ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ: 3) یہ گویا ایسی دعوت ہے جس کا سامان پہلے سے تیار کر رکھا ہے۔

اگر انسان اپنے قویٰ سے کام لے تو یقیناً ولی ہوسکتا ہے

  • غرض یہ قویٰ جو انسان کو دیئے گئے ہیں۔ اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہوسکتا ہے۔ میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس امت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں۔ جو نور اور صدق اور وفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی شخص اپنے آپکو ان قویٰ سے محروم نہ سمجھے۔کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کردی ہے جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملیگا۔ خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے۔ اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے۔ جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا۔اس لئے تم کو چاہیئے کہ راتوں کواٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں۔ رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ۔ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ ان پر ترقی کرکے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ351-352 ایڈیشن 1984)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

مشاکا ریجن سیرالیون میں ریفریشر کورس کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2022