• 1 مئی, 2024

جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اسلام کا غلط تاثر دینے والوں کے تاثرات کو زائل کر رہے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ابھی دو دن پہلے یوکے (UK) جماعت کے سو سال پورے ہونے پر یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک فنکشن تھا جس میں بیالیس پارلیمینٹیرین (Parliamentarian) شامل ہوئے، جن میں سے ڈپٹی پرائم منسٹر صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور چھ وزراء بھی آئے ہوئے تھے اور بیس دوسرے ڈپلومیٹ اور دوسرا پڑھا لکھا ہوا طبقہ تھا۔ تو اُن کے سامنے بھی مَیں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی روشنی میں یہ بتایاکہ حقیقی اسلام کیا ہے۔ تو سب کا یہی کہنا تھا کہ تمہارے ایڈریس تو ہمیشہ کی طرح یہی ہوتے ہیں اور جماعت احمدیہ امن اور صلح کی باتیں کرتی ہے لیکن دوسرے مسلمان گروپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے بہر حال ہمیں پریشانی ہے۔ بعض یہ سیاستدان لوگ جو ہیں، کھل کر اظہار کر دیتے ہیں، بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ڈر ڈر کر بات کرتے ہیں۔ لیکن بہر حال جب میں قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو یہ بہر حال اُن کو پتہ چل جاتا ہے کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ بعض اتنے متاثر ہوتے ہیں، کل پرسوں کی بات ہے، ایک ملک کے سفیر مجھے کہنے لگے کہ تمہارا ہر ہر لفظ جو تھا، جو تم quote کر رہے تھے قرآن اور اُسوہ کے حوالے سے، میرے دل کے اندر جا رہا تھا۔ وہ عیسائی ہیں، اُن سے تھوڑی سی بے تکلفی بھی ہے۔ کیونکہ وہ فنکشن میں اکثر آتے ہیں، اُنہیں مَیں نے کہا کہ یہ صرف آپ کے دل میں بٹھانے کے لئے نہیں بلکہ اس پیغام کو اپنے حلقے میں بھی پھیلائیں۔ تو کہنے لگے یہ تو مَیں کرتا ہوں اور اب آئندہ بھی کروں گا۔ تو غیروں کے دلوں میں تو اثر ہوتا ہے لیکن پتھر دل مولوی ایسے ہیں جو اس پیغام کو سن کر اور ہمارے منہ سے سن کر اُن کے دل مزید پتھر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اسلام کا غلط تاثر دینے والوں کے تاثرات کو زائل کر رہے ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ اسلام کی خوبصورتی کو دنیا میں دکھائیں، اس لئے ہم ان شاء اللہ تعالیٰ کرتے چلے جائیں گے۔ لیکن پھر بھی مسلمان ممالک کے سیاستدان اور بعض پڑھے لکھے لوگ مُلّاں کے پیچھے چل کر احمدیوں پر اسلام کے نام پر ظلم کرتے ہیں۔ اور یہ ان کا کام ہے۔ بہر حال جس طرح ہم اپنا کام کرتے چلے جائیں گے انہوں نے بھی اپنا کام کرتے رہنا ہے اور اس بات سے ہمیں کوئی ایسی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں تو ان سے نہ کوئی امید ہے اور نہ ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر یہ انصاف سے حکومت چلائیں گے اور ظلم کو روکیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان کر اُس کے اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ ہمارا خدا تو ہمارے ساتھ ہے۔ وہ تو ہمیں تسلی دلانے والا ہے اور دلاتا ہے اور حفاظت کرتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں ان کے منصوبے تو بڑے خطرناک ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اپنے وعدے کے مطابق نوازے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن ظلم کرنے والوں کی پکڑ کے سامان بھی ہوں گے اور ضرور ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔ پس ہمیں کسی دنیاوی حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُس کے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے، اُس کے حکموں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ باقی رہا یہ کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کا یہ اعلان کہ جو ہمارے کہنے کے مطابق نہیں کرتا اور ہمارے پیچھے نہیں چلتا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارا ہوا ہے اور جہنمی ہے۔ اس لئے اپنے لوگوں کو یہ کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ جو چاہے ان لوگوں سے کرو۔ تم جو چاہے احمدیوں سے کرو، تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور یہی کچھ عملاً ہو بھی رہا ہے کہ حکومت جو قانون کی بالا دستی کا دعویٰ کرتی ہے احمدیوں پر ظلموں پر نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کرتی بلکہ اُلٹا ظالم کا ساتھ دیتی ہے۔

…پس ہر احمدی جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہے۔ مسلمان بھی یقینا ہے اور پکّا مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا بھی ہے۔ اُس کے مسلمان ہونے پر کسی اسمبلی یا سیاسی حکومت کی مہر کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان ہے جو ان آیات کے مطابق جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ اعلان کرے کہ مَیں مسلمان ہوں۔ فرمایا کہ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ۔ جو کوئی بھی اپنی تمام تر توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر کر اس کا اعلان کر دے کہ میں مسلمان ہوں تو یہی لوگ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا یہ اعلان کرے کہ تم مسلمان ہو یا نہیں ہو، بلکہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع بنا کر پھر اعلان کرے کہ مَیں اپنی مرضی سے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اُسے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ اور پھر دعویٰ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَھُوَمُحْسِنٌ۔ وہ احسان کرنے والا ہو۔ وہ تمام اعمال احسن طریق پر بجا لائے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیاہے۔ یہ ذمہ داری ہے جو اُٹھانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اور ہر اُس برائی سے بچے جس سے رکنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اگر یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے شخص پر پڑے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ایسے ہو تو تم میں کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہونا چاہئے۔ نیک اعمال پچھلے گناہوں سے بھی مغفرت کے سامان کر رہے ہوں گے اور نیک اعمال کا تسلسل اور باقاعدگی، برائیوں سے بچنا اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا، آئندہ کی غلطیوں سے بھی ایک مومن کو بچا رہے ہوں گے۔ خوف اور غم سے دُور رکھنے والے ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ 14؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سیرالیون میں رمضان اور عید الفطر کی رونقیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2022