• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 31)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 31

جب انسان دعا کرکے تھک جاتا ہے تو خدا تعالیٰ پر بدظنی کرکے بے ایمان ہوجاتا ہے آخر دہریہ ہوکر مرتا ہے
خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو تو انسان ان مشکلاتِ دنیا سے نجات پاسکتا ہے کیونکہ وہ دردمندوں کی دعاؤں کو سن لیتا ہے مگر اس کے لئے یہ شرط ہے کہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہیں تو کامیاب ہوگا۔ اگر تھک جائے گا تو نری ناکامی نہیں بلکہ ساتھ بے ایمانی بھی ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے بدظن ہوکر سلبِ ایمان کر بیٹھے گا۔ مثلاً ایک شخص کو اگر کہا جاوے کہ تو اس زمین کو کھود۔ خزانہ نکلے گا مگر وہ دو چار پانچ ہاتھ کھودنے کے بعد اسے چھوڑ دے اور دیکھے کہ خزانہ نہیں نکلا تو وہ اس نامرادی اور ناکامی پر ہی نہ رہے گا بلکہ بتانے والے کو بھی گالیاں دے گا۔ حالانکہ یہ اس کی اپنی کمزوری اور غلطی ہے جو اس نے پورے طورپر نہیں کھودا۔ اسی طرح جب انسان دعا کرتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اپنی نامرادی کو اپنی سستی اور غفلت پر تو حمل نہیں کرتا۔ بلکہ خدا تعالیٰ پر بد ظنی کرتا ہے اور آخر بے ایمان ہوجاتا ہے اور آخر دہریہ ہوکر مرتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ23 ایڈیشن 1984ء)

دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے

دعائیں کرتے رہو۔ بجز اس کے انسان مکر اللہ سے بچ نہیں سکتا۔ مگر دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتااور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ27 ایڈیشن 1984ء)

نماز کے بعد دعا

میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے۔ ان کی نماز میں اس قدر بھی رقّت اور لذّت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں۔ کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے۔ شاید ان کی نمازوں میں حضور اور لذّت پیدا ہوجاتی۔ اس لئے میں حکمًا آپ کو کہتا ہوں کہ سرِ دست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں۔اور وہ لذّت اور حضور جو دعا کے لئے رکھا ہے۔ دعاؤں کو نماز میں کرنے سے پیدا کریں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنی منع ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذّت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنواؤ۔ ہاں جب یہ حضور پیدا ہوجاوے تو کوئی حرج نہیں۔ سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہرگز غیر زبان میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگِ دُعا اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے آگے پیش کرو تاکہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہوجائے۔ سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہوجاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کردیتے ہیں دُور کردے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ38-39 ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے
بغیر تعلق کے دعا نہیں ہوسکتی

خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ انسان کو بشریت سے الگ کرکے الوہیت کے سایہ میں لاڈالتا ہے۔ جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اللہ سے محویت حاصل ہوجائے اس وقت تک انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے۔ ان خطرات کا استیصال بغیر اس امر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اللہ سے بکلّی منقطع ہو کر اسی کا ہوجائے اور اُس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لئے ایسا درد ہونا چاہیئے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کے لئے دل میں سچا جوش محبت رکھتی ہے۔ خدا تعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دعا کرنے کے لئے تعلق کی ضرورت ہے۔ بغیر تعلق کے دُعا نہیں ہوسکتی۔ پہلے بزرگوں کی بھی اس قسم کی باتیں چلی آئی ہیں کہ جن سے دعا کرنے والوں کو دُعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کرنے کی تاکید کی۔خوانخواہ بازار میں چلتے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تو میرا دوست ہے اور نہ ہی اس کے لئے دردِ دل پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی جوش دعا پیدا ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کاریوں میں بھی مبتلا رہے اور صرف منہ سے دم بھرتا رہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرلیا ہے۔ اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خدا تعالیٰ سے تعلق پر کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ ہم باربار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہوکر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا۔ بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہؓ جب نمازیں پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے۔ جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے۔ نماز سے فارغ ہونے پر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا تو وہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخل ہوا۔ گویا ایک مقام محویت میں جا پہنچا۔ پھر جب وہاں سے واپس آیا تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ کہہ کر آن ملا۔ لیکن صرف ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو۔ چھلکوں سے کیا ہاتھ آسکتا ہے۔ محض صورت کا ہونا کافی نہیں۔ حال ہونا چاہیئے۔ علّت غائی حال ہی ہے۔ مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو الٹی ہلاکت کی راہیں ہیں۔ انسان جب حال پیدا کرلیتا ہے اور اپنے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کرلیتا ہے کہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اس پر طاری ہوجاتا ہے تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ42-43 ایڈیشن 1984ء)

نماز میں تضرع اور ابتہال سے
بھری ہوئی دعا ہی نماز کا معراج ہے

اصل انوار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہویا کوئی اَور، سب خدا تعالیٰ سے انہیں حاصل کرتے ہیں۔ سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے۔ استغفار کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا تعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اَور ملے۔ اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تاکہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ124-125 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سیرالیون میں رمضان اور عید الفطر کی رونقیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2022