• 29 اپریل, 2024

اللہ کی خاطر قوّام بن جاؤ۔ قوام کا مطلب ہے …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم دیکھتے ہیں کہ گھریلو ماحول، کاروباری معاملات، عہدیداروں کے معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد انصاف قائم کرنے کے لئے اسلام مزید کیا حکم دیتا ہے؟ تو ہمیں ایک ایسا حکم نظر آتا ہے جو معاشرے بلکہ پوری دنیا میں انصاف اور امن قائم کرنے کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ کی آیت 9 میں فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹﴾ (المائدہ: 9)۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو۔ یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

دیکھیں! دنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے کی یہ کتنی خوبصورت تعلیم ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والے نہ اپنی دنیاوی تعلیم میں، قوانین میں، اور نہ ہی کسی دینی تعلیم میں ایسی خوبصورت تعلیم کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے۔ کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ کہ اللہ کی خاطر قوّام بن جاؤ۔ اور قوّام کا مطلب ہے کہ جو اپنا کام انتہائی احسن طریق پر بغیر نقص کے اور مستقل مزاجی سے کرتا چلا جائے۔ پس حقیقی مومن جو کام کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے اور پھر اُس میں نہ کبھی جھول آنے دیتا ہے، یا جھول نہ آنے دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور نہ ہی کبھی سست ہوتا ہے، نہ ہی ذاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ فرمایا کہ مومن کا کام ہے کہ انصاف کی تائید میں گواہی دے۔ انصاف کا معیار کیا ہے؟ انصاف کا معیار صرف بیوی اور رشتہ داروں سے انصاف کرنا نہیں ہے۔ اپنے ساتھ کاروبار کرنے والوں سے انصاف کرنا نہیں ہے۔ اپنے افسروں اور ماتحتوں کے لئے نیک خیالات اور اُن سے حسنِ سلوک کرنا اور انصاف کرنا نہیں ہے۔ بلکہ انصاف کا معیار اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ انصاف کرنا رکھا ہے۔ کیونکہ حقیقی تقویٰ اُسی وقت حاصل ہوتا ہے جب دشمن سے بھی عدل اور انصاف کا سلوک کیا جائے۔ تبھی ایک حقیقی مسلمان ہونے کا معیار حاصل ہو گا۔ تبھی تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔ تبھی اسلام کی حقیقی تعلیم غیروں پر واضح ہو گی۔ یہاں بھی آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اگر تمہارے یہ معیار نہیں تو پھر تم تقویٰ پر چلنے والے نہیں کہلا سکتے۔ قوّام کہہ کر مستقل انصاف پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی، فرمایا ہے لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدہ: 9) یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دُکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں، جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی۔‘‘ جس سے مخاطب ہیں اُس کو فرماتے ہیں کہ ’’مگر آپ تو تعصب کے گڑھے میں گرے ہیں ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو۔ مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے۔ اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر اُن کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردے میں دھوکا دے کر اُس کے حقوق دبا لیتا ہے۔ مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اُس کا نام کاغذاتِ بندوبست میں نہیں لکھواتا۔‘‘ (وہ کاغذات جو سرکاری ریکارڈ میں ہوتے ہیں، اُس میں نہیں لکھواتا) ’’اور یوں اتنی محبت کہ اُس پر قربان ہوا جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیارِ محبت کا ذکر کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ محبت کرو، بلکہ اُس معیار کا ذکر کیا جو محبت کا معیار ہونا چاہئے اور وہ کیا ہے؟ انصاف۔ فرمایا: ’’کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے‘‘

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ409-410)

پس یہ وہ معیار ہے جس کے حصول کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 9؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 24)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جولائی 2022