• 2 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 29)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
میاں بیوی کا رشتہ پیار محبت اور احساس کا سچا رشتہ
قسط 29

آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل و عیال سے سلوک اچھا ہے۔ اور مَیں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں۔‘‘ میاں بیوی دن رات ایک ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کی شخصیت کے نہاں در نہاں پہلوؤں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ خوبیوں اور خامیوں کے رازدار ہوجاتے ہیں کچھ چھپا نہیں رہتا۔ آنحضورؐ کی اہلی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپس کے اعتماد پیار اور احساس کے ایسے پیارے دل لبھانے والے نظارے ملتے ہیں کہ دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ واقعی آپؐ اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے سب سے بہتر تھے۔ ایک مثالی شوہر تھے۔ اسی وجہ سے آپؐ کی ازواج مطہرات بھی آپؐ سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ سب ازواج مطہرات سے یکساں سلوک کے چند نکات پیش ہیں۔ جو مستند احادیث سے اخذ کئے ہیں۔

• سب ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں مسکراتے ہوئے داخل ہوتے۔ نرمی سے کلام فرماتے، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے۔

• ازواج مطہراتؓ کا حق ادا فرماتے نان و نفقہ کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے حتیٰ کہ وفات کے بعد بھی خرچ دیتے رہنے کا اہتمام فرماتے۔

• گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے اپنے ذاتی کام خود کر لیا کرتے تھے آپ اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے، جوتے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مرمت کر لیتے تھے۔ بکری خود دوہ لیتے تھے، جانوروں کو چارہ ڈالتے، مل کر کام کرا لیتے۔ آٹا پسوا دیتے، خود ہی سودا سلف لاتے اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر اٹھا لاتے۔

• ازواج مطہراتؓ کے رشتہ داروں سے بھی اچھا سلوک فرماتے ان کے پہلے بچوں کو اپنا بچہ کہتے۔

• ازواج مطہراتؓ کے جذبات، مزاج اور ذوق کے مطابق برتاؤ فرماتے۔ ان کے نیک اوصاف کی قدر فرماتے۔

• ساری زندگی میں کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا، نہ کبھی کسی خادم کو مارا۔

• ازواج مطہراتؓ میں سے کوئی بیمار ہوجاتیں تو آپؐ بذات خود ان کی تیمارداری فرماتے اور ہر قسم کا خیال رکھتے۔ جسمانی طور پر بھی آرام کا خیال رکھتے تھے ایک موقع پر اونٹنی چلانے والے نے بہت تیزی کے ساتھ اونٹنیوں کو چلایا تو آپؐ نے فرمایا شیشہ ہے یعنی صنفِ نازک ہے احتیاط سے۔ مخصوص ایام میں بھی خیال رکھتے۔

• اگر رات کو دیر سے گھر آتے تو کسی کو زحمت دیے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرما لیا کرتے تھے۔ اگر کوئی بیوی آرام کر رہی ہو تو قدم بھی آہستہ رکھتے کہ نیند خراب نہ ہو۔

• جنگوں میں جاتے ہوئے بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی فرماتے تھے اور جس کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے تھے۔

• آپ نماز عصر کے بعد سب ازواج مطہراتؓ کو اس بیوی کے گھر بلا لیتے جس کی باری ہوتی اس طرح سب سے روزانہ ملاقات ہوجاتی حال احوال دریافت فرمالیتے اور دینی تربیت فرماتے۔

• آپ کی کوئی بیوی کبھی آپؐ سے ناراض نہ ہوئی حتیٰ کہ سورت الاحزاب کی آیت29 کے مطابق جب آپ نے دنیوی متاع لے کر رخصت ہونے کا اختیار دیا تو کسی نے بھی جدائی پسند نہ کی۔

• کھانے میں کبھی عیب نہ نکالتے جو میسر ہوتا صبر شکر سے کھالیتے

انفرادی طور پر ازواج مطہراتؓ کے ساتھ آپس میں تعلق کا منفرد انداز تھا۔ جنت نظیر حجروں میں محبت کے دریا رواں تھے۔ سکینت اور سکون کا دور دورہ تھا۔ میٹھے میٹھے واقعات کی چند جھلکیاں پیش ہیں۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ مکہ کی مالدار تاجر خاتون تھیں۔ تین دفعہ شادی ہوئی تھی بچے بھی تھے۔ چا لیس سال کی عمر میں پچیس سال کے جوان محمد مصطفیٰ ﷺکےحسن اخلاق سے متأثر ہو کر شادی کی پیش کش کی۔ شادی ہوئی، دولھا کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔ دلھن کے گھر آگئے۔ جہاں دھن دولت نوکر چاکر کی ریل پیل تھی۔ اس خیال سے کہ شوہر کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی مالی حیثیت کم ہے۔ اپنی ساری متاع آپؐ کے حوالے کردی اور اس پرکل اختیار بھی دے دیا۔ آپؐ ایک سادہ مزاج غریبوں کے دکھ درد کو سمجھنے والے انسان تھے۔ ساری دولت، سارا سامان مستحقین میں تقسیم کردیا۔ سارے نوکروں کو آزاد کردیا۔ اب گھر میں میاں بیوی تھے۔ حضرت خدیجہؓ کو کھانا پکا نا تو کیا چولھا جلانے کی عادت نہیں تھی۔ دونوں نے مل کر آگ جلائی کھانا پکایا۔ اور ایک محبت بھرے گھر کی شروعات کیں اب حضرت خدیجہؓ اس آمد میں گزارا کرتیں جو ان کے شوہر کما کر لاتے اس میں بہت سکون تھا۔ حضرت خدیجہ ایک زیرک خاتون تھیں۔ انہوں نے آپؐ میں اپنے خالق و مالک کی غیر معمولی محبت دیکھی پھر وہ آپؐ کے اپنے معبود کی یاد میں حائل نہ ہوتیں۔ آپؐ گھر سے دور غار حرا میں وقت گزارنے لگے آپؐ کے لئے کھانا تیار کرکے دیتیں کبھی زیادہ دن ہوجاتے تو پریشان ہوتیں یہ سوچ کر کہ کھانا ختم ہوگیا ہوگا کھانا دے آتیں۔ ایک دن گھر واپس آئے تو خوف کا عالم تھا بدن پر کپکپی طاری تھی آپؓ نے کمبل اوڑھایا۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بیوی کو بتایا کہ آج ایک فرشتہ غار حرا میں میرےرب کا پیغام لے کر آیا تھا۔ انہونی سی بات سن کر بیوی کو کوئی بھی خیال آسکتا تھا۔ مگر وہ پل پل کی واقف مزاج شناس اور مدبر خاتون تھیں شادی کےپندرہ سال میں آپؐ کی افتاد طبع سے واقف تھیں، تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں:
’’اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

(بخاری بدء الوحی باب1)

حضرت خدیجہؓ نے وہ سارے مراحل دیکھے جو نبوت کا مقام ملنے سے پہلے آپؐ پر گزرے تھے اور نبوت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون تھیں ہر طرح آپؐ کا ساتھ دیا۔ ایک مضبوط سہارا بن کر ساتھ رہیں۔ آپ سے آنحضورؐ کو اولاد عطا ہوئی۔ اس پرخلوص ساتھی کی موجودگی میں آپؐ نے کوئی دوسری شادی نہیں کی بلکہ بعد میں بھی کافی عرصہ نہیں کی۔ آپؓ کی پچیس سالہ رفاقت کو ساری زندگی محبت سے یاد کرتے رہے ان کے اوصاف بیان کرتے۔ آپؓ نے شعب ابی طالب کی سختیوں میں خوب ساتھ نبھایا۔ آپؓ کی وفات والے سال کو عام الحزن قرار دیا۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’مجھے نبی کریمؐ کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ اس قدر غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں۔‘‘

(بخاری کتاب الادب باب حسن العہد من الایمان)

حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہےاور آپﷺ کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ)

ام المؤمنین حضرت سودہؓ کی آپؐ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے مبارک الفاظ کو حرزِ جان بنا لیتیں۔ اطاعت و فرمانبرداری میں خوشی محسوس کرتیں ایک دفعہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے بعد گھر میں ہی رہنا حضرت سودہؓ نے اس پر سختی سے عمل کیا پھر کبھی گھر سے نہ نکلیں کوئی سفر نہ کیا حتیٰ کہ حج بھی نہ کیا فرماتی تھیں، میں نے حج بھی کرلیا ہے اور عمرہ کی سعادت بھی حاصل کرلی ہے اب میں اپنے گھر میں ہی رہوں گی جیسا کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے آنحضور ﷺ کی محبت میں آپؓ نے اپنا حق بھی چھوڑ دیا سمجھدار خاتون تھیں اندازہ تھا کہ آپؐ حضرت عائشہ کے ساتھ خوش رہتے ہیں اس خوشی کی خاطر اپنی باری کا دن بھی حضرت عائشہؓ کے ساتھ گزارنے کی اجازت دے دی۔

(سیر الصحابیات صفحہ33)

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ زمانہ ٔ ماموریت میں آپؐ کے ساتھ رہیں اور آپؐ کے حسن اخلاق کی گواہی اس طرح دی کہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اخلاق تھا۔

(مسند احمد: 25108)

حضرت عائشہؓ کم عمر تھیں آپؐ نے اس کا لحاظ رکھا گڑیوں سے کھیلنے دیا سہیلیوں سے ملنے دیا۔ ان کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔

ایک دفعہ کچھ فوجی نیزہ بازی کا مظاہرہ کر رہے تھے رسول اللہﷺ نے یہ کھیل دکھانے کے لئےحضرت عائشہؓ کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور آپؓ دیر تک دیکھتی رہیں۔ آپؓ نے کھیل دیکھنے کے دوران کس بات کا لطف لیا، بیان کرتی ہیں کہ میں دیر تک آپؐ کے پیچھےآپؐ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپؐ کے رخسار سے رخسار ملا کر کھڑی رہی آپؐ میرا بوجھ سہارے کھڑے رہے۔ کیسا دونوں طرف سے پیار کا اظہار تھا۔

عطاء روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابن عمرؓ اور عبیداللہ بن عمرؓ کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کی کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی ہو۔ اس پر حضرت عائشہؓ آپؐ کی یاد سے بیتاب ہو کر رو پڑیں اور کہنے لگیں کہ آنحضور ﷺ کی ہر ادا ہی نرالی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضور ﷺ ایک رات میرے پاس تشریف لائے۔ میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کر لوں۔ میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپؐ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے۔ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ تب آپ اٹھے اور مشکیزہ سے وضو کیا۔ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو آپ کے سینہ پر گرنے لگے۔ نماز کے بعد آپ دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپؐ کا دایاں ہاتھ آپؐ کے دائیں رخسار پر تھا۔ آپؐ نے پھر رونا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ آپؐ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلالؓ آئے جب انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گذشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

(تفسیر روح البیان زیر تفسیر سورہ آل عمران آیت 191تا192، ماخوذ ازخطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2005ء)

آپﷺ نے معمولی نزاع میں بھی حضرت عائشہؓ کو ثالثیت کا حق دیا اور ان کی پسند سے ثالث مقرر کیا۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ کے ساتھ ایک دفعہ کچھ تکرار ہوگئی آپؐ نے مجھ سے پوچھ کر حضرت ابوبکرؓ کو ثالث بنایا۔ آپؓ نے بات سن کر ذرا سختی سے مجھ سے بات کی تو رسول کریمﷺ فرمانے لگے اے ابوبکرؓ !ہم نے تجھے اس لیے تو نہیں بلایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک کھجور کی چھڑی لی اور مجھے مارنے کو دوڑے۔ میں آگے آگے بھاگی اور جاکر رسول اللہؐ سے چمٹ گئی۔ رسول کریمؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا میں آپؓ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اب آپؓ چلے جائیں۔ ہم نے آپؓ کو اس لیے نہیں بلایا تھا۔ جب وہ چلے گئے تو میں رسول اللہؐ سے الگ ہوکر ایک طرف جابیٹھی۔ آپؐ فرمانے لگے عائشہؓ میرے قریب آجاؤ۔ مَیں نہیں گئی تو آپؐ مسکرا کر فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تم نے میری کمر کو زور سے پکڑ رکھا تھااورخوب مجھ سے چمٹی ہوئی تھیں۔

(خلاصہ از ازواج النبیﷺ از محمد بن یوسف الصالحی مطبوعہ بیروت بحوالہ السمط الثمین صفحہ50)

ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ: عائشہ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا:جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں ربّ محمد(ﷺ) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ربّ ابراہیمؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپﷺ کا نام چھوڑتی ہوں۔ (دل میں تو آپ ہی آپ ہیں)

(بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن)

ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضرتﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کران سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کےلیے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرتؐ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت ابو بکرؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تورسول کریمؐ حضرت عائشہؓ سے ازراہ تفنن فرمانے لگے۔ دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکرؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت عائشہؓ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو۔

(ابوداؤد باب الادب)

اظہار تعلق الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا محبت کرنے والے محسوس کرلیتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں حضورؐ گوشت کی ہڈی یا بوٹی میرے ہاتھ سے لے لیتے اور بڑی محبت کے ساتھ اس جگہ منہ رکھ کر کھاتے جہاں سے میں نے اسے کھایا ہوتا تھا۔ میں کئی دفعہ پانی پی کر برتن حضورؐ کو پکڑا دیتی تھی۔ حضورؐ وہ جگہ ڈھونڈ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا تھا وہیں منہ رکھ کر پانی پیتے تھے۔

(ابوداؤد کتاب الطہارة)

یہی والہانہ پیار تھا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا آنحضورؐ کو اختیار تھا کہ بیویوں میں سے آپؐ جس کو چاہیں اس کی باری مؤخر کر دیں اور جسے چاہیں اپنے ہاں جگہ دے دیں۔ پھر بھی زندگی میں ایک دفعہ بھی آپؐ نے یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا۔ مگر مجھے اختیار ہو تو میں تو صرف آپؐ کے حق میں ہی استعمال کرتی۔

(بخاری کتاب التفسیر باب سورة الاحزاب باب279)

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ مجھے اﷲ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے جس کا نام لے کر دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے وفور شوق سے عرض کیا کہ پھر مجھے بھی وہ صفت بتادیں۔ آپؐ نے فرمایا میرے خیال میں تمہیں بتانا مناسب نہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ جیسے روٹھ کر ایک طرف جا بیٹھیں کہ خود ہی بتائیں گے مگر جب آنحضرت ﷺ نے کچھ دیر تک نہ بتایا تو عجب شوق کے عالم میں خود اٹھیں، رسول کریمؐ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! بس مجھے ضرور وہ صفت بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ دراصل اس صفت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے دنیا کی کوئی چیز مانگنا درست نہیں اس لئے میں بتانا نہیں چاہتا۔ تب حضرت عائشہؓ پھر روٹھ کر الگ ہوگئیں۔ اور وضو کرکے مصلیٰ بچھاکر بآواز بلند یہ دعا کرنے لگیں کہ اے میرے مولیٰ! تجھے اپنے سارے ناموں اور صفتوں کا واسطہ۔ ان صفتوں کا بھی جو مجھے معلوم ہیں اور ان کا بھی جو میں نہیں جانتی کہ تُو اپنی اس بندی کے ساتھ عفو کا سلوک فرما۔ آنحضرت ﷺ پاس بیٹھے دیکھتے اور مسکراتے جاتے اور پھر فرمایا: اے عائشہ! بیشک وہ صفت انہی صفات میں سے ہے جو تم نے شمار کر ڈالیں۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمیٰؓ کا دل تو آپؐ کی وسیع القلبی نے موہ لیا آپؓ نے شادی کے پیغام پر تین شرائط پیش کیں آپؐ نے تینوں کا حل پیش کرکے ان کا مان رکھا حضورؐ نے فرمایا جہاں تک آپ کی نازک مزاجی کا تعلق ہے سو اللہ تعالیٰ اسے دور کردے گا رہا معاملہ عمر کا تو میں آپ سے بڑا ہوں اور بچوں کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اب آپ کے بچے میرے بچے ہوں گے۔ یہ تسلی بخش جواب سن کر حضرت ام سلمیٰؓ نے اپنے بیٹے سے کہا اب مجھے کوئی عذر نہیں میرا نکاح رسول اللہؐ سے پڑھ دو۔ آپ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو نعم البدل دیا وہ پہلے شوہر سے ہر لحاظ سے افضل اور بہتر ہیں۔

(ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلوپیڈیا صفحہ166)

ایک دفعہ چند صحابہ آپؓ کے پاس آئے اور آنحضرت کی اندرون خانہ زندگی کے بارے میں پوچھا آپؓ نے جواب دیا، آنحضرتؐ کا ظاہرو باطن ایک ہے۔

(امت مسلمہ کی مائیں صفحہ112)

ام المؤمنین حضرت زینبؓ کو اپنے آقا سے بہت محبت تھی اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ اللہ نے ان کو آسمان سے آپؐ کی زوجیت میں دیا ہے پیارے آقا بھی آپ سے بہت محبت کرتے آ پؓ کے حجرے میں نمازیں ادا کرتے یہی وہ لمبے ہاتھوں وال یعنی کثرت سے صدقہ خیرات کرنے والی بیگم تھیں جنہوں نے آنحضور ﷺ کے بعد سب سے پہلے وفات پائی۔

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کے آپؐ سے پیار کی انتہا دیکھئے کہ آپؓ نے اپنے والد ابو سفیان کا حضرت اقدسؐ کے بستر پر بیٹھنے کا ارادہ دیکھ کر بستر سمیٹ دیا۔ اور کہا ’’آپ مشرک ہیں اور یہ حضور ﷺ کا بستر ہے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ بستر پر بیٹھیں۔ میں کیسے برداشت کرسکتی ہوں کہ خدا کے نبیؐ کے بستر کو آپ ہاتھ لگائیں جب میں آپ سے جدا ہوئی تھی تو میں کافر تھی اب مجھے خدا تعالیٰ نے اسلام دیا ہے مجھے علم ہوگیا ہے کہ رسول کریمﷺ کی کیا شان ہے اور آپ کی کیا حیثیت ہے‘‘

ام المؤمنین حضرت صفیہؓ یہود سے تھیں کبھی کبھی دیگر ازواج مطہرات آپ کو یہودیہ کہہ دیتیں۔ جو آپؓ کو اچھا نہ لگتا۔ آپؐ نے کمال حکمت سے انہیں ایسا جواب سکھایا جس سے ان کو بجائے خفت کے اعزاز کا احساس ہوا۔ کیسی دلداری ہے فرمایا۔ تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں کس طرح مجھ سے زیادہ معزز ہو میں نبیوں کی اولاد ہوں۔ میرا باپ ہارون نبی تھا۔ میرا چچا موسیٰ اور میرا خاوند محمد ہے۔

جنگ خیبر سے واپسی پر حضرت صفیہؓ کو اونٹ پر بیٹھنے کی جگہ پر اپنی عبا اتار کر تہہ کرکے بچھائی پھر انہیں سوار کراتے وقت اپنا گھٹنا جھکا دیا اور فرمایا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوجاؤ

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب 36)

کیا شان ہے حضرت صفیہؓ کی آپؐ کے گھٹنے پر سہارا لے کر اونٹ پرسوار ہوتی ہیں۔ پھر ایک دن آپؐ حضرت صفیہؓ سے دلجوئی کی باتیں کرتے رہے آپؓ فرماتی ہیں، جب میں رسول کریم ﷺ کے پاس سے اٹھی تو آپؐ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ چکی تھی کہ دنیا میں آپؐ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا۔

(مجمع الزوائد لھیثمی جلد9 صفحہ15 بحوالہ طبرانی فی الاوسط)

ام المؤمنین حضرت میمونہؓ کو آپؐ کا ساتھ صرف تین سال میسر رہا ۵۱ ہجری میں دفات پائی۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آپؓ کی آنحضورﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وصیت کی کہ مجھے وہاں دفن کرنا جہاں میں رسول پاک ﷺ سے پہلی دفعہ ملی تھی۔

پیار محبت کی اتنی حسین دنیا بسانے والے خدا کے خوف سے لرزاں یہ دعا بھی کرتے:۔
’’اے اللہ! تو جانتا ہے اور دیکھتا ہےکہ انسانی حد تک جو برابر منصفانہ تقسیم ہو سکتی تھی وہ تو میں کرتا ہوں اور اپنے اختیار سے بری الذمہ ہوں۔ میرے مولیٰ اب دل پر تو میرا اختیار نہیں اگر قلبی میلان کسی خوبی اور جوہر قابل کی طرف ہے تو تُو مجھے معاف فرمانا‘‘

(ابو داؤد کتاب النکاح 39)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ حضرت نبی کریم ﷺ سراج منیر کا عکس لے کر بدر کامل بن گئے تھے آپؑ کے بھی اخلاق فطری طور پر اپنے آقا و مطاع کا عکس تھے۔ جب آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدیجہ حضرت نصرت جہاں بیگم خود سامان کرکے عطا فرمائی تو آپؑ نے ان کی بہت قدر کی سچے اور حقیقی دوستوں کی طرح حسنِ سلوک کیا۔

آپؑ نصف بہتر کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کو خدا سے صلح کے برابر سمجھتے فرماتے تھے:
’’چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو‘‘


(ملفوظات جلد3 صفحہ300 ایڈیشن1988ء)

اللہ پاک نے آپؑ کو الہام کیا:

خُذُوْ الرِّفْقَ اَلرِّفْقَ فَاِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَیْرَاتِ یعنی نرمی کرو نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سرّ نرمی ہے۔

آپؑ نے نصیحت فرمائی:
’’اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی سے پیش آویں وہ ان کی کنیزکیں نہیں ہیں درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا ایک طرح معاہدہ ہے پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النساء: 20) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک سے زندگی کرو اور حدیث میں ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُم لِاَھْلِہ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔‘‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ75 حاشیہ)

آپؑ کے گھر میں نیک سلوک کے بارے میں حضرت عبدالکریم سیالکوٹیؓ کا مشاہدہ دیکھئے:
’’حضرت اقدسؑ کی اہلی زندگی میں عرصہ قریب پندرہ برس کے گزرتا ہے حضرت نے بار دیگر خدا تعالیٰ کے امر سے معاشرت کے بھاری اور نازک فرض کو اٹھایا ہے۔ اس اثنا میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو۔ کوئی بشر خیال کرسکتا ہے ضعیف اور کم علم جنس کی طرف سے اتنے دراز عرصہ میں کوئی ایسی ادا یا حرکت خلاف طبعی سرزد نہ ہوئی ہو گی تجربہ اور عرف عام گواہ ہے کہ خانہ نشین ہم پہلو کج طبعی اور جہالت سے کیسے کیسے رنج دہ امور کے مصدر ہوا کرتے ہیں بایں ہمہ وہ ٹھنڈا دل بہشتی قلب قابل غور ہے جسے اتنی مدت میں کسی قسم کی رنجش اور تنغض عیش کی آگ کی آنچ تک نہ چھوئی ہو‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ16)

گڑ کے چاول

حضرت اقدسؑ اپنی اہلیہ سے بے حد محبت کرتے اور آپ کی عزت اور قدر کرتے تھے اور انہیں اپنے لئے مبارک وجود سمجھتے تھے حضرت اماں جان کو بھی اس کا احساس تھا بعض دفعہ بڑے ناز سے کہا کرتیں۔

’’میرے آنے کے ساتھ آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے‘‘

اس پر حضورؑ مسکرا کر جواب دیتے، ہاں ٹھیک ہے۔

حضرت اماں جانؓ بھی حضور سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دو سینوں میں ایک ہی دل دھڑک رہا ہے جس طرح عام میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہیں ویسے ان دونوں میں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوتا حضورؑ حضرت اماں جان کے ساتھ پیار سے نرم لہجے میں بات کرتے گھر کے کاموں میں کبھی کوئی اونچ نیچ ہو بھی جاتی تو آپؑ کچھ نہ کہتے۔ ایک واقعہ حضرت اماں جان نے خود سنایا بیان کرتی ہیں‘ میں پہلے پہل جب دلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ گڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں چنانچہ میں نے بہت شوق ا ور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا۔ وہ بالکل راب سی بن گئی جب پتیلی چولہے سے اتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہوگئے۔ ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا حیران تھی کہ اب کیا کروں اتنے میں حضرت صاحب آگئے۔ میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا۔ آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟ پھر فرمایا نہیں یہ تو بہت اچھے ہیں ’میرے مذاق کے مطابق پکے ہیں ایسے زیادہ گڑ والے ہی تو مجھے پسندیدہ ہیں۔ یہ تو بہت ہی اچھے ہیں اور پھر خوش ہوکر کھائے۔۔۔ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہوگیا

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ حصہ اول صفحہ315-316)

کس زباں سے مَیں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں
کہ مَیں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا
چُن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے
سب سے پہلے یہ کرم ہے مِرے جاناں تیرا

شعائر اللہ

حضرت اقدسؑ الدار میں گرمیوں میں صحن میں سویا کرتے تھے۔ بارش ہوجاتی تو بستر وغیرہ اٹھا کر اندر لے جانے پڑتے حضرت اماں جان نے تجویز دی کہ آدھے صحن پر چھت ڈال لی جائے تو یہ تکلیف کم ہوسکتی ہے۔ بعض احباب نے اس تجویز کی مخالفت کی مگر حضورؑ نے اماں جان کی بات رکھی فرمایا ’’خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے اس لئے میں اسے شعائر اللہ سے سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں اور جو وہ کہے مان لیتا ہوں‘‘

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ؓ صفحہ229)

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب اپنے عینی مشاہدہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضورؑ کو حضرت ام المؤمنین سے ناراض دیکھا نہ سنا۔ بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک آئیڈیل جوڑے کی ہونی چاہئے۔ بہت کم خاوند اپنی بیویوں کی وہ دلداری کرتے ہیں جو حضورؑ حضرت ام المؤمنین کی فرمایا کرتے تھے‘‘

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ؓ صفحہ231)

میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو

حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ بیان کرتی ہیں:
’’مجھے یاد ہے کہ حضور اقدؑس حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد قدرو محبت کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں بڑھا کرتی تھی۔ آپ باوجود اس کے کہ انتہائی خاطر داری اور ناز برداری آپؓ کی حضرت اقدس کو ملحوظ رہتی کبھی حضورؑ کے مرتبہ کو نہ بھولتی تھیں۔ بے تکلفی میں بھی آپؑ پر پختہ ایمان اور اس وجود مبارک کی پہچان آپؓ کے ہر انداز وکلام سے مترشح تھی جو مجھے آج خوب یاد ہے۔ آخر میں بار بار وفات کے متعلق الہامات ہوئے، تو ان دنوں بہت غمگین رہتیں۔ ایک بار مجھے یاد ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت اقدسؑ سے کہا۔ (ایک دن تنہائی میں الگ نماز پڑھنے سے پہلے نیت باندھنے سے پیشتر) کہ ’’میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں‘‘ ان الفاظ پر غور کریں اور اس محبت کا اندازہ کریں جو حضرت مسیح موعودؑ آپؓ سے فرماتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آپ میں واقع ہوئی پھر میں نے آپ کو پر سکون ’’مطمئن‘‘ اور بالکل خاموش نہیں دیکھا۔ حق اورمحض حق ہے کہ حضرت اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا۔ کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چُن لے اور اس وجود کو اپنی خاص ’’نعمت‘‘ قرار دے کر اپنے مرسلؑ کو عطا فرمائے۔‘‘

(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ48-49)

ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کاذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضورعلیہ السلام اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے۔‘‘ حضور علیہ السلام بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:
’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکا لاتھا۔ اس کے بعد میں بہت دیرتک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے‘‘

(ملفوظات جلد اول)

آپس میں حسن سلوک کے شاندار نمونے جو ہمارے پیاروں نے اپنے عمل سے ہمیں دکھائے ان کی پیروی کرکے ہم گھروں کا سکون اور جنت کما سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین اللّٰھم آمین۔

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 24)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جولائی 2022