• 4 مئی, 2024

ذیلی تنظیموں کے لئے خلفائے کرام کی مساعی

خلافتِ احمدیہ اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ یہ وہ حَبْلُ اللّٰہ ہے جو ہمیں اتحاد کی خوبصورت لڑی میں پروتی ہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف رہنمائی فرما کر ہمارا مضبوط تعلق خدائے عزّ و جل سے باندھتی ہے۔ خلافت کی بے شمار برکات میں سے ایک عظیم الشان برکت ذیلی تنظیموں کا قیام و انصرام ہے۔ جو کہ ہر احمدی مرد و زن، پیر و جواں کی روحانی، جسمانی، اخلاقی، تعلیمی اور تربیتی ترقی کا ذریعہ ہیں۔

ذیلی تنظیموں کا قیام

سیّدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ وہ موعود خلیفہ تھے جن کے دستِ مبارک سے جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی اور آپ ہی کے عہدِ با سعادت میں ان تنظیموں کے قواعد و ضوابط مقرر ہوئے اور ڈھانچے کو تشکیل دی گئی۔ ان تنظیموں کے قیام کے پیچھے در اصل اسلام کی نشأة ثانیہ کی عالمگیر مہم مدنظر تھی۔ اسی حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: ’’خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اوراس کی تائید کے لئے ایک عظیم الشان بنیاد قائم کر دے گا۔‘‘

(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوار العلوم جلد17 صفحہ 233)

چنانچہ 25 دسمبر 1922ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مستورات کے لئے لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ پھر نوجوانوں کے لئے آپؓ نے1938ء میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم فرمایا جبکہ 26 جولائی 1940ء کو چالیس سال سے اوپر مرد حضرات کے لئے مجلس انصار اللہ کو قائم فرمایا۔ اسی طرح بچیوں کے لئے ناصرات الاحمدیہ اور بچوں کے لئے اطفال الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان تنظیموں کی غرض یوں بیان فرمائی کہ ’’ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے… ان مجالس پر در اصل تربیتی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے… پس مجلس انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 13ستمبر 2019ء صفحہ24)

پھر ایک اور موقع پر ذیلی تنظیموں کو قائم کرنے کی حکمت اور ان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ … کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے۔ تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر عوام اور حکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک نہایت ہی مفید اور خوشکن لائحہ عمل ہو گا۔ اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائمقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں۔ اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ جو عوام کے قائمقام ہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں۔ تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کُلّی طور پر گر جائے۔ اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے۔ جب بھی ایک غافل ہو گا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہو گا۔ جب بھی ایک سست ہو گا۔ دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا۔ کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندہ ہیں۔ ایک نمائندہ ہیں نظام کے۔ اور دوسرے نمائندہ ہیں عوام کے۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان، 17 نومبر 1943ء صفحہ3 کالم 3۔ 4)

پھر آگے فرمایا کہ ’’جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے۔ وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل قادیان، 17نومبر 1943ء، صفحہ7، کالم1) پس ذیلی تنظیمیں افرادِ جماعت میں بیداری پیدا کرتی ہیں اور ترقیات اور فتوحات کا ذریعہ ہیں۔

اس عظیم عالمی مہم کا ذکر کرتے ہوئے جو ذیلی تنظیموں کے ذریعے خلافتِ احمدیہ کی قیادت میں سر انجام ہو رہی ہے حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے۔ مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جا سکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں۔ یا بوڑھے ہوں۔ اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے۔ اور اُس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے۔ جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ … اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان 11؍اکتوبر 1944ء صفحہ5 کالم1-2)

تاریخ گواہ ہے کہ ذیلی تنظیمیں خلافت احمدیہ کی عظیم الشان قیادت اور قوت قدسی کی بدولت ہر دور میں ایسے جاں نثار، مخلصین اور وفادار تیار کرتی رہی ہیں جو اپنی جان، مال، وقت، آبرو، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربان کرنے کے لئے مستعد ہیں اور نہایت خوش اسلوبی سے جماعت کے انتظام کو سنبھالنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

خلافت سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری

ذیلی تنظیموں کے لئے خلفائے کرام کی مساعی کا تذکرہ طویل ہے تاہم ایک نہایت مختصر روح پرور جھلک خلفاء کے ارشادات عالیہ کی روشنی میں ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

لجنہ اماء اللہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لجنہ اماء اللہ کے متعلق ابتدائی تحریک کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ …اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں … پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار، حصہ اوّل، صفحہ52)

تعلیمی اور تربیتی ترقی کی تلقین

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر بیان فرمایا کہ ’’عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاص دلچسپی ہے۔ …عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار حصہ اوّل صفحہ268)

پھر آپ نے 26 اپریل 1944ء کو منعقد ہونے والے مجلس عرفان میں اپنا ایک مبشر الہام بیان فرمایا کہ ’’آج رات مجھے یوں معلوم ہؤا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار حصہ اوّل صفحہ381)

اسی حوالے سے نہ صرف حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بلکہ تمام خلفائے کرام نے عورتوں کو اپنے دینی و دنیاوی علمی معیار کو بڑھانے کی بارہا تلقین فرمائی ہے اور اس کی ضرورت کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:
’’عورتیں جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جب تک ان کی تعلیم و تربیت … مَردوں سے زیادہ نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی ترقی اور تربیت میں بڑی سخت روک رہے گی- ان کی مثال اس ہیرے والے کی ہوگی جو ہیرا رکھتا ہو مگر اس کے استعمال سے بے خبر ہو- وہ اسے ایک گولی سمجھ کے پھینک دیتا ہے۔‘‘

(مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد9 صفحہ22)

تربیت اولاد

چونکہ گھر میں عورتوں کی ذمہ داریاں مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں اور اولاد کی پرورش اور تربیت میں ماؤں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، اس لئے تربیت اولاد کی اہمیت پر بھی خلفائے کرام نے متعدد مقامات پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ:
’’جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی بچے دیندار نہیں ہو سکیں گے کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔ بچے ماؤں کے ہی پاس ہوتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ دیندار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کر جاتی ہیں۔ …بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کرو اور بچپن میں ہی اُن کو دین سکھاؤ تاکہ وہ حقیقی دیندار بنیں۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار حصہ اوّل صفحہ127۔ 128)

تربیت اولاد کے حوالے سے لجنہ اماء اللہ سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ کے خاوند آپ کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوں کے لئے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 12 جون 2015ء)

پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر فرمایا:
’’احمدی ماؤں کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے بچوں کی اِس رنگ میں تربیت کریں کہ اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اُس کو راضی کرنے کے لئے ہر کوشش اُس کی اوّلین ترجیح ہو اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک احمدی مائیں بھی اپنے آپ کو ایمان کے اعلیٰ معیار تک لے جانے کی کوشش نہیں کریں گی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 21 جون 2013ء، صفحہ2 کالم3)

عائلی زندگی اور عورت کی ذمہ داریاں

اسی طرح گھر کے سکون کے لئے اور جنت نظیر معاشرے کو قائم کرنے کی خاطر خلفائے کرام نے ہمیشہ جہاں مردوں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں عورتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ ممبرات لجنہ اماء اللہ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانوگی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھوگی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہوسکتا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 26 جون 2015ء صفحہ16 کالم4)

پھر ایک اور موقع پر فرمایا:
’’پاک معاشرے کے قیام کے لئے عورت کو مردوں سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگران ہے۔ کیونکہ وہ قوم کی نئی نسل کی تربیت گاہ ہے، کیونکہ وہ جماعت کی امانت جو بچوں کی شکل میں ان کے پاس ہے اس کی امین ہے۔ پس میں عورتوں سے کہوں گا کہ اپنے گھروں کی نگرانی کا حق ادا کریں۔ نئی نسل کی تربیت کا حق ادا کریں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 21 جون 2013ء صفحہ10 کالم2)

بحیثیت بیوی، عورتوں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ مبذول فرماتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک حدیث نبوی کی تشریح فرمائی کہ:
’’پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو…بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو۔ اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔ پڑھائی کا احساس ہو۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد5 صفحہ138)

یہ لجنہ اماء اللہ کو کی جانے والی زریں ہدایات کی صرف چند مثالیں ہیں، جن سے خلفاء کی عورتوں کی تعلیم و تربیت، روحانی ترقی، خوشحال عائلی زندگی کی خاص توجہ اور فکرمندی معلوم ہوتی ہے۔

مجلس خدام الاحمدیہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1938ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا:
’’در حقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے… آج نوجوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے۔‘‘

(الفضل، 7 اپریل 1939ء، صفحہ7 کالم3)

بین الاقوامی خدمت پر مامور

نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ یعنی قوم کا سردار ان کا خادم ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق حقیقی خدمت کی روح کا احیا فرمایا اور اپنے فارسی کلام میں ارشاد فرمایا:

مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

یعنی: میرا مقصود اور میری خواہش خدمت خلق ہے یہی میرا کام ہے یہی میری ذمہ داری ہے یہی میرا طریق ہے۔

(درثمین فارسی، جلد اوّل صفحہ44)

چنانچہ مجلس خدام الاحمدیہ کو خلفائے کرام نے ہمیشہ بے لوث خدمت کرنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اسی سے قوم کی ترقی اور اس کی زندگی وابستہ ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خدام کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
’’خدمت کرو اور کرتے چلے جاؤ۔ تمہارا نام خدام الاحمدیہ ہے۔ خدام احمدیہ کے یہ معنی نہیں کہ تم احمدیت کے خادم ہو۔ خدام احمدیہ کے معنے ہیں تم احمدی خادم ہو …اگر تم واقع میں سچے احمدی بنو گے اور سچے خادم بنو گے تو تھوڑے دنوں میں ہی (اللہ تعالیٰ۔ ناقل) خدام کو سیّد بنا دے گا۔…خدام الاحمدیہ سے مراد تھا احمدیوں میں خدمت کرنے والا گروہ۔ تم خادم تو دنیا کے ہر انسان کے ہو لیکن ہو احمدیوں میں سے خادم۔ اس لئے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم احمدیوں کی خدمت کرو بلکہ مطلب یہ تھا کہ احمدی standard کے مطابق خدمت کرو۔‘‘

(مشعل راہ، جلد اوّل، صفحہ732)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ 2نومبر 1973ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہم خادم کی حیثیت سے پیدا ہوئے اور خادم کے مقام پر کھڑے رہنا ہماری زندگی کا معراج ہے۔ جتنا ہم بڑھیں گے، جتنا ہم طاقتور ہوں گے، جتنا ہم علم میں ترقی کریں گے، جتنا ہماری فراست کا نور آسمان کی بلندیوں کو چھوئے گا اتنا ہی وہ جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے، ہمیں پہلے سے زیادہ اپنا دوست پائے گا۔ اپنا خادم اور ہمدرد پائے گا۔ پس آگے بڑھنا ہے اور ساری دنیا سے آگے نکلنا ہے۔… خدام الاحمدیہ بین الاقوامی خدمت پر مامور ہیں۔‘‘

(مشعلِ راہ جلد دوم صفحہ390)

نوجوانوں کی اصلاح
مجلس خدام الاحمدیہ کا motto حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ہے کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی‘‘۔ اس ارشاد کی روشنی میں سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع 2019ء کے موقع پر فرمایا:
’’حضرت مصلح موعودؓ نے یہ نعرہ جب مجلس خدام الاحمدیہ کو عطا فرمایا تو اس کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ نوجوانوں کے لیے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم کرنا از حد ضروری ہے۔ … اس ماٹو پر عمل کرنے سے آپ اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے والے ہو جائیں گے۔ اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہماری جماعت اور ہماری قوم کی ترقی کا تعلق ہمارے نوجوانوں کی روحانی اور اخلاقی حالت سے ہے۔ اگر ہر خادم اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو اور اخلاقی برائیوں اور گناہوں سے بچنے والا ہو تو قوم کی ترقی روکی نہیں جا سکتی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10ستمبر 2019ء صفحہ16)

خدام کی تربیت اور اصلاح کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک موقع پر خدام کو مخاطب ہو کر فرمایا:
’’دنیا کا امام بننے سے پہلے اپنے نفس کا امام بننا ہو گا۔ اپنی کمزوریوں پر اطلاع پا کر اور ان کی حقیقت سے شناسائی حاصل کر کے ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا ہو گا…آپ نے تو دنیا کی اصلاح کرنی ہے اور آپ اپنی اصلاح کئے بغیر دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتے۔‘‘

(مشعلِ راہ جلد سوم صفحہ492-496)

پس جہاں مجلس خدام الاحمدیہ کو خلفائے کرام نے خدمت کی حقیقی روح پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں اپنی ذاتی اور قومی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اور اخوت، محبت، اور یکجہتی سے کام کرنے کی طرف تلقین فرمائی ہے تا اس تنظیم کے ذریعے سے نوجوان نسل کی تربیت اعلیٰ رنگ میں ہوتی چلی جائے اور قوم میں نیکی اور تقویٰ کا معیار بڑھتا چلا جائے۔

مجلس انصار اللہ

مجلس انصار اللہ کے قیام کا اعلان حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 26 جولائی 1940ء میں فرمایا۔ اس اہم خطبہ میں آپ نے فرمایا:
’’میں سمجھتا ہوں کام کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمر والوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے… اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں، اس میں شریک ہوں۔ ان کے لئے بھی لازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھا گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان 1 اگست 1940ء صفحہ7)

حقیقی انصار اللہ بننے کے معنے

جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنے حواریوں سے اللہ تعالیٰ کی خاطر مددگار بننے کا حکم ارشاد فرمایا تو انہوں نے برملا طور پر اس بات کا اقرار کیا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں۔ چنانچہ یہی جذبہ اس زمانے میں مثیل مسیح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والوں میں پایا جاتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس انصار اللہ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:
’’یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ اس لیے تم کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسلٍ چلتا چلا جاوے۔‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل، 13 ستمبر 2019ء، صفحہ18، کالم1)

تربیت اولاد کی اہمیت

پھر حضورؓ نے فرمایا کہ انصار اللہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اور ان میں خلافت کی محبت قائم کریں۔ چنانچہ اسی لئے مجلس اطفال الاحمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام فرمایا۔ کہ اطفال اور خدام بالآخر انصار کے ہی بچے ہیں اور اگر پہلے قدم پر اطفال کی تربیت اچھی ہو گئی تو آگے خدام کی تربیت بھی صحیح ہو گی۔ فرمایا:
’’پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے۔ تیسری سیڑھی انصار اﷲ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہوجائیں گی۔‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 13 ستمبر 2019ء صفحہ 18)

عبادتوں کے معیار کو بلند کرنا

جب انسان مجلس انصار اللہ میں شامل ہونے کی عمر کو پہنچتا ہے تو عمر کے اعتبار سے اپنی زندگی کے انجام کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ اور آخرت کا خوف انسان کو اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ خالص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے اور قربِ الٰہی حاصل کرے۔ چنانچہ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اور انصار کو اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بلند کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آج انصار اللہ، اللہ کے مددگاروں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنی عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں۔ ان کے گھروں سے ان کے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں اٹھتی ہوں، ان کے ماحول سے ان کے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں اٹھتی ہوں تبھی وہ پورے معاشرے میں اللہ کی مدد سے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں پھیلا سکتے ہیں۔ اللہ کو تو کسی بندے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بندوں کو دے رہا ہے کہ تم میری تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اگر اس دنیا میں زندگی گزارو گے اور تم میری تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤ گے تو اس طرح تم میرے دین کی مدد کر رہے ہو گے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 31 دسمبر 2004ء صفحہ3)

مجلس انصار اللہ یوکے کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انصار کو اپنی عملی حالتیں درست کرنے اور عبادتوں کی حفاظت کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’انصار اللہ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں۔ اقامۃ الصلوٰة کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اپنے بچوں کو، اپنے گھر والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائیں۔… اگر تمام انصار اس طرف توجہ کریں تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے …اگر ان لوگوں میں شامل ہونا ہے اور اپنی نسلوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا ہے جن کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو پھر اپنی نمازوں کی، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل، 1 فروری 2019ء، صفحہ21، 24)

خلافت کی برکات کا زندہ نشان

مندرجہ بالا سطروں میں خلفائے احمدیت کے ارشاداتِ عالیہ کے آئینہ میں نہایت اختصار سے ذیلی تنظیموں کے لئے ان کی مساعی کا اجمالی تذکرہ ہؤا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ذیلی تنظیموں کا وجود، اور ان کی ترقی اور مضبوطی مکمل طور پر خلافت کی برکات کا عظیم الشان نشان ہے۔ ایسی منظم، متحد اور فعال تنظیمیں روئے زمین پر نہیں ملیں گی جس کے اراکین اطاعتِ امام کے جذبے سے سرشار اپنا تن من دھن خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اور حقیقتاً تمام کامیابیاں خلافت سے وابستگی میں ہی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:
’’اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 23مئی 2003ء صفحہ1)

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاذ جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر