چل رہی ہیں زندگی پر آریاں
ہو رہی ہیں موت کی تیاریاں
اَتقيا اور اشقيا سب چل بسے
اپنی اپنی یاں بُھگت کر باریاں
خاتَمہ کا فکر کر لے اے مریض
پیشرو ہیں مرگ کی بیماریاں
جب فرشتہ موت کا گھر میں گھسا
ہو گئیں بے سود آه و زاریاں
زندگی تک کے ہیں یہ سب جاں نِثار
سانس چلنے تک کی ہیں سب یاریاں
جیتے جی جتنا کوئی چاہے بنے
بعد مُردن ختم ہیں عیاریاں
حَشر میں پُرسِش ہے بس اَعمال کی
کام آئیں گی نہ رِشتہ داریاں
کس نشے میں جھومتا پھرتا ہے تُو
رنگ لائیں گی یہ سب مَے خواریاں
کھینچ کر لے جائیں گی سوئے سَقَر
نفسِ اَمّارہ کی بد کرداریاں
طائرِ جاں جب قفس سے اڑ گیا
ساتھ ہی اڑ جائیں گی طرّاریاں
چاہیئے فکرِ حسابِ آخِرت
عاقبت کی کچھ کرو تیاریاں
(بخار دل صفحہ 64)