• 27 جولائی, 2025

(This week with Huzoor (20 August 2021

This week with Huzoor
20 August 2021

اس ہفتے مجلس خدام الاحمدیہ ڈنمارک کو حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز سے Virtual ملاقات کی سعادت ملی۔

٭ … ایک خادم نے عرض کی کہ حضور میں چھ سال سے ڈنمارک میں رہ رہا ہوں یہاں کا معاشرہ پاکستانی معاشرے سے بہت مختلف ہے حضور ہم کس طرح اپنے بچوں کی اچھی تربیت بھی کریں؟ اور ساتھ ان کو Denish معاشرے کا حصہ بھی بنائیں؟

اس پر حضور نے فرمایا کمال ہوگیا چھ سالوں میں آپ کو یہ بھی نہیں پتہ چلا ۔۔۔۔۔ 6 سالوں میں، میں نے اتنی باتیں کہیں ہیں۔ ان کو سنا آپ نے؟ جی حضور کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔۔فرمایا کئی باتیں کی ہیں ،کہ کس طرح ان کو معاشرے کا حصہ بنائیں؟ ماؤں کو بھی کہا ،باپوں کو بھی کہا ۔۔۔۔۔ کہ ایک تو یہ کہ یہاں بچوں کے ساتھ دوستی بھی پیدا کریں یہاں باہر جا کے جو بھی وہ سیکھتے ہیں ،باتیں کرتے ہیں، اسکول میں باتیں ہوتی ہیں،کھلی کھلی باتیں ہوتی ہیں سکول میں، ٹیچر بھی بتاتے ہیں۔ تو اس کی وجہ سے ان سے پھر آپ کو دوستی لگانی پڑے گی تاکہ ہر بات وہ آپ سے شیئر کریں اور جب وہ شیئر کریں گے تو ان باتوں کے جواب دیں بجائے شرمانے۔ بعض ایسے جواب ہوں گے کہ پاکستانی معاشرے میں جواب دیتے ہوئے آپ کو شرم آتی ہوگی۔ ان کو اسلامی نقطہ نظر سے جواب دیں۔ بعض باتیں ایسی ہوگی کہ جن کے متعلق آپ کہیں گے کہ آپ کو سکول میں بتا دی گئی ہیں لیکن آپ کی عمر ابھی اس قابل نہیں ہے کہ ان باتوں کو دیکھو، سنو، جب تم بڑھے ہو گے تو آپ کو مزید پتہ چل جائے گا۔ یہ نہیں کہنا کہ تم نے غلط کیا۔کہنا ہے کہ ٹھیک ہے تم سن لو ٹیچر کہتا ہے۔لیکن جب تم بڑے ہو گے تو تمہیں خود ہی ان باتوں کے جواب مل جائیں گے۔ تو بچوں میں ایک تو یہ عادت ڈالیں کہ وہ آپ سے ہر بات شیئر کریں۔ دوستانہ ماحول ہو۔ دوسرے جو ان کی اچھی باتیں ہیں ان کو اختیار کریں اور جو ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اخلاق پر اثر ڈالنے والی ہے یا دین کے خلاف ہے وہ ان کو بتائیں۔ان کے ذہنوں میں ڈال دیں کہ تم احمدی ہوں اور احمدیت کیا چیز ہے ؟احمدیت حقیقی اسلام ہے۔ ہم کیوں احمدی ہیں؟ اور ہمارے کیا مقاصد ہیں ؟اور ہم نے کیا کرنا ہے ؟دنیا داروں کے تو یہ مقصد ہیں کہ دنیا کی خواہشات اور دنیا کی چمک کے لئے پھرتے ہیں۔لیکن ہمارے مقصد بہت بڑے بڑے ہیں۔ اسی لئے ان مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ابھی سے کوشش کرو ،بچپن سے ہی۔ باقی یہ چیزیں ضمنی ہیں،معمولی ہیں۔ ان کا تمہیں خود ہی بعد میں پتہ چل جائے گا اس طرح شیئر کریں گے دوستانہ ماحول میں تو ،آہستہ آہستہ پھر پھر ٹھیک ہو جائے گا۔اگر ان کو یہ معلوم ہوا کہ گھر میں ماں باپ نے ہماری بات سننی نہیں اور جھڑک دینا ہے یا ڈانٹ دینا ہے یا شرما کر چپ کر جانا ہے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے۔

٭ … ایک اور خادم نے سوال کیا کہ کیا دنیاوی حکومتوں کو بعض Blasphemy laws رکھنے چاہیے مثلا قرآن کریم کو جلانے سے روکنے کے لیے وغیرہ؟

حضور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا۔۔۔۔اس کا سوال نہیں ہے کہ Blasphemy laws رکھنا ہے یا نہیں رکھنا۔ اللہ تعالی اپنی مقدس چیزیں جو ہیں۔ انبیاء ہیں یا کتاب ہیں اس کی عزت اللہ تعالی نے قائم کرنی ہے اور وہ کرتا ہے۔ لوگوں کے قانون سے کچھ نہیں بنتا۔لیکن اصل چیز جو بتانے والی ہے ان لوگوں کو۔( وہ یہ ہے کہ) تم لوگ کہتے ہو، ہمیں لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور ہر طبقہ کے جذبات کے خیال کے لئے تم قانون پاس کرتے ہو۔ پھر کہتے ہو یہ آزادی اظہار ہے۔اگر ہر ایک کو آزادی ہے۔۔ اپنے جذبات کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے لیکن تمہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اگر کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں وہاں آزادی کی Limit لگاؤ۔آزادی تمہیں یہ نہیں کہتی کہ تم لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالنا شروع کر دو، جیب کترے بن جاؤ۔ آزادی یہ نہیں کہتی کہ لوگوں کے گھروں کو توڑ کر، Break in کرکے ،چوری کرکے، ڈاکے ڈال کے، ان کا مال لوٹ لو۔یہ آزادی، تو نہیں نہ کہتی۔قانون پکڑتا ہے نا۔ اسی طرح Blasphemy lawsکی سزا دو یا نہ دو لیکن کم از کم یہ پابند کرے(حکومت کہ) ہر شہری امن قائم کرنے کے لیے اپنے ملک میں، کہ ہم نے ہر ایک کے جذبات کا خیال رکھنا ہے جب جذبات کا خیال رکھیں گے تو وہاں خود بخود ایک امن کی فضا قائم ہو جائےگی، اور جب امن کی فضا قائم ہو جائے گی ،بھائی چارے کی فضا قائم ہو جائے گی، تو پھر کوئی دوسرے کے جذبات سےنہیں کھیلے گا، اصل چیز یہ ہے جو بتانے والی ہے۔ باقی Blasphemy laws کی اللہ تعالی نے تو کوئی سزا نہیں دی اللہ تعالی یہ کہتا ہے کہ تم لو گ بھائی بھائی بن کر رہو۔ اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو ،اس قانون پر اگر عمل کرلیں گے تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔اگر اس قانون پر عمل کر لیں گے کہ ہمارا کام صرف حق لینا نہیں حق دینا بھی ہے۔ اگر یہ پتہ چل جائے ہر شہری کو۔۔۔۔ تو یہ چیز مذہب سکھاتا ہے ہمیں۔ بہت سارے حقوق میں نے 2019 کے جلسے میں بیان کیے،کہ کیا حقوق ہیں ؟کچھ اب کیے ،ان حقوق کا خیال رکھا جائے تو فتنہ اور فساد پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہاں ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ Blasphemy laws کو Implement کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں۔اس کی حقیقت کو پہنچ جائیں، اس بات کی گہرائی کو پہنچ کر اس پر عمل کروانے لگ جائیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں۔ محبت پیار اور بھائی چارہ قائم ہو جاتا ہے۔ جب یہ کام ہو جائے گا تو کوئی ایک دوسرے کے جذبات سے نہیں کھیلے گا۔چاہے وہ مذہبی جذبات ہیں یا ذاتی جذبات ہیں۔

٭ … ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا حضور کے خیال میں ایسا وقت آئے گا کہ دجالی طاقتیں احمدی حکومتوں سے جنگ کریں گی اور اگر ایسا ہو گا تو کیا احمدیوں کو بھی قتال کرنا پڑے گا؟

فرمایا۔ جب بھی ایسا وقت، جب مذہب کو مٹانے کے لیے کوئی بھی ملک یا دنیاوی حکومت طاقت کا استعمال کرے، تو اس وقت احمدیوں کو بھی قتال کی اور جہاد کی اجازت ہے۔ عیسی مسیح کرے گا جنگوں کا التواء ۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ جنگوں کا التواء ۔۔۔ التواء کا مطلب ہے آگے چلے جانا، کچھ دیر کے لئے روک دینا، اس وقت کے لئے روک دینا جب تک یہ حالات پیدا نہ ہوں۔ ابھی وہ حالات نہیں ہیں کہ مذہب کو ختم کرنے کے لیے تلوار کا استعمال ہو رہا ہو ،جب بندوق یا تلوار کا استعمال ہوگا مذہب کو ختم کرنے کے لیے، تو اس وقت مسلمانوں کو بھی جہاد کی اجازت ہے، اور احمدیوں کو سب سے بڑھ کر ہو گی اس وقت۔۔۔۔ اگر مذہب کے لیے ہیں۔ لیکن فی الحال جو جنگ لڑی جارہی ہیں وہ جیو پولیٹیکل جنگیں ہیں۔ اور اس میں کیا ہو رہا ہے کہ خود مسلمان غیر مسلموں سے مدد لے رہے ہیں خود مسلمان غیر مسلموں سے ہتھیار خرید رہے ہیں۔ خود مسلمان۔۔۔ مسلمانوں کو مار رہے ہیں دوسروں کے ساتھ مل کے۔پھر جہاد کیسا ہوا؟ آجکل کا جہاد۔۔ جہاد تھوڑا ہے۔ یہ جہاد تو قلمی جہاد کا وقت ہے۔ یضع الحرب حدیث میں بھی آیا ہے بخاری میں ، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے ساتھ جنگوں کا خاتمہ ہو گا۔اسی لیے ہوگا کہ دجالی طاقتیں اور جو بھی ان کے مذہبی لیڈر ہیں ،وہ لٹریچر سے ،قلم سے ،میڈیا سے، اسلام کے خلاف باتیں کریں گے۔ اور وہی ہمیں کرنا چاہیے۔ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تو نہیں کہا کہ بالکل ہی ختم ہے۔ ہاں یہ کہا ہے کہ۔ یہ بات سن کر جو بھی لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا۔ جو کافر تم سے مذہب کے لئے نہیں لڑ رہے ہیں۔ ان سے اگر تم لڑو گے دنیاوی Gain کے لئے تو پھر تم مار ہی کھاؤ گے اور وہ مار کھا رہے مسلمان۔ بات تو سچ ہوگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہاں یہ فرمایا کہ۔۔ عیسی مسیح کرے گا جنگوں کا التواء ۔۔۔ یعنی ملتوی کر دی اور اس وقت تک ملتوی کر دی جب تک یہ حالات پیدا نہ ہوں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ حالات پیدا ہو جائیں۔ دعا کریں کہ ایسے حالات پیدا نہ ہو۔ تو پھر ٹھیک ہے احمدیوں کو جنگ اور قتال کی اجازت ہوگی اس لیے کہ وہ مذہب کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اجازت دی تھی جنگ کی ،سورہ حج میں جس کا ذکر ہے، وہ کیا تھا؟ یہی کہ تمہیں اجازت اس لیے دی جاتی ہے، کیونکہ یہ لوگ حد سے سے بڑھ گئے ہیں، یہ مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر ان کے ہاتھ کو نہ روکا تو، نہ کوئی چرچ قائم رہے، گا نہ کوئی ٹیمپل قائم رہے گا ،نہ کوئی مسجد قائم رہے گی ،ہر مذہب جو ہے اس کی عبادت گاہوں کے نام لے لئے قرآن کریم نے۔ کہ یہ چیزیں قائم نہیں رہیں گی، اس لیے تمہیں اجازت ہے جنگ کرنے کی۔ اس لیے اسلام میں جنگ کی اجازت ہے۔ جب مذہب کو ختم کرنے کے لیے جنگ لڑی جا رہی ہو۔ جیو گرافی Gain کرنے کے لئے جنگوں کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں نے اس لیے جنگیں لڑیں۔ ہاں !فتنے ختم کرنے کے لیے جنگیں لڑیں ،فساد ختم کرنے کے لیے جنگیں لڑیں۔ کبھی جیو گرافی Gain لینے کے لیے جنگیں نہیں لڑیں اسلام میں۔ کم ازکم خلفائے راشدین نے ۔۔۔۔۔ بادشاہوں نے جنگیں لڑیں بعد میں ،اسلامی بادشاہوں نے اسلام میں بادشاہت یا خلافت کے نام پر۔۔۔۔ مگر وہ اسلامی تعلیم نہیں تھی۔ اسلامی تعلیم تو خلفائے راشدین تک ختم ہو گئی۔ یعنی عملی تعلیم ،عملی حیثیت ختم ہو گئی ،باتیں جاری رہی جنگ جاری رہی (ان بادشاہوں نے) بعض جنگیں جائز بھی لڑیں اور بعض ناجائز بھی لڑیں۔ اس لیے جنگ صرف اس وقت ہے جب فتنہ اور فساد ہو اور اس کو ختم کرنا ہو۔ اس لئے قرآن شریف میں سورہ حجرات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اگر دو ملک آپس میں جنگ لڑیں تو ان میں امن قائم کرنے کی کوشش کرو۔ اور جب وہ جنگ سے باز آ جائیں تو پھر ان سے انصاف کرو۔ اگر ایک ملک دوسرے پر زیادتی کروالا ہے تو اس کے خلاف کرو۔ لیکن جب امن قائم ہو جائے تو پھر اپنےPersonal Gain کے لیے ان پر Restrictions Impose نہ کرو۔ جس طرح آج کل کی دنیا میں ہوتا ہے۔ پھر (ان کو ان کے حال پر) چھوڑ دو۔ (اور یہ کہا جائے کہ) ٹھیک ہے تم اپنی قوم کو چلاؤ، اپنے ملک کو ترقی دو، فرسٹ ورلڈ وار کے بعد یا سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد کیا ہوا ؟ملک ٹوٹ گئے، ملکوں کی تقسیم کردی۔ اس لیے کہ کہیں طاقت جمع کرکے دوبارہ اکٹھے نہ ہو جائیں۔ یہ تو انصاف نہیں تھا۔ مڈل ایسٹ میں جو ملکوں کے ٹکڑے کر دیے۔ وہ اسی لیے کر دیے نا ۔۔ ان دجالی طاقتوں نے اور اُس وقت سے پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ یہ تو خود دجال کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ہم نے کیا کرنا ہے۔

٭ … ایک اور خادم نے سوال کیا کہ۔ حضور آپ آج کل عورتوں کے حقوق کے بارے میں بھی خطاب فرماتے ہیں آپ نے بتایا ہے کہ وہ اپنے خاوندوں سے کن باتوں کا مطالبہ کرسکتی ہیں؟ اسی طرح آپ نے بتایا ہے کہ قوام ہونے کے ناطے خاوندوں کے کیا فرائض ہیں؟ حضور میرا سوال یہ ہے کہ عورتوں کے کیا فرائض ہیں؟ خاوند اور اسکی فیملی کے آگے؟ مرد کے اپنے بیوی پر کیا حقوق ہیں؟

فرمایا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ آج کل آپ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ آج کل تو میں عورتوں کے حقوق کی بات کر ہی نہیں رہا۔ آج کل تو میں خطبات دے رہا ہو تاریخ اسلام پر۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ resent تقریر میں جلسہ سالانہ کی تقریر میں آپ نے عورتوں کے حقوق کی بات کی۔۔

اگر آپ اسی تقریر کو غور سے سنیں اس بات کو چھوڑیں کہ میں پہلے کیا کچھ کہہ چکا ہوں عورتوں کو کہ کس طرح اپنے فرائض ادا کرنے چاہیے۔ اسی تقریر میں اگر آپ اس کو غور سے سنیں ،میں حیران ہوں کہ لوگوں نے غور سے سنا ہی نہیں اور عورتوں نے بھی کیونکہ بعض پوائنٹ جو زیادہ ہائی لائٹ ہوگئے تھے اور ان کی فیورمیں چلے گئے تھے صرف ان ہی کو دیکھا۔ اسی تقریر میں نے بتایا کہ عورتوں کے کیا حقوق ہیں؟ اور وہ جو حدیث بیان کی ،ایک لمبی حدیث تھی جس کا خلاصہ میں نے بیان کیا تھا کہ عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ مرد نمازیں بھی پڑھتے ہیں ،چندہ بھی دیتے ہیں ،کمائی بھی کرتے ہیں اور پھر جہاد پر بھی جاتے ہیں اور حج پر بھی جاتے ہیں۔ اور عورتیں بعض دفعہ ایسے کام نہیں کر سکتی۔ تو جو گھر میں بیٹھ کر فرائض ادا کر رہی ہیں تو کیا ہمیں اس کا اتنا اجر ملے گا جتنا ان لوگوں کو جہاد وغیرہ کے برابر مل رہا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تم لوگوں کو ملے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں عورتوں کو یہ نہیں کہا گیا مردوں کے حقوق نہیں ہیں۔ ان کو جو ثواب مل رہا ہے مردوں کو ،عورتوں کے ثواب کے برابر ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن شریف میں کئی جگہ یہی لکھا ہے کہ مرد کو بھی اس کے نیک کاموں کا اجر ملے گا، عورت کو بھی نیک کاموں کا اجر ملے گا اور مرد کو بھی یہ چیز ملے گی اور عورت کو بھی یہ چیز ملے گی۔جنت میں مرد بھی ہونگے عورتیں بھی ہوں گی اور اس عورت نےجو یہ کہا تھا کہ ہم گھر کو سنبھالتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ گھر کو سنبھالنے کا حق داکریں گی تواجر ملے گا۔اس حدیث میں اگر غور سے دیکھیں تو اس عورت نے کہا تھا کہ ہم گھر کو سنبھالتی ہیں ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ ذمہ داریاں ادا کرنے والی عورت ہے وہ بچوں کی حفاظت کرنے والی ہے بچوں کی تربیت کرنے والی ہے ،مرد کے بچوں کی ،مرد کے گھر کی نگران ہے، اس کے گھر میں جو دولت پڑی ہوئی ہے اس کی حفاظت کرنے والی ہے ،اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنے والی ہے وہ مرد سے وفاداری کرنے والی ہے اور اس کے حق ادا کرنے والی ہے تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ہاں۔۔اگر تم لو گ یہ ساری باتیں کر رہی ہو، جو مردوں کے جہاد، عبادتوں اور جہاد اور فلاں فلاں کے ثواب میں اتنا اجر تم کو بھی مل جائے گا۔تو اسی حدیث میں عورتوں کو یہ کہہ دیا کہ تم یہ یہ کام کرو گی تو تم کوملے گا یہ کب کہہ دیا کہ گھر بیٹھے مل جائے گا سب کچھ ،اس کی لسٹ بنوائی ،اس عورت نےیہ کہا تھا کہ ہم یہ یہ کرتی ہیں ،کیا ہمیں اس کا اجر ملے گا۔آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ہاں۔اگر تم واقعی یہ کرتی ہو، اگر تم بچوں کی صحیح تربیت کر رہی ہو ،تم خاوند کے گھر کی حفاظت کر رہی ہو اس کے پیچھے اپنی عزت کا خیال رکھ رہی ہو، اور اس کے پیسے کی حفاظت کر رہی ہو، اس کی دولت کی حفاظت کر رہی ہو ،اور ہر طرح سے اس کی خدمت کر رہی ہو تو تو یقینا ثواب ملے گا اتنا ہی جتنا مردوں کو جہاد کا ثواب ملتاہے۔ ذمہ داری تو ڈال دی۔ آپ کہاں سے کہتے ہیں کہ میں نے صرف عورتوں کے حقوق کی بات کی؟۔ عورتوں کے متعلق تو اتنی باتیں اسی حدیث میں بیان ہوگئی ہیں جو اس نے کرنی ہے گھر کو سنبھالنے کے لیے۔ کیا آپ کے بچے کی اگرصحیح تربیت ہو جائے تو کیا عورت اس بات کی حق دار نہیں ہے کہ آپ اس سے نیک سلوک کریں ؟اگر عورت آپ کے گھر کی حفاظت کر رہی ہے تو کیا عورت اس بات کی حقدار نہیں ہے کہ اس سے نیک سلوک کریں؟ اگر عورت اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کر رہی ہے اور اپنے خاوند سے سے مخلص ہے اور وفادار ہے اس کا پیار کا حق ادا کرنے والی بیوی ہے۔تو کیا وہ اس بات کی حقدار نہیں ہے کہ آپ اس سے نیک سلوک کریں ؟تو پھر کہاں سے حق آ گیا ؟حق تو دونوں کے بیان ہوگئے۔اگرغور سے سنو تو اسی حدیث میں دونوں کے حق بیان ہو گئے ہیں۔تو یہ سارے حق دونوں کو دیے ہوئے ہیں۔تم یہ یہ کرو تو اس کو اجر فلاں فلاں چیز کا ہے ،عورت کا اجر اس چیز کا ہے۔ہاں مرد کو یہ کہا ہے کہ تم ان سے نیک سلوک کرو۔ عاشروھن بالمعروف جو نیک سلوک ہے وہ اسی لئے ہے کہ جب وہ تمہارے حق ادا کر رہی ہے تو پھر اس سے نیک سلوک کرو۔

٭ … ایک اور خادم نے سوال کیا کہ حضور میرا سوال یہ ہےکہ ہم میڈیا میں دیکھتے ہیں میڈیا مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتا ہے تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیوں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتا ہے؟

اس پر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا یہ تو میڈیا ہی بتا سکتا ہے، یہ تو جو پاگلوں والی حرکت کرتا ہے یا ظلم کرتا ہے وہی بتا سکتا ہے کہ کیوں کر رہے ہو؟۔ ہاں بات یہ ہے کہ اسلام کی جو حقیقی تصویر ہے وہ دنیا کو نہیں پتا۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ سیریا میں جنگ لڑ رہے ہیں۔مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ یمن میں ظلم ہو رہا ہے۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ طالبان ظلم کر رہے ہیں۔ دنیا نے یہ دیکھا کے القاعدہ ظلم کر رہے ہیں بلا وجہ۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کہتے ہیں کہ یورپ کے خلاف بلاوجہ بول رہے ہیں، بعض باتوں پہ۔ بعض حقائق صحیح بھی نہیں ہے۔کوئی بو کو حرام ہے، کوئی الشباب ہے، کوئی فلاں تنظیم ہے، فلاں تنظیم ہے، جہاں جہاں ہیں ،مسلمانوں کے نام پر غلط حرکتیں ہورہی ہیں تو اس لیے دنیا ٹارگٹ کرتی ہے، ان کو اگر اسلام کی صحیح تصویر بتائی جائے، جب ہم بتاتے ہیں، پیس کانفرنس کرتے ہیں یا میں کہیں بھی جاتا ہوں ہوں دنیا میں۔ دنیا کو بتاتا ہوں پریس کا نفرس میں بھی بتادیتا ہوں ،لوگوں کو بتاتا ہوں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اسلام جو تم بتا رہے ہو اور میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں اور کل کےخطبہ میں بھی لوگوں کے واقعات سنائے اور ہمیشہ ہی سناتا رہتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اسلام جو تم بتا تے ہو ،یہ ایسا اسلام ہے جسے ہر کوئی قبول کرنے کے لئے اور اس کے حق میں بولنے کے لیے تیار ہے۔اس لئے ہماری طرف سے کمزوری ہے۔ کہ ہم دنیا کو بتا نہیں رہے اس زمانے میں تو حضرت مسیح علیہ السلام کی جماعت کے افراد کا ہی کام ہے کہ، دنیا کو بتائیں کہ اصل اسلام کی تصویر کیا ہے ؟اور حقیقت کیا ہے؟ تو یہ آپ لوگوں کا کام ہے۔کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو اس کے بارے میں اسلام کی تعلیم کو ہائی لائٹ کرکے بتایا کریں کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے یہ جو ہو رہا ہے یہ غلط ہو رہا ہے۔ اسلام کے متعلق مختلف وقتوں میں چھوٹے چھوٹے خط اور مضمون لکھتے رہا کریں۔ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا کریں، اور جب دنیا کو Enlihtenment ہو جائے گی پتہ لگ جائے گا کہ کیا حقیقت ہےاسلام کی؟ تو پھر لوگ اسلام کے خلاف نہیں بولیں گے۔تو اس زمانے میں یہ ہمارا کام ہے کہ دنیا کو بتائیں ، اورجہاں تک ہو سکتا ہے ہم بتاتے ہیں۔آپ لوگ بھی اپنے اپنے ملکوں میں بتائیں۔امن کے لیے لٹریچر تقسیم کر،یں پمفلٹ تقسیم کریں۔ اس وقت تک تو آپ کا اتنا چھوٹا سا ملک ہے ڈنمارک۔ملک کے ہر شخص تک اسلام کا امن کا پیغام پہنچ جانا چاہیے تھا حضور نے پوچھا کتنی آبادی ہے ملک کی؟ جس پر خادم نے جواب دیا پانچ ملین۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ پانچ ملین تو کوئی آبادی نہیں اس کے لیے تو آپ آسانی سے پمفلٹ پہنچا سکتے ہیں کہ اسلام کی یہ خوبصورت تصویر ہے۔ ایک دیا۔۔۔پھر اگلا پیغام دیا کہ یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے اور اس تعلیم کو پھیلانے کے لیے اللہ تعالی نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے جب تک ہماری ہر اک شخص تک رسائی نہیں ہوتی اس تک ہم پہنچتے نہیں۔تو یہ سارا کچھ کرنا تو آپ لوگوں کا کام ہے ان تک پہنچائیں ،اور میڈیا کا منہ بند کریں اور میڈیا سے تعلق پیدا کریں، میڈیا کو بتائیں۔ وہ آپ کی دعوتوں پر بھی آئیں۔آپ کے فنکشنزپر بھی آئیں اور آپ کے آرٹیکل بھی شائع کریں کریں تو پھر خود پتہ لگ جائے گا۔باقی پھر جو مسلمانوں کے کرتوت ہیں اس کو دیکھ کر تو پھر میڈیا نےجو دیکھنا ہے وہی بتانا ہے اور جب ہم بتاتے ہیں تو وہ بہت شرمندہ ہوتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہم سے غلطی ہوگئی ہم خلاف بولےآپ کے۔ میرے سامنے تو بے شمار لوگوں نے یہی کہا ہے اور پھر لکھتے بھی ہیں اسلام کے حق میں۔

پھر حضور نے فرمایا جی صدر صاحب کیا کہتے ہیں۔صدر صاحب نے کہا جزاک اللہ حضور آپ کے وقت کا۔۔حضور دعا کی درخواست ہے خدام الاحمدیہ کے لئے حضور نے فرمایا۔اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ایسی مجلس بن جائیں ڈنمارک کی خدام الاحمدیہ کی جو نمونہ بن جائے۔ لٹریچر تقسیم کریں آپ لوگ زیادہ۔ ہر سال کم از کم ڈھائی لاکھ لٹریچر تو تقسیم ہونا چاہیے آپ کی طرف سے سے اڑھائی سے پانچ لاکھ۔ اگر خدام الاحمدیہ اڑھائی لاکھ کرے انصاراللہ بھی اڑھائی لاکھ کرے اور لجنہء دو لاکھ تو۔تقریبا م پونا ملین ہو گیا سال میں۔اور 6 سال میں پورے ڈنمارک کو بتا سکتے ہیں۔ابھی تک تو آپ کے پانچ فیصد لوگوں کو بھی نہیں پتہ کہ احمدیت کیا چیز ہے؟

مجلس انصاراللہ ہالینڈ کے ساتھ ملاقات

اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مجلس انصاراللہ ہالینڈ کے ساتھ ایک Virtual ملاقات ہوئی جس میں حضور نے ممبران مجلس عاملہ انصار اللہ کی مختلف شعبہ جات کے حوالے سے رہنمائی کی۔ ناظم تعلیم صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ کتنی کتابیں آپ دیتے ہیں انصار کو پڑھنے کے لئے ایک سال میں؟ جس پر پر ناظم صاحب نے جواب دیا پہلے تو زیادہ دیتے تھے۔لیکن اس دفعہ ہم نے ایک کتاب رکھی ہے حضور نے استفسار کیا کہ کون سی؟۔۔ موصوف نے جواب دیا کہ حقیقۃ الوحی۔۔حضور نے فرمایا۔ ماشاء اللہ ایک سال میں پڑھنی ہے ؟یا تقسیم کیا ہے ایک ،دو، سالوں میں؟ تو انہوں نے جواب دیا حضور ایک سال میں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ۔۔۔ اس میں یہ بتائیں کہ عاملہ کے ممبران میں سے کتنوں نے پڑھ لی؟ فرمایا۔۔۔پہلے گھر سے شروع کریں۔ گھر آپ کا عاملہ ہے۔بتائیں عاملہ کے ممبران نے پڑھی؟۔ پہلے تو عاملہ سے رپورٹ لیں ،صدر صاحب سے شروع کریں اور پھر باقیوں سے پوچھتے جائیں کہ پڑھ لی؟ کتنی پڑھ لی؟ جب عاملہ نے پڑھ لی ،تو پھر آپ جائیں اپنے زعماءکے پاس۔۔ پھر دیکھیں کہ زعما ء نے پڑھ لی؟۔پھر آپ جائیں اپنے ناظمین کے پاس ، پھر دیکھیں انہوں نے پڑھ لی؟ پھر آپ غیر عہدیدار ناصر سے پوچھیں۔ اگرآپ عاملہ کے ممبران جو ہیں ہر لیول پہ ان سے کتابیں پڑھوا لیں ، یا کسی پروگرام میں بھی شامل کرلیں، تو ساٹھ فیصد آپ کی تجنید کا ویسے ہی کام ہو جاتا ہے۔( اگر) آپ کی عا ملہ جو ہے ہر لیول کی وہ Activeہوجائیں تو 60 فیصد کام تو آپ کا ہوگیا۔ اور مسئلہ ہی نہیں رہتا۔( لیکن )مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف گھر بیٹھ کر آرڈر کر دیتے ہیں اور خود پڑھتے نہیں۔ آپ نے کتنی پڑھ لی ہے؟اس پر مو صوف نے جواب دیا۔۔ حضور تقریبا 70 فیصد پڑھ لی ہے۔جس پر حضور نے استفسار کیا۔ پہلا شروع کا جو حصہ ہے۔۔شروع کے پچاس ساٹھ صفوں میں کیا مضمون ہے؟ مو صوف نے جواب دیا ،اس میں حضور(حضرت مسیح موعودؑ) نے وحی کی اقسام بیان کی ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔خوابیں دیکھ کے زیادہ خوش نہ ہو جایا کرو،اصل چیز نیکی اور تقویٰ ہےخلاصہ یہ ہے اس کا۔۔ بہرحال اپنے جو قائدین ہیں ان سے بھی رپورٹ لیں۔کہ کتنوں نے پڑھی ؟پھر زعماءسے لیں اور ناظمین سے بھی لیں۔اگر کہیں منتظمین ہے تو ان سے بھی لیں اور پھر دوسرے انصار ممبران ہیں، مجلس کےممبران ،ان سے پوچھیں اور اپنے ہر لیول کے اوپر آپ کا جو ناظم تعلیم ہے اس کو ایکٹو کریں کہ وہ رپورٹ دیا کرے ،پتا کر کے۔

اس کے بعد حضور نے امیر صاحب سے ان کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔امیر صاحب نے بیان کیا کہ حضور میں بہتر ہوں۔نیز عرض کی کہ خاکسار صدر صاحب کی طرف سےبطور رکن خصوصی appoint کیا گیا ہے۔حضور نے فرمایا آپ کا کام ہے کہ آپ انصاراللہ کے لیے دعا کیا کریں ،کہ یہ کام کیا کریں۔ اس پر امیر صاحب نے جواب دیا کہ ، جی حضور میں یہ کر رہا ہوں۔حضور نے فرمایا۔ اللہ تعالی آپ کو صحت و تندرستی والی لمبی زندگی دے۔آمین

٭ … ایک ناصر صاحب نے بیان کیا کہ حضور مجھے معاون صدر کے طور پر اور زعیم مجلس کے طور پر خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔حضور نے فرمایا کہ آپ اور حمید صاحب ہی ہیں (جو) اس مجلس میں عمر رسیدہ (ہیں)۔۔۔ پھر حضور نے فرمایا نے آپ زیادہ بوڑھے تو نہیں ہوئے؟ جس پر موصوف نے کہا کہ حضور میں ستر سال کے لگ بھگ ہونے والا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا صرف ستر کے ۔۔۔ (اور مسکراتے ہوئے فرمایا) پھر تو آپ جوان ہیں میں تو اپنے آپ کو بو ڑھا نہیں سمجھتا۔

٭ … اس کے بعد ایک اور ناصر نے یہ سوال کیا کہ حضور ہمارے نیشنل عاملہ کے ممبران اور اسی طرح لوکل سطح پر جو عاملہ ممبران ہیں ان کے ساتھ مختلف موقعوں پر انصار کا رویہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے۔حضور ان کو حوصلہ دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔؟

اس پر حضور نے فرمایا اگر تو وہ ان ممبران کے لئے کام کر رہے ہیں ،تو پھر تو حوصلہ شکنی جائز ہے۔ اور اگر وہ خدا تعالیٰ کی خاطرکام کر رہے ہیں تو حوصلہ شکنی ناجائز ہے۔ فرمایا انصار بچے تو نہیں۔۔ماشاءاللہ چالیس سال کی میچور عمر کے بعد انصار میں داخل ہوتے ہیں۔اس کے بعد اگر کسی ناصر کی طرف سے حوصلہ شکنی ہو بھی جاتی ہے۔۔۔حوصلہ شکنی ہوتی ہے بعض بوڑھوں کی طرف سے۔ جب بندہ پینسٹھ سال کراس کرتا ہے تووہ بعض دفعہ سنا بھی دیتا ہے، یا پھربعض دفعہ ہو سکتا ہے کسی نوجوان انصار کی طرف سے بھی(بات) ہو جاتی ہو۔ لیکن عموما بوڑھوں کی طرف سے ہوتی ہے۔تو اس پر آپ لوگ یہ سوچ رکھیں اور ہر ایک کو بھی بتائیں کہ ہم نے خدا کی خاطر کام کرنا ہے۔اور جب خدا تعالیٰ کی خاطر کام کرنا ہے تو پھر کسی دنیا والے کی حوصلہ شکنی یا ‘‘لومتہ لائم ’’کی پرواہ ہی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔کوئی بچے تو نہیں آپ۔ماشاءاللہ چالیس سال کی عمر گزار کے پورے میچور ہو چکے ہیں۔اس میں تو حوصلہ شکنی ہو بھی جائے تو کیا ہے۔۔کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے رشتہ داروں کو بلایا تھا تبلیغ کے لیے۔ نبوت کے مقام ملنے کے بعد۔توروٹی کھا کے سارے دوڑ گئے تھے ، تو حوصلہ شکنی کر دی تھی۔ تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہار مان لی تھی؟ آپ صلی اللہ وسلم نے اگلی دفعہ تھوڑے عرصے بعد دوبارہ دعوت کی۔ دوبارہ پہلےاپنا پیغام پہنچایا ،پھر ان کو روٹی کھلائی ، اس کے باوجود بھی روٹی کھا کے چلے گئے، ڈھیٹ قسم کے لوگ۔تو کیا حوصلہ شکنی ہوگئی ؟تو ہمیں تو مضبوط اعصاب کے مالک ہونا چاہیے۔اور حوصلہ شکنی چاہے اپنوں کی طرف سے ہو یا غیروں کی طرف سے ہو۔پروا ہی نہیں کرنی چاہیے۔اور یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر کام کر رہے ہیں۔جب خدا کی خاطر کام کر رہے ہیں تو پھر کسی انسان کی تعریف یا بد تعریفی کی پرواہ ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی نے جزا دینی ہے۔ جب ہمارے کام کی اللہ تعالی نے جزا دینی ہے تو پھر اس سے جزا مانگیں، بندوں سے کیوں کسی قسم کی Reward مانگنا چاہتے ہیں؟

اس کے بعد ناظم تعلیم صاحب نے عرض کیا کہ حضور ۔۔۔ ہمارے جو تعلیم کے پرچے ہوتے ہیں اس پر بہت کم رسپانس آ تے ہیں Almost دس فیصد رسپانس آتا ہے اور عاملہ کی طرف سے بھی کوئی اچھا رسپانس نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا پہلے تو عاملہ سے شروع کر یں۔ عاملہ کی طرف سے بھی اگر نہیں آتا ، تو صدر صاحب سے کہیں کہ ایسے ممبرانِ عاملہ کو عاملہ سے نکال دیں۔ ایک ہی علاج ہے کہ جو عاملہ ایکٹو ممبران نہیں ہیں اور بنیادی تعاون نہیں کرنے والے، اگر عاملہ والے خود نہیں کام کر رہے تو صرف افسر بنا کر تو نہیں بٹھانے کے لیے رکھے ہوئے ہم نے۔ اور یہ کہتے ہیں آپ کے قائد صاحب عمومی کہ حوصلہ شکنی ہوتی ہے اگر آپ لوگ سو فیصد کام کر رہے ہوں اور اپنے اندر پرفیکشن پیدا کرلیں اور دنیا کو پتہ ہو ، ممبران کو پتہ ہو انصار کو پتہ ہو کہ ہمارے جو عہدیداران ہیں وہ کام کرنے والے ہیں اور بڑی دلجمعی سے کام کرنے والے ہیں، اور جماعتی حکم جو آتا ہے، اس پر خود بھی تعمیل کرتے ہیں اور ہمیں بھی تعمیل کروانے کے لئے کہتے ہیں۔ تو پھر وہ تعاون بھی کریں گے اور حوصلہ شکنی بھی نہیں کریں گے۔لیکن جب یہ احساس پیدا ہوجائے کہ یہ خود تو کام کرتے نہیں، بداعتمادی کی کیفیت پیدا ہوجائے، کہ عاملہ کے ممبران تو کام کر نہیں رہے اور ہمیں کہتے ہیں کہ پرچہ حل کرو ،اور خود انہوں نے پرچہ حل نہیں کیا۔تو پھر حوصلہ شکنی نہ کریں انصار تو پھر کیا کریں۔اس لیے ایسے ممبران جو تعاون نہیں کرتے جماعتی یا کوئی بھی پروگرام جوآپ دیتے ہیں ایک ناصر کے لئے۔ اس پر عاملہ ممبران نچلی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک اگر کوئی تعاون نہیں کرتا تو صدر صاحب کا کام ہے کہ وہ مجھے لکھیں کہ یہ تعاون کرنے والے نہیں اس لیے ان کو ہٹا دیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ تمہارے میں یہ، یہ کمزوریاں ہیں اس لیے تمہے ہٹایا جا رہا ہے۔ تاکہ ان میں احساس بھی پیدا ہو کہ، صرف عہدہ لینے کے لیے عہدیدار نہ بنیں بلکہ خدمت کرنے کے لئے بنیں۔ اور جب اس طرح کی سوچ پیدا ہوگی تو قائد صاحب عمومی کے سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔اور لوگ پھر تعاون بھی کریں گےکیونکہ اعتماد کی فضاء قائم ہو گی۔میں نے آپکو پہلے بھی کہا تھا اپنے گھر سے شروع کریں باقی کام خود ہی ہو جائے گا۔۔ 60 فیصد کام تو ہو جاتا ہے آپ کا اگر آپکے عاملہ ممبران تعاون کرنے والے ہوں۔

(ٹرانسکرائیب وکمپوزنگ ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

مغلوب الغضب سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2021